غالب کے اشعار کن کن موقعوں پر یاد آئے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-07

غالب کے اشعار کن کن موقعوں پر یاد آئے

mirza-ghalib
کبھی کبھی نمائش گاہ میں ایسی تصویریں نظر آتی ہیں جن میں ایک طرف سے دیکھو تو بر اعظم ایشیا دکھائی دیتا ہے دوسری جانب سے ممالک یورپ نظر آتے ہیں۔ سامنے سے تصویرکو دیکھوتو بھارت ماتا کے درشن ہوتے ہیں، شعر کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ مصور تصویر میں صرف ایک رخ دکھاسکتا ہے جس کے زمان و مکان معین ہوتے ہیں، لیکن شاعر شعر کے اندر مختلف جذبات و احساسات کی تصویر بیک وقت کھینچ دیتا ہے ، اس کی وسعت لا محدود اور اسکا وقت غیر متعین ہوتا ہے۔ ایسے شعر کہنا جو وسیع المعنی ہوں اور ان میں آفاقی تجربات اور عالمی احساسات کا نچوڑ بھی موجود ہو آسان نہیں ہے۔ یہ کمال محض اکتساب سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ کسی خارجی یاداخلی محرک سے دماغ کا منفعل ہوجانا تو سہل ہے لیکن اس انفعال کا تجزیہ کرنا اور جمالیاتی حسن کی لطف اندوز ی کا راز پالینا آسان نہیں ہے، شعری تصویر میں ایسے رنگوں کا امتزاج کرنا کہ مختلف زاوئیے بیک وقت نہاں بھی ہوں اور عیاں بھی، مزید برآں تصویر کے ہر رخ اور زاوئیے کا ایسے نازک اور سریع الانفعال تاروں سے مربوط ہونا کہ جس وقت محرکات کی برقی موجیں تصویر کے مختلف گوشوں میں لگے ہوئے کھٹکوں کو مس کریں تو تصویر کا وہی رخ پیش نظر ہوجائے جو اس برقی رو سے منفعل و متاثر ہوسکتا ہے ، فن کاروی کا کمال ہے ۔
اسے شاعر کا کمال تفکر سمجھو یا وجدانی صلاحیت ، اسے مافوق البشری ذہنی بلندی سے موسوم کردیا، اعجاز سے تعبیر کرو کہ اس کے ذہن کی رسائی تانت باجی راگ پایا، ہی تک نہیں ہے بلکہ اسے یہ بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ تانت کی جھنجھناہٹ سے کتنے اور تار مرتعش ہوگئے، اور فضا میں زخمہ کی چوٹ کتنی راگنیوں کو جگاتی چلی گئی اور یہ راگنیاں جذبات انسانی کے رگ وپے میں پہنچ کر انہیں آسودۂ خواب بناگئیں یا ان میں حیات کی رو دوڑ گئیں۔
اس قسم کے شعر کہنے والوں کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے ،کیونکہ علاوہ تجزیے اور تحلیل جذبات کے شاعر کے لئے الفاظ و حروف، ترکیب و بندش اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے اثرات سے پورے طور پر واقف ہونا ضروری ہے ۔
الفاظ کے انتخاب ہی پر جذبات کی عکاسی کا دارومدار ہے ۔ لفظ کے انتخاب میں شاعر کو جتنا زیادہ درک ہوگا، اتنا ہی شعر مختلف احساسات کی عکاسی کرسکے گا ، یہی وہ کھٹکے ہیں جو اپنے معانی کی موجوں سے جمالیاتی حس کوبرقی تیزی کے ساتھ منفعل کردیتے ہیں۔
اگر شاعر کو انتخابِ الفاظ کا سلیقہ بدرجہ اتم حاصل نہیں ہے تو وہ شاعری کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، اس لئے کہ شاعری مختصر نویسی کی ایک نہایت نازک اور لطیف صورت ہے۔ اس میں لفظوں اور حرفوں کے اشارات و کنایات ہی کا سارا کھیل ہے ۔
غالب مرحوم اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ حقائق کا سمجھنا اور سمجھانا بہ غایت دشوار کام ہے اور فن کی سب سے نازک منزل یہی ہے ، اس کا یہ کہنابالکل درست ہے کہ:
مقصد ہے نازوغمزدہ و لے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

چنانچہ جب ان دشنۂ و خنجر اور بادہ و ساغر کے رموز اور اشاروں کے پیچھے ہر شخس کو اپنے جذبات و احساسات کا عکس نظر آنے لگے اور شعراسے آپ بیتی محسوس ہونے لگے تو شعر کو الہام سے تعبیر کرنا کیا بیجا ہے ۔ اس بنا پر دیوان غالب کو”الہامی کتاب” کہہ دینا نری عقیدت مندی ہی نہیں ۔
آج کی صحبت میں غالب کے اس کمال فن کی مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے الفاظ کے انتخاب سے شعر کے اندر کتنی وسعتِ خیال اور معنی پیدا ہوجاتے ہیں اور کس طرح ایک ہی شعر مختلف مواقع پر یاد آتا ہے ۔ یہ میرے اپنے و ارادت اور اتفاقات ہیں، ممکن ہے دوسروں کو بالکل مختلف حالات اور ماحول کے ماتحت یہ شعر یاد آگئے ہوں اور انہیں آسودہ دماغ بنا گئے ہوں۔
اشعارِ غالب مجھے کب سے یاد آنا شروع ہوئے اس کے متعلق تاریخ و سنہ کا تو مجھے خیال نہیں کیونکہ جب سے شعر پڑھنے میں شد بد ہوئی اشعار کا یاد آنا اور موقع پر چسپاں ہوجانا بھی کم و بیش شروع ہوا ۔ تاہم جب واقعات کو ایک سلسلے میں مربوط کرنا چاہتا ہوں تو مجھے وہ منظر پہلے یاد آتا ہے کہ میں ٹنڈے میں ایک انٹر ویو بورڈ کے سامنے بیٹھا تھا ، جس میں کچھ لوگ تو صرف اپنی ہیئت و جسامت سے انٹریو میں آنے والوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے رونق افروز تھے، لیکن کچھ لوگ لکھے پڑھے بھی تھے ، سوالات کی بوچھار ہورہی تھی اور نکاح کے سے شرائط و قبولوائے جارہے تھے۔ طبیعت بے حد مکدر ہورہی تھی اور بالخصوص بعض ممبروں کے لئے انداز گفتگو سے جس سے یہ مترشح ہورہا تھا کہ انٹر ویو میں بلاکر انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور اگر مجھے منتخب فرمائیں گے تو عین بندہ پروری ہوگی، سوالات کے اختتام پر حکم ہوا کہ بیرونی کمرے میں آخری فیصلے کا انتظار کروں ، کچھ دیر بعد پھر طلبی ہوئی اور نہایت معذرت کے ساتھ صدر جلسہ نے میری ناکامی کا مژدہ سنایا، میرے منہ سے بے اختیار نکلا ؎
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
مجلس پر سناٹا چھا گیا

اب سے چند ماہ قبل ریلوے کمپارٹمنٹ سے اسباب گم ہوجانے کے سلسلے میں ریلوے پر مقدمہ چلانے کا سامان کررہا تھا ، وکیل صاحب عرض دعوی تیا ر کرچکے تھے، سامان خاصی مالیت کا تھا ، اس لئے مجھے اس میں دلچسپی بھی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ میں اس ذہنی کوفت میں بھی مبتلا تھا کہ اب تک کبھی کچہری کا منہ نہیں دیکھا، وہاں جانا اور سوال و جواب کی منزل طے کرنا ٹیڑھی کھیر ہے ، اور سب سے زیادہ ناگواری اسی خیال سے پیدا ہورہی تھی کہ کچہری کا پیادہ جس شان سے حاضر ہے، کی گرجتی آواز میں دعوت دیتا ہے اور جس پر لبیک کہنا از بس ضروری ہے وہ بجائے خود نہایت توہین آمیز ہے ۔ مگر قہردرویش بجان درویش وکیل صاحب کے مجوزہ لائحہ عمل پر عامل ہونے کو تیار تھا ، لیکن خوبی قسمت سے ریلوے نے اپنے بعض قوانین کی رو سے دعوے کی گنجائش ہی ختم کردی ، ادھر میں نے خط میں یہ مژدہ جاں فزا پڑھا اور ادھر زبان سے نکلا ؎
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

میرے ایک دوست عرصے سے مضمحل رہتے تھے ، علاج کرنے میں سست اور اس پہ ضد یہ کہ صڑف ان ڈاکٹر صاحب کا علاج کریں گے جن سے ان کو عقیدت تھی ۔ اور ڈاکٹر صاحب عدیم الفرصت اتنے کہ ان سے بالمشافہ گفتگو کا مووقع نہیں ملتا تھا ، کسی اور ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر وہ تیار نہ تھے۔ میں شش و پنج میں تھا کہ کیا کرنا چاہئے ، اتفاق سے اسی دوران میں ایک روز سہ پہر کے وقت ڈاکٹر صاحب خود چند دوستوں کے ساتھ تشریف لائے ۔ ڈاکٹر صاحب کو ہجوم یاراں کے ساتھ دیکھ کر بے اختیار جی چاہا کہ ایک شعر پڑھوں لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب سے مجھ سے زیادہ راہ و رسم نہ تھی ، اس لئے شعر پڑھنے کی جرات نہ ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب بیٹھے، ادھر اُدھر کی باتیں کیں ، چائے پی اور چلے گئے۔ تشخیص مرض اور تجویز نسخہ کی نوبت نہ آئی، میرے دوست ان کے ساتھ رسماً چند قدم رخصت کرنے کے لئے گئے، میں بیتاب تھا کہ وہ آئیں تو ان کو وہ شعر سناؤں جو غالب نے شاید اسی دن کے لئے کہا تھا ، وہ مسکراتے ہوئے واپس آئے اور ایک دوسرے کا سامنا ہوتے ہی دونوں کی زبان سے بیک وقت نکلا ؎
رات کے وقت مے پئے ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں

اور ہم دونوں بڑی دیر تک اس یگانگئ خیال اور شعر کے اعجاز کا لطف اٹھاتے رہے۔
ایک شناسا سے کچھ سیاسی اختلاف خیال کی بنا پر ان بن ہوگئی ، انہوں نے ملنا جلنا بند کردیا، مہینوں تک ان کی صورت دکھائی نہ دی ، گزشتہ جنگ آزادی کے موقع پر ایک دن میں سر شام گورکھپور کی کوتوالی کے پاس سے نکلا۔ مجمع کثیر تھا ، اور کچھ لوگ رسی میں بندھے ان کے بیچ میں محصور تھے ، اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ میرے ہمدم دیرینہ بھی پانچوں سواروں میں موجود ہیں ۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے ۔ مجھے انہیں اس حالت میں دیکھ کر بہت افسوس ہوا ، میں آگے بڑھا، پولیس کے لوگ روشناس تھے، اس لئے انہوں نے کچھ مزاحمت نہ کی، میں نے چپکے سے ان سے کہا غضب کیا اور ساتھ ہی یہ شعر زبان پر آیا ؎
رات کے وقت مئے پئے ساتھ رقیب کو لئے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں
ہنس پڑے۔

1945ء میں ایک ضرورت سے اجمیر جانے کا اتفاق ہوا ، حضرت خواجہ غریب نواز کے مزار پر حاضر ہوا ، فاتحہ خوانی میں مشغول تھا ، عقیدت مندوں کا ہجوم تھا کہ پلا پڑتا تھا ، کچھ تلاوتِ قرآن پاک میں مشغول تھے ، کوئی نماز پڑھ رہا تھا ، کوئی حاجت برآری کے لئے حضرت خواجہ کے مزار سے لپٹ رہا تھا ۔ میں عجیب بے کیفی کے عالم میں کھڑ ایہ مناظر دیکھ رہا تھا ، کہ بے اختیار میرے منہ سے نکلا ؎
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق!
بے کسی ہائے تمنا کی نہ دنیا ہے نہ دیں!

ایک دوست نے میرے اندور پہنچنے کے بعد مبارکباد کا خط لکھا جس میں میری خوش قسمتی کو سراہا، فضائے اندور کی رنگینیوں کا پرشوق الفاظ میں ذکر کیا اور آنے کی تمنا ظاہر کی ، میں نے انہیں دعوت دیتے ہوئے لکھا کہ اگر میری جگہ تم آئے ہوتے تو واقعی خوش نصیب ٹھہرتے اور اگر تم آجاؤ تو شاید تمہاری زندہ دلی کے صدقے میں میں بھی ان مناظر سے لطف اندوز ہوسکوں جن کی تعریف میں تم رطب اللسان ہو کیونکہ مجھے تو ہر نغمہ خاموش اور ہر منظر دلگیر نظر آتا ہے ۔ میری حالات ایسی ہورہی ہے جس میں بے کیفی زیادہ اور بے تعلقی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ غالب نے شاید اسی ذہنی تعطل سے زچ ہوکر کہاتھا ؎
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق!
بے کسی ہائے تمنا کی نہ دنیا ہے نہ دیں!

کچھ عرصہ ہوا ، میرے پڑوس میں رام لیلا کا جشن ہورہا تھا ۔ سفری کمپنی کے اداکاروں نے پوری رامائن فلمانے اور پیش کرنے کا بیڑا اٹھالیا ۔ رات کے گیارہ بجے تھے کچھ احباب جن کے آنے کا سان و گمان بھی نہ تھا سنیما کی سیر کے لئے تشریف لے آئے،طلبہ کے کمروں کی جو گت ہوتی ہے وہ ظاہر ہے اس پر طرہ یہ کہ جاڑوں کی رات بازار بند ہوچکے تھے۔ نوکر صاحب تخفیف تصدیعہ فرما کر پہلے ہی رخصت ہوگئے تھے ۔ آتش دان سرد، دودھ موجود نہیں کہ چائے بن سکے، سب عزیزوں کا یہ اصرار کہ ان کے پاس ہی بیٹھوں ، غرض عجب عالم تھا ، خوش قسمتی سے الائچی اور لونگیں جیب میں موجود تھیں ان ہی سے عزیز مہمانوں کی خاطر کرتا جاتا تھا اور غالب کا یہ شعر گنگناتا جاتا تھا۔
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

تعطیلات اکتوبر 44ء میں مجھے لکھنو سے گورکھپور جانا پڑا۔ دو دن کے بعد گھر پہنچاتو ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ محلے والوں سے معلوم ہوا کہ ایک عزیز کا دفعۃً حرکت قلب بند ہوجان سے انتقال ہوگیا، اور نعش موٹر کے ذریعے قصبے گئی ہے ، عجیب آشفتگی کے عالم میں کچھ حصہ سفر کا یکے پر اور کچھ پیدل طے کرکے بارہ بجے کے قریب گھر پہنچا۔ جوانمرگی کا پرسادینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ۔ ڈولیوں پر ڈولیاں آرہی تھیں ، صدردالان میں تختوں پر صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور صحن میں بچے شور مچارہے تھے ۔ ایک طرف کھانے کا اہتمام ، دوسری طرف کچھ قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آگیا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

اس حادثے کے دو روز بعد ہی شام کو گھوم کر آیا تو گھر میں ایک مجلس شوری منعقد پائی، مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ اس سخت واقعے کے بعد جو شادیاں اگلے ہفتے میں ہونے والی تھیں ان کا کیا کیاجائے۔یمین و یسار باہم متصادم، اور بڑی گاؤزوریاں ہورہی تھیں۔ میری زبان سے نکلا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

تعطیلات دسمبر ختم کرکے میں اندور آرہا تھا ، 54ء کا آفتاب جھانسی اسٹیشن پر طلوع ہوا ۔ میں چائے پینے کی غرض سے اتر کر ریسٹوران کی طرف جارہ اتھا کہ راستے میں کچھ فوجی اور کچھ نیم فوجی لوگ بڑے جوش و خروش اور بے خودی کے انداز میں ایک دوسرے کو سال نو کی مبارکباد دیتے نظر آئے ۔ چائے پی کر اپنے کمپارٹمنٹ کی طرف آیا تو کچھ نئی صورتیں سیٹ پر قابض نظر آئیں ۔ جن کی موجودگی خوش آیند ضرور تھی مگر قبضہ مخالفانہ کسی طرح قابل قبول نہ تھا ۔ میں یہ شعر گنگناتا ہوا آہستہ آہستہ ضبط شدہ سیٹ کی طرف بڑھا ؎
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ایک دوست نے مدت سے خط و کتابت بند کررکھی تھی ، کئی سال کے بعد یکایک ان کا طویل نوازش نامہ معذرتوں سے پر ملا، سواد خط سے ایک حد تک میں بیگانہ ہوچکا تھا ، لیکن سر نامے پر ان کا طغرئے دیکھ کر کچھ تعجب اور کچھ مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ یہ شعر یاد آیا ؎
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ایک بارمیعادی بخار نے کئی مہینے کے لئے پابند بستر بنادیا ۔ گھر پر بیمار پڑنا بھی ایک مصیبت ہوجاتی ہے ۔ عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ اور حال مرض بیان کرتے کرتے مرض دگنا ہوجایاکرتا ہے ۔ ایک دن پرسش کرنے والوں سے تھک کر کچھ غنودگی کے عالم میں لیٹا تھا ، اتنے میں کانوں میں ایسی آواز آئی جسے سنے ہوئے کم سے کم پندرہ برس گزر چکے تھے۔ یہ میری ایک محسنہ کی آواز تھی ، جنہیں انقلابات زمانہ نے مدتیں ہوئیں مجھ سے چھڑا دیا تھا اور جن کا پتا نشان بھی مجھے معلوم نہ تھا۔ مگر جن کے احسانات اور الطاف کے نقوش دل پر مرتسم تھے ۔ ادھر انہوں نے پوچھا، کیسے ہو ، ادھر قلب و دماغ بوجہ کمزوری کے اس ناگہانی مسرت کی تاب نہ لاسکے اور میں یہ شعر زور سے پڑھتا ہوا بیخود ہوگیا ؎
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

سال گزشتہ میرے ایک دوست کے گھر میں آگ لگ گئی جس سے ان کا خاصا مالی نقصان ہوا ۔ شام کو جو میں ان کے گھر پہنچا تو ایک ایک ٹرنک اور پٹاری کھول کھول کر جائزہ لے رہے تھے ، اور افسوس کرتے جاتے تھے، نگاہیں چار ہوتے ہی میں نے کہا، ابرار صاحب !
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

ایک صبح ڈیلی کالج اندور کے احاطے کے پاس سے گزر کر زراعتی محکمے والی سڑک پر جارہا تھا ، افق مشرق پر ہلکی ہلکی بادل کی دھاریاں تھیں جو لحظہ بہ لحظہ نکلنے والے آفتاب کی تمازت اور تابناکی سے میمیاکی سی کیفیت پیش کررہی تھیں ، میں اس منظر میں محو چلا جارہا تھا کہ یکایک آفتاب خون کبوتر میں نہایا ہوا سامنے آگیا۔ سرخ شعاعیں اثیری فضا کے تموج سے مرتعش ہوگئیں، اور بادلوں کی دھاریاں موئے تابدار کا نقشہ پیش کرنے لگیں۔ مجھے خیال آیا کہ لسان الجذبات نے یہ منظر ضرور دلی میں کہیں دیکھا ہوگا ۔ ورنہ یہ کہاں سے کہتے
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ سر کھلا

ایک شام کو میں سائیکل پر ریلوے آبادی میں اپنے ایک دوست سے ملنے جارہا تھا۔ گورکھپور کی ریلوے کالونی اچھے بڑے شہروں کی سول لائنوں سے زیادہ باقرینہ اور خوبصورت آباد ہ ۔ میں نہایت آہستہ آہستہ گردوپیش سے بے خبر چلا جارہا تھا کہ یکایک پہئے کو بریک لگا اور آقاؤں کی نسل کا ایک سفید فام کتا پہئے کے نیچے آتے آتے بچ گیا ، اور دوسرے لمحے میں ایک میم صاحبہ چہرہ پسینے میں شرابور اور دوڑنے سے سرخ ، تراشیدہ بالوں کی کچھ لٹیں پیشانی پر اور کچھ ہوا میں پرواز کرتی ہوئی ہاتھ میں کتے کی زنجیر لئے ، زندہ قوم کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیتی ہوئی بنگلے سے بے تحاشا باہر دوڑتی نظر آئیں ۔ میم صاحبہ کی ہیئت کذائی دیکھ کر غالب یہ کہتے ہوئے سنائی دئیے۔
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ سر کھلا

سائیکل آگے بڑھ چکی تھی، مڑ کرنگاہ کی تو غالب کے الہا م میں اور واقعہ کی نوعیت میں بہت خفیف فرق تھا ، حادثہ بجائے مشرق کے سمت مشرق میں پیش آیا تھا، اور صبح کے وقت نہیں شام کے وقت۔
دسمبر 40ء میں ایک عزیز دوست کی خانہ آبادی کے مواقع پر کچھ ایسی گتھیاں پڑیں کہ کسی طرح سلجھ نہ سکیں ۔ انہوں نے مجھ سے کہا میں نے معاملات درست کرانے کی ہامی بھرلی، مخالف کیمپ سے برسر پیکار ہوگیا۔ میری دخل در معقولات سے بجائے معاملہ رفع دفع ہونے کے تلخیاں اور بڑھ گئیں ، آگ جو سلگ رہی تھی وہ بھڑک اٹھی، اور مجھ پر خوب لعن طعن ہوئی، اس دوران میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ عزیز گرامی نے کسی سے یہ کہا کہ مجھے سراج صاحب سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ معاملات کو اس طرح خراب کردیں گے ور نہ کبھی ان سے امداد کا طالب نہ ہوتا ۔ میں نے سنا اور بے حد قلق ہوا ، میں نے کہنے والے سے کہا:
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
میں ایک دوست کے جنازے کے ساتھ جارہا تھا ، لوگ مرنے والے کے محاسن بیان کر کے اظہار تاسف کرتے جاتے، دوران گفتگو میں ایک بزرگ نے فرمایا: بھئی لڑکے میں سب خوبیاں تھیں مگر تھابڑا ناعاقبت اندیش ، کبھی ایک پیسہ پاس نہ رہا ، اور نہ بی بی بچوں کے لئے کچھ چھوڑا ۔ یہ وہ بزرگ تھے جو اکثر مواقع پر مرحوم کے مرہون منت رہ چکے تھے ۔ میں نے چپکے سے کہا:
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

مئی کی گرمی اور وہ بھی لکھنو کی گرمی معاذ اللہ۔ میں امین آباد سے وکٹوریا اسٹریٹ کی طرف جو وہاں سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ہے ، عین دوپہر میں جارہا تھا ، راہ میں کچھ پیاس معلوم ہوئی ، رکاب گنج کے پل کے پاس مر ے ٹریننگ کالج کے بے تکلف دوست شکلا کا گھر تھا۔ میں وہیں رک گیا ۔ آواز دی باہر نکلے۔ میں نے کہا پہلے پانی پلاؤ، پھر باتیں کرنا، یہ کہتا ہوا میں ان کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگیا ، اور وہ پاس کے دروازے سے گھر میں پانی لینے چلے گئے۔ کچھ لمحوں کے بعد ان کی محترمہ کی آواز سنائی دی ، وہ شیشے کا گلاس کہاں ہے (ہم لوگوں کے لئے عموماً ایک گلاس شیشے کا ہندو گھروں میں الگ رہتا ہے) دوسری آواز آئی، وہ تو بچوں نے توڑ ڈالا، اس میں کئی منٹ گزر گئے ، میں نے گھر کے دروازے پر پہنچ کر زور کی صدا لگائی:
پلادے ادک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

محترمہ کی آواز سنائی دی، پیتل ہی گلاس لے جاؤ، ورنہ علوی صاحب اور اودھم مچائیں گے ، شکلا وہی گلاس لئے باہر نکل آئے ، اور کہنے لگے تمہاری بھابی ڈر گئیں۔ میں نے کہا جی، لائیے پانی پلائیے۔
کالج کے گزشتہ سماجی اجتماع کے موقع پر سب لوگ گھاس پر بیٹھے لنچ کھارہے تھے اور کھانا پروسنے والیاں عرش سے من و سلویٰ برسارہی تھیں ۔ ایک صاحبہ دہی کا برتن لئے ہوئے میرے پاس تشریف لائیں۔ سوئے اتفاق سے میرے سامنے کے خالی دونے ہوا اڑالے گئی تھی ، اور دونے تقسیم کرنے والی پارٹی ذرا دور تھی ، وہ منتظر کہ دونے والی پہنچے تو وہ اپنے ذمے کا حصہ رزق عنایت کرکے آگے بڑھیں۔ مجھے خیال آیا کہ انہیں اس زحمت سے نجات پانے کا راستہ بتادوں چنانچہ میں نے کہا:
پلادے ادک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

لیکن اول اس خیال سے رک گیا کہ زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم، دوسرے یہ ڈر ہوا کہ اگر وہ سچ مچ آمادۂ کرم ہوگئیں اور ہم میں سے کسی کا ہاتھ بھی مرتعش ہوگیا تو اچھا خاصا تماشا ہوجائے گا ۔ اور پروگرام بنانے والوں نے سوانگوںEntertainmentsکا وقت شام کو رکھا ہے ۔ یہ حرکت خواہ اضطراری ہی کیوں نہ ہو ضابطہ کے خلاف ہوگی۔
اندور آنے کے بعد گونا گوں مصروفیتوں کے باعث اپنے احباب کو عرصے تک خط نہ لکھ سکا ، سب نے مل کر ایک طویل خط مجھے لکھا اور شکووں شکایتوں کے دفتر کے دفتر لکھ ڈالے ، میں بے حد متاثر تھا اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا جواب دوں۔ یکایک ملہم جذبات نے یہ مصیبت حل کردی، اور میں نے یہ شعر ایک پرزہ کاغذ پر لکھ کر اور نیچے نام لکھ کر ملفوف کرکے بھیج دیا،
کعبہ میں جارہا تو نہ وہ طعنہ کیا کہیں
بھولا ہوں حق صحبتِ اہل کنشت کو

چاند کی غالباً تیرھویں یا چودھویں تاریخ تھی ، پورا ماہتاب جلوہ گر تھا، میں پروفیسر صدیق صاحب کے ساتھ ڈیلی کالج جارہا تھا ، دفعۃًمجھے خیال آیا کہ میں گھر پر کچھ اور احباب سے ملنے کا وعدہ کرچکا ہوں ، چنانچہ میں نے ان سے معذرت چاہی۔ انہوں نے کہا۔ میں آؤ بھی دیکھو فضا کیسی دلکش ہے اور چاند تو قیامت ہی ڈھارہا ہے ۔ مجھے فوراً یہ شعر یاد آیا جو اسی دن میں طلبہ کو پڑھا چکا تھا ۔ میں نے کہا:
حسن ِ مہ گر چہ یہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے
انہوں نے کہا خدا حافظ ۔ میں نے کہا۔ فی امان اللہ!

کسی زمانے میں السٹرٹیڈویکلی کے انداز میں ایک میگزین غالباً بمبئی ہی سے شائع ہوا کرتا تھا ۔ پہلی جنگ کے کئی برس بعد اس کا ایک پرانا پرچہ ہاتھ آیا جس میں جنگ کے ایک زخم خوردہ آدمی کا مرقع نظر پڑا ۔ اس کا کوئی عضو بدن صحیح و سالم نہ تھا۔ نہایت کریہہ النظر تصویر تھی ، اور بنانے والے کا سب سے بڑا کمال اس کا وہ جملہ تھا جو اس نے تصویر کے نیچے لکھا تھاSomeone darlingیہ تصویر میرے ایک دوست لائے تھے۔ تصویر دکھا کر بولے، آرٹسٹ کتنا مسخرا ہے ، میں نے کہا کیوں؟ بات تو اس نے سچی کہی ہے ۔ غالب مرحوم نے بھی ایک ایسا ہی کیرپکچر کھینچا ہ:
حسن ِ مہ گر چہ یہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچھا ہے
شعر سنتے ہی ان پر قہقہے کا دورہ پڑ گیا ، جو بہت دیر میں زائل ہوا۔

صبح کا وقت تھا ، میں ملیریا زدہ پلنگ پر پڑا ہوا تھا ، میرے ایک صوفی منش دوست پاس کھڑے ہوئے باہر جانے کی تیاری میں لباس تبدیل کررہے تھے، اتنے میں دور سے پپیہے کی آواز آئی ۔ ایک دو تین، پیہم کوکیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے محمد احمد صاحب کی طرف دیکھا ۔ انہوں نے حسب عادت اپنے سروشی لہجے میں کہا”سب یہی ہے” میں نے کہا۔ غالب نے کیا کہا ہے، سنا ہے آپ نے؟ پوچھا کیا؟ میں نے یہ شعر پڑھا ؎
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یا ں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
جھوم گئے۔
میں اندور کے ارادے سے لکھنو سے آرہا تھا ۔ شام کا وقت تھا، جھانسی کی پہاڑیاں دور دور پر نظر آرہی تھیں ، میں تیزی سے بھاگا جارہا تھا ۔ یکایک جھانسی کا قلعہ ایک ٹیکری پر نظر آیا ۔ جس کے ساتھ 58ء کی جنگ آزادی اور جھانسی کی رانی اور اس کی قربانیاں بیک وقت نگاہوں کے سامنے آگئیں اور وہیں غالب کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آگیا:
سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

حامد حسن قادری کی کتاب کا وہ حصہ زیر مطالعہ تھا جس میں موصوف نے غالب کے شارحین کے فضل و کمال کی دھجیاں اڑائی ہیں ، اور پڑھتے پڑھتے میں اس مقام پر پہنچا جہاں قادری صاحب نے غالب کے بعض اشعار میں عروض کی کمزوریاں واضح کی ہیں اور صلاح فرمائی ہے۔ مجھے ہنسی آنے لگی اور یہ شعر بے ساختہ زبان پر آگیا:
دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذت درد
کام یاروں کا بقدر لب و دنداں نکلا

ایک بار پروفیسر صدیق احمد کی ایک تصویر کھینچی جس میں وہ صبح کے وقت پلنگ پر سگریٹ منہ میں دبائے لیٹے تھے اور آنکھیں بند کئے ہوئے تھے ۔ ان کو بھیجتے وقت تصویر ملفوف کرتے کرتے مجھے غالب کا شعر یاد آیا:
جی چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے

میرے ایک دوست شکیل عباسی جو شاعر بھی ہیں، ازدواجی زندگی کے آغاز میں نئی زندگی کے نئے نئے تجربات نظم میں پیش کیا کرتے تھے ، روزانہ کالج آتے تو نئی بیگم کی اداؤں کے گیت گاتے رہتے تھے ۔ ایک دن ایک نظم میں ان کی امور خانہ داری میں تکمیل اور سلیقہ شعاری کی لمبی چوڑی تعریف فرمارہے تھے ۔ احباب گوشۂ چشم سے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور مولانا پر فقرے چست کررہے تھے ۔ مولانا اپنے مخصوص اور مترنم لہجے میں مسکراتے جاتے تھے اور سراپا پڑھتے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ جو سانس لینے کے لئے رکے تو میں نے کہا مولانا غالب کا ایک شعر بے طرح یاد آرہا ہے ۔ ڈرتا ہوں کہ پڑھوں گا تو خفا ہوجاؤ گے ، اور منطقی گفتگو کرنا شروع کر دو گے کہ تمہاری مدحت سرائی بجا ہے، کہنے لگے نہیں نہیں کہئے ، دوسرے احباب کا بھی اصرار ہوا اور میں نے لسان الجذبات کا یہ شعر پڑھا:
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

مولانا اچھل پڑے، اور فرمایا سراج صاحب! خدا کی قسم غالب کا شعر آج ہی سمجھ میں آیا
ایک دن ایک حسین دوست سے ملنے گیا ، برآمدے میں بیٹھی کچھ کھارہی تھیں ۔ مجھے دیکھتے ہی مٹھی بند کرلی، میں نے پوچھا اکیلے اکیلے کیا کھارہی تھیں؟ مسکرا کر بولیں، آ پ ہی بتائیے، میں نے کہا ؎
اے غنچۂ تمنا یعنی کف نگاریں
دل دے تو ہم بتائیں مٹھی میں تیری کیا ہے
شرما کے جلدی سے مٹھی کھول دی۔

ایک رات کو چند احباب کے ساتھ کمرے میں بیٹھا خوش گپیاں کررہا تھا۔ مقابل کے مکان سے ڈھولک کی آواز آرہی تھی ۔ چند مارواڑی عورتیں گلا پھاڑ پھاڑ کر زچہ خانہ کے گیت گارہی تھیں جس سے سخت انقباض پیدا ہورہا تھا۔ ایک دوست نے زچ ہوکر کہا کمبختوں نے کان کھاڈالے ، ایک لفظ جو سمجھ میں آتا ہو، میں نے کہا:
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے روز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
وہ زور کا قہقہہپڑا کر تھوڑی دیر کے لئے ڈھولک اور گانا بند ہوگئے ۔

ایک دن شام کو میں بسکو پارک اندور میں سیر کررہا تھا ۔ ایک صاحب جن سے میں کچھ کچھ واقف تھا کندھے سے ایک کیمرا لٹکائے ایک طرف سے آتے نظر پڑے اور دائیں بائیں دو حسین صورتیں زرق برق پوشاکوں میں ان کے ساتھ تھیں۔ قرینے سے معلوم ہوتا تھا کہ تصویر اتر وانے جارہی ہیں ۔ وہ صاحب مجھے دیکھ کر کچھ ٹھٹکے ، مجھے ان کی شرمندگی دیکھ کر ہنسی آگئی، ساتھ ہی یہ شعر یاد آیا:
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے

میرے ایک بے تکلف شاگرد میرے ساتھ اندور سے اجین جارہے تھے، گاڑی میں بڑا ہجو م تھا، ہم دونوں بہ مشکل تمام ایک ڈبے میں گھسے، بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی، کھڑے کھڑے میں نے ان کا ہاتھ دیکھنا شروع کیا اور مستقبل کی بابت پیشین گوئی کرنا شرو ع کردی۔ اب تو لوگوں کی توجہ میری جانب منعطف ہوئی، یکے بعد دیگرے ہاتھ بڑھنے لگے ، اور میں نے کھڑے کھڑے قسمت کے لکھے بتانا شروع کردئیے ، ایک صاحب دیر سے اپنے بستر پر پڑے پڑے بڑی دلچسپی سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے ، آخر ان سے نہ رہا گیا اٹھ کے بیٹھ گئے اور بولے ، آئیے ادھر بیٹھ جائیے ، ذرا میرا ہاتھ تو دیکھئے، میں شکریہ ادا کر کے اپنے ہم سفر کو ساتھ لئے جاکر بیٹھ گیا اور ان کا ہاتھ دیکھنے لگا ، اسی شغل میں اجین آگیا، مجھے گاڑی بدلنا تھی اور شکور میاں کو وہیں اترنا تھا ، چلتے چلتے کہنے لگے، آپ نے تو خوب تدبیر جگہ حاصل کرنے کی نکالی ۔ میں نے کہا یہ نسخہ تو غالب کا بتایا ہوا ہے ، میرا مجوزہ نہیں ہے ، بھونچکے سے میرا منہ دیکھنے لگے میں نے کہا تم نے یہ شعر نہیں پڑھا:
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئے
کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

جامع مسجددہلی کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا، اجمل میرے ساتھ تھے، سڑک کی دوسری جانب چند مزار دکھائی دئیے، ایک مزار پر پھولوں کی کثرت تھی، میرے استفسار پر اجمل نے بتایا کہ حضرت سرمد شہید کا مزار ہے ، بے ساختہ یہ شعر زبان پر آیا:
بس کہ ہیں ہم اک بہارِ ناز کے مارے ہوئے
جلوہ گل کے سوداگر اپنے مدفن میں نہیں

ایک سیاسی رہنما کئی سال جیل میں گزار کر آزاد ہوئے ۔ شہر میں ان کا جلوس دورہ کررہا تھا ، ایک چوراہے پر جلوس کی سیر دیکھنے کے لئے میں بھی رک گیا ۔ مقتدر لیڈر صاحب کی ل ینڈواور خود لیڈر صاحب پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ صرف ان کا سر ذرا سا دکھائی دے رہا تھا، مجھے ان کی ہیئت کذائی دیکھ کر پھر یہ شعر آیا، اور لطف لے لے کر اسے پڑھنے لگا۔
بس کہ ہیں ہم اک بہارِ ناز کے مارے ہوئے
جلوہ گل کے سوداگر اپنے مدفن میں نہیں

یو۔ پی کے ایک اسلامیہ اسکول میں جہاں طلبہ کے لئے ظہر کی نماز پڑھنا لازم کردیا گیا تھا ، درجے کے نماز مانیٹر یکے بعد دیگرے آآکر نماز کے رجسٹروں پر ہیڈ ماسٹر کے دستخط لے رہے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے قریب میں بیٹھا ہوا تھا ، اور میرے پاس عربی شاخ مدرسہ کے معلم اول جلوہ افروز تھے ، رجسٹروں میں اکثر طلبہ کے ناموں کے آگے غیر ح اضری کے نشانات بنے ہوئے تھے ۔ میں نے مولانا کی طرف دیکھ کر کہا۔ مولانا! غالب نے انہی نماز سے غیر حاضر ہونے والے طلبہ کی طرف سے اللہ میاں کے دربار میں پیروی کی ہے ۔ آپ کا کیا خیال ہے نہایت بجا ہے کہ نہیں۔ کہنے لگے فرمائیے، سنوں تو کہوں ، میں نے کہا:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

مولاناتیور بدل کر چپ ہوگئے ، ہیڈ ماسٹر صاحب ضابطے کے ساتھ مسکرائے اور میں چپکے چپکے شعرکا لطف اٹھانے لگا۔
اس وقت کو میں مضمون کی آخری سطریں لکھ رہا ہوں مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ غالب زیر لب گنگنارہے ہیں:
بہ قدر ذوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے

ماخوذ از مجلہ: مخزن ، فروری 1951
مضمون: سراج احمد صاحب علوی
بشکریہ: راشد اشرف

Remembering Ghalib's verses on different spontaneous occasions.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں