« پچھلی قسط --- تمام اقساط »
یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!
بڑی بڑی عمرین بات کہتے اور لمبی لمبی زندگیاں پلک جھپکاتے ختم ہوجاتی ہیں،تو ۱۷،۱۸ دن کی بساط ہی کیا تھی ۔ ابھی حیدرآباد کے پلیٹ فارم پر آمد ہی ہوئی تھی ۔ کہ اسی اسٹیشن سے روانگی کی گھڑی بھی آگئی، وہ۲۹ ستمبر کی صبح تھی اور یہ ۲ اکتوبر کی شام ! خوب یقین کے ساتھ شروع ہی سے معلوم تھا کہ قیام بالکل عارضی اور چند روز ہ ہے ، پھر بھی دل کسی حد تک لگ گیا تھا ۔ اور طبیعت درودیوار سے گلی کوچے سے مانوس ہوگئی تھی ، چلتے وقت دل کسی درجہ ضرور کڑھا ۔ بشریت اسی کا نام ہے ۔ بندہ کو خوب کھول کو بتا دیا گیا ہے کہ زمین پر قیام بالکل ہی چند روزہ رہے گا۔ ولکم فی الارض مستقرومتاع الی حین
لیکن باوجود اس عقلی اذحان کے اور باوجود اس نوید کے من احب لقا اللہ احب اللہ لقاء ہ جو بندہ اپنے رب سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے ، تو اس کا رب بھی اس کی ملاقات کا مشتاق رہتا ہے ۔ جب وہاں سے بلاوا آتا ہے تو طبیعت ان وقتی مالوفات کو چھوڑتے کچھ انقباض ہی سا محسوس کرتی ہے ۔
خیر جب شام کا وقت آیا تو کچھ لوگ تو گھرہی پر مل ملا کر رخصت ہوگئے اور کچھ لوگوں نے عین اس وقت رخصی مصافحہ کرلیا، جب بھی اسٹیشن کی برساتنی ہی میں داخل ہوا تھا ، پھر بھی گاڑی کے چھوٹتے وقت پلیٹ فارم پر مجمع مخلصوں اور محبوں کا اچھا خاصا تھا۔ کالجوں کے یونیورسٹی کے جلیل القدر استاد ، ایڈوکیٹ ، اخبار نویس ، بوڑھے جوان سب ہی ان لوگوں میں شامل فرط اخلاص، اکثر کی چشم نم سے نمودار ۔ بعض رومال سے آنکھیں پونچھ رہے تھے۔ اور ایک عزیز تو درجہ کے اندر آکر مجھ سے لپٹ کر زاروقطار رودئیے۔
جدائی اور رخصت کا منظر بھی کتنا موثر ہوتا ہے ۔ غم انگیز مگر لذیذ ، تلخ مگر کتنی مٹھاس لئے ہوئے! گاڑی چلی تو عام ناسوت سے آکر ہی رخصت کا منظر سامنے آگیا ۔ اور کسی فارسی گو شاعر کے یہ دو شعر بھی لوح حافظہ پر چمک اٹھے۔
یاد داری کے وقت زادنِ تو
ہمہ خنداں بدند تو گریاں
آں چناں ذی کہ وقتِ مردنِ تو
ہمہ گریاں بدند تو خنداں
(اے بندے، کچھ یاد ہے کہ جب تو پیدا ہوا تو سب کے چہروں پر خوشی کی ہنسی تھی، اور ایک تو رورہا تھا ۔ اب زندگی یوں گزار اور دنیا میں یوں بسر کر کہ جب دنیا سے اٹھنے کا وقت آئے تو سب رورہے ہوں اور ایک تو خوش ہو، لگن ہو کہ واپسی اپنے اصلی وطن کو اور حاضری اپنے مولا کے دربار میں ہورہی ہے ۔)
اے سب کی سننے والے، اس تباہ کار کے حق میں یہ مضمون شاعری نہیں، واقعہ اور حقیقت بن کر رہے ۔ سب کی آنکھ میں آنسو ہوں اور کانوں میں اپنے بشارت یہ آرہی ہوکہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔ اب دیر کیاہے، اے بندے میرے مغفوربندوں میں شامل ہو، اور میری مرضیات کی جنت میں داخل ہو ، آرزو اس غلط شہرت کی ہرگز نہیں کہ ایک عالم و فاضل اٹھ گیا، یا ایک عابد و زاہد اپنی جگہ خالی کر گیا ۔ دعا صرف اتنی ہے کہ زمین والے زبان پر یہ لائیں کہ ہمار اایک مخلص مشیر چلا گیا اور عرش والا یہ گواہی دے کہ ہاں یہ ہمارے دین کی تھوڑی بہت غیرت رکھنے والا ہمارے حضور میں حاضر ہوگیا۔
ختم شد
Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:13
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں