ادب میں فحش نگاری کی روایت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-13

ادب میں فحش نگاری کی روایت

a-literature
فحش نگاری ادبیات کا ایک اہم مسئلہ ہے، اس کی روایت قدمائے یونان و روم سے یادگار ہے۔ یونان قدیم میں فحاشی کی دیوی تھی جس کے سالانہ تہوار پر مرد عورتوں کا اور عورتیں مرد کا لباس پہنتی تھیں اور ہر قسم کے کجروی کے مظاہرے کئے جاتے تھے۔ ہومر نے ایسڈ میں خدا وند خداازیس اور اس کی زوجہ ہیرا کی مواصلت ساٹھ مصرعوں میں بیان کی ہے جو نہایت ہوس پرور ہے ۔وہ اوڈیسی میں لکھتا ہے کہ ایک دن دیوتا ہیفے سٹس نے اپنی زوجہ افروڈائٹی کو دیوتا ایرز کے ساتھ ناگفتہ بہ حالت میں دیکھا تو وہ تمام دیوتاؤں کو بلالایااور انہیں یہ منظر دکھایا، ہومر نے اس منظر کی وصف نگاری میں خوب خوب پیر پھیلائے ہیں ۔ قدیم روم میں فحش نظمیں لکھی جاتی تھیں ۔ جوان لڑکے اور لڑکیاں انہیں چھپ لک کر پڑھا کرتے تھے ۔
ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں فحش نگاری کا آغاز 17 ویں صدی عیسوی میں ہوا اور 18 ویں صدی میں فحش تحریریں تمام مغربی ممالک میں رواج پاگئیں ۔ وکٹوریہ کے عہد حکومت میں فحش نگاری کے وہ تمام اسالیب معین ہوگئے جو آج تک باقی ہیں مثلاً سائنسی مقصد کے لئے جنسی فعل کا تفصیلی تذکرہ ، علم الانسان اور تقابلی مذہب کے نام پر قدیم اقوام و مذاہب کی عجیب و غریب جنسی رسوم کا ذکر، لوک ہت کہاؤ اور لوگ گیتوں کے حوالے سے فحش نگاری کرنا، شادی کے ہدایت نامے وغیرہ۔
ہنسری سپنسر ایش بی نے اپنی تالیف انڈکس کی تین ضخیم جلدوں میں جملہ فحش تحریروں کو جمع کر دیا۔ وہ کہتا ہے کہ کسی قوم کے فحش ادب میں اس کے اخلاق کا عکس پڑتا ہے جیسا کہ مثلاً میرا بو، دساد، نرسیا، لے کلو وغیرہ کے قصوں میں 18ویں صدی کے فرانسیسی امراء کی فاسقانہ زندگی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ان مصنفین نے معاصرمعاشرے ہی کی تصویر کشی کی ہے ۔ ایش بی کہتا ہے کہ کسی عہد کے اخلاقی محاسن کو بھی اس زمانے کے معائب کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔ اس کا یہ خیال محل نظر ہے کیوں کہ فحش قصوں میں کسی معاشرے کی قدروں یا کسی فرد کے احوال کی حقیقی ترجمانی نہیں کی جاتی بلکہ وہ سراسر مریضانہ خیال آرائی پر مبنی ہوتے ہیں ، لہذا فحش قصوں کا اس خیال سے مطالعہ کرنا کہ ان سے کسی معاشرے کی اخلاقی قدروں کا ادراک ہوگا سعی بے مصرف ہوگی۔
فحش تحریروں میں زندگی کے تلخ حقائق سے گزیز کر کے ایک ایسے خیالی عالم میں پناہ لی جاتی ہے جس میں سوائے جنسی مواصلت کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور یہ وہ عالم ہے جس میں مرد عورتیں ہمہ وقت ہمہ تن جنسی مواصلت میں غرق رہتے ہیں ۔ یہ خیالی عالم وہ لوگ بساتے ہیں جو جنسی محرومی اور کمزوری کے شکار ہوتے ہیں۔اور اپنی داماندگی اور کوتاہ ہمتی کی تلافی شہوانی خیال آرائی سے کرتے ہیں ۔ اس خیال آرائی میں شہوت رانی کی مجالس برپا کی جاتی ہیں جن کی وصف نگاری واضح طور پر لکھنے والے کی جنسی فاقہ زدگی کی غمازی کرتی ہے۔
اس تفصیل نگاری میں اکتا دینے والی تکرار ہوتی ہے اور وہ سراسر میکانکی ہوتی ہے ۔ پورنو ٹوپیا میں تمام مرد غیر معمولی رجولیت کے مالک ہوتے ہیں، اور تمام عورتیں دن رات جنسی ہیجان میں مبتلا ہوتی ہیں ۔ اس میں عشق و محبت یا حسدو رقابت کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ کہانی کا اتار چڑھاؤ نہیں ہوتا ۔ ڈرامائی صورت احوال نہیں ہوتی ، جذبات کا تصادم نہیں ہوتا ، فطری مناظر اور معاشرتی عقدوں سے اعتنا نہیں کیاجاتا ۔ اس کے کردار میکانکی انداز میں جنسی مواصلت کیے جاتے ہیں اور اس سے کبھی سیر نہیں ہوتے ۔ ایک مرد اور دوسرے مرد میں کچھ بھی فرق نہیں ہوتا، عورتیں بھی سبھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ غرضکہ مرد عورتیں پلاسٹک کے کھلونے ہوتے ہیں اور کھلونوں ہی کی طرح ایک عمل کو بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ فحش قصے میں وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا ، اس کا آغاز پہلے جنسی تجربے سے ہوتا ہے ۔ جب تک آدمی زندہ رہتا ہے اس کی رجولیت بحال رہتی ہے ۔ اور جب تک اس کی جنسی توانائی برقرار رہتی ہے وہ زندہ رہتا ہے ، فحش ناول کے کردار ہر عنوان سے ہر بہانے سے جنسی مواصلت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ ان کا مذہب لنگ اور یونی کی پرستش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ فحش ناول نگار عالم خیال میں اپنے آپ کو جنسی پہلوان، تصور کر لیتے ہیں ۔

راقم الحروف کو ایک نوجوان کی تحریریں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، جو جبری خود لذتی میں مبتلا تھا اور اپنی کم ہمتی اور احساس کہتری کی تلافی فحش نگاری سے کیا کرتا تھا۔ وہ ایک سوکھا سہما ہوا مریل سا لڑکا تھا لیکن اپنی تحریروں میں وہ ایک قوی ہیکل شہ زور جوان دکھائی دیتا ہے جس کے پیچھے عورتیں دیوانہ وار بھاگتی پھرتی ہیں۔
راقم الحروف کے خیال میں سچا ادب اور سچا فن فحش ہوہی نہیں سکتا کیونکہ وہ محض خیال آرائی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اس کا ذہنی اور ذوقی رشتہ روز مرہ کی زندگی اور اس کے مسائل سے بلا واسطہ استوار ہوتا ہے اور وہ زندگی ہی سے اپنے موضوع تلاش کرتا ہے ۔ اس کے ہاں جنسی جبلت میں عشق و محبت کا پاکیزہ جذبہ مشمول ہوتا ہے اور عشق وہ کٹھالی ہے جس میں جنسی خواہش ذوق جمال کا زرخالص بن کر بکھر آتی ہے۔ چنانچہ وہ تحریریں قطعی طور پر فحش ہیں جن میں جنسی مواصلت کا ذکر سرد مہری سے کیا جائے اور اس کی وصف نگاری میکانکی بن کر رہ جائے ۔ اس نوع کی مواصلت انسان کو حیوان سے بھی پست تر کر دیتی ہے۔ فحش قصوں میں ایذاکوشی کا عنصر غالب ہوتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ فحش نگار ہمیشہ مرد ہی ہوتے ہیں ، اور کوتاہ ہمت مرد لازماً ایذا کوش ہوتا ہے۔ راقم کے مشاہدے میں ایسے کئی واقعات آئے ہیں کہ مرد نے خلوت صحیحہ میں اپنی کوتاہ ہمتی سے جھلا کر فریق ثانی کا گلا گھونٹ دیا یا اسے گولی مار دی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کسی بھی عورت نے فحش ناول نہیں لکھے ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جنسی کوتاہ ہمتی کے شکار اکثر و بیشتر مرد ہی ہوتے ہیں۔

"فحش ادب" کی ترکیب مغالطہ آفرین ہے۔ فحش تحریروں پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا، کسی فاتر العقل کی خیال آرائی کو حیطۂ تحریر میں لایا جائے تو وہ ادب نہیں کہلائے گی ۔ اس طرح ایک کوتاہ ہمت کی مریضانہ شہوانی خیال آرائی کو ادبیات میں شمار نہیں کیاجائے گا کیوں کہ ایک تو وہ روز مرہ کی زندگی سے ذوقی فیضان حاصل نہیں کرتا ، دوسرے جمالیاتی قدر کی ترجمانی سے قاصر رہتا ہے ۔ فحش تحریریں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسانی زندگی کی کوئی اساس نہیں ہے ، نہ اس میں کسی نوع کی قدریا معنویت پائی جاتی ہے ۔ دساد [Marquis de Sade] کے ناول جسٹن [Justine] کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 18ویں اور 19ویں صدی کے فحش نگاروں نے اسی کو اپنے لئے نمونہ بنایا ہے۔ جسٹن ایک حسین دوشیزہ ہے جو ماں باپ کی وفات کے بعد بے یارومددگار رہ جاتی ہے اور مصائب و آلام اسے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اسے کچھ عرصے کے لئے ایک داکٹر کے یہاں قیام کرنا پڑتا ہے ، یہ ڈاکٹر ایک جنسی عفریت ہے جس کی بد عنوانیوں میں ایذا کوشی اور عشق محرمات مشمول ہیں۔ جسٹن ڈاکٹر سے چھٹکارا پاتی ہے تو چند فاسق و فاجر راہبوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے ، خانقاہ کے دورانِ قیام میں جو کچھ اس پر گزرتی ہے وہ ہوسناکی اور ایذا کوشی کی بد ترین مثال ہے ۔ اس قصے کے مطالعے سے دساد کی ابلیسیت کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور قاری کے پست ترین جذبات بھڑک اٹھتے ہیں جب کہ سچا ادب و فن جذبات کی تنقیح کا باعث ہوتا ہے اور انسان کے تعمیری اور مثبت میلانات کی پرورش کرتا ہے۔ جنوبی ہند کے مندروں کے دیواری نقوش اور آرٹینو کی کتاب کی رسوائے زمانہ تصویریں بھی فحش ہیں۔ ہندو، روحانیت کے حوالے سے میتھن کی توجیہہ و تقدیس کرتے ہیں لیکن یہ محض جواز جوئی اور تاویل آرائی ہے ۔

ڈاکٹر ایبرہارڈ اور فلس کردن ہاسن نے فحش نگاری اور نفسیاتی حقیقت نگاری میں فرق کیا ہے۔ نفسیاتی حقیقت نگاری کا مقصد معروضی اور غیر جذباتی انداز میں جنس سے متعلق حقائق کو کھول کر بیان کرنا ہوتا ہے جب کہ ایک فحش نگار کا مقصدِ واحد ہوس انگیزی ہوتا ہے فحش قصوں اور نظموں کوبھی دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ، ایک تو سراسر فحش ہیں اور دوسروں کے بعض مقامات کو فحش کہا جا سکتا ہے ۔ سراسر فحش قصوں سے ہم طوالت کے خوف سے دو مثالیں دیں گے: "ہوس پرست ترک" اور "ہندوستان میں زہرہ"۔
ہوس پرست ترک خطوط کی شکل میں ہے ۔ ایک انگریز لڑکی ایمیلی بارلو کو بحری قزاق اغوا کر کے الجریا کے حاکم کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔ حاکم کے حرم میں جو کچھ ایمیلی پر گزرتی ہے وہ ان واردات کو خطوط کی شکل میں اپنی سہیلی سلویا کیری کو لکھ بھیجتی ہے۔ حرم کی دوسری لڑکیاں جو ترک حاکم کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں ایمیلی کو بار ی باری اپنی آپ بیتی سناتی ہیں۔ قصے میں ہر عنوان سے ترک حاکم کی جنسی فتوحات کا ذکر نہایت نفس پرور انداز میں کیا گیا ہے ۔ ناول کا بیشتر حصہ اسی قسم کی وصف نگاری پر مشتمل ہے ۔ اس میں معاصر انگریزی یا الجزائری معاشرے کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ جنسی مواصلت کے مناظر ہیجان انگیز ہیں ، انداز بیاں میکانکی اور ٹھس ہے ۔

دوسرا ناول انگریزی فوج کے ایک افسر کی خود نوشت سوانح ہے ، جس میں اس نے ہندوستان کے دوران قیام میں اپنی جنسی مہمات کا ذکر کیا ہے ۔ مصنف کیپٹن ڈیورو فوجی خدمات انجام دینے کے لئے ہندوستان آتا ہے اور صوبہ سرحد کی جھڑپوں میں حصہ لیتا ہے ۔ اپنی رجمنٹ کے کیمپ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں وہ ایک سرائے میں ٹھہرتا ہے جہاں اس کی ملاقات ایک حسین انگریز عورت سے ہوتی ہے ، عورت اسے اپنے کمرے میں بلا لیتی ہے اور پھر جنسی مواصلت کی وصف نگاری کا وہی چکر چلتا ہے جس میں حقیقت کم اور خیال آرائی اور آرزو پروری زیادہ ہوتی ہے ۔ ہر بار خلوت میں نئے نئے اسالیب اختراع کئے جاتے ہیں اور دونوں بے پناہ جنسی توانائی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اس کے بعد یہی کپتان اپنے میجر کی تین جوان کنواری لڑکی فینی، ایمی اور میبل سے اسی انداز میں تمتع کرتا ہے تینوں بہنیں یکے بعد دیگرے اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں ۔ اور باری باری سپردگی پر آمادہ ہو جاتی ہیںز
دوسرے فحش قصوں کی طرح اس ناول کا مقصدِ واحد عالم خیال میں اس جنسی لذت اور آسودگی کا حصول ہے جن سے مصنف اپنی حقیقی زندگی میں محروم رہا ہے ۔ یہ نام نہاد خود نوشت سوانح عمری سراسر دروغ و جعل ہے ۔ اس میں ہندوستانی معاشرے کی جو جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں وہ محض چند الفاظ و تراکیب اور سنی سنائی باتوں تک محدود ہیں ۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے ہندوستان میں قدم بھی نہیں رکھا۔

آج کل یورپ اور امریکہ کے شہروں میں فحش قصے برملا فروخت ہوتے ہیں، جو عورتیں اور مرد بوجوہ جنسی آسودگی سے محروم رہتے ہیں اور اس مسرت کے لئے ترستے رہتے ہیں جو جنسی خواہش کی بھرپور تسکین ہی سے میسر آ سکتی ہے وہ فحش قصوں کے مطالعے سے اپنی محرومیوں کی تلافی کر لیتے ہیں۔
مغرب میں فحش قصوں ، 'لباس در لباس اتار' [strip-tease] شبانہ مجالس کی مقبولیت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ جنسی آزادی کے باوجود مغرب کے بے شمار مرد و عورتیں بیزاری اور اکتاہٹ کی زندگی گزار رہے ہیں ، اور اس کے مداوا کے لئے فحاشی اور عریانی سے رجوع لانے پر مجبور ہیں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اشتراکی ممالک میں فحش نگاری کا کوئی کھوج نہیں ملتا۔ اشتراکی معاشرے میں لوگ اس قدر مصروفیت کی زندگی گزارتے ہیں اور انہیں معاشی آسودگی کے ساتھ ساتھ جذباتی تشفی کے اتنے سامان میسر ہیں کہ وہ مریضانہ خیال آرائی سے رجوع نہیں لاتے ۔ جو شخص محنت مشقت کی صاف ستھری سیدھی سادی زندگی گزار رہا ہو اس کی جنسی جبلت میں بھی ہمواری اور اعتدال کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اشتراکی معاشرے میں ذہنی و جذباتی آسودگی کے باعث شہوانی خیال آرائی بلکہ کسی قسم کی مریضانہ خیال آرائی یا ذہنی فرار کا کوئی عنوان ہی باقی نہیں رہتا۔

ماخوذ:
کتاب "جنسیاتی مطالعے"۔ مصنف: علی عباس جلالپوری

Tradition of A literature. Article: Ali Abbas Jalalpuri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں