گرودت - ہندوستانی سینما کے عظیم ہدایتکار اور فلمساز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-16

گرودت - ہندوستانی سینما کے عظیم ہدایتکار اور فلمساز

guru-dutt
گرودت پڈوکون (اصل نام: وسنت کمار شیوشنکر پڈوکون - Vasanth Kumar Shivashankar Padukone) کی پیدائش 9/ جولائی 1925 کو میسور(کرناٹک) میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ادے شنکر سے ڈانس کی تربیت حاصل کی تھی۔ جس کے بعد بطور کوریوگرافر وہ پربھارت اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے وہاں ان کی ملاقات دیو آنند سے ہوئی جو پربھات کی جانب سے بنائی جانے والی فلم "ہم ایک ہیں" سے اپنے ایکٹنگ کیرئیر کی شروعات کر رہے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ دونوں میں گہری دوستی ہو گئی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ جو بھی پہلے بڑا آدمی بنے گا وہ دوسرے کو بریک دے گا۔ پربھات میں کچھ عرصہ تک کام کرنے کے بعد گرودت نے اے بینر جی ، جان مکرجی اور امیہ چکرورتی جیسے ڈائرکٹروں کے ساتھ بطور معاون کام کیا۔ جب دیو آنند نے خود کا بینر "نوکیتن" لانچ کیا تو انہوں نے اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے گرودت کو بطور پروڈیوسر اپنی پہلی فلم "بازی (1955)" کی ہدایتکاری سونپی۔ اس طرح گرودت نے دیو آنند، گیتا بالی اور کلپنا کارتک کی اسٹار کرائم تھرلر "بازی" کے ساتھ اپنے ڈائرکشن کے کیرئیر کی سنسنی خیز شروعات کی۔
بازی کے ایک گیت کی ریکارڈنگ کے دوران گرودت اور گلو کارہ گیتا رائے ملے، انہیں ایک دوسرے سے پیار ہوا اور کچھ عرصہ بعد دونوں نے شادی کر لی۔ 'بازی' کے بعد گرودت نے 'جال' اور 'باز' جیسی فلمیں ڈائریکٹ کیں جو کاروباری طور پر خاص کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود عوام کی جانب سے سراہی گئیں۔ 'باز' میں انہوں نے یوگیتابالی کے ساتھ ہیرو کا کردار بھی نبھایا اور اس طرح وہ ڈائرکٹر سے ایکٹر بھی بن گئے۔

سن 1954ء میں آئی فلم "آر پار" (جس میں بھی ان کا مرکزی کردار تھا) نے انہیں نامور ڈائرکٹر بنا دیا حالانکہ موضوع کے لحاظ سے یہ ایک ممتاز فلم نہیں تھی لیکن بے حد سیدھی سادھی سچویشن کو پردہ پر پیش کرنے کا ان کا اپنا ایک الگ ہی انداز تھا۔ گیتوں کو فلمانے کا ان کا طریقہ، لائٹ اینڈ شیڈ کے استعمال کی ان کی نئی طرز، ان کی زبردست ٹیکنک اور ممبئی کا تازگی سے بھرا نظارہ، ان سبھی نے انہیں ایک ماسٹر ڈائرکٹر بنا دیا۔

مسٹر اینڈ مسز 55 کے بعد گرودت نے سنجیدہ طرز کے سنیما کی طرف رخ کیا۔ "پیاسا" جسے ان کی اب تک کی زبردست فلم مانی جاتی ہے، ایک ایسے شاعر کے بارے میں تھی جسے سماج سے بیزاری ہو جاتی ہے۔ اگلی فلم "کاغذ کے پھول" میں گرودت کی آپ بیتی کو کہانی کی شکل میں یپش کیا گیا تھا۔ 'کاغذ کے پھول' ایک فلم ڈائرکٹر کے بارے میں تھی جو باکس آفس پر بری طرح فلاپ رہی۔ ضرورت سے زیادہ مایوس ہونے کی خبریں اس فلم کے تبصرے کے بطور پھیلی تھیں۔ حالانکہ اب اس فلم کو ایک ماسٹر پیس مانا جاتا ہے۔ اس فلم کی ناکامی نے گرودت کو اس قدر مایوس کر دیا تھا کہ انہوں نے پھر کبھی فلم ہی نہیں بنائی۔ انہوں نے فلمسازی اور اداکاری (صاحب بی بی اور غلام اور چودھویں کا چاند) کو البتہ جاری رکھا۔ ان فلموں کی وجہ سے وہ کلاس میکر کہلائے جانے لگے۔
گرودت کی زندگی میں وحیدہ رحمان کی وجہ سے ایک ایسا موڑ آیا تھا جو انہیں بربادی کی طرف لے گیا۔ وحیدہ جسے گرودت نے اپنی جانب سے پروڈیوس کردہ فلم "سی آئی ڈی (1958)" میں بریک دبا تھا، کے ساتھ رومان شروع ہونے پر گیتادت کے ساتھ ان کی شادی ٹوٹ گئی۔ آگے چل کر وحیدہ کا جھکاؤ دلیپ کمار کی طرف ہوگیا جن کے ساتھ وحیدہ نے دل دیا درد لیا، رام اور شیام ، آدمی جیسی فلمیں کیں۔

بیوی اور محبوبہ دونوں سے علیحدگی کا صدمہ نہ برداشت کر پانے کی وجہ سے گرودت نے 10/اکتوبر 1964ء کو نیند کی گولیوں کی زیادہ مقدار لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
گرودت بھلے ہی ایک عظیم ایکٹر و ڈائرکٹر نہ رہے ہوں لیکن اپنی جانب سے بنائی گئی فلموں میں انہوں نے ایک الگ شناخت قائم کی ہے اور ٹکنک میں وہ بالی ووڈ سنیما کا انسٹی ٹیوٹ مانے جاتے ہیں۔ ان کے بھائی آتما رام اور دیوی دت بھی فلم میکر تھے ان کے بیٹے ارون نے ڈائرکشن پر ناکام قسمت آزمائی کی۔ شیام بینگل ان کے کزن اور کلپنا لجمی ان کی بھتیجی ہیں۔
بہرحال گرودت اپنے جیتے جی اتنی مقبولیت حاصل نہ کر سکے جتنا انہیں اپنی موت کے بعد ملی۔ سنیما کی تاریخ میں ہمیشہ انہیں ایک زبردست فلم میکر کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔

بزرگوں کے قول کے مطابق انسان کی زندگی لمبی نہیں بلکہ بھرپور ہونی چاہئے۔ یہ قول ہندوستان کے ممتاز فلمساز ہدایت کار و اداکار گرودت پر عین صادق آتا ہے۔ انہوں نے واقعی ایک کامیاب اور بھرپور زندگی کو جیا۔ ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں ان کا ذکر ہمیشہ زریں حروف سے لکھا جائے گا۔
بازی، جال، مسٹر اینڈ مسز 55 ، آر پار، پیاسا اور کاغذ کے پھول کے خالق اور چودھویں کا چاند، صاحب بی بی اور غلام کے فلمساز گرودت اپنی زندگی کی صرف 39 بہاریں ہی دیکھ سکے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی فنی دسترس اور سوجھ بوجھ کے لاثانی نقوش چھوڑے۔ ان میں پربھات فلم کمپنی اور نیو تھیٹرز کے انداز کی جھلک بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔
جس طرح لوگ ایک شعر، ایک کہانی یا ایک ناول کے ذریعہ دائمی شہرت حاصل کر لیتے ہیں اسی طرح گرودت اپنی دو فلموں "پیاسا" اور "کاغذ کے پھول" جیسی لافانی تخلیقات کے لئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے اپنی ان دونوں فلموں میں ہندوستانی سنیما کے فنکاروں کی زبوں حالی اور سماج میں ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے روشناس کرایا۔
"پیاسا" جہاں ایک شاعر کا المیہ تھا وہیں "کاغذ کے پھول" ایک ہدایتکار کی جدوجہد اور کشمکش کی کہانی تھی اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی روز وروشن کی طرح واضح ہے کہ گرودت کی فلم "کاغذ کے پھول" ہندوستانی سنیما کی پہلی سنیما اسکوپ فلم تھی۔ ونیز "پیاسا" میں ساحر لدھیانوی نے اپنے دلفریب نغموں کے ذریعہ فلم کی کامیابی کے لئے ایک شاعر کی اہمیت ، افادیت اور افضلیت کا احساس بھی دلایا تھا۔

Gurudutt, a great director and filmmaker of Indian cinema.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں