رفعت سروش - منظوم ڈراموں کا شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-02

رفعت سروش - منظوم ڈراموں کا شاعر

rafat-sarosh رفعت سروش
بمبئی کے ایک مرکزی علاقہ بھائیکلہ میں محمد حاجی صابو صدیق پالی ٹکنک ، شیفرڈ روڈ پر واقع ہے ۔ اس ادارے سے میرا تعلق1945 سے 1977 تک رہا۔ پرنسپل کی حیثیت سے اس میں جو تعلیمی کام میں نے کئے، اس وقت ان کا تذکرہ مقصود نہیں لیکن اس ادارے کا اس لئے کررہا ہوں کہ میں نے اسے ایک ادبی ثقافتی پروگراموں کا اچھا خاصا مرکز سا بنادیا تھا۔ کیمپس میں ایک مربع میدان ہے جس کے چاروں طرف کلاس روم، کارخانے اور دیگر عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔ شمال کی جانب اوپن تھیٹر کا مستقل اسٹیج ہے ۔ میدان اور اسٹیج، بمبئی کے بڑے بڑے ادبی اجتماع، ثقافتی جلسوں وغیرہ کے لئے استعمال ہوتے رہے۔ کل ہند مشاعرے ہوئے، مشہور قوالوں اور مغنیوں نے تین چار ہزار سامعین کو اپنے نغموں سے مسحور کیا ۔ اسی پالی ٹکنک میں ایک اور بھی چھوٹا ہال ہے جو اب لائبریری میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ پہلے یہ ہال دو سو کرسیوں سمیت صرف پانچ روپے کرائے پر دیاجاتا تھا اور یہی اس کی مقبولیت کا سبب تھا۔ شیفرڈ روڈ سے قریب مدن پورہ اور ناگپاڑہ دو ایسے علاقے ہیں جن میں اردو بولنے والا طبقہ رہتا ہے ۔ پھر محمد علی روڈ اور بھنڈی بازار کے علاقے بھی کچھ دور نہیں ۔ ان سب میں شعروشاعری کے رسیا ہیں۔ اکثر سنیچر کو رات اور اتوار کے سہہ پہر کو اس چھوٹے ہال میں مشاعرے ہوا کرتے تھے جن کے لئے نہ کوئی ٹکٹ ہوتا نہ داخلے کے پاس کی ضرورت ہوتی ۔ ان مشاعروں میں کبھی سردار جعفری یا کیفی اعظمی ،شکیل یا مجروح بھی آجاتے اور اپنا کلام سناتے ، انجمن ترقی پسند مصنفین کی تحریک آگے بڑھی تو اس کے ارکان اپنے محدود وسائل کے پیش نظر اسی ہال کو اپنی تقریبات کے لئے پسند کرتے رہے ۔ یہیں ایک شعری نشست کے موقع پر میں نے ایک نوجوان شاعر کو سناجس کے انداز میں خود اعتماری، اشعار میں موجوں کی سبک روی، لہجہ پر اثر اور کلام میں جاذبیت تھی ۔ نشست ختم ہوئی تو اس نوجوان سے تعارف ہوا ۔ یہ تھے رفعت سروش ، مسکراتے ہوئے انہوں نے ہاتھ ملایا ۔ اس روز کے بعد سے جب کبھی میں رفعت سروش کا چہرہ دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے ان کے چہرے پر مسکراہٹ چپک گئی ہو۔
بمبئی کے ریڈیو اسٹیشن پر مجھےRADIO PERSONALITYمانا جاتا تھا ، میری آواز کی وجہ سے رفعت سروش نے ایک جگہ اپنی خود نوشت سر گزشت میں لکھا ہے :
"جس زبان میں بولتے ویسا ہی لکھتے ۔۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے مگر اس پرعمل کرنا بہت مشکل ہے۔ بمبئی میں ایسے دو مقرر تھے (یعنی ریڈیو کے) ایک خواجہ غلام السیدین اور دوسرے ایس۔ ایس دسنوی۔"
مجھے اپنے متعلق کوئی غلط فہمی ہرگز نہیں ہے مگر، وجہ کچھ بھی رہی ہو ، بمبئی ریڈیو پر (بمبئی کی زبان میں)میرا بھاؤ کچھ اونچا تھا اس لئے اکثر یاد کیاجاتا تھا ، کبھی اسکولی نشریات کے لئے، کبھی تعلیمی یا سماجی مسائل پر بات چیت کے لئے، کبھی ادبی اور معلوماتی موضوعات پر بولنے کے لئے۔ ان موقعوں پر ریڈیو اسٹیشن پر رفعت سروش اور ان تمام لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر رفعت سروش نے اپنی کتاب بمبئی کی بزم آرائیاں میں کیا ہے ۔صوفیہ نٹراجن حبیب الرحمن وجے دوبے وغیرہ۔ رفعت سروش خواہ اناؤنسر رہے ۔ہوں یا پروڈیوسر، وہ اپنے کلام کو عبادت سمجھ کر کہا کرتے تھے ۔ اپنی سرگزشت میں انہوںنے ایچ۔ آر۔ شاہ حبیب الرحمن شاہ کا کئی جگہ ذکر کیا ہے جو ان کے بمبئی مین رفیق کار تھے۔ میرے تعلقات بھی شاہ صاحب سے بالکل برادرانہ تھے اور بڑی حد تک انہیں فلم کے چکر سے نکال کر آل انڈیا ریڈیو تک پہنچانے کا ذمہ دارمیں ہی تھا اسٹیشن ڈائریکٹر زید۔ اے بخاری مجھے ریڈیو کی ملازمت میں لینا چاہتے تھے لیکن اس پر ضا مند نہ ہوا ۔ اور شاہ صاحب کو ان سے متعارف کرادیا۔
شاہ صاحب بھی اپنا کام بڑی لگن اور محنت سے کیا کرتے ۔ ان سے ملاقات ہوتی تو اکثر رفعت سروش کا ذکر آجاتا اور وہ بڑی شفقت سے فرماتے ۔ یہ لڑکا بڑا تیز ہے ، بخاری صاحب نے بڑا عمدہ انتخاب کیا ہے ۔ نظمیں بے دھڑک لکھتا ہے، رفعت سروش نے ان کے پاگل پن کا ذکر کیا ہے ۔ دراصل وہ پاگل پن نہیں بلکہNERVOUS BREAKDOWNتھا۔ان کی خاندانی الجھنیں اور ریڈیو اسٹیشن پر مسلسل مصروفیت نے ان کے دل و دماغ کو اس طرح متاثر کیا تھا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے پاگل جیسے ہوگئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آل انڈیا ریڈیو کے پورے نظام میں بڑی تیزی سے اتھل پتھل ہورہی تھی۔
میں یہ تو نہیں جانتا کہ بمبئی میں رفعت سروش کب وارد ہوئے لیکن یہ جانتا ہوں کہ انہوں نے اس شہرمیں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کے جھرمٹ میں اپنی جگہ بہت جلدبنالی ۔انہوں نے اپنی سر گزشت میں جن جن کے نام گنائے ہیں ان سب سے میں بھی واقف رہا لیکن ان میں سے دو چند کے سواباقی لوگوں سے مجھے وہ قربت حاصل نہ ہوسکی جو رفعت سروش کو ہوئی ۔ وہ ہنستے بولتے ان میں اس طرح گھل مل گئے کہ لوگ انہیں بھی ان کی ٹولی کا رکن سمجھنے لگے لیکن ترقی پسند مصنفین کی صف میں سر اونچا کئے ہوئے وہ اپنی پہچان خود بنے رہے ۔
1964 میں صابو صدیق پالی ٹکنک کی سلور جوبلی منائی جانے والی تھی۔ تقریبات کے سلسلے میں ایک ڈراما بھی پروگرام میں داخل تھا۔ لیکن وہ ڈراما کون سا ہو! ایک تعلیمی ادارے کے جشن کا لحاظ رکھتے ہوئے میرا جی چاہا کہ روش سے ہٹ کر کوئی ایسی چیز پیش کی جائے جو مقصد ی بھی ہو اور اس میں کچھ جدت بھی۔ مجھے رفعت سروش کے منظوم ڈراموں کا خیال آیا۔ میرا دلی جانا ہوا تو ویسٹرن میں جہاں میں مقیم تھا رفعت سروش کو ملنے کی زحمت دی ۔ ان دنوں وہ اردو مجلس (دلی) سے وابستہ تھے ۔ جب وہ آئے تو میں اپنا خیال پیش کیا اور ان کے ایک ڈرامے کا نام بھی لیا ۔ کچھ سوچ کر وہ بولے ۔"آپ میرا منظوم ڈرامہ۔" جب پھول کھلے، لے لیجئے ہ یہ رسالہ شاعر میں چھپا ہے ۔ یہ ڈراما ملک کی غلامی، افلاس اور جہالت اور اس کے بعد آزادی اوراس کے متوقع ہر کاٹ سے متعلق تھا ۔ ڈرامہ کے ہدایت کار اورپروڈیو سر فلمی دنیا کے مشہور اداکار اور مکالمہ نویس قادرخاںبنائے گئے جواس وقت ہمارے اسٹاف پرتھے اور اس سے قبل ہمارے ادارے کے طالب علم رہ چکے تھے ۔ ڈراما اسٹیج ہوا تو اتنا غیر معمولی اور دلچسپ ثابت ہواکہ جشن کے بعد بھی ایک عرصے تک اس کا ذکر لوگوں کی زبان پر رہا۔ اخباروں میں اس کی تفصیلی اور توصیفی رپورٹیں شائع ہوئیں۔ جن کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ ایک تعلیمی ادارے نے اتنا سنجیدہ، خوبصورت اور مقصدی ڈراما پیش کیا کہ اس کی مثال کہیں اورنہیںدیکھی گئی۔ یہ کامیابی رفعت سروش کے ڈرامے اور ان کے زور کلام کی تھی۔ اس کے بیشتر مکالمے پر دہ سے پیچھے خود میں نے ادا کئے تھے ۔
رفعت سروش باتیں کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ عجلت میں ہوں، شاید کوئی نئی نظم لکھنی ہو۔ یا کوئی نامکمل نظم پوری کرنی ہو۔ ان کے الفاظ میں حلاوت ہوتی ہے، اپنی بے باک گفتگو کے باوجود اپنے دوستوں میں محبو ب ہیں، یہی ان کا کمال ہے۔
اللہ انہیں سلامت رکھے اور زور قلم اور زیادہ کرے ۔

ماخوذ از کتاب:
رفعت سروش - شخصیت و فن
مرتبہ: ڈاکٹر رضیہ حامد
ناشر: باب العلم پبلی کیشنز، بھوپال۔ (سن اشاعت: 1990)

Rafat Sarosh, a poet of poetic dramas.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں