تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-4 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-11

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-4


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ صحابی کے حوالہ سے آتا ہے۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صلعم قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حتّٰی یَتَطَاوَلُ النَّاسُ فِی الْبُنْیَانِ۔
کہ رسول اللہ(صلعم) نے فرمایاکہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک لوگ بلند و بالا عمارتیں نہ بنانے لگیں۔
اور یہی نہیں کہ قرب قیامت کے زمانے میں جسے عین ترقی و تمدن کا زمانہ سمجھا اور کہاجائے گا ، بڑی بڑی عالی شان عمارتوں کی کثرت ہوگی ، انہیں داخل فیشن سمجھا جانے لگے گا بلکہ یہ عالی شان عمارتیں طرح طرح سے آراستہ و منقش بھی ہوں گی ۔ انہیں صحابی ابوہریرہؓ کی سند سے اس کتاب میں امام بخاری ؒ نے یہ روایت بھی درج کی ہے۔
عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لا تقوم الساعۃ حتی بنی الناس بیوتا یشبہونہا بالمراجل۔
رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک لوگ ایسے مکان نہ بنان لگیں جنہیں وہ رنگین چادروں سے مشابہ کردیں گے ۔
اور روایتیں بھی اسی مضمون سے ملتی جلتی ہیں، گویا پیغمبر اعظم نے نگاہ کشفی سے صریحاً دیکھ لیا تھا کہ آخر زمانہ میں عالی شان ، رنگین و آراستہ عمارتوں کی بڑی کثرت ہوگی اور اسے عین دلیل ترقی و تمدنی ترقی کی، سمجھا جائے گا ۔ بات غلط کیسے ہوسکتی تھی۔ دوسرے دولت خوشحال ملکوں کا ذکر نہیں اپنے ہی مفلس ملک کو دیکھ لیجئے ، کس سرعت اور کس کثرت کے ساتھ ہر جگہ نئی نئی عالی شان، دیدہ زیب، سر بہ فلک کوٹھیاں، کچھریان، دفتر، ہوٹل ، ہر ہر شہر بلکہ قصبات تک میں گرانی و مفلسی کی وایلا کے باوجود ابھر رہے ہیں، نکھر رہے ہیں، تعمیر پروگرام کا گویا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اپنی مجازی معنی میں نہیں لفظی معنی میں !
حیدرآباد اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ کیوں اور کیوں کر رہ سکتا تھا؟ قدیم حیدرآباد سلطنت آصفیہ کی حسرت نسیب یادگار بے شک مٹ چکا ، لیکن جدید حیدرآباد بھی انڈین یونین کی اقبال مندی اور فیروز بختی کا پرچم لہراتا ہوا ، وجود میں آگیا ہے ۔ بیسیوں محل اور حویلیاں جہاں اجڑی ہوئی ، لٹی ہوئی، گری ہوئی، گری پڑی، ٹوٹی پھوٹی، دکھائی دیںرہیں پچاسوں نئی کوٹھیاں، نئے بنگلے، ہوٹل سنیما گھر کالج اور اسپتال، یہ دفتر اور وہ دفتر جدت و تازگی، سرسبزی و شادابی کا حق ادا کرتے ہوئے بھی نظروں کے سامنے آگئے ، تخریب و تعمیر کی یہ دو گونہ نیرنگیاں، نیرنگ ساز ، فطرت کی ہر آنی کرشموں میں سے ہیں۔

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:04

1 تبصرہ: