گزشتہ ہفتے ہی عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف نے خبردار کیا تھا کہ امریکی صدر کی تجارتی اور اقتصادی پالیسیاں نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی معیشت کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔ ادارے کی مینیجنگ ڈائرکٹر کرسٹین لگارڈ [Christine Lagarde] نے کہا تھا کہ تجارت کے میدان میں لڑی جانے والی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا ۔ یعنی اس کا نقصان تمام متعلقہ فریقوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ کرسٹین کا مذکورہ بیان ٹرمپ کے اس فیصلے کے تناظر میں آیا تھا کہ جس میں انہوں نے چین سے درآمد ہونے والی تقریباً پچاس بلین ڈالر مالیت سالانہ کی اشیا پر پچیس فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا اشارہ دیا تھا ۔ ظاہر ہے ٹرمپ اس فیصلے سے یہ احمقانہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے چینی معیشت کو زور کا جھٹکا دیا ہے اور اس سے امریکہ کے کاروباریوں یا امریکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا ، لیکن اس کے بعد عالمی سطح پر جو کچھ ہوا وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس اقتصادی جنگ میں امریکہ کو بھی بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ لگارڈ کا مذکورہ بیان دراصل امریکہ کے لئے ایک تنبیہ تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر امریکی فیصلے کے رد عمل میں متاثرہ ممالک بھی کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اس سے تمام فریقوں کا نقصان ہوگا ۔ کرسٹین لگارڈ نے خبردار کیا تھا کہ اس سے عالمی ترقی کا عمل بھی منفی طور پر متاثر ہوگا۔
کرسٹین لگارڈ کی مذکورہ تنبیہ محض ایک ہفتے بعد ہی سچ ثابت ہوتی نظر آرہی ہے ۔ ٹرمپ کے چینی درآمدات کے خلاف کیے گئے فیصلے پر سب سے پہلے تو خود چین نے سخت جوابی کارروائی کی اور امریکی کی اتنی ہی مالیت یعنی 50 ارب ڈالر کی 659 مصنوعات پر درآمدتی ٹیکس میں اضافہ کر کے حساب برابر کیا۔ ٹرمپ نے صرف یہی نہیں کیا کہ چینی اشیا کی درآمدات پر 50 ارب ڈالر کا اضافی ٹیکس تھوپ دیا بلکہ انہوں نے چین کو یہ دھمکی دینے کی بھی طفلانہ حماقت کی وہ چینی اشیا پر مزید 200 ارب ڈالر کا اضافی ٹیکس لگا ئیں گے ۔ اس کے جواب میں چین نے کہا کہ وہ بھی جواب میں امریکہ کے خلاف ایسی ہی کارروائی کرے گا۔ دوسری طرف ٹرمپ نے یورپی یونین اور ہندوستان و دیگر کئی ممالک کے خلاف بھی اسی طرح درآمدنی ٹیکسوں میں اضافہ کرکے غیر ضروری تجارتی جنگ کا آغاز کردیا ہے ۔ اس کے جواب میں یوروپی یونین، ترکی ، اور ہندوستان نے بھی جوابی کارروائیاں کی ہیں۔ ظاہرہے ان کاروائیوں کا راست اثر عالمی معیشت پر بھی پڑے گا۔ ترکی نے امریکی مصنوعات پر 267 ملین ڈالر کا اضافی درآمداتی لگانے کا اشارہ دیا ہے ۔ جب کہ ہندوستان نے بھی امریکی فیصلے کے جواب میں سخت قدم اٹھاتے ہوئے 29 امریکی اشیاء پر درآمداتی ٹیکس میں اضافہ کردیا ہے ۔ اس تجارتی جنگ نے کئی بڑی کثیر قومی کمپنیوں کے سامنے پریشانی کھڑی کردی ہے ۔ کئی کمپنیوں نے اپنے منافع کے جو تخمینے لگائے تھے ان میں نئے حالات کے سبب تبدیلی پیدا کردی ہے ۔ ظاہر ان کمپنیوں کو نئے درآمداتی ٹیکس کے سبب اپنے غیر ملکی خریداروں میں کافی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے امریکہ کی بھی کئی بڑی کمپنیاں متاثر ہوں گی ۔ اس کے علاوہ امریکی صارفین کو جو سستی اشیااب تک چین، ہندوستان یا دیگر ممالک سے ملتی تھیں وہ نہیں مل پائیں گی اور ان کی جیب پر بار بڑھیگا۔ اس کا راست اثر امریکی معیشت پر بھی پڑے گا۔ لیکن ٹرمپ اور ان کے مشیر اس خوش فہمی کے شکار ہیں کہ ان کی اقتصادی اور معاشی دادا گری چین، ہندوستان ، یوروپی یونین یا دیگر ممالک کی معیشت کو ہی نقصان پہنچائے گی۔
ٹرمپ امریکہ کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے نام پر ہی احمقانہ فیصلے نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کی نئی امیگریشن پالیسی بھی امریکہ اور دیگر ممالک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی ۔ امریکی سرحدوں اور امریکی روزگاروں کی حفاظت کے نام پر انہوں نے جو امیگریشن پالیسی بنائی اس کا سب سے زیادہ خمیازہ پڑوسی ملک میکسیکو کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ امیگریشن قوانین سخت کردیے جانے کے بعد میکسیکو سمیت کئی ممالک کے بے شمار لوگوں کو سرحد پر ہی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے ۔ میکسیکو کے لوگوں کے ساتھ تو یہ بھی کیا گیا کہ گرفتاری کے وقت ان کے بچوں کو ان سے الگ جیل میں بھیج دیا گیا ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خود امریکہ کی خاتون اول میلانیہ ٹرمپ نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ بہر حال اس معاملے پر جب ہر سمت سے ٹرمپ کو شدید دباؤ اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو بچوں کو والدین سے الگ کرنے کے قانون کو واپس لے لیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود میکسیکو کے لوگوں کو روزگار کے لئے امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے پر اب بھی سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب کہ پہلے ایسے معاملوں میں بہت زیادہ سختی نہیں ہوتی تھی ۔ صرف میکسیکو ہی نہیں دیگر کئی ممالک سے بھی تلاش روزگار میں امریکہ آنے والوں کو ٹرمپ کی ا س امیگریشن پالیسی کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ چند روز قبل ہی تقریباً 123 تارکین وطن اس کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں 52 ہندوستانی بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی امیگریشن پالیسی امریکہ کے لئے فائدہ مند ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس راستے سے امریکہ کمپنیوں کو جو سستے مزدور یا تربیت یافتہ لوگ مل جاتے تھے وہ نہیں مل پائیں گے ۔ امریکہ میں اس قیمت پر تربیت یافتہ اور غیر تربیت یافتہ لوگ ملنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مہنگے مزدور ملنے کے سبب امریکی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا ۔ دوسری طرف دیگر ممالک ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے جواب میں امریکی اشیا پر جو اضافی ٹیکس لگا رہے ہیں اس کا بھی نقصان ہوگا اس طرح باقی دنیا ہی نہیں خود امریکی معیشت بھی بحران کا شکار ہوجائے گی۔ اس کے کچھ اثرات نمایاں ہونے بھی شروع ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ کی حماقتوں سے صرف عالمی معیشت پر ہی خطرہ نہیں بڑھا ہے بلکہ ان پالیسیوں نے عالمی امن کے سامنے بھی سخت چیلنج پیدا کردیے ہیں ۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بات کریں تو انہوں نے خلاؤں کو بھی میدان جنگ بنانے کی جنونی پالیسی پر عمل شروع کردیا ہے ۔ پہلے ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے پائے ایٹمی معاہدے سے ہٹنے کا اعلان کر کے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ۔ پھر یروشلم میں امریکی قونصل خانہ کھولنے کا اعلان کرکے مشرق وسطی کے آتش فشاں کو مزید بھڑکانے اور فلسطینیوں پر صہیونی ظلم کی راہ ہموار کی ۔ چند روز قبل ہی ٹرمپ اسرائیل کی دوستی اور حمایت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی سے متعلق ادارے سے امریکہ کو الگ کرنے کا اعلان کردیا۔ دراصل ٹرمپ اس بات سے خفا ہیںٰ کہ اقوام متحدہ کا یہ ادارہ اسرائیل پر حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا غلط الزام لگا رہا ہے اور فلسطینیوں کی غلط حمایت کررہا ہے ۔ حالانکہ ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت پوری دنیا میں ہورہی ہے لیکن انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک اور فیصلے کے تحت ٹرمپ نے امریکی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی خلائی یونٹ بھی تیار کرے ۔ یہ امریکی فوج کی چھٹی یونٹ ہوگی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ خلا میں بھی امریکہ کی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے طاقت کے استعمال کے موڈ میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خلا میں امریکہ کی موجودگی کافی نہیں ہے اور وہاں بھی امریکہ کا غلبہ ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے یہ سامراجیت اور توسیع پسندی کے جنون کا نقطہ عروج ہے ۔ ٹرمپ کے یہ تمام فیصلے در حقیقت ان کے مزاج کے عدم توازن کا ثبوت ہیں اور اگر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا سربراہ ہی عدم توازن کا شکار ہوجائے تو پر امن دنیا منصفانہ سماج اور اقتصادی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کیاجاسکتا ۔ ظاہر ہے ٹرمپ کی پالیسیاں پوری دنیا کے لیے تباہ کن بنتی جارہی ہیں ۔ اس دنیا میں خود امریکہ بھی شامل ہے کہ جسے مزید طاقتور بنانے کے خبط میں ٹرمپ مسلسل غلط فیصلے کررہے ہیں ۔
Trump's destructive policies threatens the world.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں