آخری سوال ہم سے اتنی مرتبہ پوچھا گیا کہ ہم پریشان ہوگئے اور اسی پریشانی کے عالم میں ہمیں یہ کہنا پڑا،"کرنل صاحب اپنی پہلی تین کتابوں کی اشاعت پر ہی بے حد نادم ہیں، چوتھی کتاب وہ کیا چھپوائیں گے۔"
ایک محفل میں مشہور ہندوستانی مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے یہ کہا کہ پاکستان میں بہترین مزاح فوجی اہل قلم لکھ رہے ہیں ۔ اس پر ہم نے عرض کیا ،"مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں کیا رائے ہے؟" کہنے لگے،"ہم ان سے لندن میں ملے تھے، مزاج کے اعتبار سے وہ بھی فوجی معلوم ہوتے ہیں۔" ہم نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا،" ان کی گفتگو میں تکلف اور رکھ رکھاؤ کا یہ عالم ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اہل محفل سے بات چیت نہیں کررہے ہیں، پلٹن میدان میں سلامی لے رہے ہیں۔"
ہمارے فوجی حضرات ریٹائر ہونے کے بعد پی آئی اے یا دیگر خود مختار یا نیم کود مختار اداروں یا پھر ہاکی اور کرکٹ کے کنٹرول بورڈوں میں نظر آتے ہیں، لیکن کرنل محمد خان اور ضمیر جعفری نے دوسری مرتبہ ریٹائرہونے کا خطرہ مول نہیں لیا اور "اردو پنچ" کے نام سے ایک رسالہ جاری کردیا جو بقول مدیران گرامی"فکاہی ادب کا مخزن" ہے۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی عسکری روایت کو برقرا ر رکھا ہے کہ "مخزن" دراصل میگزین اسلحہ خانے یا بارود خانے کے معنوں میں استعمال کیاگیا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ"اردو پنچ" کاہر شمارہ فکاہیہ ادب کا بارود خانہ ہوتا ہے ۔
"اردو پنچ" کا دسواں شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے ، اور یہی اس وقت ہمارے سامنے ہے ۔فاضل مدیروں نے اس میں بہت سی دلچسپ تحریریں جمع کردی ہیں جو مشہور، غیر مشہور پیشہ ور اور شوقیہ ہر طرح کے اہل قلم نے لکھی ہیں ۔ موضوعات کے اعتبار سے بھی ان تحڑیروں میں بڑا تنوع پایاجاتا ہے ۔ احمد جما ل پاشا کے ایک نہ دواکھٹے تین ترجمے شائع کئے گئے ہیںجو امریکی، روسی اور افریقی مزاح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ترجمے اتنے عمدہ اور رواں دواں ہیں کہ جی چاہتا ہے احمد جمال پاشا اب ترجمے ہی کیا کریں ۔ اس کا مطلب خدا نخواستہ یہ نہیں وہ طبع زاد مضامین لکھنا چھوڑ دیں ۔ ضرور لکھیں لیکن اتنا کریں کہ طبع زاد مضامین کے ساتھ بھی روسی ، عربی یا انگریزی سے ترجمہ لکھ دیا کریں تاکہ اس بہانے ان مضامین کو بھی دلچسپی سے پڑھا جاسکے ۔ یہ بات ہم نے اس لئے لکھی ہے کہ جس طرح دیسی کپڑے پر بدیسی لیبل لگ جانے سے اس کی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے ۔ اسی طرح بعض طبع زاد مضامین کو ترجمہ ظاہر کرکے ان کی قدروقیمت بڑھائی جاسکتی ہے ۔
ڈاکٹر انور سدید نے "گٹھلیوں کے دام" کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اس میں ان کی تنقیدی تحریروں جیسی شگفتہ سنجیدگی پائی جاتی ہے ۔ اس لئے ہمیں امید ہے کہ مظفر علی خاں منظر اپنے اگلے مجموعۂ کلام میں اس مضمون کو بطور دیباچہ ضرور شامل کرلیںٰ گے کیونکہ ان کے لئے شعر کہنا بھی گٹھلیوں کے دام کھرے کرنے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹرانور سدید دیباچہ لکھے کے معاملے میں اور مظفر علی خاں منظر دیباچہ لکھوانے کے سلسلے میں خاصے فراخدل ہیں ۔ دونوں کی فراخدلی کی کوئی تو مثبت نتیجہ نکلنا چاہئے ۔
لیفٹننٹ کرنل عبدالکریم اوپل نے 1965ء کی جنگ کی یادوں کو نہایت خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ میدان جنگ میں بھی کرنل صاحب کی حس مزاح کتنی تیز تھی۔ دشمن کے ہوائی جہاز سروں پرہوں تو مزاح اور مذاق کی طرف دھیان نہیں جاتا، لیکن کرنل صاحب کا دھیان اس طرف رہتا تھا جیسے وہ محاذ جنگل پر نہ ہوں"اردو پنچ" کے دفتر میں بیٹھے ہوں۔ کیا ہی اچھا ہواگر موصوف اپنی پوری زندگی کے واقعات اسی انداز میں کتابی صورت میں لکھ ڈالیں ۔ ان کی کتاب مزاحیہ ادب میں اور وہ خود مزاح نگاروں میں نادر اضافہ ہوں گے۔
ڈاکٹر ایم ایم حسین نے"ایک علامتی سفر نامہ" لکھا ہے ۔ ان ڈاکٹر صاحب کا نام ہم نے پہلی بار سنا ہے ، اس لئے ہمیں یقین ہے کہ یہ پیشہ ور سفر نامہ نگار نہیں ہیں ۔ ان کے ہاں پیشہ ور سفر نامہ نگاروں کے مقابلے پرزیادہreadabilityپائی جاتی ہے۔ بعض جملے تو انہوں نے بڑے معنی خیز لکھے ہیںمثلاً
٭ شہر جہلم کے درودیوار جسمانی اور روحانی علاج کے ماہرین کے اشتہاروں سے پر نظر آئے۔ شاید اسی غرض سے سکندر اعظم نے اس شہر کا رخ کیا تھا کہ اس کے لا علاج مرض جوع الارض کا یہاں کوئی مداوا ہو۔
٭ کھاریاں کے قریب آکر یہ انکشاف ہوا کہ اس علاقے میں حکومت نے سڑک کو محکمۂ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دیا ہے۔ جو شیر شاہ کے وقت کی اس قدیم شاہراہ کی اصلی حالت برقرار رکھنے میں کامیاب کوشش کررہا ہے ۔
"اردو پنچ" میں اور بھی بہت سی تحریریں ایسی ہیں جن سے اس رسالے کے اعلیٰ معیار کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مثلاً ایک گوشہ اے ڈی اظہر کے لئے وقف کیا گیا ہے جو صاحب علم و نظر طنزو مزاح نگار تھے۔ اس میں ان کے کلام کا انتخاب اور بعض دیگر تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ ضمیر جعفری نے خواتین کی پسندیدہ مصنفہ بشری رحمن کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے"اردو ادب کی چاند بی بی" یہ مضمو ن بشریٰ رحمن کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں پڑھا گیا تھا ۔ یہ ایک فرمائشی مضمون ہے اور موضوع بھی ادبی اعتبار سے خاصا ثقیل ہے ، اس لئے جعفری صاحب نے لکھنے سے زیادہ نہ لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔ یعنی جہاں جہاں وہ اپنے موضوع سے ہٹے ہیں، مضمون خاصا جاندار نظر آتا ہے ۔
اتنی بہت سی خوبیوں کے ساتھ اگر رسالے کی بعض دیگر خصوصیات پر بھی نظر ڈالی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ، کیونکہ صرف تعریف سے ہمارے پڑھنے والوں کو بھلا نہیں ہوسکتا ۔ اس رسالے کا پہلا مضمون اہل زبان طنزومزاح سے زیادہ بد مذاقی کا نمونہ نظر آتا ہے ۔یہ مضمون چالیس ، پچاس سال پہلے چھپتا تو کوئی بات بھی تھی کہ اس وقت اہل زبان اور غیر اہل زبان کا مسئلہ زندہ تھا ۔ موجودہ دور میں اس مضوع پر کچھ لکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ لکھنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ زمانہ کتنا آگے جا چکا ہے ۔ اس قسم کے مکالمے مضمون میں جا بجا ملتے ہیں۔"اردو زبان تو دراصل ہمارے گھر کی لونڈی کہلانی چاہئے، یہ تم لکھنو ، میرٹھ اور دہلی کے ہندستوڑے اس کے وارث کہاں سے بن گئے ۔" معلوم ہوتا ہے کہ"اردو پنچ" کے مدیران گرامی نے پڑھے بغیر یہ مضمون شائع کردیا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو پھر ان مدیران گرامی کو حضرت صہبا لکھنوی کا مقلد سمجھنا چاہئے ۔ وہی صہبا لکھنوی جو" افکار" کے ایڈیٹر ہیں اور جن سے کسی نے ایک مرتبہ پوچھا تھا،" آ پ اپنے رسالے میں جو مضامین چھاپتے ہیں کیا انہیں پڑھتے بھی ہیں؟" صہبا صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا تھا،" بھائی! میں رسالے کا ایڈیٹر ہوں ،سالانہ خریدار نہیں۔"
"اردو پنچ" میں شاعری کاحصہ بہت کمزور ہے ۔ شان الحق حقی اور ضمیر جعفری کے کلام کے سو کوئی ڈھنگ کی چیز نظر نہیں آتی ۔ راغب مرادآباد اور سلطان رشک کا مزاحیہ کلام چھاپنے کی بجائے ان کا سنجیدہ کلام چھاپ دیاجاتا تو بہتر تھا۔ ان جیسے شاعروں کا سنجیدہ کلام پڑھ کر کم از کم ہنسی تو آتی ہے۔
(16/ اکتوبر 1986ء)
ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق
The gunpowder of humorous literature. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں