ایڈووکیٹ شاہد اعظمی - اس کا یہ جرم کہ وہ خواب سچ کے دیکھتا تھا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-13

ایڈووکیٹ شاہد اعظمی - اس کا یہ جرم کہ وہ خواب سچ کے دیکھتا تھا

shahid-azmi-adv
اس کا یہ جرم کہ وہ خواب سچ کے دیکھتا تھا
ایڈووکیٹ شاہد اعظمی جس نے دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کی داغ بیل ڈالی


ملک میں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کئے جانے والے مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی کی ابتداء کرنے یا یوں کہئے کہ اس کی داغ بیل ڈالنے والے ایڈووکیٹ شاہد اعظمی کا قتل ہوئے آج ۹سال کا عرصہ گزر گیا۔وہ صرف ۳۳ سال کاتھا کہ ۱۱؍فروری ۲۰۱۰ کو اس چراغ کو ممبئی کے کرلا میں واقع اس کی رہائش گاہ پر ہی گولی مار کر ہمیشہ کے لئے بجھادیاگیا تھا، جس کے دم سے کئی بے قصور محروسین کے گھروں میں امید کی کرن روشن تھی ۔ شاہد اعظمی کا جرم یہ تھا کہ وہ جھوٹ کے کاروبار میں سچ کی پیروی کرتا تھا یعنی کہ جھوٹ اور شک کی بنیاد پر دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کئے جانے والوں کی سچائی عدالت کے روبرو رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔اس کی یہ کوشش ان بہتوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرتی تھی جو دہشت گردی پر نہ صرف مسلمانوں کی کاپی رائیٹ سمجھتے تھے بلکہ اس تصور کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے شب ورز لگے رہتے تھے اور آج بھی لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس چراغ کو بجھادینے سے ان کی سیاہ کاری پر کوئی روشنی ڈالنے والا نہیں رہے گا ،لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ رات جب خورشید کو شہید کردیتی ہے تو صبح ایک اور نیا سورج تلاش لاتی ہے۔
شاہد اعظمی کے قتل کے بعد صرف ممبئی ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں سچائی اور جوانمردی کے سیکڑوں نئے سورج طلوع ہونے شروع ہوئے اور جن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایڈووکیٹ محمود پراچا، ایڈووکیٹ یوسف مچھالہ، ایڈووکیٹ محمد شعیب،ایڈووکیٹ تہورخان پٹھان، ایڈوکیٹ ایم ایس خان،ایڈووکیٹ سالم نوید،ایڈووکیٹ نتیا راما کرشنن، ایڈووکیٹ ارشاد حنیف،ایڈوکیٹ وہاب خان، ایڈووکیٹ شریف شیخ، ایڈووکیٹ ارشاد علی،ایڈووکیٹ اعجاز مقبول،ایڈووکیٹ شاہد امام،ایڈووکیٹ یوگ موہیتے چودھری،ایڈووکیٹ اسد حیات اور اسی طرح سیکڑوں سورج ملک کے طول وعرض میں طلوع ہوئے ہیں اور طلوع ہورہے ہیں جن کے نام بھی اگر یہاں پیش کئے جائیں تو یہ مضمون ناکافی ہوجائے گا۔شاہد اعظمی کی موت نے سچائی کے لئے لڑنے والوں کو وہ حوصلہ دیا کہ آج ملک کے ہرشہر میں ایسے وکلاء کی فوج تیار ہوگئی ہے جو دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی فوقیت کی بنیاد پر کرتی ہے اور ان میں سے بیشتر میں وہ کامیابی حاصل کرتی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ نچلی عدالتوں سے لے کر بالاعدالتوں تک سے ان ملزمین کی رہائی کا ریشو ۹۰ پلس ہے۔
ایڈووکیٹ شاہ اعظمی دہشت گردی کے الزام میں قید کئے جانے کا تجربہ رکھتا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کن بنیادوں پر یہ گرفتاریاں ہوتی ہیں اوراگر ان کا کاؤنٹر کرنا ہوتو کن گراؤنڈ پر کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہد اعظمی نے جب دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کی تو ایجنسیوں کے پاس اس کے دلائل کا کوئی جواز نہیں ہوتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ محض ۶ سالوں میں شاہد اعظمی کی کوششوں سے ۱۷؍سے زائد لوگوں کو رہائی ملی۔ہندوستان کے عدالتی تاریخ میں اس قدر موثر پیروی کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہ معاملہ گھاٹکوپر بس بم دھماکہ کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں ۱۸؍مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ بم دھماکہ ۲ دسمبر ۲۰۰۲ میں ہوا تھا جس میں ۲؍لوگوں کی موت ہوئی تھی اور ۵۰ سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ لیکن اس بم دھماکہ کے الزام میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا وہ محض شک کی بنیاد پر تھا اورٹارچر کرکے ان سے جرم قبول کرایا گیا تھا۔ جب شاہد اعظمی نے ان کی پیروی شروع کی تو نچلی عدالت سے ہی ۹ لوگ بری ہوگئے جبکہ ۸دیگر کو ٹاڈا عدالت نے بری کردیا تھا۔ اس معاملے میں گرفتار پربھنی کے خواجہ یونس کی پولیس حراست میں ہی موت ہوگئی تھی۔ خواجہ یونس کے حراستی موت کے مقدمے کی پیروی بھی شاہد اعظمی نے شروع کی تھی، لیکن قضا نے انہیں اس کی مہلت نہیں دی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے کے اصل مجرمین ہنوز پولیس کی گرفت سے آزاد ہیں اور پولیس نے جنہیں گرفتار کیا تھا، ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
شاہد اعظمی جیسے لوگ برسوں میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنی چھاپ سے ایک پوری نسل کو متاثرکرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ شاہد کا موروثی گاؤں اعظم گڑھ ضلع کا ابراہیم پور تھا لیکن اس کی پیدائش ممبئی میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے پانچ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھا۔ شاہد اعظمی دو بار گرفتار ہوا تھا۔ پہلی بار بابری مسجد کی شہادت کے بعد اور دوسری بار ۱۹۹۴ ٹاڈا کے تحت ۔وہ دہلی کے تہاڑ جیل میں ۷ سال تک رہا،جہاں اس نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ شاہد نے صرف انہیں ملزمین کے مقدمات کی پیروی نہیں کی جنہیں ۱۱؍۲۶ کے ممبئی حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور جن کے مقدمات کی پیروی کے لئے کوئی دوسرا وکیل تیار نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ اس نے ان نوجوانوں کے مقدمات کی بھی پیروی کی جو دہشت گردی کے الزام میں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ کیونکہ اس وقت یہ ایک عام سوچ تھی کہ یہ گرفتارشدگان واقعی دہشت گرد ہیں اور ان کی پیروی کرنا بھی دہشت گردی ہے۔
دہشت گردی کے بے قصورملزمین کے مقدمات کی پیروی کرنے والے جمعیۃ علماء ارشد مدنی گروپ کے لیگل سیل کے سربراہ گلزار اعظمی کے مطابق اس کی داغ بیل مرحوم شاہد اعظمی نے ڈالی اور ہمیں اس اہم کام کی جانب متوجہ کیا کہ ہم بے قصور محروسین کی پیروی کریں۔ شاہد اعظمی صرف ایک وکیل نہیں تھا، بلکہ وہ محروسین کے گھروں کا ایک فرد بھی تھا، جس کی وجہ سے گرفتارشدگان کے اہلِ خانہ کی زندگیوں میں امید کی کرن روشن رہا کرتی تھی۔ شاہد اعظمی نے مولانا ارشد مدنی سے ملاقات کی تھی اور ان کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ اس وقت ۱۱؍۲۶، ارونگ آباد اسلحہ ضبطی کیس اور مالیگاؤں بم دھماکہ کے مقدمات عدالتوں میں تھے اور ان کی پیروی کے لئے کوئی آگے نہیں آرہا تھا۔ اس طرح کے مقدمات کی پیروی کرنے والوں پر حملے ہورہے تھے اور جو لوگ یہ کام کررہے تھے، انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ مرحوم شاہد اعظمی نے دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی کا معاملہ مولانا ارشدمدنی کے سامنے اٹھایا جس کے بعد مولانا نے مشاورت کے بعد اس کی پیروی کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ جمعیۃ علماء کو اس اہم کام کی جانب متوجہ کرانے کا سہرا مرحوم شاہد اعظمی کے ہی سر جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔یوٹیوب پر شاہد اعظمی کی تقاریر کی کچھ ویڈیوز موجود ہیں، جن کو سننے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کی معلومات رکھنے اور اس معلومات میں بصیرت رکھنے کے درمیان کیا فرق ہے۔
شاہد اعظمی کا قتل ہوئے آج ۹ سال ہوگئے ، لیکن افسوس کہ سچائی اور ایمانداری کے لئے اپنی جان قربان کرنے والے شاہد کا مقدمے کا ٹرائل آج تک شروع نہیں ہوسکا ہے۔ گوکہ اس کے ۴ قاتل گرفتار ہوچکے ہیں ، مگر ابھی تک ان پر فرد جرم تک عائد نہیں ہوسکا ہے۔ بے قصوروں اور مظلوموں کی آواز بن کر ابھرنے والے شاہد اعظمی کی خدمات کو اس کی ۹ ویں برسی پر ہم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں ، اپنا لہو دے کر اس نے جن چراغوں کو روشن کیا ہے، انہیں میں سے کوئی ایک چراغ اس کے قاتلوں کو قرارواقعی سزادلانے کے لئے اٹھ کھڑاہوگا۔ شاہد ہم تمہیں سلام کرتے ہیں۔ ظلم وناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی جو بیج تم نے بویا تھا، جنت سے ذرا جھانک کر دیکھ لینا کہ وہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

***
aazam.shahaab[@]gmail.com

Remembering Shahid Azmi: Justice delayed is justice denied. Article: Aazam Shahaab

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں