کہانیاں رہیں نہ کردار - یہ عجب دورِ خود فراموشی ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-23

کہانیاں رہیں نہ کردار - یہ عجب دورِ خود فراموشی ہے

no urdu stories these days
"کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا"۔۔
"کسی ملک میں ایک بڑھیا رہتی تھی"۔۔ ۔
"کسی جنگل میں ایک لومڑی تھی جس کی چالاکی دور دور تک مشہور تھی"۔۔ ۔
"پرانے زمانے میں ایک چغل خور وزیر تھا"۔۔ ۔
وغیرہ۔۔ ۔
زمانۂ قدیم سے لے کر چند دہائی پہلے تک، گھروں کے بچے ایسی کہانیاں سنتے سنتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچتے اور پھر دوسرے دن موقع پا کر دریافت کرتے تھے کہ:
"پھربادشاہ کا، اس لومڑی کا، اس وزیر کا اور اس بڑھیا کا، کیا انجام ہوا؟"
حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں بچوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالتی تھیں۔ اسی لئے کہانیاں لکھی گئیں، کہانیاں پڑھی گئیں، کہانیاں سنائی گئیں۔ اسی لئے کہانیاں لکھی گئیں، کہانیاں پڑھی گئیں، کہانیاں سنائی گئیں۔ کہانیوں نے سینہ بہ سینہ سفر کیا، کہانیاں زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں، کہانیاں فلم کے قالب میں ڈھلیں اور کہانیاں مختلف کرداروں کے ذریعہ اسٹیج پربیان کی گئیں۔ کہانیوں کی غیر معمولی طاقت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں مگر حقیقت سے عاری بھی نہیں ہوتیں۔ ان سے ذہنوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
کہانیوں ہی نے کتنوں کو بہادر بنایا، کتنوں کو ایمانداری سکھائی، کتنوں میں عدل و انصاف کا مادہ پیدا کیا، کتنوں کی قوت تخیل میں اضافہ کیا اور کتنوںں کی شخصیت میں وہ اوصاف پیدا کئے کہ جن کا ایک زمانہ معترف ہوا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ دنیاداری میں مبتلا ہونے کے بعد کہانیوں اور ان کی طاقت کو بھول گئے ہیں۔ 'ساس بہو' میں الجھ گئے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جنہیں وہ کسان یاد ہو گا جس کے سات بیٹے تھے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور جنہیں کسان نے ایک ایک لکڑی لانے کے لئے کہا تھا۔ اتحاد کی ضرورت کل سے زیادہ آج ہے مگر وہ کہانی جو اتحاد کا سبق دیتی تھی بھلا دی گئی۔ یاد رہتی تو ممکن تھا کہ اتحاد عنقا نہ ہو جاتا۔ میں اسٹریم میں رہنے کی ضرورت برسوں کے تغافل کے بعد آج محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ لوگ باگ وہ کہانی بھول گئے جس میں مرغی کے بچے ساتھ ساتھ رہتے تھے سوائے ایک بچے کے۔ اسے چیل اٹھا کر لے گئی تھی۔ ہمیں تو وہ دفینے بھی یاد نہیں جنمیں سیکڑوں اشرفیاں ہوتی تھیں۔ ایک کہانی میں بتایا گیا تھا کہ اس کی تلاش میں بہتوں نے اپنا وقت گنوایا مگر وہ اس فقیر کے ہاتھ لگا جس نے کبھی ایک اشرفی کی بھی تمنانہیں کی تھی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے میں آج یہ کون سا موضوع لے کر بیٹھ گیا۔ آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں، اس لئے کہ ہماری آپ کی زندگیوں میں کہانیوں کی جگہ نہیں رہ گئی ہے۔ نہ کہانیاں پڑھی جاتی ہیں نہ سنی جاتی ہیں، نہ ان سے استفادہ کیا جاتا ہے جب کہ بچپن میں سنی اور پڑھی جانے والی کہانیوں نے لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں اور انہیں مقصد حیات عطا کیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کہانیاں وقت گزاری کا ذریعہ تھیں یا بچوں کو سلانے کی کوشش میں سنائی جاتی تھیں، وہ غلط نہیں مگر مشہور شخصیات کی سوانح پڑھ لیجئے، درجنوں مثالیں مل جائیں گی کہ ان پر بچپن کی کسی کہانی کا اثر سب سے زیادہ رہا۔

اور بچوں کی قوت متخیلہ کو کیوں فراموش کیا جائے۔ ایک سندباد جہازی کا کردار، کہانی سننے والے ہربچے کے ذہن میں مختلف ہوتا تھا۔ ایک الہ دین کا کردار، ہر بچے کو مختلف انداز میں متاثر کرتا تھا۔ آئیے، اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھیں۔ دو ایسے طالب علموں کو بلائیے جو ڈرائنگ میں اچھے ہوں۔ ان سے کہئے کہ وہ علی بابا کی تصویر بنائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ دونوں کی بنائی ہوئی تصویریں ایک دوسرے سے الگ ہی نہیں، بہت الگ ہیں۔ اب لوٹ کر آج کے ٹی وی زدہ دور میں آئیے اور محسوس کیجئے کہ ایک ٹی وی سیریل علی بابا کا کردار ایک اداکار کے ذریعہ پیش کر رہا ہے۔ اب انہی دو طالب علموں سے کہئے علی بابا کی تصویر بنانے کے لئے۔ وہ دونوں ایک جیسی تصویر پیش کریں گے۔ یہی ہو گانا؟

اخلاقی اور تہذیبی قدروں کے علاوہ یہ بھی ایک نقصان ہے جسے محسوس کیا جانا چاہئے۔ آج کے دور میں اگر کہانیاں بچوں تک پہنچتی بھی ہیں تو وہ کردار بن کر پہنچتی ہیں، بچوں کو سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا موقع نہیں دیتیں چنانچہ اس سے پہلے کہ بچے، اپنے تصور اور تخیل کے مطابق کسی کردار کو ڈھالیں ان کے سامنے وہ کردار موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور کی سب سے مقبول کہانی جو اپنے مرکزی کردار کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہے، وہ ہیری پوٹر سیریز ہے۔ ملاحظہ کیجئے تصور وتخیل کا یہ نقصان کہ لاکھوں نہیں کروڑوں بچوں کے ذہن میں ہیری پوٹر کی ایک ہی تصویر ہے جبکہ کل تک ہزار بچوں کے ہزار ذہنوں میں ایک الگ سند باد جہازی ہوتا تھا۔

تو صاحبو! کہانیوں کی اپنی اہمیت ہے جس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ آج کل، شہر شہر، قریہ قریہ، یہ جو ماحول ہے کہ چوری، ڈکیتی، قتل غارتگری، عصمت دری اور ایسے ہی دیگر جرائم عام ہیں تو اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ بچپن میں جو ذہن بنتا ہے وہ بن نہیں پارہا ہے۔ اس لئے نہیں بن پارہا ہے کہ مذہب سے دوری ماحول میں رچ بس گئی ہے اور بچوں میں ایک عظیم کردار کی داغ بیل ڈالنے والی کہانیوں کو ہم نے خیرباد کہہ دیا ہے جن میں نصیحت ہوتی تھی، سبق ہوتا تھا، عبرت ہوتی تھی، اس طرح یہ کہانیاں اپنے جلو میں بہت طاقتور اصلاحی پہلو لئے ہوئے ہوتی تھیں۔ اب آپ ان تمام جرائم کا عادی ہو جانے کے باوجود ان سے خوفزدہ بھی ہیں اور ان سے جیسے تیسے لڑ بھی رہے ہیں مگر گھر کا ماحول اور درس گاہوں کا ماحول ٹھیک کرنے کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ بیرونی ملکوں میں "اسٹوری ٹیلنگ سیشن" ہوتے ہیں، ہم چاہیں تو قصے کہانیاں سننے سنانے کے اپنے دیسی اسٹائل کو دوبارہ زندگی عطا کر سکتے ہیں۔ دادی اماں کا جیتا جاگتا کردار ایک بار پھرگھروں کے ماحول کو جگمگا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فکر کی جائے۔
کسی ہفتے ایک اور کالم میں لکھاج اچکا ہے کہ اکثر گھروں میں بڑوں کو شکایت ہے کہ بچے سنتے نہیں ہیں۔ شکایت بجا ہے مگر اس کی وجہ پر کبھی غور کیا گیا؟ وجہ یہ ہے کہ پہلے بچے، بڑوں سے سیکھتے تھے، اب بڑے بچوں سے سیکھنے لگے ہیں کہ بیٹا دیکھو میسیج نہیں آ رہا ہے، دیکھو ریموٹ نہیں چل رہا ہے، دیکھو اتنا سلوڈاؤن لوڈ ہورہا ہے ؟ وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنا بڑپن کھوتے جا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ ہم کیا سناتے، وہ ہمیں کہانی سنانے لگے ہیں !

No stories these days. Article: Shahid Lateef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں