دھرمیندر - بالی ووڈ کے ہی-مین کی انتھک جدوجہد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-11-17

دھرمیندر - بالی ووڈ کے ہی-مین کی انتھک جدوجہد

dharmendra-arjun-hingorani

بالی ووڈ کے لاثانی اداکار دھرمیندر کی فلمی دنیا میں جدوجہد کی یہ داستاں، ان کے قریبی دوست معروف ہدایت کار ارجن ہنگورانی (وفات: 5/مئی 2018) نے بقلم خود بیان کی ہے۔ جو پہلی بار مقبول عام اردو فلمی جریدہ "شمع" (دہلی) کے شمارہ دسمبر-1985 میں شائع ہوئی تھی۔

دوست اور دوستی کا موضوع بہت سی بالی ووڈ فلموں میں دہرایا جا چکا ہے۔ ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثال پیش کرنے والے وفادار دوست کتنی ہی فلموں کو ہٹ بنا چکے ہیں۔ لیکن فلمی دنیا میں ایسی آدرش دوستی فلمی پردے تک ہی محدود نہیں۔ دو جگری دوستوں کی کم از کم ایک نادر مثال حقیقت میں بھی موجود ہے۔ یہ جگری دوست دھرمیندر اور ارجن ہنگورانی ہیں جن کی دوستی کی شروعات بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی میں ہوئی تھی۔

بیتے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ارجن ہنگورانی کہتے ہیں:
کیا بتاؤں کہ یہ دوستی کیسے شروع ہوئی؟ بس یوں سمجھیے کہ یہ پہلی نظر کا معاملہ تھا۔ جیسے ہی میری نگاہ دھرمیندر پر پڑی تھی، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے ساتھ فلم ضرور بناؤں گا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے خود ہندی فلموں کے میدان میں اترنے کا ارمان اور انتظار تھا۔ اسی کو میں تقدیر کا کھیل کہتا ہوں۔
دھرمیندر ایک "ٹیلنٹ کونٹیسٹ" (صلاحیت کی کھوج کا مقابلہ) میں حصہ لینے کے لیے ممبئی آیا ہوا تھا۔ میں بھی اس مقابلے میں حصہ لینے والی اپنی ایک رشتہ کی بہن کے ساتھ چلا گیا۔ سارے منتخب افراد کے گروپ کو ایک بس کے ذریعے موہن اسٹوڈیو میں بمل رائے کے آفس میں لے جایا گیا جہاں ججوں کے پینل میں گرودت اور جی۔پی۔سپی وغیرہ موجود تھے۔
میں نے پہلی بار دھرمیندر کو بس میں ہی دیکھا تھا۔ اس کا شہ زور سراپا اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتا تھا۔ بازوؤں کی پھڑکتی ہوئی مچھلیاں اس کی شاندار صحت کی اعلیٰ مثال ظاہر کر رہی تھیں۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ترشے ہوئے بال اور اس کا مضبوط جسم آج بھی میری نظروں کے سامنے گھومتے ہیں۔ اور اسی وقت میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اگر کبھی فلم بنانے کا موقع حاصل ہوا تو اسی کے ساتھ بناؤں گا۔

میں نے سادھنا کے ساتھ ایک سندھی فلم "ابانا" بنائی تھی جس کے پروڈیوسر ٹی۔این۔بہاری تھے۔ یہ فلم ہٹ ہو گئی تو میں نے بہاری جی کو ہندی فلم بنانے کی طرف راغب کیا کہ سندھی فلمیں کتنی بھی ہٹ ہو جائیں مگر ہندی فلموں کی طرح دولت کا ڈھیر نہیں لگا سکتیں۔ جب بہاری جی کو میری بات کا یقین آیا تو وہ ایک ہندی فلم پروڈیوس کرنے کو راضی ہو گئے۔ اس طرح مجھے ہندی فلموں کے میدان میں پہلا موقع ملا۔

دوسری طرف دھرمیندر کے لیے وہ کڑی جدوجہد کا دور تھا۔ طرح طرح کی جگہیں اس کے لیے رین بسیرے کا کام دیتی تھیں۔ کبھی کسی مکان کی بالکنی پر پناہ ملتی تو کبھی کسی گیراج میں۔ میں بھی ان دنوں سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا۔ اسی عالم میں ایک روز میں اس سے ملا۔ اور اسے اپنی پہلی ہندی فلم "دل بھی تیرا ہم بھی تیرے" (ریلیز: 1960) کے لیے سائن کر لیا۔
مجھے یاد ہے کہ ہم تینوں نے، یعنی میں، بہاری جی اور من ٹھاکر (تمنا کے والد) نے کیسے جتن کر کے دھرمیندر کو دینے کے لیے وہ رقم جمع کی تھی جو معاہدہ سائن کراتے وقت کسی اداکار کو دی جاتی ہے۔ ہم تینوں نے سترہ، سترہ روپے کا "چندہ" دیا تھا۔ اس طرح پورے اکیاون روپے جمع ہو گئے تھے، جو دھرمیندر کو معاہدہ سائن کرنے کی رقم کے طور پر دے دئے گئے!
دھرمیندر اس پر بھی خوش تھا اور بہت جوش میں تھا کہ چلو کیرئر کی شروعات تو ہوئی۔ اس نے مرغ اور پھل کی دعوت اڑا کر اس کامیابی کا جشن بھی منایا۔ اتنے بہت سے دروازوں سے ناکام لوٹنے کے بعد آخر وہ ہیرو بن ہی گیا تھا۔
جبکہ کہیں اس کو یہ رائے دی جاتی تھی کہ اپنے گاؤں واپس جا کر پھر کھیتی باڑی کا دھندا سنبھال لے، کہیں یہ جواب ملتا تھا کہ ہمیں اپنی فلم کے لیے فٹ بال کے کسی کھلاڑی کی ضرورت نہیں۔

ہم نے دھرمیندر سے خاصی سخت شرطوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اسے تین سو روپے ماہانہ معاوضہ ملتا تھا۔ پہلے تین برس میں اسے کہیں اور سے جتنا بھی معاوضہ ملتا تھا، اس کے 50 فیصد کے حقدار ہم تھے۔ دھرمیندر نے ہندی فلموں کا ہیرو بننے کی دھن میں ہماری ہر شرط منظور کر لی تھی۔ اپنی منزل سر کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔
بہت جلد ہم دونوں گہرے دوست بن گئے۔ پھر دھرمیندر نے اپنی دوسری فلم بھی سائن کر لی۔ یہ موہن سہگل کی فلم "شعلہ اور شبنم" تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی مجھے یہ خبر بھی ملی کہ آنے والے دنوں میں اس نے اپنی کمائی کا 50 فیصد موہن سہگل کے حوالے کرنا بھی منظور کر لیا ہے۔ یعنی معاہدہ کی رو سے وہ اپنی آمدنی کا آدھا حصہ ہمیں دینے کا پابند تھا اور اب بقیہ آدھا حصہ اس نے رمیش سہگل کو حوالے کرنے کا معاہدہ کر لیا تھا۔ میں نے بھنا کر دھرمیندر سے پوچھا:
"پھر تو کیا کھائے گا؟"
اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا:
"مجھے کھانا وانا نہیں چاہیے۔ مجھے تو بس ایکٹر بننا ہے!!"

دھرمیندر نے ایکٹنگ صرف اپنی محنت، لگن اور تجربے کے بل بوتے پر سیکھی تھی۔ وہ کسی ایکٹنگ اسکول میں نہیں گیا تھا۔ اس نے جو کچھ سیکھا تھا، زندگی کے مدرسے میں سیکھا تھا۔ خیر، کسی طرح ہماری فلم "دل بھی تیرا ہم بھی تیرے" بن گئی، مگر چلی نہیں اور ہم دونوں پھر وہیں آ کھڑے ہوئے جہاں سے چلے تھے۔ جدوجہد کا دور پھر شروع ہو گیا۔ لیکن ہمارے حوصلے اونچے رہے، کیونکہ ہم دونوں میں یہ معاہدہ ہو گیا تھا کہ جو بھی پہلے کامیاب ہوگا، دوسرے کی مدد کرے گا۔

کامیابی دھرمیندر کے حصے میں پہلے آئی۔ فلم "پھول اور پتھر" (ریلیز: 1966) کے ذریعے وہ اسٹار بن گیا۔ میناکماری جیسی عظیم اداکارہ کے ساتھ اس کی ٹیم بن گئی اور پھر فلم "کاجل" کی کامیابی سے دھرمیندر بلندی کی طرف بڑھنے لگا۔ میں نے پروڈیوسر کے طور پر اپنی پہلی فلم "کب کیوں اور کہاں" (ریلیز: 1970) ، دھرمیندر، ببیتا اور پران کے ساتھ شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جب تک فلم بنتی رہی میں نے دھرمیندر کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔ جب فلم ریلیز ہو کر ہٹ ہو گئی تو میں نے اس سے کہا:
"دیکھو یار ، اب میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ تمہیں معاوضہ دے سکوں۔ بولو، کتنی رقم دوں؟"
اس نے جو رقم بتائی میں نے فوراً وہ رقم اسے ادا کر دی۔ وہ کہنے لگا:
"ہنگورانی، تم پہلے پروڈیوسر ہو جس نے فلم ریلیز ہونے کے بعد بھی مجھے رقم دی ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ فلم ریلیز ہوتے ہی پروڈیوسر یہ بات بالکل بھول جاتا ہے کہ اس کے ذمے بےچارے آرٹسٹوں کی بھی کچھ رقم نکلتی ہے۔"

ایک اور ہٹ فلم "کہانی قسمت کی" (ریلیز: 1973) کے بعد میرے اور میرے بینر "کپیلیشور فلمز" کے قدم مارکیٹ میں جم گئے۔ میں نے اس فلم میں دھرمیندر کے مقابل ریکھا کو پیش کیا تھا۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ریکھا کی طرف سے مجھے کسی بھی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس کے ساتھ میں یہ بات بھی بتانا چاہوں گا کہ اگرچہ اس فلم کے بعد سے دھرمیندر کو اس کا پورا معاوضہ دے سکتا تھا، مگر اس نے میرے لیے ہمیشہ رعایتی معاوضہ پر کام کیا۔ اس طرح دوستی میں فائدے بھی رہے۔ مگر دوستی میں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ جب کبھی دھرمیندر کی طرف سے تاریخوں میں رد و بدل یا شوٹنگ کینسل کرنے کا موقع آتا، نقصان اٹھانے والوں میں سب سے پہلا شخص میں ہی ہوتا۔ گھر کی مرغی دال برابر جو ٹھہری۔ دھرمیندر کہتا کہ:
ہنگورانی، تو یار ہے، تو میری خاطر اپنی شوٹنگ کینسل کر سکتا ہے، آگے پیچھے کر سکتا ہے، مگر دوسرے لوگ اتنا بڑا حوصلہ اور دل نہیں رکھتے، وہ ذرا سی تبدیلی پر بڑبڑانے لگیں گے۔

میری اگلی فلم "کھیل کھلاڑی کا" (ریلیز: 1977) کا ہیرو بھی دھرمیندر تھا مگر فلم اوسط سے کچھ ہی زیادہ بزنس کر سکی۔ تاہم میری ایک اور فلم "قاتلوں کا قاتل" (ریلیز: 1981)، جو ملٹی اسٹار فلم تھی اور جس میں دھرمیندر کے ساتھ زینت، رشی، ٹینا اور امجد خان بھی تھے، کاروباری لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔

اب تک میں نے جتنی بھی فلمیں بنائی ہیں، دھرمیندر کا ان میں لیڈنگ رول رہا ہے، لیکن اس سے یہ نہ سمجھیے کہ وہ میری ہر فلم آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتا ہے۔ ہر بار میں نے پہلے اسے کہانی تفصیل کے ساتھ سنائی ہے۔ کبھی کبھی کہانی کے کچھ حصے اسے پسند بھی نہیں آئے اور اس نے انہیں بہتر بنانے کے لیے مشورے بھی دئے ہیں، اور ہم نے اگر ان مشوروں کو مناسب سمجھا ہے تو ان پر عمل بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر دھرمیندر کی دلیلوں سے مطمئن ہونے کے بعد ہم نے فلم "کھیل کھلاڑی کا" کا کلائمکس بالکل بدل دیا تھا۔

یہ صحیح ہے کہ میری فلم "سلطنت" (ریلیز: 1986) میں جو رول دھرمیندر کے بیٹے سنی دیول نے کیا ہے، وہ دھرمیندر خود کرنا چاہتا تھا۔ دراصل مکل آنند نے یہ کہانی دھرمیندر کو 1978 میں اس وقت سنائی تھی جب دھرمیندر کی ہیرو کے طور پر خوب دھوم مچی ہوئی تھی۔ لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ پراجیکٹ ٹلتا رہا۔ بالآخر اسے بنانے کی فضا تیار ہوئی تو سارا منظر بدل چکا تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک نوجوان سلطان کے روپ میں دھرمیندر اب نہیں جچے گا، اس لیے میں نے اس سے "خالد" کا رول کرنے کو کہا۔ یہ رول بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور بہت اہم، بہت جاندار رول ہے اور اس کے لیے دھرمیندر سے زیادہ موزوں اداکار مل بھی نہیں سکتا۔ شروع میں دھرمیندر نے شکایت بھی کی کہ:
"کیا یار، میرے کو باپ کا رول دیتا ہے؟"
لیکن پھر میری بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور اس نے خالد کا رول قبول کر لیا۔ اس فلم کا ماحول عربی ہے۔ دھرمیندر کی دو بیویاں ہیں، ایک ہندوستانی ہے اور دوسری امریکی۔ دونوں بیویوں سے اس کا ایک ایک بیٹا ہے، ہندوستانی بیوی سے سنی دیول اور امریکی بیوی سے کرن کپور۔

دھرمیندر جیسا مردوں کا مرد یعنی He-Man آج تک پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔ وہ خوبصورت ہی نہیں خوب سیرت بھی ہے۔ مجھے دھرمیندر کی دوستی پر فخر رہا ہے اور اب اس کے بیٹے سنی کے ساتھ کام کرنے سے مجھے خوشی ہوئی کہ ہماری دوستی اور آگے بڑھی ہے۔ سنی کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ شیر کا بیٹا شیر ہوتا ہے۔ دھرمیندر کا بیٹا بھی اسی طرح کھرا سونا ہے۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: دسمبر 1985

Dharmendra's struggle in Bollywood. A memoir by: Arjun Hingorani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں