جنگ آزادی 1947 میں علما کا خصوصی کردار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-15

جنگ آزادی 1947 میں علما کا خصوصی کردار

India-1947-freedom-struggle-Ulema-role
محترم حضرات! وہ ہندوستان جس کی حریت کے باغ کو علماء نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا اور اس کی آزادی کی خاطر بحر ناآشنائے ساحل میں کود پڑے تھے ، اور موجوں سے کھیلتے ہوئے منجدھار تک جا پہنچے تھے۔ بے پناہ قربانیوں کے ذریعہ اس کو پروان چڑھایا تھا بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ان کی جدوجہد اور کد و کاوش کو بھلا دیا گیا ہے ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کی کتابوں میں ایک دو کے علاوہ کسی کا تذکرہ تک نہیں ملتا، ان کے نام کو ایسا بےنشان کر دیا گیا ہے گویا جنگ آزادی میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ان احسان فراموشوں سے کوئی پوچھے کہ کراچی کی عظیم الشان کانفرنس میں ٹینکوں اور توپوں کے سامنے کس نے سینہ سپر ہو کر انگریزی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا تھا؟ وہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی ذات گرامی ہی تو تھی جنہوں نے برسر عدالت انگریز جج کے یہ دریافت کرنے پر کہ:
تم نے فتویٰ دیا ہے کہ انگریز فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے؟
حضر ت مدنیؒ نے کہا: فتوی دیا کیا ہوتا ہے آج بھی میرا یہ ہی فتوی ہے کہ انگریزی فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے ۔
جب یہ فتوی دہرایا تو مولانا محمد علی جوہر نے مولانا حسین احمد مدنیؒ کے پاؤں پکڑ لئے اور کہا حسین احمد خدا کے لئے بیان بدل دو، اس لئے کہ انہیں یہ خدشہ ہوا کہ کہیں بدبخت انگریز ان کے ساتھ برا سلوک نہ کر بیٹھے۔
حضر ت مدنیؒ نے کہا کہ جوہر! اگر میں نے آج بیان بدل دیا تو خدا کی قسم ایمان بدل جائے گا۔ اس لئے آج یہ بیان نہیں بدلا جا سکتا ۔

وہ مولانا ابوالکلام آزاد ہی تو تھے جنہیں انگریزوں نے احمد نگر کے قلعے میں محبوس کر دیا تھا۔ اسی دوران جب انگریزوں نے بیوی کے انتقال پر آپ کو تین دن کی رہائی کا حکم دیا تو امام الہندؒ نے انگریز کی رہائی کو ٹھکرا دیا اور حقارت کے ساتھ کہہ دیا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے ، قیامت کے دن بیوی سے ملاقات ہو جائے گی۔

اسی طرح علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے بھی تحریک آزادی میں زبردست رول ادا کیا، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ، مولانا محمد میاں صاحبؒ، مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ یہ تمام حضرات علماء دیوبند کے ہراول دستہ میں تھے۔ علماء دیوبند اور جمعیت علماء ہند نے کانگریس کے شانہ بشانہ آزادی کی لڑائی لڑی ہے ۔ جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، عذاب و ایذاء کے مزے چکھے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو اور دوسرے اہم قومی لیڈروں کو ہیرو بنانے والے ہمارے علماء ہی تھے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
بلکہ ہفت روزہ الجمعیۃ (اگست 1997ء) میں مفتی عمیر قاسمی نے لکھا ہے کہ:
"موجودہ ہندوستان کے بابائے قوم گاندھی جی، جن کے قد آواریت ہندوستان کے چپہ چپہ پر نصب ہیں ان کو گاندھی سے مہاتما گاندھی بنانے والا بھی ہندوستان کا ایک مشہور و عظیم عالم ہے جس کو دنیا حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے نام سے جانتی ہے۔"

ان کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، مولانا شاہ عطاء اللہ بخاری، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا عبدالماجد بدایونی، مولانا شوکت علی رامپوری، مولانا سیدنصیر الدین، مولانا ولایت علی، مولانا عنایت علی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبدالقادر لدھیانوی، مولانا احمد اللہ عظیم آبادی، مولانا فاخر الہ آبادی، مسیح الملک حکیم اجمل خان، مولانا عبدالحق مدنی، مولاناسید فخر الدین ، مولانا بشیر احمد بھٹہ، مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند، سبحان الہند مولانا سعید احمد دہلوی، ابوالمحاسن مولانا سجادبہاری، مولانا شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی ، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر مختار انصاری، سیف الدین کچلو اور سیکڑوں دیگر ان جیسے اہم لیڈران، مسلم رہنما اور علماء اسلام کی قربانیوں کو اگر اہل ہند یا د کر لیں تو آج مسلمانوں کو غدار وطن اوران کو غیر ملکی کہنے والے وطن دشمن فرقہ پرست شرم سے اپنا سر جھکا لیں۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بلا خوف و تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ علماء و مسلم قائدین کا یہ قافلہ عام ہندوستانی کے پر پیچ اور بھیانک جنگل میں آزادی کی شاہراہ بنانے کی غرض سے سرگرم سفر نہ ہوتا تو یہ تنگ نظر، احسان فراموش جو ہم سے وفاداری کی سند مانگتے ہیں کبھی ملک کو آزاد نہیں کرا سکتے تھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آزادی ہند کا ہر ورق علماء و مسلمانوں کی بے پناہ قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نقوش سے بھرا ہوا ہے ، جس کے بغیر تاریخ کا ہر صفحہ ادھورا اور اس کا ہر باب نامکمل اور ہر عنوان پھیکا ہے :
انہیں کے جہد مسلسل کا ہے یہ سب ثمرہ
کہیں نہ کیوں انہیں پروردگار آزادی
اٹھائی ہجر کی سختی جنہوں نے بہر وطن
مبارک ان کو ہو وصل نگار آزادی

آزادی کا ثمرہ مسلمانوں کو کیا ملا
محترم دوستو! جس گلستاں کے حصول کے لئے مسلمانوں نے خار گلشن کو چنا تھا وہ ان کے لئے مقتل کی شکل میں تیار کھڑا ہے۔ افسوس کہ جس دھرتی کے لئے مسلمانوں نے اپنا خون بہایا ہے اسی دھرتی میں آج ظلم و ستم اور جور و جفا کے تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں، ان پر عرصہ حیات کو تنگ کیا جا رہا ہے اور وہ پاکستان جانے کی بیہودہ باتیں کر رہے ہیں، ہر لمحہ جان و مال اور عزت و آبرو پر فتنے اور خطرے کا مہیب سایہ ہر وقت تیار رہتا ہے جس کو دیکھ کر مسلمان دل برداشتہ ہو چکے ہیں۔ اس حکومت کا رویہ اس قدر معاندانہ اور جانبدارانہ ہے کہ زندگی کا ہر پل سو سال معلوم ہو رہا ہے جدھر دیکھئے بے قصور مسلمانوں کے خون اور بے کس و بے بس مسلمانوں کے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ رہا ہے۔ آزادی کے بعد سینکڑوں شہر برباد کر دئے گئے، ہزاروں بستیاں تباہ کر دی گئیں ، لاکھوں گھر جلا دئیے گئے ، کتنی ہی عورتوں کی عزت و آبرو کی دھجیاں بکھر گئیں، لاکھوں مسلمانوں کو موت کے منہ میں ڈال دیا گیا ، ہزاروں مسجدیں زمین بوس کر دی گئیں اور سینکڑوں مقابر پر ناجائز قبضے کر لئے گئے ہائے افسوس!
کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد
کیا بتائیں ہم پر کیا گزری ہے آزادی کے بعد

میرے محترم دوستو! یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اس شجر آزادی کا پھل اور ثمرہ ہمارے حق میں بہت ہی زیادہ تلخ ثابت ہوا ، جس کی تلخی آج تک ختم نہیں ہو سکی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں ختم نہیں ہو سکے گی لیکن ہمیں بھی کوئی غم نہیں، ہمیں بھی کوئی ملال نہیں، ہمیں بھی کوئی افسوس نہیں! اگر یہ ظالم حکومت اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آئی اور ہمارے حقوق کو یوں ہی پامال کرتی رہی تو اسے بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم انہیں شیرانِ اسلام اور سرفروشانِ خیر الانام کے فرزند ہیں جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ بدل ڈالی تھی۔ ان شاء اللہ ایک بار ہم بھی بدل کر دم لیں گے:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

محترم حضرات! روداد ماضی کی یہ معمولی سی جھلک تھی جس کی منظر کشی گزشتہ صفحات میں کی گئی ہے ، ورنہ یہ تو داستان خونچکاں اور قصہ جانکاہ ہے جو بزبان حال کہہ رہی ہے:
ابھی اور مجھے اذن خون فشانی دے
تیرا جمال بہت تشنہ بیاں ہے ابھی

(آمین) وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

ماخوذ از کتاب : خطباتِ آزادئ وطن (جلد دوم)
مرتب : مولانا محمد ابراہیم بن محمد ادیا

The special role of Ulema in India's 1947 freedom struggle

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں