قبولیت اسلام کے چند سچے واقعات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-14

قبولیت اسلام کے چند سچے واقعات

islam-acceptance-true-stories
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ
عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ یہود کے جلیل القدر عالم اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ ان کا اصل نام حصین تھا اور وہ یہود بنی قینقاع سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دن انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے یہ کلمات سنے:" افشو السلام واطعموا لطعام وصلوالارحام وصلو بالیل والناس نیام"ترجمہ:"اپنے بیگانے سب کوسلام کیا کرو، بھوکوں ، محتاجوں کو، کھانا کھلایا کرو اور خونی رشتوں کو جوڑے رکھو، قطع رحمی نہ کرو، اور رات کو نماز پڑھو جب لو گ سو رہے ہو"۔یہ ہدایت آموز کلمات سن کر حضرت عبد اﷲ بن سلامؓ کا دل نورایمان سے جگمگا اٹھا۔ انہیں یقین ہوگیا کہ یہ وہی نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جن کی بعثت کی پیشین گوئی صحائف قدیمہ میں درج ہیں۔ دوسرے دن رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے چند پیچیدہ مسائل دریافت کیے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا اطمینان بخش جواب دیا، تو عرض کی: یا رسول اﷲؐ ! میں شہادت دیتا ہوں کہ آپؐ اﷲ کے سچے رسول ہیں۔حضور صلی اﷲ علیہ وسم نے ان کے قبول اسلام پر مسرت کا اظہار فرمایا اور ان کا اسلامی نام عبداﷲؓ رکھا۔ حضرت عبد اﷲؓ نے عرض کی۔ یا رسول اﷲ میری قوم بڑی بدطینت ہے ۔ انھوں نے یہ سن لیا کہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیاہوں تو مجھ پر طرح طرح کے بہتان باندھیں گے۔ اس لیے میرے اسلام کی خبر کے اظہار سے پہلے ان سے دریافت کرلیں کہ ان کی میرے متعلق کیا رائے ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود کے اکابر کو بلابھیجا۔ جب وہ آئے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم توریت میں نبی آخر الزمان ؐ کی نشانیاں پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ میں تمہارے سامنے دین حق پیش کرتا ہوں۔ اسے قبول کرکے فلاح دارین حاصل کرو۔ یہودیوں نے جواب دیا ہم نہیں جانتے کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ سرور عالم نے فرمایا :" حصین بن سلام تمہاری قوم میں کیسے ہیں ؟"۔ سب یہودیوں نے بیک آواز جواب دیا :" وہ ہمارے سردار اور سردار کے بیٹے ہیں۔ وہ ہمارے عالم کے بیٹے ہیں وہ ہم میں سب سے اچھے اور سب سے اچھے کے فرند ہیں"۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو کیا تم بھی مسلمان ہوجاؤ گے۔ یہودی ناک بھوں چڑھا کر بولے اﷲ انہیں آپ کی حلقہ بگوشی سے محفوظ رکھے۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲؓ بن سلام کو سامنے آنے کا حکم دیا۔ وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے باہر نکلے اور یہودیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:" اے اعیان قوم ! اﷲ واحد سے ڈرو اور محمدؐ پر ایمان لاؤ ، بلاشبہ وہ اﷲ کے سچے رسول ہیں"۔
حضرت عبد اﷲؓ کا قبول اسلام یہود پر برق خاطف بن کر گرا اور غم وغصہ سے دیوانے ہوگئے۔ اور چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ یہ شخص (عبداﷲؓ بن سلام)ہم میں سب سے برا اور سب سے برے کا بیٹا ہے۔ ذلیل بن ذلیل اور جاہل بن جاہل ہے۔ حضرت عبداﷲؓ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ نے یہود کی اخلاقی پستی دیکھ لی مجھے ان سے اسی افتراء پردازی کا اندیشہ تھا۔
(سیرت ابن ہشام ، جلد 2)
( "صحیح اسلامی واقعات "، صفحہ نمبر 33-31)

حضرت طفیل رضی اﷲ عنہ بن عمرو دوسی کے اسلام لانے کا واقعہ
حضرت طفیل بن عمرو دوسی مکہ میں آئے ۔ یہ قبیلہ دوس کے سردارتھے اور نواح یمن میں ان کے خاندان کی رئیسانہ حکومت تھی۔ طفیلؓ بذات خود شاعر اور دانش مند شخص تھے اہل مکہ نے آبادی سے باہر جاکر ان کا استقبال اور اعلیٰ پیمانے پر خدمت و تواضع کی۔ طفیلؓ کا اپنا بیان ہے کہ" مجھے اہل مکہ نے یہ بھی بتایا کہ یہ شخص جو ہم میں سے نکلا ہے اس سے ذرا بچنا ۔ اسے جادو آتا ہے۔ جادو سے باپ ،بیٹے ،زن وشوہر ،بھائی بھائی میں جدائی ڈال دیتا ہے۔ ہماری جمعیت کو پریشان اور ہمارے نام ابتر کر دئیے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری قوم پر بھی ایسی ہی کوئی مصیبت پڑے اس لئے ہماری پرزور نصیحت ہے کہ نہ اس کے پاس جانا، نہ اس کی بات سننا اور نہ خود بات چیت کرنا۔یہ باتیں انھوں نے ایسی عمدگی سے میرے ذہن نشین کردیں کہ جب میں کعبہ میں جانا چاہتا تو کانوں کو روئی سے بند رکر لیتا تاکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز کانوں کی بھنک میں نہ پڑجائے۔ ایک روز میں صبح ہی خانہ کعبہ گیا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ چونکہ خدا کی مشیت یہ تھی کہ ان کی آواز میری سماعت تک ضرور پہنچے اس لیے میں نے سنا کہ ایک نہایت عجیب کلام وہ پڑھ رہے ہیں۔ اس وقت میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ میں خود شاعر ہوں ، باعلم ہوں، اچھے برے کی تمیز رکھتا ہوں۔پھر کیا وجہ ہے ؟ اور کون سی روک ہے؟ کہ میں اس کی بات نہ سنوں۔ اچھی بات ہوگی تو مانوں گا ورنہ نہیں۔ میں یہ ارادہ کرکے ٹھہرگیا۔ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم واپس گھر کو چلے تو میں بھی پیچھے ہولیا اور جب مکان پر حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا واقعہ مکہ میں آنے، لوگوں کے بہکانے ، پنبہ درگوش رہنے اور آج حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان سے کچھ سن پانے کا کہہ سنایا اور عرض کیا مجھے اپنی بات سنائیے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن پڑھا ۔واﷲ! میں نے ایسا پاکیزہ کلام کبھی نہ سنا تھا۔ جو اس قدر نیکی اور انصاف کی ہدایت کرتا "۔ الغرض طفیلؓ اسی وقت مسلمان ہوگیا۔۔ رضی اﷲ عنہ
( سیرت ابن ہشام جلد 1)
( "صحیح اسلامی واقعات "، صفحہ نمبر 37-36)

حضرت اسود الراعی رضی اﷲ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ
خیبر کا محاصرہ جاری تھا کہ ایک چرواہا از خود رسالت پناہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا:" یا رسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ وسلم) مجھے اسلام کے ضروری مسائل کی تعلیم فرمائیے"( انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری کا مقصد ہی اسلام کی اشاعت ہے) اس شخص کا نام اسود اور لقب راعی تھا۔
تلقین اسلام کے بعد جب اسودؓ نے کلمہ شہادت پڑھا تو ان کے سامنے دو منزلیں تھیں:
(1) اپنی نگرانی کا ریوڑ اس کے مالک کے حوالے کرناجو قلعہ بند تھا۔
(2) مسلمانوں سے مل کر لڑائی میں شرکت ۔
مگر اب اس ریوڑ کو کیا کریں؟ بکریوں کا مالک قلعہ میں بند بیٹھا تھا۔ یہ مالک یہودی تھا اور خیبر میں صرف یہودی آباد تھے۔
رسول اﷲ ؐ: اسود ! بکریاں جہاں سے ہانک لائے ہو اسی سمت ان کا رخ پھیر دو وہ خود بخود اپنے باڑے میں پہنچ جائیں گی۔
اسودؓ نے اس پر اتنا اور اضافہ کیا کہ مٹھی میں کنکریاں لیں اور ریوڑ پر پھینکتے ہوئے کہا: " اب میں تمہاری چوپانی نہیں کرسکتا اپنے مالک کے پاس جاؤ "۔ دیکھتے ہی دیکھتے بکریاں قلعے کی دیوار کے نیچے پہنچ گئیں۔
جہاں ان کا باڑہ تھا۔ اسودؓ امانت سے سبکدوش ہوتے ہی مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے اور اپنے بھائیوں کے دوش بدوش داد شجاعت دینے لگے۔ تھوڑی ہی دیر بعد دشمن کا پتھر لگنے سے شہید ہوگئے۔ یہ دوسرے مسلمان ہیں جنہوں نے ایک نماز بھی ادا نہیں۔ مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی نجات و قبولیت کا بشدت اعتراف فرمایا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اسودؓ کی لاش رکھی گئی تو آپؐ نے شرم و حیا کی حالت میں منہ دوسری طرف کرلیا اور لمحہ کے بعد جب لاش کی طرف متوجہ ہوئے ، توعرض کیا یا حضرتؐ منہ پھیرلینے کا کیا سبب تھا؟ آپ کواسودؓ کی لاش سے کیوں حیا آئی؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: " اس وقت اسودؓ کی لاش کے ساتھ دو حورعین ان کی منکوحہ بیویوں کے بدل میں موجود تھیں۔"
( سیرت ابن ہشام جلد 2)
( "صحیح اسلامی واقعات "، صفحہ نمبر 39-38)

حضرت ابوذر رضی اﷲ عنہ کا ایمان لانا
ابوذرؓ اپنے شہر یثرب ہی میں تھے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق کچھ اڑتی سی خبر سنی۔ انہوں نے اپنے بھائی سے کہا، تم جاؤ مکہ میں اس شخص سے مل کر آؤ۔ انیس برادر ابوذرؓ ایک مشہور فصیح شاعر زبان آور تھا۔ وہ مکہ میں آیا ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملا ۔ پھر بھائی کو جا بتایا کہ میں نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک ایسا شخص پایا جو نیکیوں کے کرنے اور شر سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ ابو ذرؓ بولے، اتنی سی بات سے تو کچھ تسلی نہیں ہوگی۔ آخر خود پیدل چل کر مکہ پہنچے۔حضرت ابوذرؓ کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شناخت نہ تھی اور کسی سے دریافت کرنا بھی وہ پسند نہ کرتے تھے۔ زمزم کا پانی پی کر کعبہ اﷲ ہی میں لیٹ رہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ آئے ۔ انہوں نے پاس کھڑے ہوکرکہا یہ تو کوئی مسافر معلوم ہوتا ہے۔ ابوذرؓ بولے ،" ہاں" ۔ حضرت علیؓ بولے، " اچھا میرے ہاں چلو"۔ یہ رات کو وہیں رہے۔ نہ حضرت علیؓ نے کچھ پوچھا ، نہ ابوذرؓ نے کچھ کہا۔ صبح ہوئی ابوذرؓ پھر کعبہ میں گئے۔ دل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلاش تھی۔ مگر کسی سے دریافت نہ کرتے تھے۔ حضرت علیؓ پھر آ پہنچے۔ انہوں نے فرمایا شاید تمہیں اپنا ٹھکانہ نہیں ملا۔ ابو ذرؓ بولے" ہاں" ۔ حضرت علیؓ پھر ساتھ لے گئے۔ اب انہوں نے پوچھا تم کون ہو اور کیوں یہاں آئے ہو؟ابوذرؓ نے کہا" راز میں رکھو تو میں بتادیتا ہوں"۔ حضرت علیؓ نے وعدہ کیا۔ ابو ذرؓ نے کہا،" میں نے سنا ہے کہ اس شہر میں ایک شخص ہے جو اپنے آپ کو نبی بتاتا ہے میں نے اپنے بھائی کو بھیجا تھا وہ یہاں سے کچھ تسلی بخش بات لے کر نہ گیا اس لیے خود آگیا ہوں۔" حضرت علیؓ نے کہا کہ تم خوب آئے اور خوب ہوا کہ مجھ سے ملے۔ دیکھو میں انہی کی خدمت میں جارہا ہوں۔ میرے ساتھ چلو۔ میں پہلے اندر جاکر دیکھوں گا۔ اگر اس وقت ملنا مناسب ہوگا تو دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوجاؤں گا۔ گویا جوتا درست کررہا ہوں۔ الغرض ابوذرؓ حضرت علیؓ کے ساتھ خدمت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں پہنچے اور عرض کیا،" مجھے بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے؟"آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی بابت بیان فرمایا اور ابوذرؓ اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:" ابوذر! تم ابھی اس بات کو چھپائے رکھو اور اپنے وطن میں چلے جاؤ ۔ جب تمہیں ہمارے ظہور کی خبر مل جائے تب آنا"۔ ابوذرؓ بولے، بخدا! میں تو ان دشمنوں میں اعلان کرکے جاؤں گا۔ اب ابوذرؓ کعبہ کی طرف آئے۔ قریش جمع تھے۔ انہوں نے سب کو بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر سنایا۔ قریش نے کہا کہ اس بے دین کو مارو، لوگوں نے انہیں مارنا شروع کردیا۔ اتنے میں حضرت عباسؓ آگئے انہوں نے جب انہیں جھک کر دیکھا تو کہا کم بختو! یہ قبیلہ غفار کا آدمی ہے جہاں تم تجارت کو جاتے اور کھجوریں لاتے ہو۔ لوگ ہٹ گئے۔ اگلے دن انہوں نے پھر سب کو سنا کر کلمہ پڑھا۔ لوگوں نے پھر مارا اور حضرت عباسؓ نے ان کو چھڑا دیا۔ کچھ دن مکہ میں قیام کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو ان کے گھر واپس ہونے کا حکم کردیا اور فرمایا میں عنقریب یثرب ہجرت کرنے والا ہوں۔ اس لیے بہتریہ ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤاور اپنی قوم کو جا کر اسلام کی تبلیغ کرو۔ شاید اﷲ ان کو ہدایت دے اور اس کے صلہ میں تمہیں بھی اجر ملے۔ انہوں نے آپؐ کا ارشاد پاتے ہی روانگی کی تیاری شروع کی اور وطن کا سفر شروع کرنے سے پہلے اپنے بھائی انیس سے ملے، انہوں نے پوچھا کیا کرکے آئے ہو، جواب دیا کہ میں دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ہوں۔ یہ سنتے ہی آپؓ کے بھائی نے بھی اسلام قبول کیا۔ یہاں سے دونوں بھائی تیسرے بھائی انس کے پاس پہنچے۔ وہ بھی ان کی دعوت اسلام دینے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اس کے بعد تینوں وطن پہنچے اور دعوت حق میں اپناوقت صرف کرنے لگے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی اور سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
( رحمۃ للعالمین)
( "صحیح اسلامی واقعات "، صفحہ نمبر 36-33)

ابوھریرۃ رضی اﷲ عنہ کی ماں کے اسلام لانے کا واقعہ
سیدنا ابوھریرۃ رضی اﷲ عنہ خود دولت اسلام سے بہرہ ور ہوگئے تو ان کو فکر ہوئی اپنی بوڑھی ماں کو بھی اس سعادت میں شریک کروں۔ مگر وہ برابر انکار کرتی رہیں۔ایک دن حسب معمول ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے شان نبوت ؐ میں کچھ ناروا الفاظ استعمال کیے ۔ابوھریرۃ رضی اﷲ عنہ روتے ہوئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ واقعہ بیان کرکے ماں کے اسلام لانے کے لئے طالب دعا ہوئے ۔ رحمت عالم ؐنے دعا فرمائی یا اﷲ ابوھریرۃ رضی اﷲ عنہ کی ماں کو اسلام کی ہدایت دے ، واپس ہوئے تو دعا قبول ہوچکی تھی۔ والدہ اسلام قبول کرنے کے لئے نہا دھو کرتیار ہو رہی تھیں جیسے ہی ابوھریرۃ رضی اﷲ عنہ ، گھر پہنچے ماں نے پڑھا " اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ واشہد ان محمدا عبدہ رسولہ " آپؓ اپنی والدہ سے یہ الفاظ سنتے ہی فوراً الٹے پاؤں فرط مسرت سے روتے ہوئے کا شانہ نبوی ؐ پر حاضر ہوئے۔ عرض کیا : یا رسول اﷲ بشارت ہو۔ آپ کی دعا قبول ہوئی، اﷲنے میری ماں کو اسلام کی ہدایت بخش دی۔
( سیرت صحابہؓ ، جلد2 )
( "صحیح اسلامی واقعات "، صفحہ نمبر 61-60)

ماخوذ از کتاب:
صحیح اسلامی واقعات (تالیف: حافظ عبدالشکور شیخوپوری)

Some true stories of Islam acceptance.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں