زندگی کے میلے میں اتفاقات کے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے ایک یادگار لمحہ اس وقت آیا جب 7/مارچ 2019 کی صبح سادھنا میڈم کی ایک کال نے چونکاتے ہوئے انوکھا مسرت بھرا احساس بخشا۔
"رخسانہ میڈم، آپ کو وومنس ڈے کے موقع پر ہم آنر کرنا چاہتے ہیں، پلیز آپ 9/مارچ کی شام 4/بجے جھرہ فنکشن ہال بیدر میں ہمارا پروگرام اٹینڈ کریں " انھوں نے تعارف بھی دینے کو کہا تھا میں نے واٹس ایپ پر پوسٹ کر دیا۔ شوہر نامدار کو یہ خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اور برادر محترم محمدیوسف رحیم بیدری صاحب کو اس بات کی اطلاع دی کہ سادھنا میڈم نے انہی کے توسط سے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔ دعاؤں میں تو وہ ہمیشہ شامل ہیں۔
9/مارچ کی صبح ڈاکٹر افروزجہاں نے فون کیا اور پیش کش کی کہ "میڈم میں آپ کو 4بجے لینے آؤں گی، تیار رہیے، ساتھ چلیں گے "
انھیں اور ڈاکٹر سرورعرفانہ کو بھی یہ اعزاز ملنے والا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ گھر کے کام کاج نپٹائے اور تیار ہو گئی۔ سوا چار بجے سرور عرفانہ نے فون کیا کہ"باجی کیاپروگرام ہے، کیسے جانا ہے ؟"میں نے ان سے کہا کہ: "ڈاکٹر افروزجہاں مجھے لینے آ رہی ہیں "۔ انھوں نے کہا "ٹھیک ہے پھر سب ساتھ ہی چلیں گے "۔
کچھ دیر بعد انھوں نے پھر فون کیا اور کہا کہ "افروزمیڈم ہی ہمارا انتظار کر رہی ہیں، ہم انھیں پِک کر لیں گے۔ ہماری کار ہی میں چلتے ہیں "میں نے ان کی پرخلوص پیشکش قبول کی اور شکریہ اداکرتے ہوئے حامی بھرلی۔ ڈاکٹر سرور عرفانہ ہماری پڑوسن بھی ہیں۔ ان کے سرتاج ڈاکٹر محمد غوث صاحب اور ہمارے شوہر نامدار کی اچھی خاصی شناسائی ہے۔ دونوں گھل مل کر گفتگو کرنے لگے۔ افروزجہاں گھر سے باہر نکل کر ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ یوں ہمار امختصر ساقافلہ جھرہ فنکشن ہال کی طرف رواں دواں ہو گیا۔ تبھی ڈاکٹر افروزجہاں کی والدہ کے مکان سے فون آیا کہ ان کے 5 سالہ بیٹے نے باتھ روم کادروازہ اندر سے مقفل کر لیا ہے اور باہر نہیں آ رہا ہے " وہ گھبراگئیں۔ اور کہا"آپ سب چلے جائیں، میں یہیں اتر کر آٹو سے امی کے گھر چلی جاتی ہوں، بعد میں سیدھے وہیں پہنچوں گی"
میں نے کہا: "یہ کیسے ممکن ہے ؟ ہمارا وہاں جانا اتنا ضروری نہیں کہ آپ کو اس پریشانی میں تنہا چھوڑ جائیں۔ ہم لوگ آپ کو ساتھ ہی لے کر جائیں گے "سرورعرفانہ نے بھی میری تائید کی۔ اور ان کے مسلسل منع کرنے کے باوجود ڈاکٹر غوث صاحب نے انہیں شمسیہ کالونی پہنچایا جہاں ان کا میکہ ہے۔ ہم سب کار میں ان کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو بہلایا لیکن وہ نہ مانا، ماموں نے چاکلیٹ کاوعدہ کیا تو لڑکا باتھ روم کادروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ افروزجہاں نے اس سے باتیں کیں اس کو مطمئن کیا۔ بعد ازاں وہ ہمارے ساتھ تقریب گاہ کی طرف چل پڑیں۔ سب نے سکون کا سانس لیا۔
جھرہ فنکشن ہال کی بلندوبالا وسیع عمارت اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی۔ جہاں وومنس ڈے کی شاندار تقریب کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو تین چار نوعمر اور خوبصورت لڑکیوں نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے سادھنا میڈم کی بابت پوچھا۔ جن سے صرف فون پر ہمارا تعارف ہوا تھا۔ ان لڑکیوں نے کہا:
"وہ ابھی نہیں آئیں۔ آپ سب بیٹھیں، ماحول سے لطف اٹھائیں۔۔۔"
ایک اور لڑکی نے ہماری کلائیوں پر وومنس ڈے کا بینڈ باندھا۔ میں اپنی عادت کے مطابق اطراف واکناف کاجائزہ لینے لگی۔ خوش لباس لڑکیاں، چہکتی ہوئی بلبلوں کی مانند، اٹھلاتی پھر رہی تھیں۔ رنگ برنگی تتلیاں جو دنیا کے سارے درد و غم سے بے نیاز تھیں۔
آج مختلف میدانوں سے وابستہ خواتین کو تہنیت پیش کی جانے والی تھی۔ عورت کی عظمت، ایثار اور کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو تہنیت پیش کرنے کی یہ رسم تو برسوں سے رائج تھی مگر صرف مغربی ممالک میں۔ مشرق میں اس کا تصوربھی نہ تھا۔ مگر اب دو تین دہائیوں سے مشرقی تہذیب میں بھی اسکا چلن عام ہو گیا ہے۔ اور سال در سال عالمی یوم خواتین کی منفرد اور شاندار تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ ہمارے شہر میں بھی ایسا کوئی ایونٹ ہو رہا ہے۔ جسے میں نے صرف کتابوں، فلموں یا سیرئیل میں پڑھا یا دیکھا تھا۔
سہانی شام، معتدل موسم، خوشگوار سماں، فضاؤں میں رچی خوشبو، لہراتے آنچل، کھنکتی چوڑیاں، مہکتے وجود، سرشار قہقہے ۔۔۔ یوں لگا ایک نئی دنیا میں آ گئی ہوں۔ پراعتماد، ماڈرن، دولت مند، فیشن ایبل خواتین ۔۔۔۔ زندگی کی دوڑ میں کامیابی اور ترقی کی راہوں پر گامزن!
تقریب میں مختلف مقابلے بھی جاری تھے۔ مہندی ڈیزائننگ، رنگولی، غباروں وغیرہ کے کئی کھیل جن میں سرور عرفانہ اور افروزجہاں نے بھرپور حصہ لیا۔ افروزجہاں نے انعام بھی حاصل کیا۔ میں محفل کی رونقوں سے محظوظ ہوتی رہی۔ آج شوہر نامدار کی بوریت کا خیال بھی مضطرب نہیں کر رہا تھا۔ کیونکہ ان کے کچھ دوست وہاں موجود تھے جن کے ساتھ وہ باتوں میں مشغول تھے۔ ہال میں ایک بڑے اسکرین پر پروگرام کے آرگنائزرس اور اسپانسرس کے اشتہارات دکھائے جا رہے تھے۔ DJ کی پرشور دھنیں ہال میں گونج رہی تھیں۔ ویڈیوگرافرس اور فوٹو گرافرس مستعدی سے اپناکام انجام دے رہے تھے۔ تبھی مہیلا تھانے کی انچارج پولیس انسپکٹر ملماں کی آمد پر ہلچل مچ گئی۔ خواتین ان کے ساتھ سیلفی لینے دوڑ پڑیں۔ آنکھوں کے علاج کی ماہر ڈاکٹر سائبل مشرومکر بھی پہنچیں۔ مجھ سے بڑے خلوص سے ملیں۔ میں ان کے زیر علاج رہ چکی ہوں۔ پھر سادھنا میڈم آئیں۔ سلونا حسن، چہرے پہ خوشگوار تاثرات، اتنے بڑے پروگرام کی داعی مگر پرسکون۔ فرداً فرداً انھوں نے پھر سے سب کا استقبال کیا۔ تصویر کشی کا سلسلہ جاری تھا۔ پروگرام کی ہوسٹ دو حسین و جمیل لڑکیاں سامعین کو بوریت کا احساس نہ ہونے دے رہی تھیں۔ تمام مہمانان خصوصی کی آمد پر باقاعدہ تقریب کا آغاز ہوا۔ نوعمر طلبہ نے دعائیہ دھن پر رقص پیش کیا۔ پھر کچھ لڑکیوں نے فلمی دھنوں پر ڈانس کیا۔ بھارت ناٹیم کی پیشکش کے بعد شمع روشن کی گئی اور ایوارڈ سے نوازے جانے والی خواتین کے نام کا اعلان ہوا اور انھیں اسٹیج پر بلایا گیا۔
دل میں عجیب سی اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ کچھ خواب ایسے ٹوٹے کہ پھر خواب دیکھنے کی جرات ہی نہیں کرپائی تھی۔ کبھی کوئی تمنا دل میں جاگتی بھی تو اسے تھپک کر سلا دیا کرتی کہ تمنائیں اکثر خوابوں کاروپ لے لیتی ہیں اور خواب ٹوٹ جائیں تو انسان ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسی ہی دل میں دبی دبی سی ایک تمنا، ایک آرزو، ایک امید آج بالکل اچانک غیر متوقع طور پر پوری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کا کرم اور حبیب پاک صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا صدقہ ہے کہ عزت افزائی ہوئی۔ عالمی یوم خواتین کے موقع پر بھارتیہ ایجوکیشن اینڈرورل ڈیولپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے شہر بیدر کی مختلف شعبہ جات میں نمایاں کار کردگی پر خواتین کو ایوارڈ سے نوازا گیا جن میں راقم الحروف کی شمولیت نے بھی عزت افزائی کا احساس دلایا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی ضلع پنچایت کے سی ای او مسٹر مہانتیش بیڑگی اور مس ایشیاء پیسیفک محترمہ سلبھ جین تھیں۔
مجھے بطور "اردو قلمکار" یہ اعزاز عطا کیا گیا۔ ایک عمر کی ریاضت کا اعتراف ہوتا ہے تو لگتا ہے کہ پرخار راہیں گلزار ہو گئی ہوں۔ میرے 27 سالہ ادبی سفر کا یہ ایک اہم پڑاؤ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کے ذریعہ مجھ کم علم، کم فہم کو عزت بخشی تھی۔ میں بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر ادا کرنے کو بےچین ہو رہی تھی۔ بے ساختہ پلکیں نم ہو گئیں کہ کاش ! ابّا، امّی، حیات ہوتے اور میری یہ کامیابی دیکھ پاتے۔ مگر یہ قوی احساس دل کو تسلی دیتا ہے کہ ان کی دعائیں ہرقدم، ہرلمحہ میرے ساتھ ہیں۔
ہال میں دوبارہ DJ کا ہنگامہ بپا ہو گیا تھا۔ جس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہم نے سادھنا میڈم کا شکریہ ادا کر کے اجازت لی اور ہال سے باہر نکلے۔ فنکشن ہال کے سبزہ زار پر ہجوم تھا۔ مختلف اسٹالس، روشنی کی چکاچوند، بیاہتا جوڑے سیلفی لے رہے تھے۔ غرض اندر و باہر رنگ ونور کا ایک سیلاب امڈ آیا تھا۔ دل و دماغ میں مسرت کے ساتھ ایک اور بھی فکریہ احساس کروٹیں لے رہا تھا کہ ابھی جس ماحول، جس دنیا کی رنگینیاں دیکھی تھیں، عورت کا جو روپ دیکھا تھا، آزاد، بے فکر، خوش باش ۔۔۔۔کیا واقعی زندگی عورت کے لئے اتنی سہل ہے ؟ میوزک پر کچھ لمحوں کے لئے تھرکتی عورت شب و روز گھر اور باہر کے مسائل میں الجھی تگنی کا ناچ ناچتی ہے۔ آج یوم خواتین کا جشن مناتے ہوئے اپنے آپ کو فریب دے رہی یہ عورتیں بھی بخوبی جانتی ہیں کہ یہ خوشی صرف ایک سراب ہے۔ کیونکہ زندگی ہر پل ان کے لئے ایک چیلنج ہے۔ ایک جنگ ہے۔ کئی محاذوں پر انھیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔ اور خود سے وابستہ رشتوں کے فرائض نبھانا ہے۔
ایک یادگار تقریب میں شرکت کے خوشگوار احساسات سے دوچار میں گھر لوٹی۔ جنید بیٹے نے فرط مسرت سے گلے لگ کر مبارک باد دی۔ اور ایوارڈ کی تصویر اپنے موبائل کی ڈی پی پر لگائی، ساتھ ہی لکھا : "امی جان کی ایک اور کامیابی"
شوہر نامدار کے چہرے پربھی فخریہ تاثرات تھے۔ اور یہی میرے لئے سب سے بڑا انعام تھا۔ میری چھوٹی سی دنیا، میری جنت ! برادر محترم محمدیوسف رحیم بیدری نے فون کیا۔ میں نے تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ: "آپ اس اعزاز کی صحیح مستحق تھیں "۔
پھر دعاؤں سے نوازا اورپروگرام کی تفصیل دریافت کی۔ کچھ ضروری باتیں میں نے انھیں بتائیں۔ اور پھر خدائے بزرگ وبرتر کے حضور جذبہ تشکر کے احساس سے مغلوب میں گھریلو مصروفیات میں مشغول ہو گئی۔
***
رخسانہ نازنین، بیدر۔ کرناٹک۔
موبائل: 09886325770
رخسانہ نازنین، بیدر۔ کرناٹک۔
موبائل: 09886325770
Womens Award Function in Bidar. Reportaz: Rukhsana Nazneen, Bidar.
ماشاء الله
جواب دیںحذف کریںبہت بہت مبارک ہو رخسانہ بہن ۔
رب ذو الجلال آپ کو دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں سرخروئی عطا فرمائے۔