مخدوم محی الدین اور ان کے مذہبی خیالات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-17

مخدوم محی الدین اور ان کے مذہبی خیالات

makhdoom-life-work
مخدوم محی الدین ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ موضع منمول (ضلع میدک، ریاست تلنگانہ) میں اس گھر کے افراد نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ اس گاؤں میں یہی تعلیم یافتہ گھرانہ سمجھا جاتا تھا۔ گاؤں کے بچے، یہیں اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ یہ گھر "حضرت کا گھر" کہلاتا تھا۔ اس خاندان کے باعث احترام ہونے کا ایک یہ سبب بھی تھا کہ اس کا سلسلہ نسب حضرت خواجہ ابو سعید خدری سے جا ملتا ہے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابی تھے۔
مخدوم کے جد اعلیٰ مولوی رشید الدین اور سید جعفر علی، بالترتیب اورنگ زیب کی فوج کے ہمراہ براہ اعظم گڑھ دکن کا رخ کیا اور ثانی الذکر براہ شاہجہاں آباد 1857ء میں وارد دکن ہوئے تھے۔
مخدوم کے پردادا مولوی محمد مخدوم الدین موضع منمول میں سو (100) برس پیشتر فروکش تھے۔ مولوی محمد مخدوم الدین ایک خدا ترس اور سخت مذہبی انسان تھے۔ کاشت کاری ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی اولاد نے سرکاری نوکری کو زیادہ اہم جانا۔ چنانچہ مخدوم کے دادا محمد احسن الدین سر رشتہ مال ضلع میدک میں میر منشی کی خدمت پر کچھ عرصہ تک مامور رہے ، لیکن بعد کو عہدہ داران سر رشتہ سے درخواست کر کے اپنے بیٹے محمد غوث محی الدین (مخدوم کے والد) کو قائم مقام بنا دیا، چنانچہ محمد غوث محی الدین بحیثیت اہلکار تحصیل اندول [Andole] کارگزار رہے۔

ولادت
مخدوم کا پورا نام ابو سعید محمد مخدوم محی الدین حذری تھا۔ خاندان کے بزرگ انہیں "بابا" کی عرفیت سے پکارتے تھے۔ مخدوم کا آبائی وطن منمول تھا۔
مخدوم بتاریخ 4/فروری 1908ء (مطابق یکم محرم الحرام 1326ھ)۔۔۔ شب سہ شنبہ بہ وقت 11 ساعت شب، اندول ضلع میدک میں پیدا ہوئے۔ جہاں ان کے والد ملازم تھے۔
رسالہ "صبا"کے مخدوم نمبر (دسمبر 1966ء) کے مطابق ستمبر 1908ء میں مخدوم پیدا ہوئے، جب موسی ندی میں طغیانی آئی تھی لیکن مخدوم کی خاندانی بیاض کے مطابق یہ درست نہیں ہے۔ مخدوم کی تاریخ پیدائش مختلف تذکرہ نگاروں نے مختلف لکھی ہے۔
مرزا ظفر الحسن نے "عمر گزشتہ کی کتاب" میں 4 سنین 1906 ، 1907 ، 1908 اور 1910ء دیے ہیں۔
اس طرح انتخاب کلام مخدوم مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ (1953ء) میں قاضی عبدالغفار نے 1910ء لکھا ہے۔ لیکن راقم نے مخدوم کے مربی و برادر کلاں مولوی محمد نظام الدین کی خاندانی قدیم بیاض سے یہ تاریخ حاصل کی جس کی صحت پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

گھریلو ماحول
مخدوم ابھی پانچ برس دو ماہ کے تھے، ان کے والد محمد غوث محی الدین، اپریل 1913ء بمقام اندول انتقال کر گئے۔ وہیں مقبرۂ بایزید شہید کے احاطے میں مدفون ہوئے۔ محمد غوث محی الدین نہایت بذلہ سنج ، خوش مزاج انسان تھے۔ خاندان کا ہر فرد ان کی صحبت سے حظ اٹھاتا تھا۔ مخدوم کے چچا محمد بشیر الدین اپنے بھائی کی جائیداد (اسامی) پر فائز کئے گئے۔ ان کا تقرر تحصیل اندول پر بہ حیثیت اہلکار عمل میں آیا۔ (محمد بشیر الدین اپنے بھائی کے ساتھ ہی رہتے تھے اور تحصیل اندول کے امیدواروں میں تھے) اب مخدوم اپنے چچا کے زیر پرور ش آ گئے۔
"ماں" مخدوم کی زندگی کا ایک عجیب باب ہے۔ مخدوم کے والد کا اس وقت انتقال ہو گیا جب مخدوم بہت چھوٹے تھے اور مخدوم کی جری ماں نے اس وقت کے سماجی آئین کو ٹھکرا کر دوسری شادی کر لی تھی، لیکن مخدوم کے چچا نے مخدوم سے یہ بات نہ بتائی۔ مخدوم کو بہت بعد کو پتہ چلا کہ ان کی ماں زندہ ہے اور ان کے بطن سے ان کی ایک بہن بھی ہے۔ بالآخر ان کی ماں ان کے ساتھ رہنے لگی تھیں اور مخدوم ہی کے گھر میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
(بحوالہ: "مخدوم کی زندگی اور شعر" از: ڈاکٹر راج بہادر گوڑ۔ مطبوعہ رسالہ "امکان" ، مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو اکادمی۔ ص:190)
مذہبی ماحول کے باعث مخدوم بچپن ہی سے نماز اور روزہ کے پابند ہو گئے۔ کنویں سے پانی سینچنا، مسجد کی باجماعت حاضری، جاروب کشی، اذان دینے کے فرائض ان کے روز مرہ میں داخل تھے۔ گھر پر قرآن شریف ختم کیا اور مدرسوں میں دینیات کی تعلیم پائی۔

ابتدائی تعلیم
مخدوم کے چچا محمدبشیر الدین اپنی ملازمت کے سلسلے میں مختلف اضلاع پر کار گزار رہے۔ اس طرح مخدوم کی تعلیم بھی مختلف مدارس میں ہوئی۔ اندول، سنگا ریڈی، میدک، پٹن چرو کے مدارس مخدوم کے کسب علم کے مراکز رہے۔ پرائمری اسکول، مڈل اسکول سنگا ریڈی ، دھرم ونت ہائی اسکول (یاقوت پورہ، حیدرآباد) اور ہائی اسکول میدک میں مخدوم کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ 1929ء میں سنگا ریڈی (ضلع میدک) ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چیلہ پورہ کے مدرسۂ شبینہ سے منشی کے امتحان میں بھی امتیازی کامیابی حاصل کی۔

جامعہ عثمانیہ میں داخلہ
مخدوم جن اقتصادی حالات سے دوچار تھے ، وہاں آگے تعلیم حاصل کرنے کا خیال ہی کار محال نظر آتا ہے۔ بہ ایں ہمہ انہوں نے 1929ء میں جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ ان کے لئے تعلیم گاہ تو تھی ہی لیکن تفریح گاہ بھی تھی۔ شرارت، لطیفے ، چٹکلے، چھیڑ چھاڑ سے انہیں اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ وہ صف اول کے طالب علم کہلاتے۔
مناظر احسن گیلانی دینیات کے پروفیسر تھے جن سے وہ (محض ستانے کی خاطر) ایسے سوالات کرتے کہ گیلانی صاحب عاجز آ جاتے۔ بات یہاں تک بڑھی کہ انہیں دینیات میں ناکام کر دیا گیا اور حاضری بھی اتنی کم کہ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت تک نہ مل سکی۔
اپنی تمام تر مشکلات اور شرارتوں کے باوجود مخدوم نے 1934ء میں بے اے کا امتحان درجہ دوم سے کام کیا اور 1936ء میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
جامعہ عثمانیہ نے مخدوم کو ان شخصیتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع عطا کیا۔
ع وے جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
مثلاً ڈاکٹر عبدالحق ، پروفیسر وحید الدین سلیم، ڈاکٹر سید عبداللطیف ، ای۔ای اسپیٹ ، عبدالقدیر صدیقی ، عبدالواسع صفا، مناظر احسن گیلانی، سید اشرف شمسی، پروفیسر حسین علی خاں، پروفیسر ہارون خاں شروانی ، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، خلیفہ عبدالحکیم، محمد الیاس برنی، ڈاکٹر زور، پروفیسر عبدالقادر سروری وغیرہ۔

مخدوم جامعہ عثمانیہ میں بحیثیت شاعر خاصے مقبول تھے۔ ان کے معاصر شعراء جو فرزندانِ جامعہ تھے ان میں: سکندر علی وجد، محمد علی خاں میکش، صمد رضوی ساز، علی حسنین زیبا، اکبر وفاقانی، ڈاکٹر بدرالدین بدر، جلال الدین اشک، عبدالقیوم خاں باقی ، محمد امیر، مہندر راج سکسینہ ، ڈاکٹر رگھو نندن سکسینہ، شنکر موہن رواں وغیرہ جامعہ کی فضائے شعر و سخن کو معطر و گرم رکھتے تھے۔
شعرائے جامعہ عثمانیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مخدوم کے بارے میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے لکھا ہے:
"مخدوم ایک وارفتہ اور بے باک شاعر ہے۔ کمیونسٹ تحریک کا دلدادہ اور ترقی پسندی کا علم بردار۔ عرصے سے وہ اور ان کی شاعری دونوں روپوش ہیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ "سرخ سویرا" جدید اردو شاعری کی شاہکار اور متعدد نوجوان شعرا کے لئے نمونہ کا کام انجام دے رہا ہے۔"
(بحوالہ: داستانِ ادب حیدرآباد" بار اول، 1951۔ سب رس کتاب گھر، حیدرآباد۔ ص:187)

مذہبی خیالات
میں ایسے بے شمار پرستارانِ مخدوم سے واقف ہوں جو انہیں دہریہ، لامذہب ،ملحد ، زندیق ، کافر اور مذہب دشمن سمجھتے ہیں۔ یہ وہ صاحبان جہل آسودہ ہیں جنہوں نے شاعر کو جلوت میں پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ یہاں قارئین یہ نہ سمجھیں کہ میں مخدوم کو کوئی مذہبی آدمی ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی ابتدائی شاعری میں مذہب بیزاری کے عناصر ملتے ہیں اور یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ان کے کلام میں مذہبی اصطلاحیں اور الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔
میں اپنے مشاہدے و تجربے سے پہلے مخدوم کے افراد خاندان کے تاثرات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلہ میں نصیرہ نصرت محی الدین ( مخدوم کی بہو) کے مضمون ['ایک شفیق بزرگ خاندان'، مطبوعہ رسالہ 'نیا آدم (مخدوم نمبر)' جو ان کی پہلی برسی کے موقع پر شائع کیا گیا تھا۔ ص:81] کے یہ دلچسپ نکات قابل غور ہیں:
"ایک دن چچا باوا باہر سے آئے اور حسب معمول کھانا لگانے کی خواہش کی اس دن شعبان کی فاتحہ تھی کھانا کب کا تیار ہو چکا تھا لیکن فاتحہ کے لئے اساوری بی بی کے میاں کا انتظار تھا۔ نصرت اور ظفر دونوں ہی گھر پر نہیں تھے۔ خالہ ماں (بیگم مخدوم) نے مجھ سے کہا کہ بہو، تمہارے خسر سے کہو کہ وہ فاتحہ دے دیں۔ میں تو عام لوگوں سے سنتی آئی تھی کہ کمیونسٹ مذہبی ریت رسموں کے قائل نہیں ہوتے اس لئے چچا باوا سے فاتحہ دینے کی درخواست میں تھوڑا تامل ہوا لیکن چارہ بھی کیا تھا۔
میں نے کہا : "چچا باوا کھانا تو بالکل تیار ہے بس فاتحہ دے دیجئے تو تو ہم سب کھا لیں"۔
چچا باوا زیر لب مسکراتے ہوئے بولے : "ہم دیں فاتحہ؟"
میں بولی: بلاشبہ۔ اٹھئے وضو کر لیجئے۔
وہ واش بیسن کی طرف چلے اور میں ان کے پیچھے ہولی تاکہ اس بات کا اطمینان کرلوں کہ چچا باوا نے قاعدے کے مطابق وضو کیا ہے۔ وضو تو چچا باوا نے کر لیا لیکن واش بیسن پر پیر کیسے دھوتے؟
میں نے ٹوکا: "چچا باوا پاؤں نہیں دھلے ہیں"۔
چچا باوا بولے: تو تو مولویا بن گئی ہے۔ اچھی بات ہے ہم غسل خانے میں از سر نو وضو کرلیں گے۔
جبیں پر شکن ڈالے بغیر میری نگرانی میں چچا باوا نے وضو کر لیا۔ باہر نکلے تو میں نے دوسری شرط پیش کی :
"ٹوپی پہن لیجئے۔"
"لیکن ٹوپی گھر میں نہیں"
پھر کہنے لگے:
"ننگے سر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہونا عجز و انکساری کے مترادف ہے"۔
لیکن میں ٹوپی پہننے پر اصرار کرتی رہی اور چچا باوا نے سر پر دھلی ہوئی دستی اوڑھ لی۔ فاتحہ مکمل ہوئی تو میں نے پھر چھیڑا:
"فاتحہ میں کون سی سورۃ پڑھی آپ نے"؟
اس دفعہ چچا باوا نے محبت آمیز برہمی کے انداز میں کہا :
"تو کیا سمجھتی ہے ، ہم نے قرآن شریف طوطے کی طرح نہیں پڑھا ہم تو تفسیر بھی کر سکتے ہیں"۔
میں تو سوچ رہی تھی کہ میری جسارتِ بےجا پر چچا باوا ناراض ہوجائیں گے لیکن ان کے رویے میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ حسب معمول گھر والوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کھانا کھایا۔
چچا باوا سچ پوچھیے تو حضرت بندہ نواز کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر تھے۔
کفر کافر کو بھلا ، شیخ کو اسلام بھلا
عاشقاں آپ بھلے اپنا دل آرام بھلا

نواب غلام محمد عمر خاں مخدوم کے قریبی دوست رہ چکے ہیں۔ بے تکلفی ، ہنسی مذاق اور رت جگے منانے کے مراسم تھے۔ نواب نے بتایا کہ ایک رات دو چار دوستوں کی محفل نشاط و کیف برپا تھی۔ مخدوم نے نہ جانے کیوں مذہب کے تعلق سے ایسی باتیں کیں جو نواب کو گراں گزریں۔ بحث بڑھی ، بات سخت تلخیوں تک جا پہنچی۔ محفل کا رنگ بگڑ گیا محفل پر سکوت طاری تھا کہ مخدوم نے دکھ سے اپنے یار عزیز نواب سے کہا:
"عمر، آئی ام سوری"
یہ کہہ کر دونوں دوست بغیر گیر ہو گئے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے مخدوم نے محض اپنے دوست کو چھیڑنے کی خاطر کچھ ایسی بات کہی ہوگی جو نادانستگی میں دل شکنی کا سبب بنی تھی۔

مخدوم کی والدہ کے جلوس جنازہ میں جن احباب نے شرکت کی ہے وہ گواہی دیں گے کہ مذہبی رسومات کی تکمیل میں مخدوم نہایت ادب و احترام سے شریک تھے۔ تدفین کے بعد جب فاتحہ پڑھی جانے لگی تو مخدوم نے سر پر رومال باندھ کر اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھا لئے جیسے دعا کے وقت اٹھائے جاتے ہیں۔ فاتحہ کے بعد ختم قرآن پر دونوں ہاتھ منہ پر پھیر لئے جیسا کہ مسلمانوں کا دستور ہے۔
مخدوم لطیفے سناتے ہوئے لطف لیتے اور سنتے ہوئے بھی ان کی شگفتگی دیدنی ہوتی تھی۔ میں ایسی کئی صحبتوں میں شریک رہا ہوں اور ایک نہایت باریک بات محسوس کی تھی کہ مخدوم کسی ذات ، فرقے یا مذہب کے لوگوں کے بارے میں گھڑے ہوئے لطیفے سننا قطعی پسند نہیں کرتے تھے۔ خاص طور پر سکھوں کے بارے میں بہت سارے لطیفے مشہور ہیں۔ ایک محفل میں کسی صاحب نے کسی سکھ کے ذکر کے ساتھ لطیفہ شروع کیا مخدوم کا موڈ یکلخت بدل گیا اور انہیں قدرے تلخی کے ساتھ ٹوک دیا کہ یہاں سکھ کی کیا تخصیص ہے بغیر اس ذکر کے بھی لطیفہ پرلطف ہو سکتا ہے۔

یہ جولائی کے آخر یا جون 69ء کے اوائل کا ذکر ہے۔ مخدوم، میں، ڈاکٹر وحید اختر اور ان کے برادر نسبتی، میرے برادر خورد سید امتیاز الدین سری نگر میں بہ سلسلہ مشاعرہ مقیم تھے۔ امتیاز نماز روزہ کے پابند نوجوان ہیں۔ مخدوم انہیں ان کی ذہانت، علم اور سعادت مندی کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے۔ ان کی نمازوں کو بھی وہ پیار بھری نظرو ں سے دیکھتے۔ جمعہ کا دن تھا، کوئی دن کے ایک بجے گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں بستر پر لیٹے لیٹے مجھ سے کہا:
"کھانا کھا لینا چاہئے ، بہت بھوک لگی ہے۔"یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے، میں بھی ہمراہ تھا۔ جب کمرہ کو تالا لگا چکے تو امتیاز کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ہے۔ میں نے کہا وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد حضرت بل گیا ہے۔ وہ آکر کھانا کھالے گا۔ مخدوم نے جیب سے چابی نکالی اور کمرے کا دروازہ کھول دیا ، میں نے لاکھ کہا کہ وہاں شیخ عبداللہ کا وعظ بھی ہوگا ، اس طرح دیر ہو جائے گی۔ چلئے کھالیں۔ مخدوم پھر بستر پر دراز ہوئے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ عبادت گزاروں کا انتظار بھی عبادت ہے۔

ان باتوں کی تفصیل میں جانے کی ضرورت بے وجہ پیش نہیں آئی ہے۔ میری رائے میں مخدوم مذہب کو مسجد، مندر، گردوارہ اور گرجا سے ماورا دیکھنے کے قائل تھے۔ دراصل انہیں سچائی، نیکی، انسانیت اورمساوات کی تلاش تھی۔یہ اوصاف ہر مذہب کے عناصر ترکیبی ہوتے ہیں چنانچہ وہ ہر مذہب کا احترام کرتے تھے۔ ان معنوں میں ہر مذہب ان کا مذہب تھا، ایمان تھا، عقیدہ تھا۔ چنانچہ نام نہاد مذہب پرستوں میں جہاں ان اوصاف کو ناپید دیکھا وہیں وہ طنز بار ہوئے۔ یہ تلخ گوئی جسے صاف گوئی کہنا چاہئے شباب کے ساتھ رخصت ہوتی گئی۔ اس خیال سے کہ شاید یہ بھی کسی کے لئے باعث دل آزاری ہو۔

ماخوذ: مخدوم محی الدین، حیات اور کارنامے (پی۔ایچ۔ڈی مقالہ)
مصنف: شاذ تمکنت
ناشر: مکتبہ شعر و حکمت، حیدرآباد (سن اشاعت: ستمبر 1986)

Makhdoom Mohiuddin and his religious views.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں