ادیبوں کی کہکشاں - الہ آباد میں - سفرنامہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-28

ادیبوں کی کہکشاں - الہ آباد میں - سفرنامہ

travelogue-allahabad
مارچ 2019 کی 16-17 ، دو ایسی تاریخیں تھیں جن میں انجمن ترقی پسند مصنفین، یوپی کے ہندی ورژن "پرگتی شیل لیکھک سنگھ"کی دوروزہ کانفرنس کا انعقاد شہر اکبر واور ادیبوں کی کہکشاں الہ آباد میں ہوا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کی تاریخوں سے پہلے کی بات ہے کہ ایک دوپہر PWAاترپردیش کے نائب صدر اور معروف افسانہ نگار، سابق استاد و ماہر تعلیم اسرار گاندھی صاحب کا ایک فون آیا۔ جس میں مجھے مذکورہ پروگرام کے متعلق اطلاع دی اور مجھے حکم دیا میں اس میں شرکت کروں (پھر چند دیگر باتیں بھی ہوئیں، جنھیں بین السطور ہی سمجھا جائے )میں نے حامی بھرلی اور مقر رہ دنوں کے ریٹرن ٹکٹس لے لیے۔ روانگی کا ٹکٹ "پریاگ راگ ایکسپریس "کی ٹرین نمبر۔ 12418کا تھا جو نئی دہلی ریلوئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 16سے اپنے متعینہ وقت 21: 20پر روانہ ہوئی۔ پریاگ راج ایکسپریس اپنی دیگر خوبیوں، مثلاًتیزرفتاری، وقت کی پابندی اور فرض شناسی کے علاوہ شہر الہ آباد کی تقدیس، ثقافت، تہذیب، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، وہاں کی انتظامی اور تاریخی ترقیوں کی ترجمانی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ جیسے ہی اس پر نظر پڑتی ہے، شہر الہ آباد کے برج، تاریخی مقامات، مندر، مسجد، چرچ اور دیگر مذہبی مقامات، ہوٹلس، تعلیمی و تکنیکی اداروں کے نقوش سرخ سرخ کلر اسکیم میں ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسے نئی دہلی میں الہ آباد کا سفیر بھی کہا جا سکتا ہے۔
بہر حال ٹرین پلیٹ فارم پر لگی اور میں اپنے کمپارٹمنٹ میں چڑھ کراپنی سیٹ ڈھونڈنے لگا۔ سیٹ یعنی اَپر سائڈ برتھ مل جانے پر اپناسامان ہنگر کیا اور ریل انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ بیڈشیٹ، تکیہ و چادر بچھاکر نیم دراز گیا۔ ابھی ٹرین کی روانگی میں چند منٹ باقی تھے۔ لہٰذا میں نے بیگ میں رکھے صادقہ نواب صحر کے ناول------ 'جس دن سے ' ------ کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ابھی بہ مشکل چار صفحات پڑھے ہوں گے کہ ٹرین ہلکے سے پش کے ساتھ ٹریکس پر پھسلتی چلی گئی۔ غازی آبادتک تو اس کی رفتار کم ہی رہی مگر جیسے ہی صاحب آباد اسٹیشن گزرا، جانے اسے کیوں غصہ آ گیا۔ اب کی بار جو اس نے ہنکار بھری ہے تو پھر کیا اندھیرا اور کیا فاصلے، سب اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے، مگر اس نے کسی کی جانب نہ دیکھا اور آنکھوں میں مزید سرخی اور سینے میں مزید حوصلے بھر تے ہوئے وہ ایسے دوڑتی رہی جیسے کوئی معرکہ سر کرنے جا رہی ہو۔ ہاں !معرکہ ہی تو سر کرنے جا رہی تھی۔ اسے صبح کی اولین ساعات میں ہی دہلی سے الہ آباد تک کا 637کلومیٹر کاسفر طے کرنا تھا۔ وہ 64کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑرہی تھی۔ ممکن ہے کھلی اور جنرل بو گیوں میں اس کی آواز ہڑک ہڑاک، پھٹک پھٹاک، سڑک سڑک، کھٹٹ کھٹٹ سنائی دے رہی ہو مگر ایئرکنڈیشن بو گیوں میں تو صرف ہُرگھُر ہُر گھُر ہی سنائی دے رہی تھی۔ جیسے کوئی ماں دن بھر کھیل کود کر تھکے بچے کو ہلکے ہلکے کان میں لوریاں سناتی ہو، جسے سن کر بچہ کروٹ بدل کر سوجاتا ہے اور ماں کے جگر کو سکون سا مل جاتا ہے۔ میں نے بھی کروٹ بدلی اور اپنی ماں کو یاد کر کے سو گیا۔ رات بہتی ہی جا رہی تھی اور اندھیرے اپنے خیمے گاڑتے جا رہے تھے۔

الہ آباد میں ورُود
اس وقت 7: 30 بج رہے تھے جب پریاگ راج ایکسپریس، الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، یعنی اپنے وقت مقر رہ سے 15منٹ کی تاخیرسے۔ مگر اس تاخیر کو معاف کر دیا گیا۔ کیوں کہ یہ قابل معافی ہی ہے۔ آپ سے بھی معافی کی درخواست ہے۔ اب میں ادیبوں کی کہکشاں، الہ آباد اور ان کے دم سے تابندہ اجالوں کے حصار میں تھا۔
میں اسٹیشن سے سول لائنس کی جانب نکلا۔ چوں کہ مجھے اسرار گاندھی صاحب نے اسی جانب نکلنے کا حکم دیا تھا۔ میں جیسے ہی ریلوے فٹ برج کی سیڑھیوں سے میں روڈ پر آیا تو اسٹیشن کے باب الداخلہ پر اردو۔ ہندی۔ انگلش۔ تینوں زبانوں میں "الہ آباد"۔ "इलाहबाद "۔ "ALLAHABAD" لکھا دیکھ کرجی خوش ہو گیا۔ خوشی اس بات کی تھی کہ شہر مذکور کی نام تبدیلی کی آندھی میں بھی یہ نام باقی رہ گیا۔ حالاں کہ وہ طوفان ایسا اٹھا تھا کہ الہ آباد اور آس پاس کے 8 سے 10برس کے بچوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات بیٹھ گئی کہ اس شہر کا نام پہلے "پریاگ راج " ہی تھا جسے 'بد ل' دیا گیا۔ (اس کے بعد بہت سی غلط سلط باتیں، جو اُن معصوموں کے اذہان میں ڈال دی گئی ہیں )
شہر کے باب الداخلہ سے ہی خوشیاں سمیٹتا ہوا میں ایک ای۔ رکشے ( چنگ چی )میں بیٹھ کر سادھناسدن پہنچا جہاں پروگرام میں شرکت کی غرض سے آنے والے مہمانوں کے قیام کا انتظام تھا۔ سادھنا سدن' ---- -- ایک 'مشنری ' کیمپس ہے۔ اس میں ایک چھوٹا سا چرچ اور مشنری کے دیگر دفاتر واقع ہیں۔ عمارتیں لال گیروے رنگ سے رنگی ہوئی اور دو دوتین تین منزلہ ہیں۔ صحن، دالان اور آنگن موسم کے پھول پتوں سے لہلہا تا ہے۔ صبح کے وقت وہ منظر بہت ہی خوب ہوتا ہے جب شبنمی قطرے موتی بن کر پھولوں کی زیب وزینت بڑھاتے ہیں۔
'سادھناسدن' کے بالمقابل ہی' سینٹ جوزف، کالج' تھا، جس کے ہو گین ہال میں مذکورہ پروگرام ہورہا تھا۔ ضروریات اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر میں کالج ہی چلا آیا۔
آجا توار تھا اور کالج کے اکثر حصوں میں سناٹے پسرے ہوئے تھے۔ ہاں بس اس کے اسٹیڈیم میں کالج کی دوٹیموں کے درمیان کرکٹ مقابلہ ہورہا تھا۔ میں، میں کیمپس کی خوب صورتی، انتظام و انصرام، سجاوٹ و قرینہ سازی دیکھتا ہوا اُدھرہی چلا گیا۔ جیسے ہی اسٹیڈیم کی نشیب میں جانے والی سیڑھیاں اترنے لگا، میری نظردائیں جانب کھڑے آرمی ٹینک اور ایف21مگ طیارے کے موڈیولس پر پڑی۔ میں بس آنکھیں پھاڑ کر ہونٹوں کو گول کر کے ہی رہ گیا۔ 'آل ازویل 'نہ بول سکا۔ پتا نہیں کیوں ------ ؟(خیر چھوڑیے یہ میرا مسئلہ اور ذہنیت ہے، آپ کیوں الجھیں اس میں !!)

پروگرام ہال میں
کرکٹ مقابلہ زروں پر تھا۔ کریز سج گیا تھا اور فیلڈرس فیلڈ میں اپنی اپنی پوزیشنس سنبھال چکے تھے۔ بولرنے تیسری بول ہلکے سے رَن اپ(run-up) ایمپائر کو کراس کرتے ہوئے مڈ وکٹ سے پھینکی تو بیٹس میں غلطی کر کے تھرڈ میں کوکیچ دے بیٹھا۔ 'اوہ' ------ اس کے ہونٹ انٹرنیشنل کھلاڑی کی طرح گول ہوئے اور ان کی ہی طرح پوز دینے لگا۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑی بھی ان ہی کی طرح "وکٹ کیپنگ " کی خوشی سلبریٹ کر رہے تھے۔ میں اسی نظارے میں محو تھا کہ دہلی سے ایک دوست کا فون آیا۔ علیک سلیک اور رسمی بات چیت کے بعد میں پروگرام ہال میں چلا آیا، جہاں الہ آباد کی IPTA کے چند ممبران، "مارکس" کی زندگی پر مشتمل ایک پلے پیش کر رہے تھے۔ گویا پروگرام کی ابتدا ہو چکی تھی۔ ابھی ہال کی کچھ کرسیاں خالی تھیں مگر کچھ ہی عرصے میں ہال بھرتا چلا گیا۔ یہ بات جہاں الہ آباد کے شائقین کی دل چسپی کا مظہر ہے وہیں اس پروگرام کی اہمیت و افادیت کی شہادت بھی دیتی ہے۔ ایسا نظارہ مجھے دوسرے مقامات پر کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ مگر الہ آباد کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ جس کی مٹی میں ہی ادب اور ادیبوں کے تئیں اہمیت و احترام کے جذبات رچے بسے ہیں۔

ٹی بریک اور چند ادیبوں سے ملاقات
IPTA کا ڈرامہ ختم ہوا تو چائے کے وقفے کے لیے 15منٹ کی چھٹی ملی۔ میں بھی سب لوگوں کے ساتھ باہر آیا۔ باہر دھوپ اچھی طرح سے کھل چکی تھی اور پروگرام کے حاضرین و شائقین کی گہماگہمی نے اسے یقین میں بدل دیا تھا۔ ابھی میں چائے لینے ہی والا تھا کہ اسرار گاندھی صاحب پر نظر پڑی، میں سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ان کے پاس چلا آیا۔ وہیں دیکھا تو PWAکے کل ہند کارگزار صدر پروفیسر علی جاوید بھی موجود تھے۔ اسی طرح چند ایک اردو ادیب و شائقین بھی جن میں ------ 'اندھیروں کے مسافر' ------ ناول کے مصنف احمد حسنین صاحب بھی تھے۔ یہیں اسرار گاندھی سر نے میری ملاقات ہندی ادب کی معروف مصنفہ، مفکر اور اس پروگرام کی روح رواں محترمہ "نیلم شنکر" جی سے کرائی۔ آپ نہایت سلیس، نستعلیق، سنجیدہ، فرض شناس خا تون ہیں (یہ میرا مشاہدہ ہے )تپاک سے ملیں اور فیس بک آئیڈی کا تبادلہ کرتے ہوئے انتظام و انصرام کی ذمے داریاں ادا کرنے چلی گئیں۔ یہیں پروفیسر سنتوش بھدوریا جی سے بھی ملاقات ہوئی جو اتر پردیش پرگتی شیل لیکھک سنگھ کے صدر ہیں۔ یہ پروگرام ان کی ہی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ تھا۔

پروگرام کی دوسری نشست اور میری پیش کش: نئی صدی میں کہانی کے کھلتے در !!
15منٹ ختم ہوئے اور شائقین و حاضرین جلسہ گاہ میں اپنی اپنی نشستوں کی جانب چلنے لگے۔ پانچ منٹ کے اندر اندر پروگرام دوبارہ شروع ہو گیا۔ ناظم پروگرام محترمہ"اوشا رائے "نے ابتدائی تقریر کرنے کے بعد اس نشست کے پینل کو مدعو کیا جس میں مجھ سمیت شیکھر ملک، جتندر وساریا، دیپک سریواستو، سونی پانڈے، ہر چرن پرکاش اور پریہ درشن مالویہ تھے۔ ہم لوگ شہ نشین پر بیٹھے اور پھرہمیں ایک ایک کر کے ڈائز پر بلایا جانے لگا۔ اس وقت ہم میں سے شاید سب کی یہ ہی حالت ہو گی:
سوئے مقتل جاتے ہیں یا کوچہ دل دار ہم
کچھ نہ ہم سے پوچھیے ہے دل کا عالم اَور اَور
مگر ہم میں سے ہر ایک کا خوف اس وقت جاتا رہا جب سامعین کو ہمہ تن گوش اور اپنے تمام اعضا و جوارح سمیت ہماری جانب متوجہ پایا۔ بس پھر کیا تھا۔ دس دس منٹ میں ہر ایک نے علم و عرفان کے دریا بہادیے۔ ہمارے صدور حضرات نے تو اس روانی میں مزید اضافہ کر دیا ان کی یہ دریا روانی دیکھ کر درمیان میں الیکٹرسٹی کو بھی جھٹکے لگنے لگے۔ مگر اس کی کسے پروا تھی گویا:
بجلی رہے نہ رہے، ہم تو بھیا بولیں گے
یہ پروگرام ختم ہوا اور لنچ کے لیے چھٹی ملی۔ لنچ کا انتظام کالج میں ہی تھا۔ جس میں پوری، سبزی، زیرہ چاول، مکھن روٹی اور کھیر شامل تھی۔ پرتکلف کھانا، شاندار طریقہ ¿ تقسیم اور مناسب انتظام، کس کس کی تعریف کی جائے، سب کچھ ہی بہت خوب اور بہت اچھا تھا۔
لنچ کے بعد ایک شعری نشست ہوئی جس میں کچھ دیر شرکت کے بعد میں اور اسرار گاندھی صاحب، اُن کی رہائش گاہ، واقع کرامت کی چوکی، کریلی چلے آئے۔ کالج کے باہر ہی ان کی اسکوٹی پارک تھی۔ جسے انھوں نے ہی ڈرائیو کیا اور پھر مختلف چوک، چوراہوں، گلیوں، کراسنگ، روڈ برجز (Road Bridges) سے ہوتے ہوئے ہم لوگ گھرپہنچے۔ میری دونوں آنکھیں چار چار آنکھوں کا کام کر رہی تھیں بلکہ معمول سے زیادہ کشادہ ہو کر ماحول، شہر، افراد، نظاروں اور تعمیر و تشکیل کے مناظردیکھ رہی تھیں اور زبان حال و قال میں مصروف تھی۔

حسنیٰ انٹی سے ملاقات
گھر پہنچنے کے بعد اسرار گاندھی صاحب نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ میں نے اپنا "بیک بیگ" ایک صوفے کی سائڈپر رکھا۔ سر پانی لائے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک خا تون بھی چلی آئیں۔ سر نے بتایا یہ تمھاری انٹی ہیں 'حسنیٰ!' -------حسنیٰ واقعی حسنیٰ ہیں، یعنی حسن سلوک، مہمان نوازی، مہربانی اور کرم نوازی کی خوبیوں سے مالا مال۔ اسم بامسمیٰ بلکہ اس سے بھی ماسوا۔ مجھے ان کا نام سن کر ریاست کرناٹک کی معروف افسانہ نگار"حسنیٰ سرور " کی یاد آ گئیں۔ حسنیٰ سرور، جدید افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے علامت اور تجرید جیسے الجھن والے رجحان کے خلاف افسانہ نگاری کے مہم میں کرناٹک کے جدید افسانہ نگاروں کے شانہ بشانہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قصہ مختصر۔ کچھ دیر بعد حسنیٰ انٹی سے مانوسیت بڑھتی چلی گئی۔ وہ ایک مہربان ماں کی طرح پیش آتیں اور میری کوشش رہی کہ مختصر مدت تک ہی سہی میں ان کا بیٹا بن کر رہوں۔
اب دوپہر ڈھلتی جا رہی تھی، اعصاب آرام کے خواہش مند تھے۔ اسرار گاندھی سر نے اسے قبل ازگفتن محسوس کیا اور ایک گیسٹ روم کے بیڈ پر چادر بچھادی۔ میں شام ڈھلے تک سوتا رہا۔ سورج غروب ہورہا تھا جب بیدار ہوا۔ سر میرے آس پاس ہی رئٹنگ ٹیبل کے صوفے پر بیٹھے تھے۔ مجھے بیدار ہوتے دیکھ کر جلدی سے فریش ہونے اور منہ ہاتھ دھونے کا کہہ کر چائے لینے چلے گئے۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ چائے پی کر ہم لوگ بذریعہ کار شہر کی سیر کو چل پڑے۔

چودھری ابن النصیر سے ملاقات
شہرالہ آباد میں یوں تو متعدد اصحاب علم و فکر کی گلیکسی موجود ہے مگر ایک صاحب سے مل کر علمی وقعت و اہمیت کا اندازہ اپنے تئیں ہوا۔ ان کا نام نامی ہے چودھری ابن النصیرصاحب۔ آپ کا آبائی تعلق آسنسول(مغربی بنگال)سے ہے۔ تاہم ابھی برسوں سے الہ آباد میں مقیم ہیں۔ آپ کتابوں کے دل دادہ، رسائل و جرائد کے واقف کار اور اردو اصناف بالخصوص فکشن کے خواندہ اور قدردان اور ایک سہ ماہی رسالے 'پہچان' کے مدیر ہیں۔ ان سے کتنی ہی باتیں فکشن، فکشن کے خدو خال، مجموعی صورت حال، ہندوپاک کے فکشن رائٹرس کے تعلق سے ہوئیں۔ تقریباً 80منٹ کی اس ملاقات میں، میں نے اپنے کشکول علم کو خوب ہی بھرا۔
اب رات پوری طرح ماحول پر اپنا تسلط قائم کر چکی تھی۔ جس کے خلاف کچھ بلبس، ٹیوب لائٹس اور اسٹریٹ لائٹس کے فوکس فلیش جد و جہد کر رہے تھے مگر ان کی یہ جد و جہد خوداُن تک ہی محدود اوران کے اجالوں کی ترسیل تو محض آس پاس کے کچھ دائروں تک ہی تھی۔ ہم دونوں نے چودھری صاحب سے رخصت کی اجازت چاہی، انھوں نے اجازت دی اور ہم لوگ چلے آئے۔ شام کا کھانا کھایا گیا اس کے بعد چند ضروری امور طے کر کے سونے کی تیاری کرنے لگے۔ ان امور میں سب سے اہم امر یہ تھا کہ کل چھے بجے شام میں ایک ادبی محفل کا انعقاد کیا جائے جس میں افسانہ خوانی، شعرو شاعری کے ذریعے ایک غیر رسمی اعزاز ہو اسے گیٹ ٹو گیدر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس پلاننگ مجلس میں ہمارے ساتھ الہ آباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد ریحان بھی تھے۔ اس کے لیے شہر کے چند ادب نوازوں سے اسرارگاندھی سر نے بات کی۔ ان کی رضا مندی ملنے کے بعد پروگرام طے ہو گیا۔

دوسرا دن اور شہر الہ آبا کی سیر
دوسرے دن کا سورج اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نکلامیں بھی اس کی ہر گجر اور گونج پر اٹھ بیٹھا۔ ریحان بھائی آ چکے تھے۔ میں Bed Tea لی اور کپ خالی کرتے ہی میں اُن کے ساتھ جمنا کا گھاٹ دیکھنے چلا گیا۔ بہت شوق تھا کہ الہ آباد میں ندیوں کے کنارے دیکھوں، گو سنگم پر بھی جانا تھا مگر ان دنوں کمبھ کا میلا اکھڑ رہا تھا۔ جس کے بعد وہاں کا ماحول بہت پلید، آلودہ اور بد نما ہو گیا تھا۔ لہٰذا جانا مناسب نہیں تھا۔ مگر پھربھی یہ شوق کرامت کی چوکی کے قریب واقع جمنا کا کنارہ دیکھنے سے پورا ہوا۔ حسب توقع ایک ہرے بھرے احاطے میں مندر بنا ہوا تھا، جس کے لاؤڈ اسپیکر سے صبح کے بھجن چل رہے تھے۔ احاطے سے باہر کا علاقہ اور زمین ایسی لگ رہی تھی جیسے وہاں روزانہ دس پندرہ بھینسیں آ کر آپس میں سینگ پھنساتی ہوں اور ایک دوسری کو رگیدتی ہوئی لے جاتی ہوں۔ ندی کی طغیانی کے دنوں کے نقوش بھی کناروں پر ثبت تھے ہم لوگ وہاں زیادہ نہیں ٹھیرے مشکل سے دس منٹ۔ اس کے بعد چلے آئے۔ ناشتے اور کچھ اسنیکس کے بعد اسرارگاندھی سر نے اسکوٹی نکالی اور ہم لوگ شہر کے چند اہم مقامات دیکھنے کے لیے چل پڑے۔ بالخصوص' آنند بھون' اور آکسفورڈ آف ایسٹ ------ 'یونیورسٹی آف الہ آباد'اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان میں نظر آ جائے۔ جیسے موتی لال نہرو میڈیکل کالج، الہ آباد۔ کیا زبردست کالج ہے۔ ایک طویل وعریض کیمپس میں اس کے محکمہ جات اور میڈیکل ایکسپریمنٹ و تعلیمی سلسلے جاری ہیں اور لب سڑک اس کی دیوار پر تھری ڈی3Dپینٹنگ کے ذریعے انسانی اعضا و جوارح، اندورنی کارخانہ ¿ قدرت اور رگوں و پٹھوں کی نقش کاری اسی طرح نسوں میں دوڑتے خون، خون میں شامل ہو جانے والے فاسد مادوں، نیز چوٹ موچ کے وقت گھٹنوں اور جوڑ کے تمام حصوں کی عکاسی اس طرح کی گئی تھی کہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ کشاں کشاں ہم لوگ الہ آباد کے چوراہوں اور ان پر بنے ہوئے تہذیبی، تاریخی اور علمی مرقعوں کو دیکھتے ہوئے ' آنند بھون 'پہنچے۔ 'آنند بھون ' فیض آبادہائی وے پر ایک خوب صورت اور پر فضا مقام پروسیع و عریض رقبے میں واقع ہے۔ اسے پنڈت موتی لال نہرو نے 1930میں اپنی رہائش کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ اس زمانے میں لسان العصر، سید اکبر حسین رضوی اکبر الہ آبادی باحیات تھے۔ پنڈت جی ان کے پاس گئے اور ان کی رہائش گاہ'عشرت منزل' کے طرز پراُس کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ لسان العصر نے 'آنند بھون' تجویز کیا جو 'عشرت منزل' کا ہندی ترجمہ ہے۔ پنڈت جی کو یہ نام بہت پسند آیا۔ انھوں نے رہائش گاہ کے باب الداخلہ پر بائیں جانب اردو اور انگلش میں ' آنند بھون' اور دائیں جانب اپنا نام'پنڈت موتی لال نہرو' کندہ کرایا۔ اس کے بعد نہرو خاندان اس میں آباد ہو گیا اور اسے UPCC(اُتر پردیش کانگریس کمیٹی)کا ہیڈکوارٹر بنا کر اس کے ایک حصے کو 'سوراج بھون' کا نام دے دیا گیا۔ ملک آزاد ہوا اور نہر وخاندان کے اکثر افراد دہلی آ گئے۔ الہ آباد کا 'آنند بھون 'برسوں تک اپنے مکینوں کی دید کے لیے ترسنے لگا تو 1970میں اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے اسے 'نہرو میوزیم'بنا کر اُتر پردیش کے " محکمۂ آثار قدیمہ ' اور 'حکومت ہند' کے نام وقف کر دیا۔ اس کے بعد سے تو اس کی بہاریں لوٹ آئیں اور آج 'آنند بھون' دیکھنے کی چیز ہے۔
'آنند بھون ' کے 'آنند ' لُوٹتے ہوئے ہم لوگ اب ایشیا کا آکسفورڈ، الہ آباد یونیورسٹی دیکھنے جا رہے تھے۔ بہت پہلے سے ہی یونیورسٹی کے ہاسٹلس اور دیگر جائدادئیں شروع ہو گئیں۔ اونچے اونچے درختوں کے درمیان یونیورسٹی کا باب الدخلہ نظر آیا جو سادگی اور پُرکاری کا عمدہ نمونہ تھا۔ اندر داخل ہوتے ہوئے گاندھی سر نے اسکوٹی پارک کی۔ ہم کچھ ہی دور چلے تھے کہ شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی کا بورڈ نظر آیا۔ جس جلی حروف میں لکھا تھا"شعبۂ اردو، الہ آباد یونیورسٹی، الہ آباد" ------- قدیم طرز تعمیر کے باب الداخلہ سے جیسے ہی ہم لوگ اندر داخل ہوئے سب سے پہلی نظر"پروفیسر سید احتشام حسین ہال" پر پڑی۔ ہال کے اندر چند طلبا موجود تھے۔ شاید کوئی پروگرام ہونے والا تھا یا وہ سیلف اسٹڈی کر رہے تھے۔ اللہ بہتر جانے۔
ان دنوں شعبۂ اردو کو پروفیسر شبنم حمید صاحبہ چیئر کر رہی ہیں، لہٰذا اب کی باری ان سے ملاقات کی تھی۔ وہ بہت تپاک سے ملیں۔ ان ہی دنوں یونیورسٹی میں 'نیشنل اسسمنٹ اینڈایکوریڈیشن کاؤنسل'(NAAC)کی ٹیم وزٹ کرنے آنے والی تھی۔ یہ ادارہ ہندوستان بھر کی جامعات کو ملکی سطح پر رینکنگ دیتا ہے۔ NAACکا تلفظ تو "نیک "ہوتا ہے مگر الہ آباد کے طلبا اسے "ناک" کہتے ہیں (ناک کی جو اہمیت ہے اس کے متعلق کہنا ہی کیا)۔ اب "ناک " والے آنے والے تھے اس لیے پروفیسر شبنم حمید صاحبہ ان کے شاندار اور پرتپاک استقبال کی تیاریوں اور کچھ ضروری امور میں مصروف تھیں۔ ان کی مصروفیت جائز بھی تھی اس لیے انھیں زیادہ پریشان نہیں کیا گیا اور ہم لوگ وہاں سے چلے آئے۔ پھر وہی راستے تھے اور وہی منزلیں۔ وہی سب کچھ وہی شہر الہ آباد اور اس کی رونقیں۔ پھر گھر۔
اب دوپہر آ چکی تھی اور دن کا سورج آب سوختہ بنتا جا رہا تھا۔ چنانچہ کہیں آنے جانے سے بہتر سمجھا کہ اب آرام ہی کیا جائے۔ چوں کہ آج نشست بھی تھی لہٰذا اس سے پہلے آرام ضروری تھا۔

ادبی نشست !!
جیسے ہی شام کے چھے بجے، کل شام کو متعینہ کردہ پروگرام کے تحت مندوبین تشریف لانے لگے۔ ان کی آمد کے کچھ عرصے بعد ہی ادبی نشست کا آغاز ہوا جس میں معززین شہر، علم و ادب کے شیدائی و اہلیان ذوق اور الہ آباد یونیورسٹی کے طلبا موجود تھے۔ دوگھنٹے تک چلنے والی یہ محفل بہت ہی خوب تھی۔ دو گھنٹے تک اسی طرح علم، ادب، ناول، افسانہ، مقبول عام ادب پر باتیں ہوتی رہیں۔
عباس حسینی، ابن صفی، ماضی کے ادبا و شعرا اور الہ آباد
الہ آباد کا ذکر ہو، الہ آباد ہو پھر عباس حسینی(بھیا) اورابن صفی و دیگر ماضی کے ادبا و شعرا کا ذکر نہ ہو، ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ کتنی ہی نئی باتیں مجھے بالخصوص عباس حسینی اور ابن صفی کے متعلق معلوم ہوئیں۔ وہ سب باتیں میرے دل کسی ادبی امانت کی مانند محفوظ ہیں۔ رات بہتی جا رہی تھی، نشست اپنے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے آخر ختم ہو گئی اور پھر نشست کے شرکا ایک ایک کر کے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

الہ آباد سے روانگی:

19مارچ ------- آج روانگی کا دن تھا۔ جس کی تیاری صبح سے ہی ہونے لگی۔ حسنیٰ انٹی نے سرپر ہاتھ پھیر کر دعاؤں کے سائے میں رخصت کیا اور گاندھی سر نے مجھے اسٹیشن ڈراپ کیا۔ انھوں نے بھی زاد سفر میں دعاؤں کے تحائف بخشے۔ الہ آباد ریلوے اسٹیشن سے مہانندا ایکسپریس کی ٹرین نمبر۔ 15483میں 10: 15بجے روانہ ہوئی۔ قطع سفر کی غرض سے میں نے احمد حسنین صاحب کا ناول ------ 'اندھیروں کے مسافر' ------ بیگ سے نکالا جومجھے میرے ناول ------ 'جے این یو کمرہ نمبر259' ------ کے تبادلے میں ملا تھا۔ 168صفحات کا ناول میں نے پورا پڑھ لیا۔ چمبل کی گھاٹی کی کہانیاں، چمبل کے بیہڑ اور بند یل کھنڈ کے تصوراتی نظارے، وہاں کی زبان، تہذیب، معاشرت، روایات، ان علاقوں میں پولیس اور انتظامیہ کی بے بسی، چمبل کے ڈاکوؤں کی ڈاکہ زنی کی واردات کی کہانیاں وغیرہ، اس ناول میں بہت کچھ ہے۔ اس طرح اسے jungle book بھی کہا جا سکتا ہے۔
مہانندا ایکسپریس اس کا وقت تو پرا نی دہلی تک پہنچنے کا رات 10: 22کا تھا مگر اس قدر لیٹ ہوئی کہ دو بجے کے قریب پہنچی۔ کیا سفر تھاوہ تھکا دینے والا، اللہ اللہ!!وہ سفر کا مرحلہ ختم ہوا۔ الہ آباد کی کچھ خاص یادیں، نظارے اب میں نے سنبھال کر رکھ لیے ہیں۔

***
imranakifkhan[@]gmail.com
جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی - 110067
عمران عاکف خان

A Travelogue of Allahabad. By: Imran Akif Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں