ڈینوب کی لہریں - ایک دُھن کا سفر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-07

ڈینوب کی لہریں - ایک دُھن کا سفر

waves-of-the-danube
' ڈینوب کی لہریں ' (Valurile Dunarii )
(Waves of the Danube)

دنیا بھرمیں فنون لطیفہ کی تاریخ شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان۔ فنون لطیفہ کی اور اصناف تو شاید بعد میں وجود میں آئی ہوں گی لیکن مورتیاں بنانا ، تصویر کشی ، موسیقی اور رقص شاید سب سے قدیمی ہی رہے ہیں۔ آج میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے ہی دیش میں رقص کی کئی اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں یہ رقص کب شروع ہوئے ان کی ابتدائی شکل کیا تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، تبھی یہ لوک رقص کہلاتے ہیں۔ پنجاب میں ان کی کئی شکلیں ہیں جن میں ' بھنگڑا ' ، ' لُڈی ' ، ' سمی ' ، ' گِدا ' ، ' کِیکلی ' تو مجھے یاد ہیں۔ میں اگر بلوچستان کی طرف دیکھوں تو مجھے ' لیوا ' اور ' چھَپ ' نظر آتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں ' ایتن ' ، ' خٹک ' ، ' گتکا ' ، ' کُمبر ' رقص کی وہ قسمیں ہیں جو اب بھی روایتی طور پر موجود ہیں۔ سندھ کے ناچ الگ ہیں جن میں ' دھمال ' اور ' ہو جمالو ' اہم ہیں۔ ' جھومر ' ایک ایسا رقص ہے جو ان سب علاقوں میں اپنے اپنے ، قدرے مختلف ، انداز میں عوام میں مقبول ہے۔ مغلوں کے دور کا درباری رقص ' کتھک ' بھی ان علاقوں اپنی اپنی شکل میں موجود ہے۔ ان سب میں موسیقی اور رقص دونوں کا تال میل ساتھ ساتھ چلتا دکھائی دیتا ہے۔

اگر میں وسطی یورپ کی طرف دیکھوں تو مجھے وہاں بھی رقص کی مخلتف شکلوں کے علاوہ ایک ڈانس ' والز ' ( Waltz ) بھی نظر آتا ہے۔ یہ ایک قدیمی لوک رقص ہے جو ' تھا ، تھا ، تھا ' کی بیٹ (beat) پر مرد و زن کے جوڑے ، ایک دوسرے کو بانہوں میں لیے ، چہرے سے چہرہ جوڑے ، بال روم (ballroom ) میں کرتے ہیں۔ یہ کتنا پرا نا ہے اور یہ کب شروع ہوا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس رقص کا ذکر جسے پہلے گلائڈنگ ( gliding ) رقص بھی کہا جاتا تھا لگ بھگ 16 ویں صدی میں وہ شکل اختیار کر گیا جو آج کے والز کی ابتداء تھا۔ اس کا ذکر فرانسیسی فلسفیوں اور ادیبوں کی تحریروں میں کچھ یوں ملتا ہے ؛ '۔۔۔ اور وہ غیر الوہی انداز میں ' ویلر یا سپینر ( Weller or Spinner ) ناچ میں مشغول ہیں۔۔۔ ' بوویریا جیسے علاقوں میں یہ کسان جوڑوں کا رقص تھا اور وہ اسے ' والزر‘ کہتے تھے۔ 1750 ء کے لگ بھگ یہ لوک رقص عوام سے نکلا اور اشرافیہ اس پر قابض ہونے لگی۔
جرمن ادیب صوفی فان لا روچی ( Sophie von La Roche) اپنے ایک ناول ' فراؤلائین فان شٹرن ہائیم کا قصہ ' ( Geschichte des Fräuleins von Sternheim ) میں اس بات کا گلہ بھی کرتا ہے ؛ '۔۔۔ اشرافیہ نے اسے کیوں اپنا لیا جبکہ یہ تو عام لوگوں کا رقص تھا۔۔۔ ' یہ ناول 1771 ء میں شائع ہوا تھا۔
ویانا کا ' ڈان کرزیو ' لکھتا ہے: '۔۔۔ اشرافیہ اس رقص کی دیوانی ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور وہ پاگلوں کی طرح ناچتی تھی۔۔۔۔ '۔ 1780کی دہائی میں یہ رقص نہ صرف ویانا کی اشرافیہ میں مقبول ہوا بلکہ آنے والے کچھ برسوں میں یہ دیگر ممالک میں بھی پھیل گیا اور 1790 کی دہائی کے آغاز میں یہ برطانیہ میں بھی مقبول ہوا۔
لارڈ بائرن بھی اس رقص کے خلاف تھا اور اس نے اس رقص کا اپنی ایک تحریر میں مذاق بھی اڑایا جو 1813 ء میں شائع ہوئی۔ اس پر اس کا نام موجود نہ تھا۔
1825ء تک اس رقص کی جو تعریف ' آکسفورڈ انگلش لغت ' میں کی جاتی تھی اس میں اسے ' فسادی اور غیر مہذب ' قرار دیا جاتا رہا تھا۔
' اینی برونٹے ' بھی اپنے ناول ' وائلڈ فیل ہال کا کرایہ دار ' ( The Tenant of Wildfell Hall ) میں اس رقص کی نِندا کرتی نظر آتی ہے۔ اس کا یہ ناول 1848ء میں شائع ہوا تھا۔
اس سب کے باوجود ' والز ' نہ صرف وسطی یورپ کا ایک مشہور رقص ہے بلکہ یہ بقیہ یورپ ، امریکہ ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی رقص گاہوں یعنی بال روم میں ناچا جاتا ہے۔ یوں تو اب اس کی بہت سی شکلیں ہیں لیکن ایک واضح تفریق یوں کی جاتی ہے ؛ ویانا کی طرز کے یہ رقص تیز جبکہ امریکی والز اپنی سست حرکت کی وجہ سے پہچان رکھتے ہیں۔

ویسے تو اس رقص کے لئے بہت سے کلاسیکی موسیقاروں نے موسیقی ترتیب دی جن میں آسٹرین فرانزپیٹر شوبرٹ (Franz Peter Schubert) ، جوہان سٹراس دوم ( Johann Strauss II) اور فریڈرک شوپِن ( Frédéric Chopin) جیسے کئی اہم ہیں لیکن اس رقص کے لیے لکھی ' Valurile Dunarii ' ایک دھن ' ڈینیوب کی لہریں ' ( Waves of the Danube ) نے ایک طویل سفر کیا اور اس نے دنیا بھر میں اپنا اثر چھوڑا ہے۔
یہ دھن ایک رومانین فوجی بینڈ ماسٹر آیون ایوانووچی ( Ion Ivanovici ) جو ' جوزف ایوانووچ ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، نے 1880 ء میں ترتیب دی تھی۔ وہ 1845 ء میں پیدا ہوا اور 28 ستمبر 1902ء کو بخارسٹ ، رومانیہ میں فوت ہوا۔ وہ خود ایک اچھا بانسری نواز تھا اور اسے کلارنٹ بجانے میں بھی مہارت حاصل تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں مختلف رقصوں کے لئے 350 سے زائد دھنیں لکھیں ، جنہیں دنیا بھر کےلگ بھگ ساٹھ ناشروں نے شائع کیا۔ 1889ء میں اس کے بینڈ نے پیرس میں منعقد ہوئی عالمی نمائش میں 116 بینڈز کے مقابلے میں اول انعام حاصل کیا۔ وہ 1900 ء میں رومانیہ کی فوجی موسیقی کے حوالے سے ریاستی انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوا اور مرتے دم تک اسی پر کام کرتا رہا۔

' ڈینوب کی لہریں ' نامی یہ دھن پہلی بار بخارسٹ میں شائع ہوئی اور ایوانووچی نے اسے اپنے ناشر کی بیوی ایما کے نام منسوب کیا۔ فرانسیسی موسیقار ' ایمل واڈتیوفل ( Émile Waldteufel) نے اسے 1886ء میں پہلی بار آرکسٹرا کے ساتھ بجایا اور پھر اسے دنیا بھر سے آئے لوگوں کے سامنے پہلی بار 1889ء میں پیرس کی عالمی نمائش (Exposition Universelle ) میں پیش کیا۔ یہ نمائش چھ ماہ تک جاری رہی تھی اور اس دوران یہ سب سے زیادہ پسند کی جانے والی دھن رہی اور اس میں سو سے زائد پیش کی جانے والی دھنوں میں سے بہترین قرار پائی۔ امریکہ میں یہ دھن 1896ء میں پہلی بار جبکہ 1903ء میں دوبارہ شائع ہوئی۔

1926 ء میں اسے کورین گلوکارہ ' یُن سِم۔ ڈوک ( Yun Sim-deok) نے اپنی پیانو نواز بہن کی سنگت میں اپنا ہی لکھا ایک کورین المیہ گیت ' In Praise of Death ' گایا۔ یہ گیت اوساکا ، جاپان میں ریکارڈ ہوا تھا ؛ رومانیہ کی یہ دُھن جاپان کی غلامی میں گرفتار کوریا میں کیسے پہنچا یہ استعماریت کی ایک الگ کہانی ہے۔
یُن سِم۔ ڈوک 25 ، جولائی 1897 ء میں پیدا ہوئی . یہ جوسن (Joseon) بادشاہت کے آخری ایام تھے ملکہ ' مِن ' قتل ہو چکی تھی اور اکتوبر 1897 ء میں بادشاہ ' گوجونگ ' (Gojong) نے خود کو کوریا کا شہنشاہ بنا کر کورین سلطنت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جب ' یُن ' ابھی آٹھ سال کی تھی تو ' گوجونگ ' جاپانی اثر ، جو 1876ء سے دن بدن بڑھتا جا رہا تھا ، کے تحت کوریا کو جاپان کی حفاظت میں دے چکا تھا ؛ جاپان نے اگست 1910ء میں کوریا کو اپنی مکمل عملداری میں لے لیا تھا۔

جاپانی اثر سے آزاد ہونے کے لئے ' کورین آزادی تحریک ' جاپانی ' میجی ' بادشاہت کے زمانے سے ہی موجود تھی۔ ' یُن ' اس کوریا میں پلی بڑھی جو جاپان کی غلامی میں تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئی ، موسیقی کی دلداہ ' یُن ' نے ٹوکیو میوزک سکول سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ وہاں وہ اپنی تعلیم کے دوران دوسرے بہت سے کورین طلباء جو کورین زبان و کلچر کی بقا کے لئے سرکرداں تھے ، سے ملتی رہتی۔ آزاد خیالات رکھنے والی یُن ، جسے سب ' ٹام بوائے ' کہتے تھے ، کے بارے میں کئی سکینڈل بھی پھیلے لیکن اس نے ان کی پرواہ نہ کی۔ 1921ء میں وہ ایسے ہی کچھ لوگوں کے ساتھ شامل ہوئی جو جاپانی ثقافت پر کورین ثقافت کو ترجیح دیتے تھے ؛ جاپانی حاکم یہ چاہتے تھے کہ کورین زبان و کلچر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور وہ کورین لوگوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ جاپانی کورین زبان و کلچر کو اپنائیں۔ یہ طالب علم کورین زبان میں ڈرامے کرتے اور مختلف آبادیوں میں جا کر انہیں پیش کرتے۔ اسی مہم میں وہ ' کِم یو۔ جِن ' سے پہلی بار ملی۔ اس وقت کِم ' وسیڈا ' یونیورسٹی ، ٹوکیو میں انگریزی کا طالب علم تھا ؛ وہ اب کوریا کا پہلا ادبی نقاد اور ڈرامہ نویس گردانا جاتا ہے جسے انگریزی ادب پر مکمل عبور تھا ؛ وہ ایک عمدہ شاعر بھی تھا۔ ' یُن ' کے برعکس ' کِم یو۔ جِن ' ایک بڑے جاگیردار کا بیٹا تھا اور پہلے سے ہی شادی شدہ تھا۔ اس کی بیوی اس کے آبائی گاﺅں میں اس کے خاندان کے ساتھ رہتی تھی۔ مہم میں دو ماہ کے ساتھ نے یُن کو کِم کی محبت میں مبتلا کر دیا۔ یہ ایک ایسا تعلق تھا جو دیگر الوہی و غیر الوہی مذاہب کی طرح ' کنفیوشس ازم ' میں بھی ناجائز و غیر اخلاقی گردانا جاتا تھا۔
وہ 1923ء میں وطن لوٹی اور جلد ہی کوریا کی پہلی پیشہ ور مغینہ (soprano) بنی جو کلاسیکی مغربی موسیقی میں کورین گیت گا کر روزی کماتی تھی۔ یہ گائیکی کچھ زیادہ پسند نہ کی گئی اوراس کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہا۔ اِس دوران اس کے کچھ سکینڈل بھی آڑے آئے ، اس کا کِم سے تعلق بھی لوگوں پر آشکار ہو چکا تھا۔ بطور مغینہ ناکام ہونے کے بعد اس نے پوپ گلوکارہ اور اداکارہ بننے کی ٹھانی۔ کِم ڈرامہ و ادب میں کیرئیر بنانا چاہتا تھا ، وہ یُن سے بھی ملتا رہا ، لیکن خاندان کی ہر دو طرح کی مخالفت کے باعث اسے ٹوکیو واپس جانا پڑا ؛ وہ نطشے اور کارل مارکس سے متاثر تھا اور بلاواسطہ طور پر ' کورین تحریک ِ آزادی ' کا حامی تھا۔ ادھر یُن بھی 1926 ء میں نیٹو ( Nitto ) ریکارڈنگ کمپنی کے لئے گانے ریکارڈ کرانے ' اوساکا ' گئی۔ وہ تنگ دستی ، افواہوں اور کِم سے محبت ، لیکن اسے نہ پا سکنے ، کی وجہ سے یاسیت کا شکار بھی تھی۔ اسے یہ ڈر بھی تھا کہ اسے واپس جا کوریا واپس جا کر جاپان سرکار کی مغینہ بننا پڑے گا۔ کِم بھی واپس جا کر باپ کا کاروبار سنبھالنا نہیں چاہتا تھا۔
اسی دوران ' یُن ' نے ' ڈینیوب کی لہریں ' نامی دھن پر ایک گیت لکھا اور کمپنی والوں سے کہا کہ وہ آخر میں یہ گیت بھی ریکارڈ کریں۔ اس نے کِم کو تار بھیجی کہ وہ اسے اوساکا آ کر ملے۔ ادھر یکم اگست 1926 ء کو یُن نے اپنا لکھا گیت ' موت کی تعریف میں ' ریکارڈ کرایا ، ادھر کِم ٹوکیو سے اسے ملنے اوساکا آ گیا ؛ دونوں غم کے بادلوں میں گھرے تھے۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔ کشمکش میں گھرے ، دونوں کوریا لوٹنے کے لئے دُخانی بحری جہاز پر سوار ہوئے اور اس سے پہلے کہ جہاز ' بوسن ' ، کوریا پہنچتا ، دونوں نے سمندر میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ غالباً انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ جاپانی استعمار کا غلام کوریا اور کنفیوشس مذہب کے زیر اثر رجعت پسند سماج انہیں ایک دوسرے کا ہونے نہیں دے گا۔ وہ دونوں29 برس کے تھے۔ ' یُن ' نے گیت کے جو بول لکھے تھے وہ کچھ یوں ہیں ؛

زندگی وسیع جنگلی میدانوں میں بھاگتی جاتی ہے
لیکن تم کہاں جا رہی ہو؟
اس اکیلی دنیا میں ، کھردرے اقرار کے سوا کچھ نہیں
تم کس کی متلاشی ہو؟
۔۔۔ دنیا جوآنسوﺅں سے بھری ہے
اور اگر میں مر جاﺅں تو کیا یہ بھی ختم ہو جائے گی
زندگی تو خوشیاں چاہے ہے
لیکن تم تو تنہائی اور خالی پن ہی پا رہی ہو

ان مسکراتے پھولوں اور چہچہاتے پرندوں کےساتھ بھی
تو یہی کچھ ہو رہا ہے
زیست کی غربت زندگی میں در آئی ہے
اور تم چاقو کی تیز دھار پر ناچے جا رہی ہو

اس رقص میں تمرد کے سوا اورکچھ بھی نہیں
کیا تم جانتی ہو کہ تمہیں دھوکہ دیا جا چکا ہے ؟
اس دنیا میں ہر شے ہی بیکار ہے
مرنے پر یہ سب تو نہ ہو گا

اُن کی موت کی خبر کوریا اور جاپان میں آگ کی طرح پھیلی تو ' یُن ' کا گایا گیت جو ' ڈیتھ سونگ ' کے نام سے جانا گیا ، کا ریکارڈ ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں فروخت ہوا۔ یوں یہ وہ نغمہ ہے جو کورین پوپ موسیقی (Trot) میں اولین قرار پایا۔ ان کی موت نے کوریا و جاپان میں ایک نئے رجحان کو بھی جنم دیا ؛ محبت میں ناکام ہونے والے اور ایسے جوڑے جن کو یہ شک ہوتا کہ سماج انہیں ملنے نہ دے گا ' یُن ' اور ' کِم ' کی طرح سمندر میں ڈوب کر خودکشیاں کرنے لگے اور یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔
سائوتھ کوریا میں ' یُن ' پر اسی حوالے سے دو فلمیں بھی بنائی گئیں ؛ 1969 ء میں بننے والی فلم کا نام ہی ' یُن سِم۔ ڈوک ' ہی تھا جبکہ 1991ء میں بننے والی فلم کا نام ' Death Song ' رکھا گیا۔ ساﺅتھ کوریا میں اس پر ایک ٹی وی سیریل بھی ' The Hymn of Death ' کے نام سے 2018 ء میں بنی۔ ظاہر ہے کہ ان سب کورین فلموں میں یہ دھن بار بار سننے کو ملتی ہے۔ میں چند روز قبل سائوتھ کوریا کا ایک سٹیج شو ' Immortal Songs ' ( یہ شو اپریل 2018 ء کا ہے ) دیکھ رہا تھا۔ اس میں ' مِن ووہ یُک ' جو ہم عصر سائوتھ کوریا کا ایک جوان گلوکار ہے۔ اس نے ' In Praise of Death ' کو اپنے انداز میں جس طرح پیش کیا اور جس طرح سے حاضرین ِ شو کے آنسو نکلتے ، میں نے دیکھے ، اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ یُن سِم۔ ڈوک نے ' آیون ایوانووچی ' اور اس کی دھن ' ڈینوب کی لہریں ' کو اور کہیں نہیں تو چپٹی ناک والوں کی دنیا میں لازوال بنا کر رکھ دیا ہے ؛ میں نے یہاں بار بار سائوتھ کوریا کا ذکر کیا ہے کیوں ؟ اس کے ساتھ یہ بات جڑی ہے کہ کوریا دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی ہار کے بعد دو حصوں میں اسی طرح منقسم کر دیا گیا تھا جس طرح جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ سویت یونین نے نارتھ کوریا میں اشتراکی نظام کی بنیاد رکھی جبکہ امریکہ نے سائوتھ کوریا میں سرمایہ داری نظام کو ہوا دی۔

جہاں تک دھن ' ڈینوب کی لہریں ' اور باقی دُنیا کا تعلق ہے ، یہ امریکہ میں نصف صدی گزر جانے کے بعد تب مشہور ہوئی جب 1946ء میں ' ایل جولسن ' ( Al Jolson) اور سال چپلن (Saul Chaplin) نے ' The Anniversary Song ' کے نام سے شائع کیا۔ اس گیت کے بول کچھ یوں شروع ہوتے تھے؛
" او، جب ہماری شادی ہوئی تو اس رات ہم کس دیوانگی سے ناچے تھے۔۔۔ )۔ یہ گیت ' بِل بورڈ ' ( Billboard ) پر 1947ء میں چودہ ہفتے تک دوسرے نمبر پر رہا۔
اس کی کم و بیش بیس دیگر ریکارڈنگز بھی ہیں جن میں ایڈی فشر نے اسے اپنے انداز سے ان بولوں کے ساتھ گایا ؛
" تم نے تو ابھی کچھ سنا ہی نہیں۔۔۔۔ 1968 ء ) اور ٹام جونز کی ریکارڈنگ ان بولوں کے ساتھ ہے ؛
" کہو، تم میرے ساتھ کل تک رہو گی۔۔۔ میں آج کی رات کا سامنا اکیلے نہیں کر سکتا۔۔۔ 1977 ء "

مغربی موسیقی کی دنیا ، کورین فلموں اور گلوکاری میں اس دُھن کی باز گشت کا احوال تو آپ اوپر پڑھ چکے ، بقیہ فلمی دُنیا اور گلوکاری بھی اس کے اثر سے بچ نہ سکی۔ 1931ء میں امریکہ میں بننے والی فلم ' Dishonored ' میں ہدایتکار ' جوزف وان سٹیمبرگ ' نے پیانو پر کئی جگہ استعمال کیا۔ بعد ازاں 1934ء میں اسے فلم ' The Circus Clown ' میں برتا۔ 1946 ء ، 1947ء اور 1949ء میں یہ ایل جولسن کے حوالے سے ویڈیوز کی زینت بنی۔ ' Valurile Dunarii ' نام سے بنی رومانین فلم میں بھی یہ دھن برتی گئی ؛ یہ 1959ء میں بنی تھی۔
1968ء میں بنی ، بیٹی ڈیوس کی بلیک کامیڈی فلم ' The Anniversary ' میں بھی اسے برتا گیا۔ اسی برس یہ فلم ' Mayerling‘ میں بھی استعمال ہوئی۔
’Falling in Love Again‘ سٹیون پال کی ایک اہم فلم ہے جو 1980ء میں بنی جس میں موسیقار میچل لیگراڈ نے اس دھن کو برتا تھا۔
یہ دھن 1985ء میں بنی فلم ' When Father Was Away on Business ' میں بھی سنائی دیتی ہے۔ بیری لیوِنسن کی 1990ء کی فلم ' Avalon ' میں بھی اس دھن کا چمتکار نظر آتا ہے۔ 1999 ء میں یہ فلم ' Payback‘ میں بھی برتی گئی۔
اور تو اور جاپان میں بھی اسے پہلے 1949ء میں فلم ' Nora inu ' ( Stray Dog ) میں استمعال کیا گیا ؛ یہ فلم جاپان کے صف اول کے ہدایتکار اکیرا کورو ساوا نے بنائی تھی بعد ازاں 1986 ء میں بنی فلم ' Rakuyoju‘ میں بھی اس دھن پر ایک گیت کمپوز ہوا۔
اکیسویں صدی چڑھی تو بھی یہ دھن اپنی مقبولیت کھو نہ پائی اور 2000 ء میں ڈچ اینیمیٹڈ فلم ' Father and Daughter ' میں یہ دھن بیک گراﺅنڈ میوزک کے طور پر استعمال ہوئی۔ اس فلم نے آسکر بھی جیتا۔
' A Guy Thing ' امریکہ کی ایک کامیڈی فلم ہے جس میں یہ دھن پھر سے برتی گئی ، یہ 2003 ء میں ' کرِس کوچ نے بنائی تھی۔

برصغیر پاک و ہند میں بھی ایک فلم میکر ، راج کپور ، اس دھن کا شیدائی تھا ، کیوں یہ کھوجنا ابھی باقی ہے کیونکہ اُس کی فلموں میں موسیقار الگ الگ رہے ہیں ( فلم ' برسات ' کا میوزک شنکر جے کشن نے دیا تھا ، ' میرا نام جوکر ' کا شنکر جے کشن نے ، اور ' بوبی ' کا لکشمی کانت۔ پیارے لال نے ) ایسے میں لگتا ہے کہ ماسٹر دھن کا انتخاب راج کپور کا ہی ہو گا۔
راج کپور : ' برسات ' کا وائلن پر یہ دھن بجاتا ' پران ' ، ' میرا نام جوکر ' کا ' راجو ' ؛ جس نے ' ڈینوب کی لہریں ' کو اپنی فلم ' برسات ' 1949ء سے لے کر ' دھرم کرم ' 1975ء تک ، کئی فلموں میں استعمال کیا۔

فلم ' میرا نام جوکر‘ ، 1970 ء جہاں ایک طرف اُس تھیم سے متاثر تھی ، جس پر 1934ء میں فلم ' The Circus Clown ' کے نام سے بنی تھی ( گو یہ راج کپور کی اپنی زندگی ، اپنی زندگی میں آئی عورتوں ، اپنی بزدلی ؛ خاص طور پر نرگس سے محبت کے معاملے میں اور اپنے فلمی سفر کے واقعات سے بھی جڑی ہے ) تو دوسری طرف اس کا گیت ' جینا یہاں مرنا یہاں۔۔۔ ' کا تعامل اسی دُھن پر شنکر جے کشن نے کمپوز کیا تھا۔ اس گیت کو ' شیلندر ' نے لکھا تھا۔ شیلندر نے بھی یہ گیت لکھ کر اردو / ہندی جاننے والوں کو ایک ایسے گیت سے نوازا جو اس دُھن کی لے پر رومانین آیون ایوانووچی کو ہم دیسیوں کے لئے بھی لازوال کر گیا۔
میرے ہم عصر زمانے تک ' In Praise of Death ' ، ' The Anniversary Song ' اور ' جینا یہاں ، مرنا یہاں اور اس کے سوا جانا کہاں۔۔۔ ' اس دُھن کو لازوال بنائے ہوئے ہیں۔
والز کہاں شروع ہوا ، دھن کہاں بنی ، ان دونوں کا سنگم کہاں ہوا اور یہ اپنا سفر طے کرتی ، کہاں کہاں تک پہنچی اور ، نجانے ، اور آگے کہاں کہاں تک جائے گی۔

***
Qaisar Nazir Khawar
Lahore, Pakistan.
قیصر نذیر خاور

Waves of the Danube by Valurile Dunarii. Article: Qaisar Nazir Khawar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں