ضلع نظام آباد میں اردو شعر و ادب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-03

ضلع نظام آباد میں اردو شعر و ادب


اردو ایک زندہ جاوید زبان ہے۔ جو گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کی علمبردار بھی ہے۔ اردو زبان اپنی شیرینی اور لطافت سے لوگوں کے دلوں کو جوڑتی ہے۔ اسی وجہ سے اکیسویں صدی میں عالمی سطح پر اردو ایک مقبول و عوامی زبان بن گئی ہے۔ اسی اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والا علاقہ ریاست تلنگانہ کا ضلع نظام آباد ، شمالی تلنگانہ کا یہ شہر ہمہ لسانی اور تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کا گہوارہ ہے۔

نظام آباد کا تاریخی پس منظر:
شہر نظام آباد کو اندور یا اندراپوری بھی کہا جاتاہے۔ یہ شہر ریاست تلنگانہ کا ایک ضلع میونسپل کارپوریشن ہے جسکی کُل آبادی 10لاکھ سے زیادہ ہے۔ اور ریاست کے دس گنجان آبادی والے شہروں میں شمار کیا جاتاہے۔ ضلع کے 36منڈلس ہیں اور وہ ریاست کے دارالحکومت حیدرآباد سے 171کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
آٹھویں صدی عیسوی میں نظام آباد پر سلطنت راشٹر اکتا کے بادشاہ اندرا ولبھ پنتھیا نے حکومت کی تھی۔ 1905ءمیں سکندرآباد اور منماڑ کے درمیان براہ نظام آباد ریلوے لائن بچھائی گئی اور اسٹیشن کا نام نظام سرکار نظام الملک کے نام پر نظام آباد رکھا گیا۔ 1923ءمیں دریائے مانجرا پر اچم پیٹ کے مقام پر نظام ساگر ڈیم بنایا گیا جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے۔ ضلع نظام آباد کے کئی اہم ٹاﺅنس اور منڈلس ہیںجیسے بودھن، آرمور، کاماریڈی، بانسواڑہ، بھیمگل اور یلاریڈی وغیرہ ہیں۔ بودھن کے علاقے شکر نگر میں ایشیاءکی مشہور نظام شوگر فیاکٹری قائم ہے۔

نظام آباد کاادبی، تہذیبی وثقافتی پس منظر:

شہر نظام آباد تعلیمی، ادبی ، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے۔ اس شہر کا خواندگی کا تناسب 80%ہے جو قومی خواندگی کے تناسب سے زیادہ ہے اس علاقہ کی سرکاری زبان تلگو ہے تاہم دوسری بڑی سرکاری زبان اردو ہے۔ حال ہی میں شہر کے نواحی علاقے ڈچپلی میں تلنگانہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
شہر نظام آباد میں اردو ذریعہ تعلیم ، شعر و ادب اور صحافت کا بہترین ماحول فراہم ہے۔ علاقے کے بیشتر لوگ اردو زبان و اد ب سے واقف ہیں اور یہاں کے اردو تعلیمی ادارے اپنے اعلیٰ تعلیمی معیار کے لئے ساری ریاست میں مشہور ہیں اس شہر سے اردو کے کئی نامور شعرا اور ادیب ،قلمکار مشہور ہوئے ہیں۔ اردو کی ادبی انجمنیں مشاعرے اور دیگر تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں اکیسویں صدی میں شہر نظام آباد میں اردو زبان ادب کو فروغ دے رہی ہیں۔ شاعری کے علاوہ افسانہ تحقیق و تنقید اور صحافت میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ نظام آباد میں ابتداءسے ہی اردو کا ماحول سازگار رہا ہے علاوہ ازیں کئی ادبی انجمنوں اور تنظیموں نے یہاں فعال کام کیا ہے۔ مشاعروں کے ذریعہ اردو ادب کا ماحول قائم رکھا اس کے ذریعہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر پیدا کئے۔

نظام آباد میں اردو شاعری:
شاعری ہر زمانے میں مقبول رہی ہے اس کے ذریعہ زبان و ادب کی ترقی ہوتی رہی ہے۔ اردو شاعری کے معاملہ میں نظام آباد شہر بھی پیچھے نہیں رہا۔ نظام دور حکومت میں شہر حیدرآباد اردو زبان کا مرکز تھا جہاں داغ ، فصاحت جنگ جلیل، مخدوم محی الدین، شاذ تمکنت اور بعد میں جو ش جیسے شعرا کے نام مشہورتھے۔ جامعہ عثمانیہ اردو کا تعلیم کا مرکز رہا اور اسی جامعہ سے فارغ شہر نظام آباد کے شعرا نے بھی یہاں اردو شاعری کی انجمن سجائے رکھی۔ چنانچہ آزادی کے بعد سے ہی یہاں انفرادی طورپر شعرا مشہور ہوتے رہے ہیں اور مشاعروں کے ذریعہ ان شعرا کا کلام مشہور ہوتا رہا۔ اکیسویں صدی میں شہرت پانے والے سنجیدہ شعرا میں ضیاءجبلپوری، یعقوب سروش، جمیل نظام آبادی، تنویر واحدی، اشفاق اصفی، رحیم قمر ،ریاض تنہا، شریف اطہر ، جلال اکبر، اور معید جاوید وغیرہ اہم شاعر ہیں۔ یہاں 80کی دہائی میں ایک کامیاب کُل ہند مشاعرہ کا انعقاد عمل میں لایا گیا تھا۔ جس میں شرکت کرنے والے قومی شعرا میں راز الہ آبادی ، کیفی آعظمی، خمار بارہ بنکوی، علی احمد جلیلی اور اوج یعقوبی وغیرہ نے شرکت کی تھی اس کے بعد سے نظام آباد میں مشاعروں کے انعقاد کی روایت قائم ہوگئی اور ہر سال یہاں چھوٹے بڑے کئی مشاعرے کامیابی کے ساتھ منعقد ہوتے رہے ہیںجس سے اردو زبان کا فروغ جاری وساری ہے۔

ضیاءجبلپوری کے یہاں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہے ان کے لہجے اور طرز اظہار میں بڑی سنجیدگی اور خود اعتمادی ہے۔
وقت کی بے رخی نے کوشش کی میری زندہ دلی کہیں نہ گئی
لاکھ تہذیب نے سنوار دیا حُسن کی سادگی کہیں نہ گئی
تنویر واحدی نے بڑے خلوص اور جستجو سے شعری میدان میں قدم جمائے رکھے تھے۔ انہوں نے اپنے مجموعہ کلام" لفظوں کی آگ" کے ذریعہ شاعری کو عوام تک موثر اندازمیں پہنچایا ہے۔ وہ اپنے ماحول کی منظر کشی کے فن سے بخوبی واقف تھے۔
کیا گھورتے رہتے ہیں نظر باز خلا میں
نظروں سے پرندوں کو گرایا نہیں جاتا
پانی میں عکس دیکھ کے خوش ہورہا تھا
پتھر کسی نے پھینکا تو منظر بکھر گیا
جمیل نظام آبادی کا شہر نظام آباد کے نامور شعراءمیں شمار ہوتاہے۔ علاوہ ازیں وہ ماہنامہ گونج کے مدیر بھی ہیں۔ بہ حیثیت شاعر آپ زبان کے ادا شناسوں میں سے ہیں آپ ایک سلجھی ہوئی فکر کے کہنہ مشق شاعر ہیں۔ جن کے غزل کے موضوعات میں تنوع ملتاہے۔ انکے مجموعہ کلام سلگتے خواب ،تجدید آرزو ، صبر جمیل، اور دل کی زمین وغیرہ شامل ہیں۔
زندگی تجھ سے نبھانے کا سلیقہ آگیا
آنکھ سے کاجل چرا نے کا سلیقہ آگیا
عزم محکم کی ہے توہین ، سہارے کی تلاش
حوصلہ مند گریں بھی تو سنبھل جاتے ہیں
دیگر شعرا نے اکیسویں صدی کے عصری دور میں بھی شعری ادب میں نئی تخلیقات و تجربات کو موثر انداز سے منظر عام پر لایا اور نئی نسل کو شعری حسن سے متعارف کروایا۔

نظام آباد میں اردو نثر :
شاعری کی طرح نظام آباد میں اردو نثر کا بھی ارتقاءرہا اور افسانہ نگاری مضمون نگاری اور تحقیق و تنقید میں ادیبوں اور نقادوں نے دلچسپی دکھائی۔ بعد کے دور میں یہاں سے اردو تحقیق و تنقید میں بھی چند ایک نام ابھر کر سامنے آئے۔ افسانہ نگاری کے میدان میں جس افسانہ نگار نے عالمی شہرت حاصل کی وہ اقبال متین ہیں۔ جن کی افسانہ نگاری کافی مقبول رہی ان کے خاکے سوندھی مٹی کے بت ، پٹاریوں کا مداری قابل ذکر ہیں۔ وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں اردو افسانے میں ایک معتبر نام کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ اور انکی افسانہ نگاری پر تنقید بھی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر بیگ احساس بھی اردو کے اہم افسانہ نگار ہیں۔ جن کا تعلق نظام آباد سے ہے ان کے افسانوں کا مجموعہ "حنظل" کے نام سے مشہور ہوا۔ نظام آباد کے دیگر افسانہ نگاروں میں انیس فاروقی بھی ہیں جنکے افسانے بیسویں صدی، شمع ،پاکیزہ آنچل، بزم سہارا میں شائع ہوکر مقبول ہوئے۔ اسکے علاوہ اور بھی نوجوان افسانے نگار مجید عارف نظام آبادی وغیرہ یہاں سے مشہور ہوئے۔
یعقوب سروش صاحب نے علمی اور دینی خدمات کی شروعات بہت ہی پہلے سے کی اور بعد میں اسلام پسند ادیبوں میں شامل ہوکر کئی افسانے لکھے انہیں قرآن مجید سے بہت زیادہ قلبی لگاﺅ تھا۔ اور صحافت سے گہری دلچسپی رہی وہ رسالہ بساط ذکر و فکر مدیر بھی رہے۔ اردو مضمون نگاروں میں بھی یہاں ڈاکٹر محمد ناظم علی ،ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ابھرتے ہوئے مضمون نگار ہیں۔ اسی طرح تحقیق کے میدان میں ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر ، ڈاکٹر معید جاوید وغیرہ نے اپنی تحقیق سے نظام آباد کے محققین میں اپنا نام درج کر وایا ہے۔ اسطرح نظام آباد میں اردو نثر کی ترقی قابل قدر رہی ہے۔

نظام آباد میں اردو صحافت :
صحافت کو کسی بھی ملک کا چوتھا ستون قرار دیا جاتاہے۔ صحافت کے ذریعہ مقامی مسائل سے آگہی ہوتی ہے اور صحافت اجتماعی شعور کی تعمیر اور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اکیسویں صد ی بالخصوص ذرائع ابلاغ اور اطلاعاتی نظام کا دور ہے۔ ایسے میں اردو صحافت نے عصری تقاضوں کی بھر پور عکاسی کی ہے۔ نظام آباد اردو صحافت کے اعتبار سے بھی زرخیز زمین تصور کیا جاتاہے۔ آزادی کے بعد سے زندگی کے نام سے یہاں جناب صابری نے اردو کا پہلا اخبار جاری کیا۔ یہاں سے نکلنے والے اخبارات و رسائل میں للکار، فکر جمہور، گونج ماہنامہ ، بساط ذکر و فکر،نظام آباد مارننگ ٹائم مدیر تبسم فریدی، آج کا تلنگانہ، محور، اربن نیوز، تمہید ماہنامہ ، التوحید شامل ہیں۔ ان اخبارات میں آج کا تلنگانہ اخبار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس اخبار کا انٹرنیٹ ایڈیشن بھی نکل رہا ہے۔ اس طرح نظام آباد کی اردو صحافت نے صحافت کی دنیا میں نام روشن کیا۔

نظام آباد کی اردو انجمنیں اور تنظیمیں:
نظام آباد میں کافی عرصہ سے اردو انجمنوں نے فعالیت دکھائی ہے اور اردو کے فروغ کےلئے کام کیا ہے۔ نظام آباد کی ادبی انجمنوں میں ادارہ ادب اسلامی، گلستان اردو ادب، اردو ڈیولپمنٹ سوسائٹی، اردو ایکشن کمیٹی اور اردو اکیڈیمی نظام آباد وغیرہ شامل ہیں۔

اس طرح اردو کی ترقی و ترویج اور اردو زبان کی بقا میں شہر نظام آباد کی خدمات قابل ستائش ہے۔

(20/ستمبر 2014 کو شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کے ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل" میں یہ مقالہ پیش کیا گیا۔)

The promotion of Urdu language & literature in Nizamabad District. Essay: Mohammad Abdul Baseer.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں