محمد خالد عابدی:
آپ فلموں میں گیت لکھنے کے لیے شوقیہ گئے تھے یا کسی کی دعوت و اصرار پر ؟
پریم وار برٹنی:
میں 1985ء میں بمبئی فلمی گیت لکھے نہیں گیا تھا بلکہ وہاں ایک غیر ادبی دوست سے ملنے گیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ فلم اسٹوری رائٹر اور ڈائریکٹر مسٹر ونود کمار ان دنوں مدھو بالا اور بلراج ساہنی کاسٹ کے ساتھ ایک بڑی فلم بنا رہے تھے۔ یہی ونود کمار کسی زمانے میں وی۔ شانتارام کی ایک فلم میں ششی کلا کے ساتھ ہیرو آئے تھے، پھر انہوں نے "میرا سلام" جیسی فلم کی کہانی لکھی اور آخری دور میں انہوں نے کہانی کار کی حیثیت سے "میرے محبوب" فلم کی کہانی لکھی جو بے حد کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے ڈائریکٹر کے طور پر فلم "جہاں آرا" کو ڈائریکٹ کیا، بعد ازاں "میرے حضور" خود پروڈیوس اور ڈائریکٹ کی اور "میرا وچن گیتا کی قسم" ان کی آخری فلم تھی۔
1958ء میں وہ فلم "یہ بستی یہ لوگ" بنا رہے تھے مسٹر ونود کمار (پیدائشی نام: عطرت حسین) فلم میکر ہونے کے باوجود بنیادی طور پر ایک لیٹریری آدمی تھے اور وقتاً فوقتاً میری چند نظمیں مختلف رسائل میں پڑھ چکے تھے اور کسی حد تک میری شاعری سے متاثر تھے۔ ان سے ملاقات محض اتفاقیہ طور پر ہوئی، لیکن انہوں نے اپنی فلم کا ایک گیت حسرت جے پوری کے مقابلہ میں مجھ سے لکھوا کر دیکھا جو انہیں پسند آیا میرا یہ پہلا گیت لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا جو بعد میں فلم ریلیز نہ ہونے کے با وجود کافی حد تک مقبول ہوا اس گیت کا مکھڑا تھا ؎
دل جلے گا تو زمانے میں اجالا ہوگا
حسن ذروں کا ستاروں سے نرالا ہوگا
محمد خالد عابدی:
ادبی شاعری اور فلمی شاعری میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں ؟
پریم وار برٹنی:
فلمی شاعری اور ادبی شاعری میں دو اہم فرق ہیں۔ پہلا یہ کہ فلمی شاعری میں شاعر کی اپنی ذات اور شخصیت شامل نہیں ہوتی بلکہ ہر گیت میں وہ مخصوص کردار کی زبان میں گفتگو کرتا ہے جب کہ ادبی شاعری میں ایسا نہیں ہوتا۔ دوسرا فرق جو سب سے نمایاں ، اہم اور پیچیدہ فرق ہے وہ یہ ہے کہ فلمی گیت دھن کے مطابق لکھنا پڑتا ہے اگرچہ شاعر بہت عمدہ بھی کیوں نہ ہو لیکن اسے میوزک کی پہچان نہ ہو تو وہ کسی صورت میں کامیاب فلمی شاعر نہیں بن سکتا !
محمد خالد عابدی:
آپ کے نزدیک "فلمی گیت" کی تعریف کیا ہے ؟
پریم وار برٹنی:
میرے نزدیک فلمی گیت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ تو دھن کے مزاج اور موڈ کو پہچانتا ہو، موسیقی کے زیر و بم سے گہری حد تک واقفیت رکھتا ہو، آسان زبان میں ہو اور کردار نگاری کے تقاضوں سے بے خبر نہ ہو۔ میرے خیال میں کتابی شاعری سے فلمی شاعری کا دور کا بھی رابطہ نہیں ہوتا۔ فلم کا گیت کاغذ پر پڑھنے کی چیز نہیں ہوا کرتا بلکہ گانے اور گنگنانے کے لیے ہوتا ہے اور فلمی گیتوں کی زبان نہ اردو ہوتی ہے نہ ہندی بلکہ اکثر اوقات ہندوستانی ہوتی ہے، وہ بھی ہمیشہ نہیں بعض فلموں کے گیت کی زبان قلم کے کرداروں کے مطابق پوری ہو سکتی ہے۔ غرض کہ کرداروں کے مطابق کسی بھی علاقے کی زبان ہوتی ہے۔۔۔!
محمد خالد عابدی:
کیا چند اچھے فلمی گیت شعری ادب کے مقابلے میں رکھے جا سکتے۔۔۔؟
پریم وار برٹنی:
میری رائے میں خالص فلمی گیتوں کا شعری ادب سے مقابلہ کرنا بالکل فضول ہے جیسا کی محفل قوالی کا موازنہ مندر میں ہونے والے کیرتن سے کیا جائے حالانکہ دونوں میں شور و غل اور نغمگی اور شعریت کے گھٹیا بڑھیا عناصر مشترک ہوتے ہیں !
محمد خالد عابدی:
جیسے ؟
پریم وار برٹنی:
میرے نزدیک جیسے موازنہ کرنا ہی درست نہیں تو مثال کی کیا ضرورت !
محمد خالد عابدی:
آج کل جو فلمی گیتوں میں جو گھٹیا پن آ گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
پریم وار برٹنی:
موجودہ نئی نسل کی گھٹیا پسند، جسے فنون لطیفہ سے کوئی سروکار نہیں اور جو زندگی کو صرف جسمانی تقاضا تصور کرتی ہے، روحانی نہیں۔ فلم کے پست درجہ معیار کی ذمہ داری پروڈیوسروں ڈائریکٹروں اور ایکٹروں پر بھی عائد ہوتی ہے جو فن سے زیادہ فلم کے کمرشیل پہلو پر توجہ دیتے ہیں۔
محمد خالد عابدی:
تو اس کا ازالہ کس طرح ممکن ہے ؟
پریم وار برٹنی:
اس کا ازالہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ فلموں کی تکمیل و تشکیل کی تمام ذمہ داری خود حکومت لے لے اور اسے فن کے سوداگروں سے نجات دلائے، اسی صورت میں معیاری فلمیں بن سکتی ہیں۔
محمد خالد عابدی:
آج کی فلمی شاعری سے کسی قدر ہماری اردو شاعری پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، کیا آپ اس سے اتفاق فرمائیں گے ؟
پریم وار برٹنی:
فلمی شاعری اور علمی شاعری میں بہت بڑا فرق ہے۔ فلمی شاعری ہماری علمی شاعری پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اسی تحفظ کے لیے جوش ملیح آبادی، منشی پریم چند اور مجاز لکھنوی کے بعد نریش کمار شاد متعدد شعراء نے محض اس لیے فلم انڈسٹری کو ترک کر دیا کہ ایک عظیم شاعر کو بھی یہاں واہیات قسم کی شاعری کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے !
محمد خالد عابدی:
کیا آپ اس امر سے اتفاق فرمائیں گے کہ فلموں کی ترقی اور اس کی مقبولیت میں اردو نے ایک نہایت اہم رول ادا کیا ہے ؟
پریم وار برٹنی:
اردو زبان "جس کے معنی لشکر کے ہیں" نے واقعی فلموں میں ایک نمایاں اور زبردست رول ادا کیا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ فلم لائن پر اردو شاعروں اور ادیبوں کا تسلط ہے۔ گیت کاروں اور کہانی کاروں میں آج بھی ہندی کے مقابلہ میں اردو ادیب زیادہ ہیں اور یہی بات یعنی اہل قلم کی یہی اکثریت گواہ ہے کہ فلم کی تاریخ میں آج بھی اردو ادیب چھائے ہوئے ہیں !
محمد خالد عابدی:
وہ نوجوان اردو شعرا جو فلموں میں گیت لکھنے کے خواہشمند ہیں ان کے لیے آپ کی کیا صلاح ہے ؟
پریم وار برٹنی:
اثر و رسوخ سفارش اور دولت کے بغیر آج کے دور میں کوئی کام آسانی سے نہیں ہوتا۔ اگر کسی کم فکر شاعر کے پاس مذکورہ لوازمات ہوں تو اسے اپنی فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے بمبئی جاکر فلمی گیت کاری کی آزمائش کر لینی چاہئے۔ نام اور سستی شہرت اور حصول زر کے لیے یہ دھندا کچھ برا نہیں۔ مگر یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ نہ تو ہر شاعر شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی کا ہنر لے کر پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی معقول شاعر آنند بخشی، گلشن باورا اور ورما ملک بننا پسند کرتا ہے۔۔۔!!
***
ماخوذ از کتاب:
"فلمی انٹرویو" از: محمد خالد عابدی (سن اشاعت: 2012)
ماخوذ از کتاب:
"فلمی انٹرویو" از: محمد خالد عابدی (سن اشاعت: 2012)
An interview with Premwar Bartani at Bollywood movies background. Interviewer: Mohd Khalid Abidi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں