جواہرات کی وادی - کہانی از کالیکا پرشاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-13

جواہرات کی وادی - کہانی از کالیکا پرشاد

jawaharat-ki-waadi
اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ سندباد جہازی ایک جہاز میں سوار ہو کر اپنے دوسرے سمندری سفر پر روانہ ہوا۔ کچھ دن کے سفر کے بعد وہ ایک سنسان جزیرے میں پہنچے ۔ کچھ لوگ جہاز سے نکل کر پھل پھول اکٹھا کرنے لگے ۔ لیکن سندباد ایک درخت کے سائے میں لیٹ گیا۔ پھر اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور سو گیا۔ جب وہ جاگا تو اس کے دوست جا چکے تھے اور وہ جہاز بھی۔۔۔۔
سندباد کو بہت دکھ ہوا ۔ اس نے اپنے آپ کو خدا پر چھوڑ دیا۔ وہ ایک درخت کی اونچی شاخ پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ دور اسے زمین پر کوئی سفید سی چیز نظر آئی ۔ وہ درخت سے اتر کر اس کے قریب گیا۔ وہ چیز بہت بڑی تھی ۔ اور ایک کٹورے جیسی دکھائی دیتی تھی ۔ اس کے کسی جانب کوئی سوراخ نہیں تھا۔ وہ اس قدر چکنی تھی کہ سند باد اس کے چوٹی پر نہیں پہنچ سکا۔ وہ اس کے چاروں طرف گھوما تو پچاس قدموں میں اس کے گرد ایک چکر پورا کر سکا۔
یکایک اندھرا سا چھانے لگا ۔ سندباد نے دیکھا کہ یہ اندھیرا ایک بہت بڑے پرندے کی وجہ سے ہوا ہے جو اسی کی جانب چلا آ رہا ہے ۔ وہ حیرت میں پڑ گیا ، اسے یاد آ گیا کہ وہ پرندہ رخ ہے جس کا ذکر اکثر جہازی کیا کرتے تھے۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ گنبد نما شئے اس پرندے کا انڈا ہوگا جو ریت میں آدھا دھنسا تھا۔
جیسے ہی اس نے پرندے کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ انڈے سے چمٹ کر لیٹ گیا کہ کچلے جانے سے محفوظ رہ سکے ۔ اس پرندے نے رات انڈے پر ہی بسر کی ۔ سند باد کے روبرو پرندے کی ایک ٹانگ تھی جو درخت کے تنے جتنی موٹی تھی ۔ اس نے اپنے صافے سے اپنے آپ کو پرندے کی ٹانگ سے باندھ لیا۔ اس کو امید تھی کہ جب دوسرے دن پرندہ وہاں سے اڑ جائے گا تو اس کو بھی اس سنسان اور ویران جزیرے سے رہائی حاصل ہو جائے گی۔
جیسے ہی سورج طلوع ہوا ، پرندہ سندباد کو لے کر آسمان میں اتنی اوپر اڑ گیا کہ زمین نظر نہیں آتی تھی، بہت دیر کے بعد وہ پرندہ تیزی سے زمین پر اتر گیا۔ سند باد نے فوری اپنی پگڑی کھول ڈالی اور اپنے آپ کو پرندے سے آزاد کر لیا۔ اس کے ایک ہی لمحہ بعد وہ پرندہ ابھی ابھی شکار کئے ہوئے ایک بڑے سانپ کو اپنی چونچ میں دبا کر ا ڑ گیا۔
سند باد نے اپنے آپ کو ایک خوفناک وادی میں پایا اس کے اطراف اونچے اونچے پہاڑ تھے جن کی چوٹیاں بادلوں کو چھورہی تھیں ، ان پر چڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا، صحرا سے نکل کر وہ اس وادی میں قید ہو گیا تھا۔
سندباد وادی میں گھومنے لگا تاکہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ سکے۔ اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ وادی طرح طرح کے ہیروں اور جواہرات سے بھری پڑی ہے کچھ فاصلے پر اس نے بڑے بڑے اژدہوں کو دیکھا جو ایک وقت میں ایک ہاتھی کو نگل سکتے تھے۔ وہ اژدہے اس پرندے کے خوف سے چھپ گئے تھے اور اب رات ہونے پر باہر نکل آئے تھے۔
جب رات ہو گئی تو سندباد نے اپنے بچاؤ اور حفاظت کی خاطر اپنے آپ کو ایک غار میں بند کر لیا۔ اس نے غار کے مونہہ کو ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا تاکہ سانپ اندر نہ آ سکیں۔ جو کچھ اس کے پاس تھا اس نے اسے کھا لیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا ۔ مگر سانپوں کی پھنکاروں سے رات بھر وہ خوف زدہ رہا اور اسے مطلق نیند نہیں آئی۔ جب صبح ہوئی تو وہ خدا کا شکر بجا لایا، کیوں کہ پرندے کے خوف سے تمام سانپ چھپ گئے تھے۔
سندباد ان ہیروں اور جواہرات کو روندتاہوا اس وادی میں گھومنے لگا ۔ ان ہیروں کو چھونے اور ان کو محفوظ کرنے کی اس کے دل میں بالکل خواہش پیدا نہ ہوئی ، کیونکہ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اسے یا تو ان اژدہوں کا لقمہ بن جانا پڑے گا یا فاقہ کشی سے ایک دن اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ کچھ دیر بعد وہ ایک چٹان پر چڑھ گیا اور اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ دھپ کی آواز کے ساتھ کوئی چیز آ کر اس کے قریب گری اور وہ جاگ گیا ۔ وہ لمحہ بھر کے لئے ہکا بکا رہ گیا ۔ غور سے دیکھنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا گوشت کا لوتھڑا ہے ۔ اسی وقت اس چٹان سے مختلف سمتوں میں گوشت کے لوتھڑے پھینکے جاتے ہوئے اس نے دیکھے۔ اب سندباد کی سمجھ میں آیا، وہ جواہرات کی وادی میں ہے اور اس وادی سے جواہرات حاصل کرنے کے لئے سوداگروں کی مختلف کہانیاں بھی اس کو یاد آنے لگیں۔
سوداگر اس وادی کے آس پاس جمع ہوجاتے تھے اور بڑے بڑے گوشت کے لوتھڑے وادی میں پھینکتے تھے، یہ گوشت کے لوتھڑے وادی میں پڑے ہیروں سے چمٹ جاتے تھے ۔ یہاں کی چیلیں بہت بڑی اور طاقتور ہوتی تھیں وہ ان لوتھڑوں کو اپنی چونچ میں دباکر اڑ جاتی تھیں۔ وہ انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنے گھونسلوں میں لے جا کر اپنے بچوں کو کھلاتی تھیں، اس وقت سوداگر وہاں جاتے تھے اور چلا کر اور تالیاں بجا کر ان چیلوں کو بھگا کر ہیرے حاصل کر لیتے ۔ ہر سوداگر اپنے ایک گھونسلے کا انتخاب کرتا تھا، جسے اس کی ذاتی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔

سندباد اب تک اس وادی کو اپنی قبر تصور کرتا تھا کیوں کہ ان اونچی پہاڑیوں پر چڑھنا ناممکن تھا۔ لیکن گوشت کے لوتھڑوں کو دیکھ کر اسے اس وادی سے نجات حاصل کرنے کی امید بندھ گئی ، جہاں چاہ ہے وہاں راہ ہے ، اس نے دل میں کہا۔
سندباد کو ایک ترکیب سوجھی ، اس نے بہت سے بڑے بڑے قیمتی جواہرات اور ہیرے اپنے چرمی بیگ میں رکھ لئے اور ان کو اپنی کمر سے باندھ لیا۔ پھر اس نے اپنی پگڑی سے ایک بڑا گوشت کا لوتھڑا باندھ لیا ۔ اس کے بعد وہ اوندھے منہ زمین پر لیٹ گیا۔ اتنے میں اس نے کئی چیلوں کو نیچے آتے دیکھا۔ ہر چیل ایک ایک گوشت کا لوتھڑا لے کر اڑ گئی۔ ان چیلوں میں جو سب سے زیادہ بڑی اور طاقتور تھی، اس گوشت کے لوتھڑے کو جس سے سندباد بندھا تھا، اٹھا لیا اور اس کو لے کر اڑتی ہوئی پہاڑ کی اونچی چوٹی پر اپنے گھونسلے میں چلی گئی۔ پھر وہی ہوا جس کی سندباد کو امید تھی ۔ ایک سوداگر زور زور سے تالی بجا کر چیل کو بھگانے میں کامیاب ہو گیا۔ دوسرے نے بھی اسی طرح شور مچایا۔ گھونسلے میں سندباد کو دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ سندباد سے کچھ دریافت کرتا، اس نے خفگی سے کہا:
"بدمعاش! چور! تو میرے گھونسلے سے ہیرا چراتا ہے ۔"
سندباد نے جواب دیا:
"میرا پورا قصہ سننے کے بعد آپ کا غصہ دور ہو جائے گا۔ میرے پاس کافی تعداد میں ہیرے ہیں، جو ہم دونوں کے لئے کافی ہیں۔ میرے اس بیگ میں نہایت بیش قیمت ہیرے ہیں" یہ کہہ کر سند باد نے اپنا بیگ سوداگر کو دکھایا۔ سوداگر ان ہیروں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
سند باد نے گھونسلے کے مالک سوداگر سے کہا کہ وہ جس قدر چاہے ہیرے اس کے بیگ سے نکال لے، مگر اس سوداگر نے اپنے لئے صرف ایک ہیرے کا انتخاب کیا، جو بہت بڑا اور بیش قیمت تھا۔ دوسرے سوداگروں نے بھی اپنے اپنے گھونسلوں سے ہیرے اکٹھے کرلئے، کچھ دن بعد سوداگروں کا قافلہ وطن کی طرف روانہ ہوا ، جب وہ بصرہ پہنچ گئے تو سندباد بغداد کے لئے چل پڑا۔
بغداد پہنچنے کے بعد سندباد نے بہت بڑی رقم فقیروں میں بانٹی اور باقی زندگی ہنسی خوشی بسر کرنے لگا۔

(انگریزی سے ماخوذ)

ماخوذ:
ماہنامہ "کھلونا" دہلی۔ شمارہ: مئی 1980 ، (اشاعت کا 33 واں سال ، 386 واں پرچہ)

Jawaharat ki waadi. Kids Story by: Kalika Prasad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں