کرسمس - مذہبی تہوار یا تجارتی فریب؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-20

کرسمس - مذہبی تہوار یا تجارتی فریب؟

Christmas, a religiuos festival or a trade

تقریبات اور تہوار، خوشی ، مسرت اور میل جول کا ہی نام نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی نہ کسی تہذیب یا مذہب سے تعلق کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس تہوار کو منانے کا مطلب یہ ہے کہ گویا آپ اس خاص جماعت يا قوم یا تہذیب کا ایک حصہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمان کیا آج اس قدر مغربیت پسند ہو چکے ہیں کہ ہر بات اور ہر کام میں بغیر سوچے سمجھے، ان کی پیروی کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ تہوار و تقریبات جو اغیار کے ساتھ خاص اور ان کے مذہب کا حصہ تھے، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی نظر میں بھی ایک مقام بنا چکے ہیں، جن کو اہتمام کے ساتھ منانے میں ہم بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ جو لوگ ان تہواروں کو نہیں مناتے، انہیں یہ مغرب نواز لوگ جاہل، غیر مہذب اور غیر تعلیم اور تصور کرتے ہیں۔ عیسائی تہوار "کرسمس" میں ہمارے کچھ اپنے ہی لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض مسلم ممالک میں تو یہ بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ منکرات، حرام اشیاء کا استعمال اور دین اسلام کی اقدار سے تجاوز اس تہوار کا لازمی حصہ ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ کئی ممالک جہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہونی چاہئے، وہاں پر بھی کرسمس پارٹیاں، کرسمس ٹری اور آتش بازی کی رسومات نظر آنے لگی ہیں گویا کہ ہم لوگ اس تہوار کے زیادہ مستحق ہیں۔ برطانیہ میں مثلاً کرسمس سیزن کا مطلب بےجا اسراف، شراب نوشی اور اس کے بعد نشے میں مدہوش ہو کر حادثات کا شکار ہونا لازمی شے بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ شور و ہنگامہ ،فحاشی وعیاشی پر مبنی پارٹیاں بڑے اہتمام سے منعقد کرائی جاتی ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کرسمس کے موقع پر منعقد ہونے والی ان اخلاق سوز پارٹیوں کو مذہبی تقریبات کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یا پھر یہ منافع اندوزی اور عیاشی و فحاشی کے مواقع مہیا کرنے کا بہانہ ہے؟

حضرت عیسی علیہ السلام کی یوم پیدائش کا ذکر بائبل میں کہیں بھی موجود نہیں بلکہ پوپ "جیولیوس اول" نے چوتھی صدی عیسوی میں ایک قرارداد منظور کی کہ 25 دسمبر ہی وہ دن ہے جس میں حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے۔
سترہویں صدی کے آخر اور اٹھارویں صدی کے آغاز میں انگلینڈ کی ایک عیسائی جماعت (بیوریتانس) نے یورپ اور امریکہ میں کرسمس منانے پر روک لگوا دی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم پیدائش کا متعینہ طور پر کہیں کوئی تذکرہ نہیں بلکہ کرسمس درحقیقت رومی بت پرستی پر مبنی تہوار ہے جس میں منعقد ہونے والی پارٹیوں پر بھی نکتہ چینی کی جاتی تھی کیونکہ ان میں فحاشی ایک عام بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1644ء میں انگلینڈ میں کرسمس کے تہوار کے حوالے سے ہونے والی تمام تر تقریبات پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہاں تک کہ گھروں کی تزئین کاری، اس موقع پر بننے والے خاص قسم کے کھانے وغیرہ سب بند کر دئے گئے تھے۔ وہیں دوسری طرف مصری عیسائی "آرتھوڈیکس" کرسمس تہوار 7 نومبر کو منایا کرتے تھے۔ اس لئے قبطیوں کے یہاں سال میں 13 مہینے ہوتے ہیں۔

جہاں تک کرسمس کی حقیقت کا تعلق ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ کرسمس کا تہوار اصلاً یہودی تہوار ہے جبکہ بعض کا ماننا ہے کہ کرسمس اصل میں یورپی قبائلی علاقوں میں منایا جانے والا ایک تہوار تھا جو بعد میں حضرت عیسی علیہ السلام کی یوم پیدائش کے طور پر مشہور ہو گیا۔ اب رہا سوال "کرسمس ٹری (کرسمس کا درخت)" کا، تو یہ جرمنی کی دین ہے۔ برطانیہ میں 1834ء میں پہلا "کرسمس ٹری" ناروے کی شہزادی نے شہزادہ البرٹ کو ہدیہ میں پیش کیا تھا جس کے بعد یہ کرسمس تہوار کا ایک حصہ بن گیا۔
کرسمس کا تہوار منانے والے عیسائیوں میں آج بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ جن کے رہن سہن اور حرکات و سکنات سے عیسائی مذہب کے تئیں بے رغبتی صاف جھلکتی ہے، چنانچہ ایسے عیسائی جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں، ان کی تعداد آج صرف 45 فیصد رہ گئی ہے۔ کرسمس ایک ایسا تہوار ہے جس کو ایک مذہبی تہوار کے عقیدے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ لیکن اس عقیدہ سے منانے والوں کی تعداد بھی صرف 18 فیصد ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی رسومات و عبادات کو باقاعدہ ادا کرنے والوں کی تعداد میں بے پناہ کمی آئی ہے۔

برطانیہ میں 1970ء میں جہاں یہ تعداد 1.6 ملین تھی، 2001ء میں گھٹ کر صرف 9/ہزار رہ گئی۔ لہذا کرسمس کی حیثیت آج ایک ایسے تجارتی میلے کی ہو کر رہ گئی ہے جس میں تہنیتی کارڈز کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ صرف برطانوی عوام نے گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر 25 کروڑ اسٹرلنگ پونڈ خرچ کئے۔ اس موقع پر ایک متوسط شہری تحفہ تحائف خریدنے کے لئے 1400 اسٹرلنگ پونڈ خرچ کر دیتا ہے۔ سودی قرضہ لئے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ نتیجتاً پورے سال دوبارہ کرسمس آنے تک وہ گزشتہ کرسمس کے موقع پر لئے گئے قرض کی ادایگی میں پھنسا رہتا ہے۔

کرسمس ہو یا کوئی اور تہوار، یہ غیر مسلموں سے وابستہ ہے۔ مسلمانوں کو ان میں کسی بھی درجہ میں دلچسپی لینا صحیح نہیں۔ دین اسلام نے ہمیں عیدین کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے منانے کا پورا حق دیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے:
"آج ہم نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"
(سورہ المائدہ)

***
بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 13/جنوری 2012۔

Christmas, a religiuos festival or just a trade.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں