ایک شعر کی تشریح - فکاہیہ از مبارک علی مبارکی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-28

ایک شعر کی تشریح - فکاہیہ از مبارک علی مبارکی

romance-with-poetry
میں اسکو سن نہ پایا نہ وہ سن سکا مری
اِک فاصلہ صدا و سماعت کے بیچھے

یہ شعر مغربی بنگال کے کہنہ مشق و "بزرگ" شاعر اکبر حسین اکبر کا ہے جو اُنہوں نے بزرگ ہونے کے بعد کہا ہے۔
اِس شعر میں شاعر نے بڑھاپے کا کرب بیان کیا ہے۔ شاعر بچپن سے ہی عاشق مزاج تھا۔ اُس نے حسینوں پر مرنے کے لئے غالب کی طرح جوان ہونے کا انتظارنہیں کیا بلکہ صغیر سِنی سے ہی حسینوں پر مرنے لگا ۔ اور مرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا ۔
ویسے اُس کی اِس کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا نہیں بلکہ خود اُس کی شاعری کا ہاتھ تھا۔
دراصل شاعر اسکول کے زمانے سے ہی عمدہ رومانی شاعری کرنے لگا تھا۔
بہت ساری خوبصورت لڑکیاں معشوق کی تعریف میں شاعر کے اشعار سُن سُن کر اُس کی فین ہوگئیں اور اس کے اِرد گِرد گھومنے لگیں ۔ حتّٰی کہ کچھ بدصورت لڑکیاں بھی خواہ مخواہ خود کو خوبصورت سمجھ کر "می ٹُو، می ٹُو" چِلّانے لگیں۔
شاعر نے اپنی شاعری سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور یونہی فائدہ اٹھاتے ہوئے بچپن سے نوجوانی، نوجوانی سے جوانی اور جوانی سے کُہنہ جوانی میں قدم رکھ دیا۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن قدرت کی ستم ظریفی کہ ایک روز شاعر بوڑھا ہوگیا ۔
اب یہ اور بات ہے کہ شاعر جتنا بھی بوڑھا ہوجائے شعر کہنا _ اور عشق کرنا _ کبھی نہیں بھولتا۔ لہٰذا ہمارے شاعر نے بھی حسبِ معمول یہ دونوں کام خوش اسلوبی سے جاری رکھے۔
ایک روز شاعر کسی مشاعرے کی صدارت کے فرمانے کے لئے ٹرین سے بیرونِ شہر جا رہا تھا۔
ویسے وہ جانا تو بیرونِ ملک چاہتا تھا لیکن پولیس ویریفیکیشن میں اس کے شاعر ہونے کا راز فاش ہو گیا اور سرکار نے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔
سرکار کا کہنا تھا کہ ہم صرف نِیرَو مودی اور وجے مالّیہ جیسے لوگوں کی ہی ملک سے بھاگنے میں مدد کرتے ہیں۔
کسی شاعر کو ملک سے بھگا کر سرکار کو بھلا کیا فائدہ ہوگا؟
ایک شاعر کے پاس چند تصویرِ بتاں اور چند حسینوں کے واٹس ایپ میسیجوں کے علاوہ ہوتا ہی کیا ہے جو ہم فرار ہونے میں اُس کی مدد کریں !
خیر صاحب، شاعر ٹرین میں سوار ہوا۔ منتظمینِ مشاعرہ نے آن لائن ٹکٹ پہلے ہی بھجوا دیا تھا۔ گاڑی چُھوٹنے میں بس پانچ منٹ ہی باقی تھے کہ اچانک شبنم آتش فشانی صاحبہ ہانپتی کانپتی شاعر کے ڈبّے میں سوار ہوئیں۔
شبنم صاحبہ کو دیکھتے ہی شاعر کو کالج کے وہ سُنہرے دن یاد آگئے جب وہ تھرڈ ایئر اردو آنرز کا طالبعلم تھا اور شبنم صاحبہ نے ۔۔۔۔۔ جو اُس وقت صرف شبنم تھیں صاحبہ نہیں بنی تھیں ۔۔۔۔۔ سالِ اوّل میں داخلہ لیا تھا۔
شبنم کو شاعری کا شوق تھا۔ کالج میں سالانہ مشاعرہ منعقد ہونے والا تھا۔ شبنم نے بھی غزل جیسی کوئی چیز لکھی اور ہمارے شاعر کو "دِکھائی" ۔
شاعر نے آج تک صرف شبنم کو دیکھا تھا اور خوب دیکھا تھا۔ بلکہ حسرت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ لیکن اُس کی کوئی غزل نہیں دیکھی تھی۔ آج قسمت مہربان ہوئی تو شاعر کو اس کی غزل دیکھنے کا موقع بھی مُیسّر آگیا ۔
شبنم جتنی خوبصورت تھی اس کی غزل اُتنی ہی بدصورت تھی۔ لیکن شاعر کسی حسینہ کا دل توڑنا گناہِ کبیرہ سمجھتا تھا۔ لہٰذا اُس نے غزل کی خوب تعریف کی اور اُس پر "دوستانہ مشورہ" دینے کا وعدہ کر لیا۔
دوسرے دن شاعر نے اُسی قافیہ اور ردیف میں ایک خوبصورت غزل یہ کہہ کر شبنم کو تھما دی کہ
"لیجئے آپ کی غزل پر اصلاح کردی ہے۔"
اصلاح اتنی عمدہ ہوئی تھی کہ شبنم خود پہچان نہ پائی کہ غزل اُس کی اپنی ہے۔ نہ وہ مضامین تھے نہ قوافی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی میکانِک نےمرمّت کے لئے دیئے گئے موبائیل فون کی جگہ غلطی سے نیا موبائیل اُس کے حوالے کر دیا ہو۔
لیکن لڑکی بڑی مروّت والی تھی۔ اِس لئے حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی کہ کہیں ہمارے شاعر کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے۔
کالج کے مشاعرے میں جب شبنم نے وہ غزل گائی تو صرف نوجوان طلباء ہی نہیں عزّت مآب پروفیسر حضرات بھی جھوم جھوم کر داد دیتے نظر آئے ۔
اور بس یہیں سے ہندوستان کی ایک عظیم شاعرہ کے مشاعراتی سفر کا آغاز ہو گیا۔ نہ صرف ریاستِ مغربی بنگال بلکہ ہندوستان بھر سے مشاعروں کی دعوتیں آنے لگیں۔ مشاعروں کے بینرز میں شبنم کی بڑی بڑی تصویریں چھاپی جاتیں اور مشاعرے واقعی قابلِ دید ہو جاتے۔
ہمارا شاعر اپنی شاگردہ کے کلام پر مسلسل اصلاح دیتا رہا ۔ بلکہ اکثر یوں بھی ہوا کہ شبنم غزلیں نہ بھی لکھتی تو ہمارا شاعر مشاعروں سے پہلے اصلاح شدہ غزلیں اس کے حوالے کردیا کرتا۔
ہمارا شاعر تو زندگی بھر یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن بیچارے سے ایک غلطی ہوگئی۔ اُس نے کسی مشاعرے کے اسٹیج پر شبنم کا تعارف شہر کی ادبی و شعری محفلوں کے پرماننٹ چیف گیسٹ جناب عاشق رومانی سے کروا دیا۔ ویسے رومانی صاحب صرف ادب نواز ہی نہیں حُسن نواز بھی تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وہ نہ صرف شہر کے نامی گرامی پروموٹر تھے بلکہ آٹھ دس بڑے ہوٹلوں کے مالک بھی تھے۔ اور شبنم کو تندوری چکن اور مٹن بریانی کھانے کا کچھ زیادہ ہی شوق تھا۔

وقت پر لگا کر اُڑتا چلا گیا۔ رومانی صاحب نے شبنم کے لئے دوسرا استاد ہائر (Hire) کر لیا۔ اور ہمارا شاعر بھی کسی نئی شاگردہ کے کلام پر اصلاح دینے لگا۔
اب یہ الگ بات ہے کہ نئی شاگردہ اب شعر نہیں کہتی۔ بلکہ وہ تو ہمارے شاعر کو بھی شاعری چھوڑ کر پکوڑے بیچنے کا مشورہ دیتی رہتی ہے۔ کیونکہ مشاعروں کے لفافوں سے گھر چلانا اس کے بس سے باہر ہو رہا ہے۔ اور لفافے بھی اب زیادہ کہاں آتے ہیں؟ حالانکہ اِس کے لئے بھی ہمارا شاعر خود ہی ذمّہ دار ہے۔ اُس نے زمانے کے ساتھ بدلنا نہیں سیکھا۔ وہ اپنی شاعری کے بل بوتے پر خود کو شاعر منوانا چاہتا ہے۔ کسی ایم ایل اے، ایم پی یا سرکاری اردو اداروں کے عہدیدار کے گھر ہلدی رام کی برفی یا کے۔سی۔داس کے رس گُلّے پہنچانا وہ اپنے فن کی توہین سمجھتا ہے۔
نتیجہ ظاہر ہے۔ سرکاری مشاعروں کے اسٹیج پر اُس کا چڑھنا ممنوع قرار پایا اور سامعین میں بیٹھ کر درباری شعراء کو سُننا اُس کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بیچارہ کچھ غیرسرکاری مشاعروں میں مسندِ صدارت پر جلوہ افروز ہوکر مشاعرہ کے خاتمے تک قید بامشقت کی سزا جھیلتا رہتا ہے اور آخر میں کچھ والنٹیرس اور ڈیکوریٹر کے اسٹاف کو غزلیں سنا کر گھر چلا آتا ہے۔

بہرحال عمر کی پچیس بہاریں اور ساڑھے چونتیس خزائیں دیکھنے کے باوجود ہمارا شاعر شبنم کی یادوں کو دل سے نکال نہیں پایا ۔ لہٰذا آج جب اتنے برسوں کے بعد اُسے سامنے پایا تو یادوں کی راکھ میں دبی چنگاری پھر سے شعلہ بننے لگی۔ تبادلۂ سلام کے بعد شاعر نے آغازِ گفتگو کرنا چاہا۔ کچھ پرانے اشعار سنانے کی کوشش بھی کی جو اُس نے شبنم کی جدائی کے بعد کہے تھے۔ لیکن جلد ہی اُسے احساس ہو گیا کہ اُس کی پرانی معشوقہ بھی اب اُسی کی طرح اونچا سُننے لگی ہے۔ دونوں نے چِلّا چِلّا کر ایک دوسرے کو اپنے اشعار سُنانے کی کوشش کی تو دوسرے مسافر اعتراض کرنے لگے کیونکہ اُن کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا۔
اور تبھی بیساختہ شاعر کے دل سے شعر نکلا:

میں اسکو سُن نہ پایا نہ وہ سُن سکا مری
اک فاصلہ صدا و سماعت کے بیچھے

***
"Hayat Rise", 4th Floor, 19, Alimuddin Street, Kolkata-700 016.
ای-میل: mubarak.mubarki[@]gmail.com
موبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
مبارک علی مبارکی

Aik She'r ki tashreeh. Humorous Article: Mubarak Ali Mubarki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں