حدیث کے انکار یا استخفاف کی چھ علامتیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-19

حدیث کے انکار یا استخفاف کی چھ علامتیں

quran-hadith-relationship
ساری امتِ مسلمہ کے نزدیک قرآن کے بعد صحیح احادیث اور کتبِ احادیث دین کی بنیاد ہیں۔ قرآن کریم بنیادی طور پر عقیدہ اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے والی کتاب ہے اسی لیے احکامات سے متعلق آیات اکثر و بیشتر مجمل ہیں جن پر عمل کرنے کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنا از بس ضروری ہوتا ہے کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں عام مسلمان احادیث پر عمل کرنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔
دورِ حاضر میں ضروری ہو گیا ہے کہ حدیث کا انکار یا استخفاف [مرتبے کو کم کرنا، بےقدری کرنا یا اہمیت کو حیلوں یا عذر خواہی سے چھپانا] کرنے کے بنیادی چھ (6) نکات کو واضح طور پر بیان کر دیا جائے تاکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی سبب انکار یا استخفاف حدیث کے جراثیم سے متاثر ہوا ہے اپنا محاسبہ خود کر لے اور اس گمراہی سے تائب ہو جائے!

-1-
ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔ اور یہ اصول حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یعنی آج جو صحیح احادیث ایسے افراد کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں، محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم و فراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں۔
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپر قابل ذکر ہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!

-2-
حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والے ، قرآن کے مفسر بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔

-3-
حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والے ، احادیث کے ذخائر اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جو کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کو چھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

-4-
حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والے ، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں۔ ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں اور محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اور علمیت مسلمہ تھی۔
مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :
سورۃ بقرۃ میں ﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
ﷲ سے مدد طلب کرو، صبر اور نماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پر نہیں جو ﷲ سے ڈرتے ہیں ، ( ﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو ﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں۔ ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )
صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور ﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کا ایک لازمی جزو ہے ، پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکور ظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لاگو کرنا محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ محض ظن کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثر اوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پر ہی کیا جاتا ہے اور گواہی کا ظنی ہونا اظہر من الشمس ہے۔ پھر ان مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے اس کے باوجود جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے اور نافذ العمل سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ رواۃ حدیث کا جھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہوا کہ اصولی طورپر احکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کو ثابت اورغالب کرنے کےلئے قابل قبول اورمفید ہے یعنی احادیث کو اگر ظنی کہا بھی جائے تب بھی احادیث امور دین میں دلیل و حجت ہیں۔

-5-
حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والے لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اور علمائے دین کو عقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں، بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ : یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ ثبوت کے طورپر غلام احمد پرویز صاحب کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ:
کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کو کچھ واسطہ نہیں ہوتا اس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہا جا سکتا، ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواس طرح حفظ کیا ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے، فلاں امام نے کیا کہا ہے ، فلاں مفسر کا کیا قول ہے ، فلاں محدث کا کیا ارشاد ہے اور جو کچھ انہیں ان کتابوں میں لکھا ملتا ہے وہ اسے حرفاً حرفاً نقل کر دیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کو قطعاً دخل نہیں دینے دیتے اس لئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے Catalogur یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول :
' فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا '
قرآن نے اس کو 'حمل اسفار' یعنی کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیا ہے یہ اپنے محدود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے۔
(بحوالہ : قرآنی فیصلے ص:506)
منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں بآسانی پھنس جاتا ہے اس لئے یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کا پردہ بھی چاک کر دیا جائے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ
قرآن نے عقل کا استعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیا ہے؟ اور کہاں ہر مسلمان عقل کے بجائے ﷲ اور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے ؟

اولاً :
عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں ﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
ﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ،کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ ( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں ﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا ﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں ﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں اور سورۃ بقرۃ میں ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،ﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا ﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف ﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے۔ ( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کا استعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے۔

اسی طرح عقل کو استعمال کرنے کا مشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیا ہے جو ﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پر کمربستہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ برائی کاانجام برا نہیں ہوتا، مثلاً سورۃ الانعام میں ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤ میں بتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کیاہے ، یہ کہ ﷲ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کرنا، والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی، فحش کے قریب بھی مت جاؤ خواہ وہ کھلا ہو یا چھپا ہو اورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے ﷲ نے حرام کیاہویہ ﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو۔ ( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )

یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیا جا رہا ہے جو اس سے قبل دیگر تمام شریعتوں اور مذاہب میں بھی موجود رہی تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کو دعوت دی جا رہی ہے تاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کو اپنے اوپر کوئی بوجھ نہ سمجھیں۔ اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیز 'قول و فعل کا تضاد' بھی ہے ، اسکے متعلق قرآن کریم میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
کیا تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خو د اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہو پس کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 44 )
یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یا توجیح کر کے انسان اپنے آپ کو دھوکا نہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کا حکم دوسروں کو دے رہا ہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔

اسی طرح ہر وہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان و مکان کے اعتبار سے محال ہو اس پر اصرار کرنے والوں کو بھی قرآن نے عقل کے استعمال کا مشورہ دیا ہے ، مثلاً سورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہوا کہ:
اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے) بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے۔ ( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 65 )

یہاں ﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کر رہا ہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اور عیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں، اس لئے قرآن اسکی مذمت کر رہا ہے۔
یعنی عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود ﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے۔ بلکہ اسکی تشریح ﷲتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال و اعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے ، جس کی دلیل میں قرآن کی یہ آیت کہتی ہے:
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے۔ ( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )
اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں۔

البتہ سورۃ بقرۃ کی ایک آیت ہے جہاں کسی کو اس قسم کا اشکال ہو سکتا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
یہ لوگ جوئے اور شراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے یہ بڑے گناہ ہیں اوراس میں لوگوں کوکچھ منفعت بھی ہے لیکن ان کاگناہ انکے نفع سے کہیں بڑھ کر ہے اور وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ (ﷲ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں، کہہ دیجئے کہ وہ سب جو تمہاری ضرورت سے زائد ہے ، اس طرح ہم اپنی آیات کو کھول کر بیان کر دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ غور و فکر کریں۔ ( سورة البقرة : 2 ، آیت : 219 )

یہاں اس آیت میں ﷲ تبارک و تعالیٰ نے شراب اور جوئے کی ممانعت کی حکمت بیان کی ہے اور اس کے بالمقابل صدقہ کا حکم دیا ہے تاکہ لوگ ان معاملات میں تھوڑے اور ظاہر ی فائدے کو نہ دیکھیں بلکہ اس کے گناہ اور نقصان کو مدنظر رکھیں جو نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اس کے بعد غور فکر کی دعوت اس لئے دی گئی ہے تاکہ لوگ دین کے باقی احکامات پر بھی یہ یقین رکھتے ہوئے عمل کریں کہ ان سب احکامات کی کوئی نہ کوئی وجہ اور حکمت ضرور ہے اگرچہ ہم جانتے نہ ہوں۔ اور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ جو لوگ ان احکامات پرغور فکر کریں گے ان کو اس میں سے بعض احکامات کی حکمت معلوم بھی ہو جائے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان احکامات پر عمل کرنا سب کے لئے فرض ہے مگر ان کی حکمت کو جاننا ہر ایک پر فرض نہیں کیونکہ یہاں لفظ "لعلکم" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں "شاید کہ تم" ، "امید ہے کہ تم" یا "توقع ہے کہ تم" غور و فکر کرو گے ۔

لیکن منکرین حدیث کے سرخیل پرویز صاحب نے صرف اسی کو علم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اور کتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیا ہے جو تمام کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے حالانکہ لفظ ''علم '' کے معنی ہی ' جاننا '' ہیں۔ اور علامہ کا مطلب ہے 'بہت زیادہ جاننے والا' یعنی 'عالم دین' اسی شخص کو کہا جائے گا جو قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کو جانتا ہو کیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوں کے اقوال ، افعال و اعمال کے استفادہ سے، جن پرﷲ تعالیٰ کا انعام ہوا اور جو قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ہیں۔
اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اور علمیت مشروط ہے عقل سے، تو پھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ، مدبر اور علم منطق کے ماہر افراد کے راستے کو صراط مستقیم ہونا چاہیے تھا جبکہ ایسا نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات صرف حدیث کے منکر نہیں بلکہ علوم اور حصول علم کے طریقوں کے بھی منکر ہیں !!

-6-
حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والے کچھ لوگ انتہاء درجہ پر نہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پر ہیں۔ ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یا بعض احادیث کی اقسام کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں ماننے ، مثلاً بعض حضرات لکھتے ہیں کہ:
اطیعو ﷲ سے مراد ﷲ کے احکام کی پابندی کرنا اور اطیعوا لرسول سے مراد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ اور احادیث پرعمل ہے ، لہذا جہاں قال ﷲ تعالیٰ کا لفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ حدیث نبوی ہوگی۔
ان صاحبان نے قرآنی آیت اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طور پر نامکمل اور غلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں بلکہ حدیث ، اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اور تقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہا جاتا ہے
یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اور ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تنبیہ نہیں کی بلکہ ان کو برقرار رکھا مزید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کو بھی حدیث کہا جاتا ہے اور اس کے لئے 'حدیث موقوف' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ بات جو قال ﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال ﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اور محدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو "حدیث قدسی" کہا جاتا ہے۔
پس حدیث کا انکار/استخفاف کرنے والوں کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔

The 6 signs of Hadith refusal and its disparage.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں