ان دنوں قاہرہ میں میلاد النبی کا تہوار بڑی شان سے منایا جاتا تھا۔ خود شاہ فاروق تقریبات میں حصہ لیتے۔ اس سال کے یوم میلاد میں ہمارے کیمپ کے مسلمان جوانوں نے بھی شرکت کرنا چاہی۔ چونکہ ہمارے سپاہیوں کا مصریوں کے ساتھ اختلاط کا معاملہ تھا، کرنل صاحب نے مجھے خود ساتھ جانے کو کہا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ میں، صوبیدار صاحب اور کوئی پچاس جوان صاف ستھری وردیاں پہنے فوجی لاریوں میں بیٹھ کر جلسۂ گاہ میں پہنچے۔ شاہ فاروق کے آنے میں ابھی کچھ وقت تھا کہ صوبیدار صاحب نے میرے کان میں کہا :
"اگر اجازت دیں تو شاہ فاروق کے آنے پر ہم نعرۂ تکبیر بلند کریں؟"
میں نے کہا: "آپ کو کیا تکلیف ہو رہی ہے جو آپ ایسی حرکت کرنا چاہتے ہیں؟"
بولے: "خلیفہ اسلام ہے اور ہمارا دل چاہتا ہے کہ اپنے مسلمان بادشاہ کے لیے نعرہ لگائیں۔"
میں نے کہا: "ہم وردی میں آئے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس تقریب میں متانت سے حصہ لینا چاہیے۔ یہ موقع نعرہ بازی کا نہیں۔ وطن میں جا کر یا یونٹ میں ہی کوئی جلسہ کر کے نعرے لگا کر دل ہلکا کر لیں گے۔"
صوبیدار صاحب خاموش ہو گئے، لیکن سخت ناخوش۔ میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ میرے غیر اسلامی روئیے پر سخت برہم ہیں۔ اتنے میں آواز آئی کہ جلالۃ الملک کی سواری آ رہی ہے۔ یہ سنا تو صوبیدار صاحب کا چہرہ جگمگا اٹھا۔ ان کی نظریں اس سمت میں گڑ گئیں جدھر سے شاہ فاروق کو جلسہ گاہ میں داخل ہونا تھا۔ ان کا تنفس تیز ہو گیا۔ میں نے ان کی حالت غیر ہوتے دیکھی تو ان کے بازو پر ہاتھ رکھا ، لیکن ہاتھ کی بجائے ان پر شہتیر بھی آ گرتا تو ان کی توجہ کا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ وہ اب ایک دوسری دنیا میں پہنچ چکے تھے۔ جونہی شاہ فاروق نے دروازے کے اندر قدم رکھا، صوبیدار صاحب بجلی کی سرعت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فضا میں ایک آواز بلند ہوئی :
"نعرہ ۔۔ اے ۔۔ تکبیر"
نعرہ اور اور لمبی 'اے' کے بعد تکبیر کا لفظ اس طرح ادا ہوا جیسے فیتہ جلنے کی شوں شوں کے بعد یکلخت گولہ پھٹتا ہے اور جونہی صوبیدار صاحب لفظ تکبیر تک پہنچے ، ہمارے پچاس جوانوں نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا :
"اللہ اکبر"
اس پر شاہ فاروق کسی قدر حیرت سے مسکرائے اور حاضرین نے شاہی مسکراہٹ سے اشارہ پا کر تالیاں بجا دیں۔
واقعہ یہ تھا کہ ہمارے نعرے کو کسی نے سمجھا نہ تھا۔ چاروں الفاظ بےشک عربی کے تھے، لیکن ان کا پنجابی تلفظ اور وہ بھی ایک نعرے کی شکل میں مصریوں کے فہم سے بعید تھا۔ وہ یہ سمجھے کہ ہندوستانی فوجیوں نے کوئی تماشہ کیا ہے، چنانچہ میں نے صوبیدار صاحب کو ایک قہرآلود نگاہ سے دیکھا، لیکن صوبیدار صاحب تو اپنے خلیفہ کے حضور میں تھے۔ ایک خستہ نیم لفٹین کیا اور اس کی نگاہِ غضب کیا؟
شاہ فاروق ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ جب ہمارے قریب سے گزرے تو جیسے صوبیدار صاحب کا اندر سے بٹن دب گیا ہو۔ پھر دیوانہ وار اٹھے اور دایاں بازو بلند کر کے نعرۂ تکبیر کی صدا لگائی اور ایک مرتبہ اور 'اللہ اکبر' کی آواز گونجی۔ اب کے شاہ فاروق نے قہقہہ لگایا اور تمام حاضرین خصوصاً پاشاؤں نے شاہی قہقہے کی تائید میں اپنے جی حضوری گلے پھاڑ کر رکھ دئیے اور شامیانہ سر پر اٹھا لیا۔۔۔ ہرچند کہ اللہ اکبر کا نعرہ ہمارا دین و ایمان تھا ، تاہم اس مجلس میں اس نعرہ بازی سے ہم تماشا بن گئے۔ شاہ فاروق کرسی صدارت پر بیٹھ گئے۔ جلسے کی کارروائی شروع ہوئی ، تو جلسے کے منتظم بکری پاشا میرے پاس آئے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے مبارکباد دے کر کہنے لگے:
"تمہارے جوانوں کے تماشے سے جلالۃ الملک بہت خوش ہوئے ہیں۔ اگر یہ لوگ حضور کی رخصت کے وقت بھی ایسا ہی کریں ، تو حضور اور خوش ہوں گے۔"
لگے ہاتھوں مجھے یہ مژدہ بھی سنایا کہ تمہاری چائے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔
اب اگر میں بکری پاشا کو دل کی بات بتاتا تو کہتا کہ تم اور تمہارا بادشاہ بہشت کی دوسری طرف جا سکتے ہو ، لیکن یہ کہنے کی بات نہ تھی۔ بکری پاشا کی سنا کیا اور خون جگر پیتا رہا۔ صوبیدار صاحب بھی بکری پاشا کی سن رہے تھے۔ ظاہر تھا کہ خلیفہ وقت کی خوشنودی کا امکان ہو تو وہ دن بھر نعرے لگاتے رہیں گے۔
بہرحال جیسے فوج کا دستور ہے میں نے صوبیدار صاحب سے کہا:
"آپ نے عدول حکمی کی ہے۔ آپ اپنے کو زیر حراست سمجھیں۔"
صوبیدار صاحب کے چہرے کا رنگ ذرا پھیکا ہونے لگا اور آپ نے میری طرف دیکھا بلکہ پہلی دفعہ محسوس کیا کہ یہ شخص بھی ساتھ آیا ہے اور غالباً اپنے دل میں وہی باتیں سوچنے لگے جو گرفتاری کے وقت لوگوں کے دماغ میں آتی ہیں، چنانچہ ایک لمحے کے لیے ان کے ذہن میں خلیفۃ اللہ اور بکری پاشا کے درمیان سے ہمیں بھی باریابی ہوئی۔ لیکن اتنے میں فاروق تقریر کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگلے لمٖحے صوبیدار صاحب نے ہمیں دماغ سے نکال باہر کیا۔ ان کی آنکھوں میں پھر وہی روشنی عود کر آئی۔ ان کے نزدیک ہر مصری باتیں کرتے وقت قرآن پڑھتا معلوم ہوتا تھا اور اب تو امیر المومنین خود سخن سنج تھے۔ صوبیدار صاحب کی آنکھوں کی روشنی ایک آتشیں شعلے میں تبدیل ہو گئی۔
فاروق ابھی دو لفظ بھی نہ کہنے پائے تھے کہ صوبیدار صاحب نے اپنی جگہ پر ہی یعنی میری بغل سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ فاروق اس دخل در معقولات سے پہلے تو ذرا ٹھٹھک سے گئے لیکن معاً ان کے ہونٹوں پر تبسم نمودار ہوا اور تمام پاشے کھلکھلا اٹھے۔ تالیاں بجنا شروع ہوئیں۔ صوبیدار صاحب نے یہ دیکھا تو سمجھے کہ مصر فتح کر لیا ہے۔ لگے ہاتھوں ایک مزید نعرہ لگایا، مگر وفور جوش سے گلے پر معمول سے زیادہ زور دے دیا۔ آواز ہچکولے کھانے لگی۔ فاروق اور ان کے حواری ہنس ہنس کر دوہرے ہو رہے تھے۔ بکری پاشا بھاگے بھاگے آئے اور میرا شکریہ ادا کیا کہ تمہارے سپاہیوں نے جلالۃ الملک کو آمادہ خندہ کر دیا۔ میں شرم سے غرقِ نیل ہو رہا تھا۔ نہ صرف ہماری فوج بلکہ قوم کی سبکی ہو رہی تھی اور یہاں دونوں کی آبرو کا محافظ میں تھا کہ سب سے سینئر تھا لیکن اپنی سینیارٹی کا استعمال کس شکل میں کرتا؟
بکری پاشا کی ڈاڑھی نوچ لیتا؟
فاروق کو شٹ اپ کہتا؟
صوبیدار صاحب کے منہ میں فونٹین پن ڈال دیتا؟
یا کمپنی کو وہیں فالن کر کے رائٹ لیفٹ کرتا جلسہ گاہ سے باہر نکل آتا؟
ان میں سے کوئی حرکت بھی کرتا تو صوبیدار صاحب سے بھی زیادہ ممتاز الو بنتا ، چنانچہ انتہائی بےبسی میں سر جھکا کر بیٹھا کیا اور سنتا رہا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ ہمارے سر پر کیا کیا آرے چلے اور کیا کیا نعرے لگے۔
آخر مجلس برخاست ہوئی۔ واپس کیمپ پہنچے۔ صوبیدار صاحب کہ اب دربار خلیفہ سے نکل کر یونٹ لائن میں آ گئے تھے، برخاستگی بلکہ قید کی تیاری کرنے لگے۔ صوبیدار صاحب کا جرم واقعی سنگین تھا، لیکن اس سادہ اور جوشیلے مسلمان کو جیل خانے سے ایک بہتر اور باعزت مصرف بھی تھا، یعنی محاذ جنگ۔ دوسرے روز دفتر میں بلایا تو صوبیدار صاحب سمجھے کہ اب کورٹ مارشل ہوتا ہے لیکن جب محاذ جنگ پر جانے کا حکم سنا تو ان کی آنکھوں میں روشنی کی وہی پرانی کرن پھوٹی۔ سیلوٹ کیا ، دفتر سے باہر نکلے اور معاً 'اللہ اکبر' کی صدا بلند ہوئی۔ ظاہر تھا کہ یہ نعرہ امیر المومنین کی شان میں نہیں بلکہ "غریب الافسرین" یعنی اس خاکسار سیکنڈ لفٹننٹ کے اعزاز میں ہے۔
ماخوذ از: "بجنگ آمد" (کرنل محمد خان)
باب: قاہرہ ایام جنگ میں
باب: قاہرہ ایام جنگ میں
Nara e takbir allahu akbar. Humorous Essay: Col. Mohammad Khan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں