خطابت سے متعلق کچھ ذاتی تجربات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-24

خطابت سے متعلق کچھ ذاتی تجربات

muslim-sermon
دو روز قبل بنارس کے پڑوس میں گھوسیا نام کے قصبے میں میرا پروگرام تھا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے موضوع پر تقریباً ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ تقریر کے بعد منتظمین کہنے لگے شیخ آپ کو کم از کم دو گھنٹے خطاب کرنا چاہیے تھا۔۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اتنی طویل تقریریں کیوں کرانا چاہتے ہیں؟ خطابت کے میدان میں اب تک میرا جو تجربہ رہا ہے اس کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بہت زیادہ لمبی تقریریں نہ مقرر کے حق میں اچھی ہیں نہ سامعین کے حق میں۔
ظاہر ہے جب مقرر دو دو گھنٹے تقریر کرے گا تو نہ تو وہ اپنے موضوع پر برقرار رہ پائے گا اور نہ ہی مواد و مشتملات کے اعتبار سے تقریر کا وہ وزن رہ جائے گا جو ہونا چاہیے۔
میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر کہیں مختصر وقت ملتا ہے اور کوئی خاص موضوع دے دیا جاتا ہے تو اس کی تیاری میں مجھے زیادہ محنت و مشقت کرنی ہوتی ہے بنسبت لمبی لمبی تقریروں کے۔ کاش عوام کی ذہن سازی یوں کی جائے کہ کتنی دیر تک بولا جا رہا ہے یہ اہم نہیں ہے، اہم یہ ہے کہ کیا بولا جا رہا ہے؟ کتاب و سنت کے اسٹیج کی اپنی ایک حرمت ہے، وقار ہے، امتیاز ہے، اس اسٹیج کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہاں جو بات ہوتی ہے کتاب و سنت کی روشنی میں ہوتی ہے، اقوال صحابہ کی روشنی میں ہوتی ہے، سلف صالحین کے سچے واقعات کی روشنی میں ہوتی ہے۔ جب ہم خطباء سے یہ ڈیمانڈ کریں گے کہ وہ کم از کم ڈیڑھ گھنٹے دو گھنٹے تقریر کریں تو پھر ہمیں اپنے جلسوں کے گرتے معیار کا رونا بند کر دینا چاہیے، دو گھنٹے کی تقریر میں موضوع کی پابندی اور مواد کا استناد و اعتبار دونوں بہت مشکل ہے، مقرر کو عوام کو باندھے رکھنا بھی ہوتا ہے اور جب ہم وقت کی ضرورت سے زیادہ گنجائش مقرر کو دیں گے تو پھر وہ عوام کو باندھنے کے لیے لطیفے بھی سنائے گا، بے سر و پا واقعات بھی سنائے گا، الا ما شاء اللہ۔

خطابت کی بات نکلی تو میں اپنا ایک اور تجربہ شیر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے زیادہ تر اردو مقررین کے مطالعے کی بنیاد عموماً اردو کتابوں پر ہوتی ہے، میں نے بعض مقررین کے موبائل میں خطبات کے موضوع پر اردو کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ دیکھا۔ مبتدی قسم کے خطباء اگر یہ روش اپنائیں تو خیر کوئی حرج نہیں لیکن وہ خطباء جو میدان خطابت میں ایک عرصے سے ہیں، اچھی صلاحیت کے بھی مالک ہیں ان کے حق میں یہ چیز بہت بڑا نقص اور عیب ہے۔ علماء کے مطالعے کی بنیاد عربی کتب پر ہونی چاہیے۔ انٹرنیٹ پر صيد الفوائد اور ملتقى الخطباء جیسی ویب سائٹس اس سلسلے میں بہت مفید ہیں۔ عربی کتب سے براہ راست استفادہ کرنے میں دو بنیادی فائدے ہی۔ ایک تو یہ کہ ان میں نصوص کی اصل عبارت مل جایا کرے گی اور دوسرے ان کے توسط سے عربی زبان و ادب پر دسترس مضبوط ہوگی۔ خطباء ذرا سی توجہ دیں تو یہ چیز کچھ مشکل نہیں۔

ایک اہم چیز اس سلسلے کی یہ بھی ہے کہ ہر تقریر کے نوٹس ضرور بنائیں۔ یہ نوٹس آپ کو کام چور نہ بنا دیں اس لیے ایک ہی موضوع پر جب دوبارہ خطاب کریں تو مزید کچھ نیا مطالعہ کر کے نوٹس میں اضافہ کریں۔ میں پہلے بغیر نوٹس بنائے تقریر کرتا تھا، نتیجہ یہ تھا کہ ایک ہی موضوع پر جب کبھی دوبارہ خطاب کرنا ہوتا تو نئے سرے سے پوری محنت کرنی پڑتی تھی، بعد میں ہر تقریر کے لیے نوٹس بنانے لگا اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور اب الحمد للہ میرے پاس مختلف موضوعات پر تقریباً تین سو کی تعداد میں نوٹس موجود ہیں۔ نوٹس بنانے کا طریقہ بھی سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔
بعض مقررین صرف نصوص کے اشارے نوٹ کر لیتے ہیں۔ حافظ خطباء قرآنی آیات کے ابتدائی ٹکڑے لکھ لیا کرتے ہیں ۔ میں بدقسمتی سے نہ قرآن کا حافظ ہوں نہ حدیث کا حافظ ہوں، میں اپنے نوٹس میں عموماً قرآنی آیات اور احادیث مکمل لکھتا ہوں اور حوالے کے ساتھ لکھتا ہوں۔ نوٹس کو محفوظ بھی رکھیں یہ آگے چل کر بہر صورت کام آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نوٹس کے سلسلے میں بعض خطباء کی یہ عادت ہے کہ وہ سامنے رکھ کر خطاب کرتے ہیں اور بعض انہیں ذہن نشین کر کے تقریر کرتے ہیں۔۔
میرا اپنا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ سامنے کوئی پرچہ وغیرہ رکھ کر تقریر میں وہ ارتکاز نہیں پیدا ہو پاتا جو مطلوب ہے، مقرر اور سامع کے درمیان جو تعلق ہونا چاہیے اور خطاب میں جو تسلسل ہونا چاہیے وہ برقرار نہیں رہ پاتا۔ لیکن یہ چیز سب کے ساتھ نہیں ہے، بعض خطباء نوٹس سامنے رکھ کر پورے اعتماد کے ساتھ خطاب کرتے ہیں اور گفتگو کا تسلسل بھی کہیں متاثر نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ چیز مختلف لوگوں میں الگ الگ ہو سکتی ہے لیکن نوٹس بہرحال بنانے چاہیے۔

اس سلسلے میں ایک اہم مشورہ یہ بھی ہے کہ دعوتی فیلڈ میں کام کرنے والے علماء و خطباء سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط ہوں، وہاٹس ایپ وغیرہ پر گروپ کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑیں اور ایک ہی موضوع پر اپنے اپنے طور پر تیاری کر کے ایک دوسرے کے ساتھ نوٹس کا تبادلہ کریں۔ اس سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا، ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع نصیب ہوگا، افادہ و استفادہ کا ماحول بنے گا۔

نوٹ :
عبدالغفار سلفی بنارس ہندو یونیورسٹی میں عربی کے ریسرچ اسکالر ہیں۔
***
فیس بک : Abdul Ghaffar Salafi
عبدالغفار سلفی

Tips & tricks regarding islamic sermons. Article: Abdul Ghaffar Salafi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں