میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:25 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-22

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:25



بہت ہی بے آبرو ہوکرمیں اس کوچہ سے نکلا۔ آرتھوپیڈک ہاسپٹل کی بڑی گیٹ سے نکل کر جب میں سڑک پر آیا تومیں نے محسوس کیا کہ میں وہ کپڑا ہوں جسے دبوچ کر دونوں ہاتھوں سے بل دیتے ہوئے نچوڑ دیا گیا ہو ۔ اب جسم میں ایک بوند پانی نہیں، خون نہیں اور۔۔۔۔
نہ جانے میں کیسے اور کس طرح سڑک کو عبور کرتا ہوا بس اسٹاپ پر پہنچا۔
میاں صاحبزادے ! آپ یہاں کیسے؟
ایک جانی پہچانی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا!
یہ مشہور شاعر حضرت درد تھے ۔ جو دوسرے مسافروں کی طرح بس کے انتطار میں کھڑے تھے۔
میں نے کہا، میرا چھوڑئیے، مگر یہ بتائیے کہ آپ شہر سے اتنی دور کدھر نکل آئے ؟ کیا کسی مشاعرے کا چکر ہے؟
اب کیا چھپاؤں میں آپ سے ، حضرت درد نے کہنا شروع کیا ادھر ایک سال سے اس طرف کے چکر لگارہا ہوں۔ آپ جانتے ہیں نا، میاں ادھر کالا پہاڑ پر اردو کی ترقی کا ایک دفتر کھلا ہے ۔ اس کے ڈائریکٹر نے گزشتہ سال مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ میرا شعری مجموعہ بورڈ کی طرف سے چھپوادے گا۔ خوشی خوشی میں نے اسے مسودہ دے دیا۔ لیکن اب تک اس کی اشاعت کی نوبت ہی نہیں آئی ہمیشہ جھانسہ دیتا رہتا ہے۔میںتو یہاں آتے آتے تھک گیا۔
لیکن حضور والا !اس ادارے کی طرف سے ابھی حال حال میں شعری مجموعے کی اشاعت کااعلان ہوا ہے اوروہ شاعر تو آپ کے مقابلے میں بچہ ہے۔
میاں صاحبزادے! اب میں آپ سے کیا کہوں، منہ کھولتا ہوں تو کسی کی غیبت ہوجاتی ہے ، اور چپ رہتا ہوں تو برائی کو بڑھاوا دیتا ہوں۔سچ بات تو یہ ہے کہ یہاں امداد صرف اسی کو دی جاتی ہے جو پیروی کرتا ہے۔ اور روز سلام کے لئے حاضر ہوتا ہے بلکہ ڈاریکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھا رہتا ہے ۔ میاں! سچ کہتاہوں، ایسی کتاب چھپوانے سے اچھا تو میں مرجانا پسند کروں گا۔لیکن میں بھی کتنا نادان ہوں کہ اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔ حالانکہ میں نے اندازہ کرلیا تھاکہ ڈائریکٹر کے معصوم چہرے کے پیچھے ایک اردو دشمن بیٹھا ہوا ہے ۔ آج میںنے اس سے صاف صاف کہہ دیاہے کہ مجھے میرا مسودہ واپس کردے۔ ورنہ میں اس کے خلاف عدالت میں رجوع ہوجاؤں گا۔وکیل کی فیس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔وہ ہیں نے ہمارے دوست شاعر دوستوکیل شمشیر خاں شمشیر۔۔۔بس آخری بار جانا ہوگا ۔آئندہ ہفتے کے بارے میں جب میں سوچتاہوں تو مجھے ابھی سے ایک اطمینان کا احساس ہونے لگتا ہے جیسے میں ایک لمبے سفر کی زحمت سے بچ گیا ہوں ۔ایک شہر سے دوسرا شہر، ایک طویل اوربے مزہ سفر ہی تو ہے ۔
یہ آپ نے بہت اچھا کیا۔میںن ے کہا، لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر شہر سے اتنی دور متعلقہ ارباباقتدار نے اس عمارت کو اردو کے آفس کے لئے کیوں منتخب کیا ؟کیاکالا پہاڑ کے سوا انہیں کوئی اور مقام نہیں ملا، مجھے ایک بار اپنے ایک دوست کی کار میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اورمیں نے محسوس کیا کہ کار تیڑھی میڑھی بل کھاتی ہوئی پتھریلی راہوں سے ہوتی ہوئی اوپر ہی اوپر آہستہ آہستہ چڑھ رہی ہے ۔ جیسے کوئی حمال کسی ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے تھیلے کو پیٹھ پر اٹھائے ہوئے چڑھتا ہے ۔ اردو والے پہلے ہی ناہموار رستہ چلتے ہوئے ہانپ ہانپ گئے ہیں۔ اور اب خیرات کے چند سکوں کے لئے انہیں پہاڑی پربلایاجارہا ہے ۔ مگر کیوں؟
نہیں سمجھے میاں۔۔۔ نہیں سمجھے۔ شاعر نے منہ میں پان رکھتے ہوئے کہا۔
تو پھر آپ سمجھائیے نا۔۔
یہی تو ایک نکتہ ہے میاں!! آخر کیوں شہرسے اتنی دور کیوں کالا پہاڑ پر اردو کا آفس کھولا گیا ؟ ذراسوچنے کی بات ہے۔ ایک بڑا اہم اور نازک سوال ہے۔ کیوں؟؟ذرا دماغ پر زور ڈالئے، کیوں؟
قبلہ! آپ تو پہیلیاں بھجوارہے ہیں۔آپ ہی بتائیے۔۔۔
بتاتا ہوں لیکناس سے پہلے آپ سے ایک سوال کرنا چاہوںگا ۔ اور میرا سوال یہ ہے کہ کتنا کرایہ ہوسکتا ہے اس عمارت کا جسے آپ نے دیکھا ہے؟
حضو ر والا آپنے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ بھلامیں کیسے بتا سکتا ہوں، جب کہ میں نے اس عمارت کو اندر سے دیکھا ہی نہیں کیوں کہ جب ہم پہنچے تو صدر دروازہ پر ایک تالاجھول رہا تھا اور شام کی پھیلتی ہوئی اداسی میں عمارت ایک بیوہ کی طرح چپ تھی۔
میاں کمال کرتے ہو، اب کون آپ کو آپ کی بات پرپکڑ لے گا۔
بھئی ایک اندازہ سے کچھ تو بتا سکتے ہیں۔
آپ کے حکم کے مطابق عرض کرتا ہوںِ کرایہ کوئی پانچ سو ہوگا۔
نہیں میاں۔
تو پھر ایک ہزار۔
نہیں نہیں، اور بڑھاؤ۔ کچھ تو رعایت دو۔
اچھا تو حضور ۔۔۔ اب آپ کی سفارش پردیڑھ ہزار کئے دیتے ہیں۔ لیکن اب اور بڑھانے کے لئے مت کہئے۔ ایک سانس میں پانچ سو کا اضافہ کردیا ہے ۔
اچھا میاں اچھا۔ مانگئے آپ کی بات۔ دیڑھ ہزار روپے ۔ لیکن سچ پوچھئے تو یہ بھی ایک طرح سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ جانتے ہو عمارت جیسی باہر سے نظر آتی ہے ویسی ہی اندر بھی ہے۔یہ ایک رہائشی مکان ہے جس میں چار پانچ کمرے اور ایک بڑے ہال سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپ چاہیں تو اس ہال کو ڈرائنگ روم بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس گنجائش پر دیڑھ ہزار روپے ۔۔ چلئے مکان دار کی عید ہوگئی۔ لیکن میاں آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی بلکہ کوفت ہوگی کہ اس رہائشی مکان نما آفس کا کرایہ ماہانہ سات ہزار روپے ہے۔
سات ہزار روپے؟
جی ہاں سات ہزار روپے ۔
حضور والا کہیں آپ مذاق تو نہیں فرمارہے ہیں؟
میاں مذاق میں نہیں بلکہ انجمن فروغ اردو کی عاملہ کے وہ معزز رکن کررہے ہیں جنہوں نے اپنی عزیزہ بیوہ بہن کو فائدہ پہنچانے کے لئے اس رہائشی مکان کو اردو کے آفس کو دے دیا ہے ۔ اوروہ بیوہ خاتون ایک لمبے عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔دیکھا صاحبزادے ! کیا ہورہاہے اردو کے نام پر ۔
بے حد افسوس ناک بات ہے ۔
افسوسناک نہیں برخوردار۔ ہوسکے تو اور کوئی سخت لفظ استعمال کروپھر حضرت درد نے بڑے ہی جوشیلے انداز میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوے کہا، اور سناؤں میاں، کیا سن سکو گے؟ وہ جو ہمارے اسٹیٹ کی بڑی لائبریری تھی، جانتے ہو اب کہاں ہے ، اب وہ شہر کے آخری کونے میں وظیفہ یاب فوجیوں کے ایک محلے میں منتقل کردی گئی ہے، ہوا یوں کہ ایک معزز ٹرسٹی نے اپنی بہن کا ایک رہائشی مکان جس کی قیمت بازار میں ڈھائی لاکھ سے بڑھ کرنہ تھی، دگنے تگنے داموں میں لائبریری کے لئے خرید لیا۔ اس سے پہلے لائبریری شیر کی ایک مصروف شاہراہ پر واقع ایک عمارت میں موجود تھی اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سینکڑوں ریسرچ اسکالر، ادیب، شاعر ، عالم، طلبا اور لوگ اس سے استفادہ کرتے تھے ۔ اور اب پڑھنے والوں کی صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھولابھٹکا راہرو آجائے تو آجائے ورنہ صبح سے شام تک لائبریری کے اسٹاف ممبرس اونگھتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے چارے کریں گے بھی کیا؟
معزز ٹرسٹی کو اس کی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہے کہ لائبریری میں کتنے لوگ علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں ، اور نہ ان کے دل کے کسی گوشے میں یہ احساس ہے کہ لائبریری اقلیتی زبان کی گودی ہوئی کسی مرحوم شخصیت کی امانت اور ٹرسٹ میں جمع شدہ رقم اردو والوں کا پیسہ ہے ۔ لیکن معزز ٹرسٹی نے ان تمام باتوں کونظر انداز کردیا، کیوںکہ اس کے پیش نظر صرف ایک ہی بات تھی کہ اپنی بہن کو فائدہ پہنچائے ۔بہن کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ یقینا قابل تحسین ہے ۔ لیکن اس کے لئے معزز ٹرسٹی نے غلط طریقہ اختیار کیا ۔ بجائے اپنی گرہ کو کھولنے کے انہوں نے دوسرے معزز ٹرسٹیوں کو ہموار کرکے اپنی بہن کا مکان بکوادیا، لیکن میاں، اس سے بڑاالمیہ ایک اور ہے وہ یہ کہ کسی نے اس کے خلاف احتجاج نہیں کیا اور نہ عوام نے معزز ٹرسٹیوں سے یہ پوچھا کہ ایمان والو! تمہیں یہ حق کس نے دیا تھا کہ ہمارا پیسہ اپنے خاندان کے افراد میں بانٹتے پھرو،خدا سے ڈرو، خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ایک دن آئے گا جب وہ۔۔۔
اردو والوں کی اس بے حسی کا ماتم ا ب کون کرے؟
دنیا کی لسانی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی زبان کے بولنے والے خود اپنی زبان کو چیل کی طرح نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-25

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں