تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-5 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-12

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-5


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

اردو کے ایک قدیم خادم کی حیثیت سے نظر اپنے رنگ و مذاق کے اداروں اور عمارتوں پر پڑنا بالکل قدرتی تھا ۔ گو اپنے وطن یوپی ہی اردو کے لئے خانمائی کا حال دیکھ کر اس طرف سے مایوسی تھی اور کسی سے اردو کا پتہ نشان پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی اور اسٹیشن کی عمارت اور دفتروں کا منظر خود اسی یاس کو اور گہرا کرنے والا تھا۔ وہی گار گھر، اسٹیشن ماسٹر ، ویٹنگ روم، مسافر خانہ وغیرہ کی عام فہم ناموں کی تختیاں سب غائب اور ان کی بجائے نامانوس اور تمامتر ناگری رسم الخط میں گدے ہوئے، لیکن اسٹیشن سے باہر شہر کی عام آبادی میں قدم رکھتے ہی یاس کی گہری تاریکی دور ہونے لگی اور امید کی کرنیں کسی درجہ میں نظر آنے لگیں، دکانوں، ہوٹلوں، مکانوں چائے خانوں یہاں تک کہ سرکاری دفتروں کے بھی سائن بورڈوں پر اردو حروف دکھائی دیئے اور کارپوریشن کی طرف سے سڑکوں پر جو مختصر باتیں لکھی رہتی ہیں وہ بھی اردو میں نظر آئیں ، اور دل ن کسی قدر اطمینان کا سانس لے کر کہا کہ بحمداللہ یہاں اردو سے وہ بیزاری اردو کے نام سے وہ تعصب نہیں جو ہمارے اتر پردیش کا مصرہوگیا ہے!نام کی کشش جب ادارہ ادبیات اردو تک لے گئی تو ایوان اردو کو نام کا نہیں واقعی ایوان اردو ہی پایا۔ عمارت کے حسن و جمال، وسعت و طول و عرض سے قطع نظر جب عمارت کے اندر قدم رکھا اور چل پھر کر ادھر اُدھر اوپر اور نیچے دیکھنا شروع کیا تو شان خدا نظر آئی ۔ میوزیم اور اوپری آڈیٹوریم اور لکچر گیلری سب ہی کچھ اس ایک ایوان کے اندر جمع! اللہ اکبر۔اردو کی یہ بھی شان! عملی کتابوں، نادر مخطوطوں کا پورا ذخیرہ فراہم۔ ریسرچ اسکالرز (طلبہ برائے تحقیق فن) آئیں تو اپنے کام کے لئے مدتوں قیام کا سامان پائیں ۔ ان کے رہنے، ٹہرنے کا انتظام بھی معقول ، اسی عمارت کے اندر موجود ، یوپی والے اردو دشمنی کے مارے ہوئے ، غریب دکن میں اردو کے اس مان دان کو سن پائیں تو خوشی سے پھولے نہ سمائیں، بلکہ عجب نہیں جو مسرت کے ساتھ جذبہ رشک بھی اپنے سینہ میں موجزن پائیں۔ ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں مرحومین متقدمین کے علاوہ معاصرین تک چھوٹے بڑوں کی محفوظ ، یہاں تک کہ مدیر صدق کے ید خط و خام نویس کی بھی ! سچ یہ ہے کہ اس احاطہ کے اندر آکر یہ بھی یاد نہیں رہ جاتا کہ اردو کوئی مظلو م زبان اور ناقدری اور کس مپرسی کی شکار ہے ۔ یا یہ کہ کسی بھی ترقی یافتہ زبان سے پیچھے یا نیچے ہے! اللہ نے خلوص میں بڑی برکت رکھی ہے ۔ ڈاکٹر زور مرحوم اردو کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھے ۔ اللہ نے ان کی کوششوں کو کامیابی و سر سبزی کا یہ مرتبہ عنایت کیا ، اور بابائے اردو عبدالحق کا صحیح جانشین بلکہ یوں کہئے کہ بابائے اردو ثانی بنادیا!
اسی ادارے کے ایک گوشے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی یادگاریں ، آزاد ریسرچ انسٹیوٹ ہے ، اور اس ادارہ کے دو سر گرم کارکن پروفیسر علی اکبر اور پروفیسر عبدالمجید صدیقی ہیں ۔ دونوں صاحب قلم اردو ہی نہیں ، انگریزی کے بھی، صدیقی صاحب تاریخ کے استاد رہ چکے ہیں ، اور معلوم ہوا کہ ادارہ کے ارکان انتظامی میں کئی ہندو صاحبان بھی شریک ہیں۔

اردو کے قدم دکن میں جمائے رکھنے کا سہرا تمام تر انجمن ادبیات اردو ہی کے سر نہیں ۔ ایک دوسرا ادارہ بھی اس فخر میں برابر کا شریک و سہیم ہے ۔ اور اس کا نام انجمن ترقی اردو حیدرآباد ہے۔بلکہ علمی، تحقیقی قدرو ں کا حصہ ادارہ ادبیات کے لئے چھوڑ کر اردو کی چلتوا اور روز مرہ کی ضرورتوں کا جہاں تک تعلق ہے، انجمن کی کار گزاریوں بلکہ کہنا چاہئے کہ کارناموں کا نمبر کچھ بیس ہی ہے۔ ایک وسیع احاطہ زمین اور اس کے اندر دو دو اردو کالجوں، کو بڑے پیمانے رپ چلانا کوئی آسان اور معمولی درجہ کی چیز نہیں اور کتابوں کی تالیف و اشاعت جو اس کے علاوہ ہے ، وہ ظاہر ہی ہے اور یہ سارا ثمرہ ایک بڑی حد تک معتمد انجمن پروفیسر حبیب الرحمن کی جوان ہمتی اور ایثار کا ہے ۔ اپنی ایک بڑی ذاتی عمارت انجمن کی نذر کردی ہے ۔ اور خود دن رات اردو ہی کی (اور یا پھر علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی) خدمت میں لگے رہتے ہیں ، خوش نصیب ہے وہ انجمن جسے ایسے مخلص کارکن نصیب ہوئے ہیں۔ اور اس انجمن کے چلانے میں ہاتھ تنہا مسلمانوں کا نہیں ایک متعدد ہندو بھی اس میں جان و دل سے شریک ہیں۔ چنانچہ ایک صاحب شری جانکی پرشاد کا نام بار بار سننے میں آیا اور انجمن کی طرف سے ایٹ ہوم میں ان سے نیاز بھی حاصل رہا۔
ہندوؤں کی شرکت اردو کے کاروبار میں یوپی میں بھی ہے اور وہاں کی اردو کی جدو جہد میں نام کشن پرشاد کول،وحشی ہکاری کا نپوری، رام لال، انندونرائن ملا وغیرہ کے کون بھلا سکتا ہے۔ تاہم حیدرآباد میں اس شرکت و مشارکت کا مسرت انگیز منظر اور زیادہ ہی دیکھنے میں آیا ۔ بلکہ ایک اور انجمن ، انجمن تحفظ اردو کے نام سے تو حال میں ہندوؤں ہی کے عنصر غالب سے قائم ہوئی ہے ۔ اوراس سے بھی کچھ بڑھ کر خوشی یہ دیکھ کر ہوئی کہ ریاست کی ساہتیہ اکاڈمی جو کام کررہی ہے اس میں اردو دانوں کو بھی پورا حصہ ہے ۔ اور تصنیف و تالیف کا کام جس طرح تلنگی وغیرہ کا اس میں ہورہا ہے اسی طرح اردو کا بھی ۔۔اردوسے شدید رقابت بلکہ دشمنی اور ضد تو شاید ہندی ہی کے لئے مخصوص ہوچکی ہے تامل، تلنگی وغیرہ کسی اور زبان کی بھی کد اردوسے سننے میں نہیں آئی۔

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:05

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں