بسنت تہوار اور پتنگ بازی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-14

بسنت تہوار اور پتنگ بازی

basant-kite-flying
شہنشاہ ظہیر الدین بابر ہندوستان پہنچا تو اس نے مقامی لوگوں کو ایک عجیب تہوار مناتے دیکھا۔ اس نے دیکھا لوگ بہار کے پہلے پیلے رنگ کے کپڑے پہنتے، ڈھول بجاتے اور ناچتے ہیں۔بابر یہ تہوار دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ اس نے تحقیق کرائی تو معلوم ہوا مقامی لوگ اسے استقبال بہار کا تہوار کہتے ہیں ۔ مقامی زبان میں اس تہوار کا نام "بسنت " تھا۔ بابر نے اس تہوار کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ۔ آنے والے دنوں میں مغل شہزادیاں بھی یہ تہوار مناتی رہیں۔

بسنت کا آغاز:
بسنت کا آغاز ہندوستان کے دو صوبوں میں ہوا، اتر پردیش اور پنجاب ۔مورخین یہ طے نہیں کرسکے کہ بسنت پہلے اتر پردیش میں منائی گئی یا پھر پنجاب میں۔ تاہم پیلے رنگ کی مناسبت سے قرین قیاس اس تہوار کی جائے پیدائش پنجاب ہے ۔ یہ تہوار جس وقت منایاجاتا تھاوہ سرسوں پھولنے کاموسم ہوتا تھا۔ پنجاب کے کھیتوں میں سرسوں کے پھول لہلہا رہے ہوتے تھے، سرسوں کے پھول پیلے رنگ کے ہوتے ہیں، تہوارمنانے والے بھی کیونکہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنتے تھے لہذا مورخین کا خیال ہے اس تہوار کار سرسوں سے گہرا تعلق ہے ۔ پنجاب کے لوگ سر سوں پھولتے ہی اپنے مال مویشی باڑوں سے نکال کر صحنوں میں باندھنا شروع کردیتے تھے ، بھاری لحافوں کی جگہ ہلکی رضائیاں اور گرم چادروں کی جگہ بغیر بازوؤں کے سوئٹر لے لیتے ہیں۔ کچھ مورخین کا خیال ہے بسنت سردی کے اختتام اور موسم بہار کی آمد کا تہوار ہے ۔ وہ اس ضمن میں ہندی کی ایک ضرب المثل بطور ثبوت پیش کرتے ہیں:
"بسنت ، پالا اڑنت" یعنی بسنت آئی اور سردی اڑ گئی ۔
یہ تہوار پنجاب سے اتر پردیش کیسے پہنچا اور اتر پردیش سے پھر آگے ہندوستان کے باقی حصوں تک اس کی رسائی کیسے ہوئی ؟ اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے ۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ یہ تہوار ہندوستان میں کبھی قومی تقریب کی شکل اختیار نہیں کرسکا ۔ یہ سچ ہے یہ ہر دور میں منایاجاتا رہا ، لیکن ملک گیر سطح پر کبھی اسے پذیرائی حاصل نہ ہوسکی، اس لئے آج تک کسی نے پوری سنجیدگی سے اس کی جڑوں، اس کی اوریجن کے بارے میں تحقیق نہیں کی لیکن یہ بات طے ہے کہ ہندوستان میں اشوک کا دور ہو، بابربہادر شاہ ظفر کا عہد، بسنت ہر دور میں کم اہم اور غیر مقبول تہوار رہاہے ۔ شروع شروع میں اسے پنجاب کے کسان، اتر پردیش کے دہقان اور مدراس کے غریب ہاری مناتے تھے ۔ مغلوں نے اس کی سر پرستی کی تو یہ امراء کے محلات سے باہر نہ نکل سکا۔

بسنت مذہبی تہوار کیسے بنا؟
اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے نے بسنت کو تاریخ میں پہلی بار ثقافتی سے مذہبی تہوار میں تبدیل کر دیا۔ اورنگ زیب کے دور میں حقیقت رائے نام کے ایک لڑکے نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملہ کیا۔ مسلمانوں نے اسے مغلظات بکتے ہوئے پکڑ لیا ، ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا، قاضی نے جرم ثابت ہونے پر حقیقت رائے کو سزائے موت سنا دی ۔ حقیقت رائے پھانسی کی سزا پاکر ہندووں کا مذہبی ہیرو بن گیا، جس دن حقیقت رائے کو پھانسی دی گئی ہندوؤں نے پیلے رنگ کے کپڑے پہنے، حقیقت رائے کی لاش اٹھائی اور گاتے بجاتے اسے شمشان گھاٹ تک لے گئے ۔مسلمانوں نے اسے توہین آمیز قرار دیا لیکن ہندوؤں نے پیلے کپڑوں اور رقص و سرور کو بسنت کہہ کر جان بچائی ، اگلے سال ہندوؤں نے حقیقت رائے کی برسی منائی اور اس برسی پر پیلے کپڑے پہن کر اور ناچ گاکر حقیقت رائے سے اپنی وابستگی اور عقیدت کا اظہار کیا۔ بعض مورخین کا خیال ہے بسنت کے تہوار پر پہلی پتنگ بھی حقیقت رائے کی سمادھی پر ہی اڑائی گئی تھی۔

پتنگ بازی کی تاریخ:
یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا ہندوستان میں اس سے پہلے پتنگ موجود تھی؟ کیا بسنت کے تہوار پر پتنگ بازی بھی ہوتی تھی؟ جہاں تک پتنگ کے وجود کا سوال ہے ، ہندوستان میں پتنگ بازی کا فن صدیوں سے موجود تھا۔ پتنگ کی ایجاد کا سہرا دو قوم لیتی ہیں:
چینی اور مصری۔
چینیوں کا دعوی ہے پہلی پتنگ 400 سال قبل مسیح میں چین میں بنائی اور اڑائی گئی ۔ اس کے بعد چین کی اشرافیہ اپنے اکثر تہواروں اور تقریبات میں پتنگیں اڑاتی تھی ۔ شاہی خاندان پتنگ سازوں کی باقاعدہ حوصلہ افزائی کرتا تھا ، اس دور میں پتنگ سازی کے ماہرین کو دربار میں عہدہ دیاجاتا تھا ۔ چینوں کے برعکس مصریوں کا دعوی ہے کہ پتنگ سازی فراعین کے دور میں موجود تھی ، اس ضمن میں وہ اہراموں سے برآمد ہونے والی تصاویر اور بت بطور ثبوت کرتے ہیں۔ ان تصاویر میں فرعون کو پتنگیں اڑاتے دکھایاگیا تھا۔ مصریوں کا کہنا تھا یہ فن مصری جہاز رانوں یا تاجروں کے ذریعے چین پہنچا، چینی بادشاہوں نے اسے شرف قبولیت بخشا اور یوں پتنگیں چین میں رائج ہو گئیں ۔
مصر میں چونکہ پتنگ بازی صرف شاہی خاندان تک محدود تھی لہٰذا اسے شاہی کھیل سمجھاجاتا تھا اور عام آدمی کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں تھی ، چنانچہ وہاں یہ کھیل کھل کر سامنے نہ آسکا جب کہ چین میں بادشاہوں نے اسے عام کردیا۔
یوں پتنگ چینیوں کی ایجاد محسوس ہونے لگی، اگر ہم مصریوں کے دلائل تسلیم کرلیں تو پھر پتنگ بازی کی تاریخ پانچ ہزار سال قبل مسیح ہے ، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پتنگ چین سے ہوکر ہی برصغیر اور پھر یورپ پہنچی، برصغیر میں پتنگ بازی اور پتنگ کو بطور صنعت قائم کرنے کا اعزاز بودھ مت کے پیروکاروں کو حاصل ہے ۔
بدھ بھکشو پہلی پتنگ ہندوستان لے کر آئے، ہندوستان کے باسیوں کے لئے یہ ایک بالکل نئی اور حیران کن چیز تھی ، لہٰذا یہ بڑی تیزی سے پورے ہندوستان میں رائج ہو گئی اور ہندو راجوں اور مہاراجوں نے اس کی پذیرائی کی ، اپنی نگرانی میں پتنگیں تیار کرائیں ، پتنگیں اڑانے کے لئے ٹیمیں بنائیں اور پھر عوام کو یہ میچ دیکھنے کی دعوت دی۔

موسمی کھیل:
شروع شروع میں پتنگیں ہر موسم میں اڑائی جاتی تھیں لیکن پھر تجربے سے معلوم ہوا یہ بھی ایک موسمی کھیل ہے ۔ یہ کھیل موسم سرما میں ہوا کی کمی، برسات میں ہوا میں موجود نمی اور موسم گرما میں تیز دھوپ اور آندھی اور طوفان کے باعث نہیں کھیلا جا سکتا۔ اس کے لئے مناسب ترین موسم بہار ہے ، اس موسم میں کیونکہ ہوا میں نہ تو حد سے زیادہ نمی ہوتی ہے اور نہ ہی تیزی ، یہ کھیل کھیلنے والے بھی موسم کی شدت سے بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔ چنانچہ پتنگ بازی بھی موسم بہار میں شروع ہو گئی ۔ اب بہار میں کھیل ہونے لگے ایک بسنت اور دوسری پتنگ بازی ۔ گو یہ دونوں کھیل بہار میں کھیلے جاتے تھے لیکن ایک طویل عرصے تک الگ الگ رہے ۔ پھر حقیقت رائے کا معاملہ ہوا اور تاریخ میں پہلی بار بسنت اور پتنگ ایک ہی شخص کی سمادھی پر منائی گئی اور شخص بھی وہ جس نے گستاخی رسول میں موت کی سزا پائی تھی۔

بسنت اور امیر خسرو:
بسنت کی تاریخ میں ایک اور مسلم شخصیت کا نام بھی آتا ہے وہ تھے"حضرت امیر خسرو"۔ وہ تیرہویں صدی میں بہار کے پہلے ہفتے پیلا چوغا پہنتے اور گاتے تھے ۔ وہ ایسا کیوں کرتے تھے ؟ اس کے بارے میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں ملتی۔ بعض مورخین کا خیال ہے ، یہ بھی ان کی ایک مجذوبانہ ادا تھی، وہ اس ادا کے ذریعے اپنے شیخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ کا مزید قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے ، لیکن یہ بسنت وہ بسنت نہیں تھی جو ہندو مناتے تھے اور نہ ہی اس بسنت میں پتنگ بازی شامل تھی۔
بسنت کے کھاتے میں شاہ حسین کا نام بھی آتا ہے ۔ شاہ حسین ایک ہندو لڑکے مادھو لعل کو بہت عزیز رکھتے تھے ، مادھو لعل کو پتنگیں اڑانے کا بہت شوق تھا، شاہ حسین اس کا شوق پورا کرنے کا اہتمام کرتے تھے ، ان کا انتقال ہوا اور ان کا مزار مادھو لعل حسین کہلایا تو ان کے زائرین نے ہر سال ان کے مزار پر دو تہوار منانے شرو ع کر دیے، ایک تہوار کو میلہ چراغاں کا نام دیا گیا اور دوسرے کو بسنت کہا گیا۔
میلہ چراغاں میں مزار اور اس کے گرد و نواح میں چراغ جلائے جاتے اور بسنت کے دن ڈھول پیٹے اور پتنگیں اڑائی جاتی تھیں ۔ درحقیقت اس دور میں بسنت کا تہوار بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا لیکن یہ بھی سچ ہی تھا کہ یہ تہوار صرف مادھو لعل حسین کے مزار اور میلے تک محدود تھا۔

ماخوذ از کتاب: بسنت کیا ہے؟
مرتب: مفتی ابولبابہ شاہ منصور (سن اشاعت: 2002)

Basant, The Festival of Kite Flying.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں