قرآن حکیم دنیا کے علوم کا سرچشمہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی سنت ایک ایسا بحر ذخار ہے جس نے اپنے جلو میں بےکراں علوم سموئے ہوئے ہیں۔ ان میں صحافت کا قانون بھی اپنی گہرائی اور وسعت کے ساتھ موجود ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے تربیت یافتہ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے اسلام کے پرچم کو صحرائے عرب سے نکل کر اس عہد کے متمدن ترین خطوں پر لہرایا۔ تعلیماتِ اسلام نے دنیا کے مزاج کو بدل دیا۔ ابلاغ کے ذریعے سوچنے سمجھنے کے انداز بدلے اور انسانی ذہن کو نئے افکار ملے۔ آج بھی عرب کے صحراؤں میں ، غرناطہ کے سبزہ زاروں میں اور نیل کی وادیوں میں اس کا عکس ملتا ہے۔
مجھے اسلام کے تصور صحافت پر کام کا خیال اس وقت آیا جب پہلی دفعہ راولپنڈی کے معروف صحافی سید اکرام الحق جاوید سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اسلامی صحافت کی تحریک شروع کی ہے۔ بعد ازاں لاہور میں دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری کے ریسرچ سیل میں ایک معروف محقق حافظ سعد اللہ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اسلام کے قانون صحافت پر کام کروں۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے اب یہ کام مکمل ہو گیا ہے۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے اس لیے اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
*** (اقباسات بشکریہ : ابتدائیہ ، از قلم مصنف کتاب لیاقت علی خان نیازی)
اسی کتاب کے دیباچہ کے تحت روزنامہ 'نوائے وقت' کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی رقم طراز ہیں:
تاریخ انسانی کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت شمس و قمر کی طرح روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ ابلاغ و صحافت کے موجد و بانی بہ امرللہ تعالیٰ انبیا و رسل علیہم السلام تھے۔ وہ صحافت ربانی کے ذریعے سب سے سچی، مصدق و موفق خبروں کے حامل و مبلغ ٹھہرے۔ انہوں نے نسل انسانی کو مکارم اخلاق کی تعلیم دی۔ انہیں ذہنی و معاشرتی لحاظ سے مہذب و متمدن بنایا اور زیست کے صحیح ترین منہج پر گامزن کیا۔
۔۔۔ ابلاغ وہ قوت متحرکہ ہے جس سے دنیا کے مختلف معاشروں میں مختلف ادوار میں سیاسی، مذہبی ، ثقافتی، علمی ، تہذیبی اور تمدنی انقلاب رونما ہوئے ہیں۔ اس لیے ابلاغ و صحافت کی اہمیت و ضرورت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔ اور زمانہ کے ساتھ ساتھ ابلاغ و صحافت کے طریقے اور مناہج بھی ترقی پذیر رہے ہیں۔
قرآن کریم نے صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل جلیلہ سے آنے والی نسلوں کو جن میں سے کچھ افراد نے پیشہ ابلاغ و صحافت اختیار کرنا تھا، ایک ضابطہ اخلاق اور اصول مسلم دئیے۔ مشکل ضابطہ اخلاق سرمدی نے یہ پیغام دیا:
"جب تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں تمہیں ندامت اٹھانی پڑے۔"
زیرنظر کتاب "اسلام کا قانون صحافت" ایک ایسی تصنیف ہے جس میں اسلامی صحافت کی تعریف، تصور، اصول ، خد و خال، ضابطہ اخلاق، عہد نبوی کی صحافت، ذرائع ابلاغ خلافت راشدہ میں، آزادئ رائے و ابلاغ اور دور حاضر کے تمام مرئی ذرائع ابلاغ کا نہایت عالمانہ طریقے سے ذکر ہے۔ اور میری نظر میں ڈاکٹر نیازی صاحب نے اپنی کتاب کی ترتیب و تزئین کرتے وقت مجتہدانہ مساعی کی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ذرائع ابلاغ کی تباہ کن روش معاشرہ کے لیے گوناگوں اخلاقی، معاشرتی، نفسیاتی اور عائلی مسائل پیدا کر رہی ہے۔ فکری سطح پر انتشار و افتراق اور جذبات کی سطح پر ہیجان بڑھ رہا ہے۔ اعلیٰ اقدار ملیا میٹ ہو رہی ہیں۔ تحمل، عفو ، درگزر اور اخوت و محبت معاشرے میں عنقا ہو رہے ہیں۔ نفسا نفسی بڑھ چکی ہے اور مختلف بھیانک نتائج پیدا کر رہی ہے۔
جب اپنے ہاں کے ذرائع ابلاغ سے وابستہ ذمہ دار افراد میں سے کسی کے ساتھ اس صورتحال کا ذکر ہوتا ہے تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ : "صحافت کے اسلامی ضابطہ اخلاق کے مطابق نمونہ کا کوئی اخبار یا رسالہ تو دکھائیے۔"
عالمی سطح پر بھی ہمیں یہی مشکل درپیش ہے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا کہ:
"کون سا ملک صحیح اسلامی معاشرہ کا نمونہ ہے؟"
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ نمونہ موجود نہ ہو تو اپنے مقصد اور نصب العین کا ذکر اذکار بھی ترک کر دیا جائے۔
ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی یہ کاوش بھی ان کے اس جذبہ کی ترجمان ہے۔ ابلاغ کاروں اور اہل فکر کو یہ بتانا تو چاہیے کہ اسلام کا تصور صحافت کیا ہے؟ اور موجودہ دور میں اس تصور کو عملاً کس طرح رائج کیا جا سکتا ہے؟ میرے نزدیک یہ کتاب ایک مستحسن کوشش ہے۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آج کی صحافت جس شدت سے ہمارے ذہنوں اور رویوں پر اثرانداز ہو رہی ہے اس سے معاشرے کو ایک ثقافتی یلغار کا سامنا ہے۔ اس ثقافتی یلغار کے اثرات عقائد، تہذیب اور تمدن سب پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ہماری نئی نسلیں خصوصیت سے اپنے دینی ورثے اور ثقافتی سرمائے سے محروم ہو رہی ہیں۔ یہ ثقافتی مفلسی اپنے دامن میں بہت سی بربادیوں کا پیغام رکھتی ہے۔ اسلام کے قانون صحافت کے نفاذ سے اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر نیازی کی یہ تصنیف بہت اہمیت کی حامل ہے۔
اسلام کا قانون صحافت کیا ہے؟ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ بلاشبہ فاضل مصنف نے اس کی تاریخ کو کتاب و سنت کے حوالوں سے مزین کیا ہے اور بہت سے قیمتی نکات ہمارے سامنے لائے ہیں۔ مگر اس موضوع پر ہمیں بہت سے اجتہادات سے کام لینا ہوگا جس میں تصویر کی اشاعت کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ تصویر ایک درجے میں خبر کی ضرورت ہو سکتی ہے مگر جس بےتکان اور بےلگام انداز میں ہماری صحافت کا گھوڑا بگٹٹ دوڑا چلا جا رہا ہے یہ مسلسل ثقافتی حادثات کو جنم دے رہا ہے۔ ہم نے صحافتی شوق میں عورت کی تذلیل کے جو سامان پرنٹ میڈیا میں بالعموم اور سمعی و بصری معاونات میں بالخصوص فراہم کیے ہیں، اس سے ملی سطح پر ہم ایک نقصان عظیم سے دوچار ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب لائق مبارکباد ہیں کہ ان کی یہ تصنیف جہاں ایک علمی اور تحقیقی ضرورت کو پورا کرے گی وہیں جدید صحافت کے مضر اثرات کا بھی تدارک پیش کرتی ہے۔
***
نام کتاب: اسلام کا قانون صحافت
مصنف: ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
ناشر: رانا سلطان محمود (معراج دین پرنٹرز، لاہور۔ پاکستان)
سن اشاعت: 1995
تعداد صفحات: 271
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: kitabosunnat.com)
نام کتاب: اسلام کا قانون صحافت
مصنف: ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
ناشر: رانا سلطان محمود (معراج دین پرنٹرز، لاہور۔ پاکستان)
سن اشاعت: 1995
تعداد صفحات: 271
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 7.5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: kitabosunnat.com)
اسلام کا قانون صحافت :: فہرست | |||
---|---|---|---|
1 | ابتدائیہ | 13 | |
2 | دیباچہ : جناب مجید نظامی ، چیف ایڈیٹر نوائے وقت | 17 | |
3 | تاثرات | 21 | |
4 | باب:1 - صحافت کی تعریف | 29 | |
5 | باب:2 - اسلام میں صحافت کا تصور | 39 | |
6 | باب:3 - قرآن حکیم اورصحافت کے اصول | 62 | |
7 | آزادی تحریر وتقریر | 62 | |
8 | ظلم کےخلاف احتجاج کاحق | 64 | |
9 | فتنہ پروازی سے احتراز | 67 | |
10 | جھوٹی فواہ نہ پھیلانا | 67 | |
11 | تحفظ ابرو کاحق | 69 | |
12 | فحاشی سےگریز | 69 | |
13 | بخی زندگی کےتحفظ کاحق | 71 | |
14 | صحافی تحقیقات کریں | 73 | |
15 | مذہبی دل آزاری سےتحفظ | 75 | |
16 | آزادی اجتماع کاحق | 75 | |
17 | صحافت کےذریعے کسی کو دل آزاری نہ کی جائے | 76 | |
18 | خوداحتسابی | 76 | |
19 | فحاشی کی روک تھام | 77 | |
20 | باب:4 - اسلامی صحافت کے خدوخال ضابطہ اخلاق | 79 | |
21 | تعمیر ملت | 79 | |
22 | امربالمعروف | 79 | |
23 | نہی عن المنکر | 80 | |
24 | سچائی | 85 | |
25 | فکر کی حریت | 86 | |
26 | فرد کی حریت | 86 | |
27 | زرد صحافت کی گنجائش نہیں | 87 | |
28 | فحاشی اوربےحیائی کی روک تھام | 87 | |
29 | کمرشل ذہنیت کاتصورنہیں | 88 | |
30 | فتنہ پروازی سےگریز | 88 | |
31 | احتساب | 88 | |
32 | ملحدانہ نظریات کاازالہ | 89 | |
33 | اسلام کےخلاف پراپیگنڈہ | 89 | |
34 | کردارسازی | 90 | |
35 | تبلیغ | 91 | |
36 | اتحاد بین المسلمین | 91 | |
37 | اللہ کےہاں جواب دہی کاتصور | 94 | |
38 | قومی یکجتہی اوراتحاد | 94 | |
39 | خلوص اورصداقت | 94 | |
40 | صحیح خبرکو نہ چھپایاجائے | 102 | |
41 | باب:5 - حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں صحافت | 104 | |
42 | تبلیغ اورابلاغ کامفہوم | 105 | |
43 | حضورکےتبلیغی خطوط اوررسائل | 107 | |
44 | خواتین میں تبلیغ | 107 | |
45 | حضور کےمبارک عہد میں آزادی رائے | 110 | |
46 | اسلام سےقبل صحافت بطور ذریعہ ابلاغ | 111 | |
47 | شعروشاعری | 112 | |
48 | میلےاوربازار | 112 | |
49 | خطبےاوروصیتیں | 112 | |
50 | معلقات | 112 | |
51 | تجارتی سفر | 113 | |
52 | حضوراکرم کادورمبارک | 113 | |
53 | نبی اکرمﷺ کےدورمبارکہ میں ذرائع ابلاغ | 113 | |
54 | قرآن حکیم بطور پہلی مرتب اورمدون کتاب | 114 | |
55 | کھجور کی شاخیں سفید پتلے اوراونٹوں کےشانے کی چوڑی ہڈیاں | 114 | |
56 | بطورذرائع ابلاغ | 114 | |
57 | ابلاغ کاکام بذریعہ حفاظ | 114 | |
58 | ابلاغ بذریعہ کتابت | 115 | |
59 | ابلاغ بذریعہ شاعری | 115 | |
60 | دعوت وتبلیغ | 115 | |
61 | رسل ورسائل | 115 | |
62 | ابلاغ بذریعہ تجارت | 116 | |
63 | ابلاغ بذریعہ مسجد | 116 | |
64 | تبلیغ بذریعہ ازواج مطہرات | 116 | |
65 | فن خطابت بطورذریعہ ابلاغ | 117 | |
66 | خطبہ الوداع میں ابلاغ کاحکم | 117 | |
67 | فنون لطیفہ پر اثرات | 117 | |
68 | باب:6 - خلافتِ راشدہ کے دور میں آزادی رائے اور ابلاغ | 125 | |
69 | خلفائے راشدین کے دور میں صحافت | 126 | |
70 | حضرت ابوبکر صدیقؓ کا خطبہ خلافت اور صحافت کے اصول | 126 | |
71 | حضرت عمرؓ اور صحافت کے اصول | 126 | |
72 | حضرت عثمانؓ اور صحافت | 126 | |
73 | حضرت علیؓ اور علوم و فنون کا فروغ | 127 | |
74 | تنقید بذریعہ شورائی نظام | 127 | |
75 | باب:7 - الیکٹرانک میڈیا | 129 | |
76 | اخبارات و رسائل پر اثر | 130 | |
77 | ریڈیو | 131 | |
78 | ٹیلیویژن | 132 | |
79 | فلم | 133 | |
80 | وی سی آر | 133 | |
81 | برقی صحافت کے دیگر ذرائع | 135 | |
82 | باب:8 - فحاشی کی روک تھام کے لیے قوانین | 141 | |
83 | فحاشی کیا ہے؟ | 141 | |
84 | فحش اور حیا سوز مواد کی اشاعت | 142 | |
85 | فروخت اور تقسیم | 142 | |
86 | باب:9 - قانون ہتکِ عزت | 154 | |
87 | قذف کی تعریف | 155 | |
88 | ازالہ حیثیت عرفی | 158 | |
89 | شاعری، ڈرامہ اور دیگر ذرائع ابلاغ | 167 | |
90 | مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کی کارروائیاں | 167 | |
91 | عدالتی کارروائی | 167 | |
92 | راز کا افشا (ڈیفنس کے بارے قوانین) | 168 | |
93 | دفتری معاملات | 168 | |
94 | معافی طلب کرنا | 168 | |
95 | توہینِ عدالت کا قانون | 170 | |
96 | باب:10 - سماجی برائیاں اور ہماری صحافت | 171 | |
97 | صحافت کا کردار | 171 | |
98 | اسلامی صحافت کی ضرورت | 171 | |
99 | سماجی برائیاں | 172 | |
100 | باب:11 - پاکستانی معاشرے پر ثقافتی یلغار اور تعلیماتِ رسولﷺ کی روشنی میں اس کا حل | 176 | |
101 | علم نفسیات کی روشنی میں | 176 | |
102 | فرائڈ کا نظریہ | 177 | |
103 | لبیڈو [LIBIDO] | 178 | |
104 | فتنہ آواز، فتنہ خوشبو ، فتنہ عریانی | 178 | |
105 | مذہب کی روشنی میں حل | 178 | |
106 | تعلیمات رسولؐ کی روشنی میں ثقافتی یلغار کا حل | 179 | |
107 | باب:12 - قیام پاکستان میں فکری اداروں ، دینی ادب اور دینی صحافت کا کردار | 182 | |
108 | باب:13 - تجاویز | 195 | |
109 | جنسی جرائم کی تشہیر اور ذرائع ابلاغ عامہ | 197 | |
110 | فحش اشتہارات پر پابندی | 197 | |
111 | سینما سے باہر اور دیگر مقامات پر فلموں کے اشتہار بورڈ | 198 | |
112 | سرکاری تقریبات میں ثقافتی شو | 198 | |
113 | حیا سوز فلمیں | 198 | |
114 | معیاری معلوماتی فلم کی نمائش | 198 | |
115 | مادہ پرست ذہنیت کو تبدیل کرنے کی صورت | 198 | |
116 | طرز معاشرت میں تبدیلی | 199 | |
117 | کفایت شعاری اور ذرائع ابلاغ عامہ | 200 | |
118 | معاشرتی اصلاح اور ذرائع ابلاغ عامہ | 200 | |
119 | ذرائع ابلاغ عامہ کا قابل اصلاح کردار | 201 | |
120 | انسدادِ رشوت اور ذرائع ابلاغ عامہ | 201 | |
121 | تجاویز کا خلاصہ | 206 | |
122 | ضلعی اہل قلم فنڈ کی ضرورت | 207 | |
123 | ضمیمہ جات | 208 | |
124 | الف: تصویر کشی (شرعی لحاظ سے) | 208 | |
125 | ب: الجواب المفید فی حکم التصویر | 217 | |
126 | ج: فحاشی کی روک تھام کے لیے سید اکرام الحق جاوید کی تجاویز | 234 |
Islamic Laws of Journalism. Urdu book by: Dr. Liaqat Ali Khan Niyazi
احسان علی الاحسان ہوگا اور بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ مناسب سمجھتے ہوں تو PDF ارسال فرمائیں
جواب دیںحذف کریںیا آسانی سے فراہم ہو جاۓ وہ مقام بتائیں
پی۔ڈی۔ایف اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کر لیجیے:
حذف کریںhttps://archive.org/download/MohaddisBooksSept2018Part2/Islam-Ka-Qanoon-e-Sahafat.pdf