پروین شاکر سے ایک مکالمہ از گلزار جاوید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-09

پروین شاکر سے ایک مکالمہ از گلزار جاوید

parveen-shakir
سوال:کہتے ہیں شاعری متعدی مرض ہے آپ کب اور کیونکر اس کا شکار ہوئیں؟
جواب: غلط کہتے ہیں۔۔۔ میں نے1968ء میں پہلی نظم لکھی یہ یوم دفاع پاکستان کے موقع پر تھی۔

سوال: دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے کلچرزدہ لوگ انگریزی زبان میں تھوڑی سی شد بد حاصل کرنے کے بعد مغربی ادب کے دلدادہ اور پرچارک بن جاتے ہیں ، آپ ماشاء اللہ دنیا کی مشہور ترین درسگاہوں کی فارغ التحصیل ہونے کے باوجود اردو ادب کو کیوں اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھی ہیں؟
جواب: مجھے اپنی زبان "ادب اور کلچر کے بارے میں کبھی احساس کمتری نہیں ہوا ۔ "

سوال: ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کے قاری اور مداح آپ کے بارے میں اتنا کچھ نہیں جانتے، جتنی ان کے دل میں خواہش پائی جاتی ہے ۔
جواب: مجھے میری کتابوں میں ملیں۔

سوال: آپ کے لہجہ میں متانت سنجیدگی اور ٹھہراؤ کس مکتب فکر کی دین ہے اور یہ بھی کہ آپ شاعری کی کس صنف کو محبوب گردانتی ہیں؟
جواب: یہ چیزیں کسی مکتب فکر سے نہیں آتیں۔ مزاج کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہر صنف اچھی لگتی ہے لیکن غزل کی دلاویزی اپنی جگہ ہے ۔

سوال: آپ کے ہاں اجتماعی مسائل کی نسبت ذات کا غم نمایاں نظر آنے کا سبب کیا ہے؟
جواب: میری زندگی

سوال:کامیابی اور کامرانی کے لئے رہبر و رہنما کا وجود کس قدر ضروری خیال کرتی ہیں یا فقط صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پر خود کو منوانے کی قائل ہیں؟
جواب: دونوں چیزیں ضروری ہیں۔

سوال: رنگ، خوشبو، موسم، ماحول اور مزاج کون سی کیفیت تخلیق کے لئے مہمیز کام دیتی ہے؟
جواب: اندر کا موسم

سوال:ایک نقطہ نظر خواتین کو چار دیواری کی زینت بنانے پر مصردوسرا مردوں کے شانہ بشانہ مصروف کار رکھنے کا آرزو مند آپ ان میں سے کسی ایک سے متفق ہیں یا اپناالگ تصور رکھتی ہیں؟
جواب:میں ایک"ورکنگ وومن" ہوں اور یہی آپ کے سوال کا جواب ہے۔

سوال: پہلے باپ، پھر شوہر عورت کی شناخت کے یہ حوالے تو ہیں نسواں کے زمرے میں نہیں آتے؟
جواب: یہ تو بہت خوبصورت رشتے ہیں۔۔ ان میں توہین کا پہلو کہاں سے نظر آیا؟

سوال: پردے کے بارے میں آپ کا تصور کیا ہے؟
جواب: وہی جو میرے مذہب میں ہے۔۔ یعنی آنکھ کا۔

سوال: ہمارے ہاں اگر کسی کو ذرا سی شہرت مل جائے تو وہ ہر قیمت پر اسے کیش کرانے کی کوشش کرتا ہے آپ تو ماشاء اللہ خیرب سے کراچی تک ہر علزیزی کے بلند مقام پر فائز ہیں ، آپ نے اس طرف توجہ کیوں نہ دی مطلب یہ کہ سیاست کو خود سے محروم کیوں رکھا ہوا ہے؟
جواب: سیاست سے میری دلچسپی ایک طالب علم کی ہے اور بس۔

سوال: اردو زبان کے علاوہ آپ انگریزی، فرانسیسی، عربی او ر فارسی میں بھی مہارت رکھتی ہیں اپنے ملک کی کسی بھی علاقائی زبان نے آپ کو اپنی جانب متوجہ نہیں کیا؟
جواب: میں کسی زبان میں مہارت نہیں رکھتی۔ اور اپنے ملک کی تمام زبانیں اچھی لگتی ہیں۔ زندگی نے مہلت دی تو ضرور سیکھوں گی۔

سوال: ورکنگ وومن ہونے کے سبب آپ نے بے شمار حیثیتوں میں اہم ذمہ داریاں نبھائی ہیں اور تخلیق میں بھی اپنا جداگانہ رنگ سب سے الگ اور نمایاں رکھا ہوا ہے مردوں کے اس معاشرے میں آپ کو کس قسم کی دشواریوں کا سامنا رہا؟
جواب: جب تک ان کے interests clash نہ ہوں، مہذب رہتے ہیں۔

سوال: عریانی اور فحاشی جیسے الفاظ اپنی وقعت کھو بیٹھے آپ عمر عزیز کے جس حصہ میں ہیں وہ عورت کا انتہائی دلکش دور ہوتا ہے ۔ یعنی ماں، بیٹی، بہن اور رفیق حیات کے طور پر ذمہ دار پوزیشن پر فائز ہوتی ہے چاروں تصورات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فرمائیے، تخلیق کار بالخصوص صنف نازک کی آزاد خیالی کی حد کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہونی چاہئے؟
جواب: بنیادی چیز شائستگی فکر ہے۔ حدود کا تعین خود ہوجاتا ہے ۔

سوال: کیا ہمارا ادب اور ادیب واقعی گروہ میں بٹے ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں عصری ادب کو اس روش سے کسی قسم کے نقصانات کا سامنا ہے؟
جواب: میرا خیال ہے گروپ بندی تو ہے ، اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن کے پاس بہت سا فالتو وقت ہوتا ہے۔ نقصان سارا ادب کا ہوتا ہے ۔

سوال: آج کا شاعر ، افسانہ نگار، مزاح نگار، ناول نگار، تنقید نگار اور ادبی جرائد کے مدیران سے کون زیادہ ذمہ دار ہے؟
جواب: سبھی

سوال: انگریزی ادب کا آپ نے بغور مطالعہ کیا اردو ادب کی گہرائیاں بھی آپ کی وسعت نگاہ سے اوجھل نہیں کسی بھی طور ران کا تقابل کیاجاسکتا ہے؟
جواب: عالمی معیار کا ادب دونوں زبانوں میں ہے۔

سوال: کیا یہ تاثر درست ہے کہ مغربی درس گاہوں سے فارغ التحصیل افراد کامذہبی تصور کسی قدر تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ لوگ روایتی مذہبی تعلیمات کے برعکس جدید نقطہ نظر کے حامی بن جاتے ہیں غیر جانبداری سے اس صورتحال کا تجزیہ کیجئے اور ساتھ ہی ذاتی کیفیات سے بھی آگاہ فرمائیے؟
جواب: دو طرح کے رد عمل ہوتے ہیں ، یا آپ اپنے مذہب سے بہت دور ہوجاتے ہیں یا اتنے قریب کہ دوسروں کے مذاہب برے لگنے لگتے ہیں ۔ خدا کا شکر ہے میں ایسی کسی انتہا تک نہیں پہنچی۔

سوال: ترقی و غیر ترقی پسند کی اصطلاحیں کسی قدر معدوم ہوچکیں دائیں بائیں کی بحث بھی نظر نہیں آتی دنیا کے بیشتر"ازم" بھی نزاع کے عالم میں ہیں سیاست تو چلیے چھوڑئیے ادبی صنف بندی اور نظریاتی جنگ کی بنیاد اب کیا ہوگی اور ہاں یہ بھی واضح کیجئے کہ آپ کس سمت اور کس زاویہ پر کھڑی ہیں؟
جواب: میرے نقطہ نگاہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ویسی ہی Humane Progressive ہوں اور مساوات پر جو یقین میرا پہلے تھا اب بھی ہے۔

سوال: کالم نگاری شروع کر کے آپ نے اپنے مداحین اور ناقدین کو امتحان سے دو چار کردیا آپ کی نثر بھی اسی اعلیٰ تخلیقی جوہر کی نمائندہ ہے جس سے آپ کی سخن فہمی نموپارہی ہے اب فیصلہ کرنے والے کو شاعری کے مقابلے میں آپ کو نثر کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا یہ صورتحال آپ کے فنی سفر کے لئے مفید ہے یا مضر؟
جواب: میرا خیال ہے ایسی کوئی بات نہیں۔ اور میں لکھنے کے معاملے میں سودوزیاں کے چکر میں کبھی نہیں پڑی۔

سوال: آج کے مشاعروں اور ان کے منتظمین سے سامعین کی اکثریت ناخوش ہے سنا ہے شاعرات کی اکثریت بھی کس قدر شاکی ہے کیا مسائل اور ذہنی تحفظات ہیں آپ کے؟
جواب: مجھے نہیں معلوم مجھے تو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔

سوال: آپ بے شمار علمی، ادبی اور ثقافتی اداروں کی ممبر یا سربراہی کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہیں آپ کی وابستگی اعزازی ہے یا واقعی وہ لوگ آ پ کی خدمات سے استفادہ کرتے ہیں اگر ایسا ہے تو یہ بڑی خوش آئند بات ہے مگر اس کے لئے آپ وقت کیونکر نکال پاتی ہیں؟
جواب: لکھنے پڑھنے کے لئے وقت نکال ہی لیاجاتا ہے ۔

سوال: خواندگی کی شرح شرمناک حد تک کم کتاب سے دشمنی کی حد تک بیزاری اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے زندگی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کردیا ہے اس ہیجانی کیفیت میں کم از کم اردو ادب کی کیا اہمیت و افادیت برقرار رہ جاتی ہے؟
جواب: ادب کی اہمیت اس وقت بھی تھی جب شرح خواندگی اس سے بھی کم تھی بڑا ادب ہمیشہ relevant رہتا ہے۔ اردو ادب اس زمرے میں آتا ہے ۔

سوال: خواہش ہماری تخلیق کار سے انٹر ویو کی تھی مختصر جوابات کی صورت بیوروکریٹ کا پلہ بھاری رہا کیا ہمارا خدشہ واقعی درست ہے؟
جواب: میں گفتگو ہی کم کرتی ہوں۔

سوال: وطن عزیز کے کسی بھی طبقہ سے اور کسی بھی موضوع پر آپ کچھ بھی کہنا پسند کریں تو ہمیں خوشی ہوگی۔
جواب: اساتذہ اور پالیسی سازوں سے ایک استدعا ہے۔۔۔ تعلیم کو عام کریں ۔۔۔ اب یہ ہماری ترقی کا نہیں بلکہ بقا کا مسئلہ ہے!

ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [پروین شاکر نمبر]
جلد: 3 ، شمارہ 26-27 (ستمبر-اکتوبر 1994)

An interview with Parveen Shakir.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں