کاسٹ اوے - انگریزی فلم کا ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-26

کاسٹ اوے - انگریزی فلم کا ایک جائزہ

cast-away
فلم کا نام: کاسٹ اَووے - Cast Away
فلم کی نوعیت: ایڈونچر / ڈرامہ
ڈائریکٹر: رابرٹ لی ذمیکس [Robert Lee Zemeckis]
مرکزی اداکار: ٹام ہینکس [Tom Hanks] ، ہیلن ہنٹ [Helen Hunt]
فلم کی ریٹنگ: 7.7 IMDB

جدید زمانے میں انسان شہد کی مکھیوں کی طرح دن رات مصروف عمل ہے۔ اسے لگتا ہے کہ شب و روز کی اس انتھک محنت سے وہ اپنی زندگی کو زیادہ آسان اور خوشگوار بنا سکتا ہے مگر انسان تھک بھی جاتا ہے بقول عبدالحمید:
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں

ایسے میں کبھی اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ قدرت کی گرم آغوش میں ذرا دیر کو سستا لے۔ کسی ایسی جگہ پر جائے جہاں تنہائی کے گہرے سائے اپنے قد سے بھی لمبے ہوں؛ جہاں خاموشی اس عورت کی طرح بے سُدھ لیٹی ہو جسے دن بھر آرام میسر نہ آیا ہو؛ جہاں ہیبت ناک سمندر کے ڈر سے جوان لہریں بھاگ کر حسین ساحلوں کے گلے آملیں اور وہ انھیں خود میں جذب کر لے؛ کسی ایسی جگہ جہاں لیٹ کر انسان تاروں بھری کالی چادر کے ان گنت تاروں کو گننے کی ناکام سی کوشش کرے؛ ایسی جگہ جہاں سمندر سے آتی تیز ہوا پیشانی کو چھو کر چوم لے اور اس کی ساری تھکان اتار دے۔ بقول وصی شاہ:
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردو

مگر کیا ایسی جگہ پر لامحدود وقت کے لیے ٹھہرا جاسکتا ہے؟ قدرت کے ان حسین نظاروں کے ہوتے ہوئے بھی کیا کوئی ایسی جگہ پر زندگی بھر رہنا چاہے گا؟ ایسی جگہ جہاں کوئی اپنا تو کیا غیر بھی نہ ہو۔ سُکھ تو درکنار کوئی دُکھ دینے والا بھی میسر نہ ہو۔ جہاں جدید وقت کی نا کوئی آسائش ہو نا سہولت اور جہاں سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ تو درکنار اُمید کی کوئی ٹمٹماتی ہوئی لو بھی نہ ہو بقول آسی الدنی:
کہتے ہیں کہ امید پہ جیتا ہے زمانہ
وہ کیا کرے جس کو کوئی امید نہیں ہو

یہ فلم ایک کردار چک رولینڈ (ٹام ہینکس) کے گرد رقص کناں ہے جو کہ ایک نہایت شریف، ذہین اور محنتی انسان ہے جس نے غربت کےچانٹے اپنے بچپن کے گالوں پر سہے ہیں۔ چک فیڈ ایکس نامی ایک کمپنی میں کام کرتا ہے۔ اس کمپنی میں اسے بہت عزت اور شہرت حاصل ہے جو چک رولینڈ نے بہت محنت سے کمائی ہے یہاں تک کہ ایک بار گاڑی کے خراب ہونے کے باوجود اس نے مانگے کی سائیکل پر لوگوں کو ان کی اشیاء اور ڈاک پہنچائی۔ چک وقت کا بہت پابند ہے جس کے بارے میں وہ کہتا ہے:
"اسی وقت کے تحت ہم جیتے اور مرتے ہیں"

یہ جملہ وہ دو مواقع پر بولتا ہے ایک جب اس کے پاس زندگی میں سب کُچھ ہوتا ہے وقت کے سوا اور دوسرا تب جب اس کے پاس زندگی میں کچھ بھی نہیں وقت کے سوا۔ بقول ناصر کاظمی:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کرزندگی پڑی ہے ابھی

چک ایک لڑکی کیلی (ہیلن ہنٹ) سے پیار کرتا ہے جو کہ پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ دونوں میں بہت محبت ہے اس محبت کا عالم کیا ہوگا جہاں محبوب بھی عاشق کی اتنی ہی پرستش کرے جتنا عاشق کرتا ہے وہی وارفتگی وہی عالم بےخودی، وہی دیوانگی بقول شکیل رضوی:
اس مرض کو مرض عشق کہا کرتے ہیں
نہ دوا ہوتی ہے جس کی نہ دعا ہوتی ہے۔

کرسمس کی ایک شام وہ کیلی کو شادی کی پیشکش کرتا ہے جسے کیلی قبول کر لیتی ہے مگر تبھی اسےکمپنی کے کام سے ملائیشیا میں ہونے والی ایک مشکل کے حل کے لیے جانا پڑتا ہے وہ کیلی سے واپس آنے کا کہ کر فیڈ ایکس کے ایک سامان والے جہاز میں سوار ہوجاتا ہے۔ اس جہاز کو بحراوقیانوس سے گزرنا تھا جو کہ سات سمندروں میں سب سے بڑا اور گہرا ہے بقول محمد احمد:
سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے

اس سفر کے دوران جہاز خراب موسم کے باعث سمندر میں گر کر تباہ ہوجاتا ہے مگر خوش قسمتی سے چک بچ جاتا ہے مگر بدقسمتی سے صرف ایک لائف بوٹ کے سوا اس کے پاس کچھ بھی نہیں اس وقت چک تنہا ہے مگر ہمت نہیں چھوڑتا بقول عبدالحمید عدم:
بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی
ڈوبنے والے تیرے ہاتھ سے ساحل تو گیا

چک تو صرف ایک انسان ہے جس کا مقابلہ خون جماتی سردی سے ہے، گھٹا توپ اندھیرا اور نوکیلی بارش کی بہتات سے ہے۔ اس پر سمندرجو کسی دیو کی طرح اسے نگل لینا چاہتا ہے مگر چک بھی ہیمنگوے کے کردار اولڈ مین کی طرح ہار ماننے کو تیار نہیں۔ اولڈ مین اینڈ دا سی میں اولڈ مین کہتا ہے:
" ایک انسان کو کُچلا تو جا سکتا ہے اسے شکست نہیں دی جاسکتی"

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
(بسمل عظیم آبادی)

سمندر کی لہریں چک کو ایک جزیرے پرلا پھینکتی ہیں جہاں اسے پہنچ کر اسے اپنی تنہائی کا احساس بہت شدت سے ہونے لگتا ہے بقول افتخارعارف:
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے

لیکن اس جزیرے پر صرف تنہائی ایک زہریلی ناگن نہیں جو اس کو ڈس سکتی ہے وہا ں نا پینے کا پانی ہے نا کوئی غذائی اجناس۔ ہڈیوں کے گودے تک اتر جانے والی سردی میں بھی اس کے پاس آگ جلانے کے لیے کوئی وسائل نہیں۔ چَک کی آنکھوں میں غربت اور خوف کے سائے ہیں اور وہ ایک ہی سوال کی تصویر بنا نظر آتا ہے بقول شکیل بدایونی کے:
یہ کس خطا پہ روٹھ گئی چشم التفات
یہ کب کا انتقام لیا مُجھ غریب سے۔

سمندر کی لہریں اس بدقسمت جہاز کے بد نصیب پائلٹ کی لاش ساحل پر پھینک دیتی ہیں جسے چَک دفنا دیتا ہے یہ ایک بڑا تکلیف دہ عمل ہے مگر اتنا سب ہوجانے کے بعد چَک کے لیے یہ کوئی انہونی بات نہ رہی بقول اسد اللہ خان غالب:
رنج سے خُو گر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مُجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

یہ موجیں فیڈیکس [Fedex] کے کُچھ پارسل بھی ساحل پر ڈال جاتی ہیں جن کو نہ چاہتے ہوئے بھی چَک کھولنے پر مجبور ہوجاتا ہے جن میں سے ایک والی بال بھی ملتا ہے چُونکہ یہ ولسن کمپنی کا بنا ہوا والی بال ہے اس لیے چَک بھی اسے وِلسن ہی پکارتا ہے ۔ یہی ولسن چک کی تنہائی دور کرنے کا سبب بنتا ہے وہ اس سے باتیں کرنے لگتا ہے اور اسے اپنا دوست سمجھ لیتا ہے جس سے وہ اپنے دل کی بات کہ سکتا ہے ۔بقول شاعر:
زمانے بھر کو مُبارک خوشی کا عالم ہو
ہمارے واسطے اے دوست تم کہاں کم ہو

اب ان حالات میں وہ کیسے اپنی بقاء کی جنگ لڑتا ہے؟؟ کیا یہ سب سختیاں اس کا حوصلہ اور اُمید توڑ پائیں گی؟ کیا وہ زندہ رہ سکے گا؟ کیا وہ کبھی اس جزیرے سے واپس اپنی کیلی کے پاس جا سکے گا؟ کیا کیلی اس کا انتظار کرے گی؟؟بقول خمار بارہ بنکوی:
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے اعتبار مجھے

ان سب سوالات کے لیے ٹام ہینکس کی شاہکار فلم کاسٹ اَووے دیکھیے۔
ٹام ہینکس کی تمام فلموں میں یہ فلم اس کی اداکاری کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہے ۔ فلم کا کیمرہ ورک بہت ہی کمال ہے اور ڈائریکٹر نے فلم کے ایک ایک حصے پر محنت اور مہارت کی مہریں ثبت کی ہیں ۔ ہیلنٹ ہنٹ کی اداکاری بھی بے مثال ہے ۔
دو گھنٹے بیس منٹ کی اس فلم میں بہت بار آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ بھی چَک کے ساتھ جزیرے پر ہیں اُس کی ہر تکلیف ہر ایک پریشانی پر آپ تڑپ اُٹھیں گے۔ مُجھے تو ایسا لگا جیسے میری روح اُس جزیرے پر ہے جو چَک کے اوپر بیتا وقت دیکھ تو سکتی ہے مگر اُس کے لیے کوئی کُچھ نہیں کر سکتی ۔

A review on Tom Hank's movie "Cast Away" (Hollywood film).

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں