غپ شپ زندہ باد - انشائیہ از اننت کانیکر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-01

غپ شپ زندہ باد - انشائیہ از اننت کانیکر

معروف مراٹھی ادیب اننت کانےکر کا پورا نام پروفیسر اننت آتما رام کانےکر ہے ۔ انہوں نے کہانیوں ، ڈراموں ، سفر ناموں کے علاوہ تنقیدی مضامین لکھے ۔ لیکن شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے زیادہ شہرت پائی ۔ ان کی دیرینہ ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند نے انہیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا ۔ اپنے مشہور مضمون " گپاّ آنی گپیّ داس " میں انہوں نے مسلسل مطالعہ کرتے رہنے کی عادت کا مذاق اڑایا ہے ۔
مضمون کا اردو ترجمہ ڈاکٹر ضیا الحسن نے کیا ہے۔

ایک صاحب جو میرے شناساؤں میں سے ہیں ۔ مجھے اکثر نصیحت فرماتے ہیں کہ میں اپنا جو وقت غپ شپ میں ضائع کرتا ہوں ، وہی پڑھنے لکھنے میں صرف کروں تو اس میں میرا بھلا ہے ۔ اُن کے اس مشورے سے میں متفق تو ہوں مگر کیا کیجئے غپ شپ کرنے اور ہنسنے کا شوق مجھ سے چھوڑے نہیں چھوٹتا ۔ اُن صاحب کے مطالعے کے جنون کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ غپ شپ مطالعہ سے بہتر ہے ۔ موصوف ہمیشہ مطالعے میں مصروف رہتے ہیں ۔ صبح کی چائے کے ساتھ اخبار بینی کریں گے ۔ میز پر رکھی ہوئی دو تین کھلی کتابوں پر ٹہلتے ٹہلتے نظر دوڑانا ان کے معمولات میں شامل ہوتا ہے ۔ ناشتہ کے دوران ان کے دائیں ہاتھ میں نوالہ اور بائیں ہاتھ میں کتاب ضرور ہوتی ہے ۔ غرض یہ کہ جب بھی موقع ملتا ہے وہ پڑھنے سے نہیں چوکتے ۔ ان کے شوق مطالعہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ سنت رام داس کی نصیحت " ہمیشہ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہو " پر صدق دل سے عمل پیرا ہیں ۔ مطالعہ کی اس عادت نے ان کا یہ حال کررکھا ہے کہ غوروفکر کرنے کے لیے انہیں لمحہ بھر کی فرصت نہیں ۔ سچ پوچھئے تو خود ان کی اپنی بھی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ۔
دنیا کے عظیم ترین مفکرین کے افکار کا بوجھ بڑے فخر سے اپنی پیٹھ پر لادے وہ گھومتے رہتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر مجھے اس مغرور گدھے کی کہانی یاد آجاتی ہے جو خود کو اس لیے قابل احترام سمجھنے لگاتھا کیونکہ وہ روزانہ بادشاہ کے خزانے کا بوجھ ڈھویا کرتا تھا ۔ اسی لیے میں کہتا ہوں نان اسٹاپ مطالعے سے غپ شپ ہی بھلی۔
غپ ہانکنے کے لیے نہ صرف غوروفکر کرنا پڑتا ہے بلکہ اس کے لیے ایک کہنہ مشق داستان گو کی قوت متخیلہ بھی درکار ہوتی ہے۔ غپ بازی کا فن کوئی آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا نہیں ہے، یہاں تو کسی واقعہ کو نمک مرچ لگا کر دلچسپ انداز میں سنایا جاتا ہے ۔ فن غپ بازی کے بعض ماہرین ایسے واقعات بھی چٹخارے لے لے کر بیان کرنے لگتے ہیں جو ابھی تک ظہور پذیر ہی نہ ہوئے ہوں ۔ کسی انسان میں تیزی سے بڑھ رہی کچھ صلاحیتوں کو ہم فنکارانہ صلاحیت کا نام دیں تو غپ باز کو فن کار کہنے میں بھلا کس کو اعتراض ہوسکتا ہے ۔
غپ باز فن کاروں کی کئی قسمیں ہیں ۔ جن تین حضرات کو میں جانتا ہوں ان میں ہر ایک کا فن دوسرے سے جدا ہے ۔ ایک صاحب ہیں جو غپ ہانکنا شروع کردیں تو جب تک آپ انہیں بریک نہیں لگاتے وہ رکنے کا نام نہیں لیں گے ۔ اپنے فن کا مظاہرہ وہ اس طرح کرتے ہیں ۔ " ایک بیج تھا ، اسے زمین میں بویا گیا ۔ کچھ دنوں کے بعد اس سے کونپلیں پھوٹیں ، پھر وہ ننھا پودا بنا ، پودا درخت میں تبدیل ہوا ، درخت پر پھول لگے ، پھول سے پھل بنا ، پھل پکنے کے بعد اس کا بیج زمین پر گرا ۔۔۔ " اس سے ایک پودا اگا ، پودا درخت میں تبدیل ہوا ، درخت پر پھول لگے پھول سے پھل بنا ، پھل کا ایک بیج زمین پر گرا ۔۔۔ " یعنی جب تک آپ اٹھیں چپ نہیں کرائیں گے وہ برابر بولتے رہیں گے ۔ ۔
دوسرے صاحب کا فن اس سے ذرا مختلف ہے ۔ شکسپیئر جس طرح اپنے ڈراموں کے لیے قدیم قصے کہانیوں سے مواد حاصل کرکے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اس میں نئی جان ڈال دیتا تھا۔ اسی طرح ہمارے یہ دوست بھی غپ ہانکنے کے لیے کوئی نیا موضوع تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ جو واقعہ آپ انہیں صبح میں سناتے ہیں اسی کو ذرا رنگین بناکر ’ جو کچھ مجھے یاد ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں ‘ پر عمل کرتے ہوئے شام میں سنائیں گے۔ میں ایک دن دکن کوئن سے بمبئی لوٹا تھا ۔ باتوں باتوں میں ان سے کہا ۔ " یار ! دکن کوئن کیا شاندار ٹرین ہے ، اتنی تیز رفتار سے چلتی ہے مگر مسافروں کو قطعی زحمت نہیں ہوتی ۔ " اتفاقاً اسی دن شام میں موصوف سے ملاقات ہوئی ۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد بھولی صورت بناکر بولے ۔ ۔
" یار ! دکن کوئن کا جواب نہیں ، میرے ایک دوست آج صبح اس ٹرین سے آئے ۔ پانی سے لبالب بھرا گلاس انہوں نے سامنے ٹیبل پر رکھا ۔ ٹرین 80 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی ۔ لیکن پونا سے بمبئی آنے تک کیا مجال جو گلاس سے پانی کا ایک قطرہ بھی چھلکا ہو " ۔ ان کے اس انکشاف پر میں حیرت زدہ رہ گیا ۔
ہمارے تیسرے غپ باز دوست البتہ اپنے فن میں کچھ زیادہ ہی طاق ہیں ۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے ۔
" کیا تم امریکہ کی نئی تحقیق سے واقف ہو؟"
"کونسی تحقیق " ؟ میں نے دریافت کیا ۔ فرمانے لگے ۔
" میاں ! آج کل امریکہ میں ٹرین کے ڈبوں کو انجن سے جوڑا نہیں جاتا ۔ انجن کی پشت پر ایک بڑا بھاری مقناطیس لگادیا جاتا ہے ڈبے کے اگلے حصہ میں لوہے کی چادر ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہر ڈبے کے پچھلے حصے میں مقناطیس اور اگلے حصے میں لوہے کی چادر ہوتی ہے اس لیے ڈبوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی "
۔۔۔ "سچ"؟ میں نے تعجب سے پوچھا ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا بولے۔۔۔
"ارے بھائی ! دراصل ایک دوست نے یہ کہہ کر مجھے بنانے کی کوشش کی تھی ۔ "
تو جناب ! اس طرح کی مزیدار باتیں سننے اور سنانے کے بجائے مطالعے میں اپنا وقت ضائع کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟

بشکریہ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ شمارہ: فروری 2009۔

Gupshup zindabad. Humorous Essay: Dr. Zia-ul-Hasan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں