جنس کی تعریف ابتدا میں یہ کی جاتی تھی کہ جنس مردوعورت کی خصوصیات میں تمیز کا نام ہے یا مرد و عورت کے طائف میں امتیاز پیدا کرنے کو جنس کہتے ہیں۔ بعد میں یہ تعریف اس طرح بدل گئی کہ جنس مردوعورت کے ان وظائف کا نام ہے جو اپنے پہلے اور دوسرے مظاہر یعنی جنسی اور تناسلی قوتوں اور سر گرمیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
فطرت کی مصلحت جنس کی جسمانی میکانیت میں صرف اتنی ہے کہ نوع کی افزائش اور بقا جاری رہے۔ اس میکانیت کے ساتھ عجیب و غریب انداز میں جسمانی ، ذہنی اور جذباتی خصوصیات مربوط کردی گئی ہیں تاکہ یہ مقصد پورا ہو اور نوع انسانی بجھنے نہ پائے جنسی جبلت تخلیقی ارتقا میں زیادہ سر گرم رہی ہے اور زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے بھی وہی ہے ۔ جنس کی اصلیت ایک طے شدہ مسئلہ ہے۔
مرد زیادہ سر گرم ، زیادہ متنوع اور خاص طور پر جنسی ہے ۔ عورت منفعل اور قدامت پرست ہے اور بہت کم طبعی معیار سے گرتی ہے ۔ جنس کی اکتسابی خصوصیات سے مراد وہ خصوصیات ہیں جو اصلی اور نمایشی نہ ہوں بلکہ قیمتی اور عارضی ہوں۔ جیسے جنسی حسن اور جنسی انتخاب۔ جنسی انتخاب میں ہمت استقلال قوت، ڈیل ڈول ہر قسم کے ہتھیار جیسے آلات موسیقی(جسمانی مصنوعی) چمکیلے رنگ، دھاریاں، نشانات اور زینت بڑھانے والے پور شامل ہیں، جو بالواسطہ محبت اور رقابت کے اثرات کے تحت نمودار ہوئے۔ حسن کی تلاش آواز، رنگ اور صورت میں محض عصبی نظام کے نشوونما پر منحصر ہے ۔ اپنے رقیب سے لڑنا اور اسے شکست دے کر مادہ پر قبضہ جمانا۔ یہ سب ترغیبات جنسی ہیں۔ اگر جنس کا خاتمہ ہوجائے یا کم ازکم اس کا مظاہرہ ایک موسم تک نباتاتی زندگی میں رک جائے تو کیا ہوگا؟ ساری حیوانی زندگی ختم ہوجائے گی اور ختم ہونے سے پہلے ہم نہایت حسرت سے اس دنیا کا نظارہ کریں گے جس کو حسن و جمال سے محروم کردیا گیا ہے اور اب ہمارے ذوق نظر اور مشام کے لئے اس میں کوئی جاذبیت موجود نہیں ہے ۔ چونکہ عالم نباتات حقیقی اور اہم ہونے کے باوجود ہم سے زیادہ قریب ہے اس لئے ہم اس کی قدر نہیں کرتے ۔ مگر جب ہم ان کی عدم موجودگی کا تصو ر کریں گے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ جس دنیا میں ہم رہتے سہتے ہیں اس میں جنس کی کار فرمائیاں کتنی اہم ہیں قطع نظر اس کے کہ خود ہماری شخصی زندگی میں جنس کا کیا مقام ہے ۔
جنس کا اثر زندہ اشیاء کی جذباتی فطرت ان کی خواہشات اور خواہشات سے پیدا ہونے والی سر گرمیوں پر حیرت انگیز ہوتا ہے ۔جنس کا حصہ ہمارے ارادوں ، جذبات اور ذہنی اعمال میں بہت زیادہ ہے ۔ جنس کے بغیر کسی جاندار میں احساس خواہش ، ارادہ اور عمل سے محروم ہوجائے گا ۔ نسوانیت کی حفاظت، ماں بچے کی نگہداشت اور ان کی غذا کا انتظام سب کچھ اس بنیادی جبلت تناسل پر موقوف ہے ۔
جوں جوں نوع انسانی تہذیب ، علم اور تجربے میں ترقی کرتی جاتی ہے انسان محبت اور تعلق کے بنیادی کیفیات میں نت نئے ذہنی اور جذباتی اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ جتنا زیادہ انسان تہذیب زدہ ہوتا جاتا ہے اور جس قدر اس کی انفرادیت نمایاں ہوتی ہے اسی قدر پیچیدہ خصوصیات کا وہ اپنے صنف مخالف سے متوقعہ ہوتا جاتا ہے ۔
جنسی وظائف کے بغیر عورت اور مرد کے درمیان سارے احساسات کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ ہر چیز بے کیف اور پراگندہ ہوجائے گی ۔ مادری اورپدری محبت خواب بن جائے گی۔ رسم الفت دنیا سے اٹھ جائے گی ۔ خاندانی روابط منقطع ہوجائیں گے ، عمرانی، تجارتی اور صنعتی زندگی سرد پڑ جائے گی۔ فنون لطیفہ کی ہیئت بدل جائے گی۔ اس کے بر عکس جنس، محبت، میں مرتقی ہوکر ہنگامہ ہستی کی باعث بنتی ہے اور دنیا کی رونق اور سر گرمیوں کو قائم رکھتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے”محبت دنیا کی کل چلاتی ہے۔”
قدیم مفکرین نے کبھی سائنسی انداز میں غوروفکر کی زحمت نہیں کی۔ وہ ہمیشہ واقعات کی توجیہ مافوق الفطرت زبان میں کرتے تھے۔ وہ نسل اور افزائش نسل کے جسمانی اعمال سے نابلد تھے ۔ وہ صرف جنسی غدود اور ان کے تولیدی مادوں سے واقف تھے ۔ جہاں تک زندگی کے حقائق کا تعلق ہے ۔ اس زمانے کے مفکرین بھی قدیم مفکرین کے دوش بدوش چل رہے ہیں ۔ کیلاگ کہتا ہے”جنسی وظیفہ کا دہرا مقصد ہوتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنسی اعضا ہمیشہ بر سر کار رہتے ہیں اور جسم کو ضروری ہیجان اور آسودگی بخشتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جنسی اعضا انفرادی زندگی اور بقائے نوع کے موجب بنتے ہیں ۔ ان سب اہم وظائف میں شخصی لذت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ خود غرضی کے تحت جنس عمل کی مشق اس مقدس وظیفہ کی توہین ہے جس کے باعث انسان نے تقریباً وہ تخلیقی قابلیت حاصل کرلی جس کی شبیھ پر وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ یہ ایک طبی اور جسمانیاتی صداقت ہے کہ خون جنس کی جنگاری کے ساتھ مل کر بہترین دماغ، اعصاب، اور عضلات پیدا کرتا ہے ۔ جنس کی رو نظام انسانی میں داخل ہوکر انسان کو بہادری اور پامردی کی صفات عطا کرتی ہے۔ جنسی غدود کی رطوبات ، دوسرے غدود کو قوت ہیجان اور بالیدگی بخشتے ہیں جو نتیجتاً دماغ کو تقویت پہنچا کر جسمانی اور ذہنی کار کردگی ، صحت و طاقت کا موجب بنتے ہیں ۔ ان معیارات کو حاصل کرنے کا سنہری اصول یہ ہے کہ ورزش ، اعتدال اور ضبط نفس سے کام لیاجائے اور جنسی تحریک کو تخلیقی توانائی میں ڈھال کر ذہنی اور جسمانی تخلیق کی سعی کی جائے ۔ اس طرح جو صداقت روشن ہوگی وہ ہمیں آزادی دلا سکے ۔ ہمارے اسلاف نے اسی کی تبلیغ کی اور وہ اسی پر عمل پیرا ہے ۔ اس میں جو کچھ کرنا ہے وہ تحت شعوری نفس کی نشوونما ہے ، باقی سارا کام فطرت پر چھوڑ دیاجائے ۔
اس اصول کے نتائج سارے تخلیقی اعمال، ایجاد اور اختراع میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اگر معلم اخلاق اپنے پندو نصیحت کے ساتھ اس اصول کی نشرواشاعت شروع کردے تو اس کا کام بہت آسان ہوجائے گا ۔ سماجی پاکیزگی کے خطوط پر کام کرنے والوں کے لئے ایک وسیع میدان موجود ہے ۔ جو فرق اثبات و نفی میں ہے وہی فرق عمل اور بے عملی میں ہے۔ ان لوگوں خے لئے جن کی جنسی فطرت نہایت قوی ہے (مگر وہ ترغیبات کے باوجود ایک پاکیزہ اخلاقی جنسی زندگی پسند کرتے ہیں) ایک کھلا راستہ موجود ہے یہی عملی اخلاق کا بہترین طریقہ ہے کہ انسان فرض، مذہبی احکام اور سماجی اصلاح کی سپرٹ میں اپنے اطوار کو سنوارلے ۔ جو لوگ اپنی نسل کی اخلاقی فلاح چاہتے ہیں ، انہیں سنجیدگی کے ساتھ نشاۃ ثانیہ کے حسب ذیل اصول پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
1۔مستقل نصب العین
2۔خواہش مسلسل
3۔پر اعتماد توقع
4۔عزم مستقل
5۔متوازن بدل
مختصر یہ کہ تم ہر چیز حاصل کرسکتے ہو بشرطیکہ۔۔۔
1۔ تم جس چیز کے طالب ہو اسے اچھی طرح جانتے بھی ہو۔
2۔ تمہاری طلب سچی ہو۔
3۔تم کامل اعتماد کے ساتھ اسے حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہو۔
4۔ اسے حاصل کرنے کے لئے بلا وقفہ سعی کرنا چاہتے ہو۔
5۔اس کے حصول میں اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے رضا مند ہو۔
ماخوذ از کتاب: جنس لطیف ، مولف: محمد عبدالحئی
سن اشاعت: 1949 ، ناشر: ادارۂ تربیتِ جنسی (حیدرآباد دکن)۔
سن اشاعت: 1949 ، ناشر: ادارۂ تربیتِ جنسی (حیدرآباد دکن)۔
The Virility Power.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں