تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-2 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-05

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-2


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!
ان نوجوانوں کے لیے ، جنہوں نے حیدرآباد کے متعلق صرف سنا ہے ، دیکھا نہیں اور ان کے لیے بھی ، جنہوں نے حیدرآباد کو دیکھا تو ہے ، پھر بھی بار بار دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں ، مولانا کی یہ روئیداد تصور کے پردۂ سیمیں پر گویا حیدرآباد کی چلتی پھرتی ، حسین و رنگین فلم ہے۔ یہ مختصر کتاب 1977ء میں بہادر یار جنگ اکادمی (کراچی) سے شائع ہوئی تھی۔
چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ پہلی ہی قسط (1/اپریل/2014) کے بعد سے تعطل کا شکار ہو گیا جس کے لیے ہم اپنے معزز قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ اس ہفتہ سے یہ سلسلہ جاری کیا جا رہا ہے۔ دوسری قسط یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

دکن سے مراد سمت جنوب نہیں مملکت دکن یا ریاست حیدرآباد ہوتی تھی ، کان اس کے سننے کے، آنکھیں اس کے پڑھنے کی، دل اس کے سمجھنے کا عادی ۔ جی نہیں مانتا کہ اس پرانی، محبوب، دلپسند اصطلاح (1) کو یکلخت چھوڑ دیجئے ، اور کسی نئی سیاسی کسی نئی جغرافیائی اصطلاح کو زیب عنوان بنانے لگیے۔

زیارت حیدرآباد کی تمنا ایک آدھ سال سے نہیں برسوں سے چلی آرہی تھی۔ اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی مانع قوی، عزم میں حائل ہوتا گیا۔ آخری بار آمد ایک خانگی تقریب سے اکتوبر سنہ38ء میں ہوئی تھی۔ پورے 25 سال کے بعد اکتوبر سنہ 63ء میں خواب کو پورے ہونے کا موقع ملا ۔ (درمیان میں ایک بار حاضری ، فروری سنہ 58ء میں دن کے چند گھنٹوں کے لئے ہوئی تھی ، لیکن اسے حاضری کہنا ہی صحیح نہیں وہ تو مدراس سے لکھنو کی واپسی تھی براہ حیدرآباد اس لئے اس ذکر ہی کو سرے سے القط کیجئے ۔ اب پ ہلی بار آنا بہ صد شوق و اشتیاق ، ستمبر 1917ء میں ہوا تھا ، سر سنہ07 تالیف و ترجمہ کے رکن کی حیثیت سے اور گوایا(11) مہینے جم کر رہنا بھی ہوا تھا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی ابھی باقاعدہ وجود میں نہیں آئی تھی ۔ اس کی داغ بیل پڑ چکی تھی ۔ اور بہ طور تمہید یہ نیا ادارہ سر اکبر حیدری، سرراس مسعود اور بابائے اردو عبدالحق کی سرپرستی میں قائم ہوچکا تھا ۔ اس کے بعد بھی بارہا آنا ہوا ، اور ایک آدھ قیام بھی دنوں کا نہیں، ہفتوں کا رہا۔ 25؍ سال کا وقفہ کوئی معمولی ہوا ہے ۔ جو ان بوڑھے ہوگئے اور جو 46 سال کا ادھیڑ تھا وہ 70،71 سال کی عمر کو پہنچ چکا!

تقریب سفر اب کی بھی بالکل خالی ہی تھی اور اب سفر عموماً تج ہی کے ہوتے ہیں ۔ قومی اور پبلک جلسوں میں شرکت کا معمول سالہا سال سے ترک ہے ۔ صدق نوازوں اور دوسرے کرم فرماؤں کے خط پر خط اس ساری مدت میں برابر پہنچتے رہے کہ فلاں یوم منایاجارہا ہے ۔ فلاں کی سالگرہ ہے ۔ فلاں کی برسی ہے ، فلاں ادبی کنونشن ہے ، فلاں دینی کانفرنس ہے اور کبھی کبھی تو دعوت نامے تار پر پہنچے اور خواہش ہوائی جہاز سے سفر کی کئی ، فرمائش کرنے والے مخلصوں کو
بے خبر بودند از حال درون
کے مصداق اس کی کیا خبر کہ ان خطوط پر اصرار کرنے کا اثر ہ میشہ الٹا ہی پڑا، بلکہ طبیعت میں انقباض ہی پیدا ہوکر رہا ، یہ حضرات! ذرا بھی غور نہیں کرتے کہ اگر ایک بار بھی کسی پبلک جلسے کے لئے قدم باہر نکالا تو پھر قومی و ملی جلسوں کی کوئی حدو نہایت ہے؟ ہر جلسہ اپنی جگہ اہم اور ضروری وطن کی واپسی ہی دشوار ہوجائے گی اور صدق کا ہی نہیں ، کہنا چاہئے کہ تحریر کا سارا ہی دفتر بند کردینا ہوگا ! تصنیف و تالیف کا کام ہو وقتی مطالعہ چاہتا ہے ۔ اور پورا سکون خاطر ، سفر کی ناہمواریاں خلقت کا ہجوم، تقریری ہیجان یہ سب اس کے لئے جو گویا اب مقصد حیات بن چکا ہے ، زہر قاتل ! کسی بزرگ کی زیارت کرنی ہوئی یا کسی عزیز کی عیادت، یا کسی محدود اور چھوٹی سی کمیٹی میں شرکت بس یہی لے دے کر دو ایک صورتیں ہیں جو اس ترک سفر کے عہد میں استثناء کی گنجائش پیدا کرسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تقدیر الہی نے ایسی ہی ایک صورت اخیر ستمبر میں پیدا کردی ۔ اور ڈھائی ہفتہ کا پروگرام بنا۔ 27؍ستمبر کو صبح سویرے لکھنو سے حیدرآباد کے لئے رَبِّ اَدْخِلْنِی مُدخَلَ صِدق وَاخرجنی مُخرجَ صدقٍ وَ اجْعَلنی من لَّدنک سلطانا نصیرا۔پڑھتا ہوا ریل کے ڈبے میں داخل ہوگیا ۔ گھوڑے پر کہ وہی ایک زمانہ میں بہترین سواری تھی، سوار ہوتے وقت تک کی دعا ماثور کتابوں میں یہ آیت قرآنی پڑھی تھی۔
سبحان الَّذِی سخّرلنا ھذا وما کنا لہٗ مقرنین
پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے تابع کردیا اس (سواری) کو ورنہ ہم تو ایسے تھے نہیں ۔ کہ ہم قابو میں کرلیتے اسکو۔
اور گھوڑے کی تسخیر سے کہیں بڑا اعجوبہ تو ریل اور انجن کی تسخیر ہے اور گھوڑے کی سواری پر آیت کا محل اگر ایک بار پڑھنے کا تھا تو ریل پر پڑھنے کا تو باربار۔
افسوس ہے(اور حیرت بھی) کہ ملک کے دو ایسے اہم صوبائی دارالحکومتوں کے درمیان جیسے حیدرآباد اور لکھنو ہیں، کوئی سیدھا اور براہ راست ریلوے رابطہ نہیں، دہلی سے آگرہ جھانسی ہوتے ہوئے جو سیدھی ٹرین( جی ، ٹی ایکسپریس) مدراس کو جاتی ہے۔ اس میں دو سیدھی بوگیاں حیدرآباد کے لئے ہوتی ہیں ۔ جو قاضی پیٹ میں کاٹ کر حیدرآباد کی ٹرین سے جوڑ دی جاتی ہیں، لیکن اس سے لکھنو والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ انہیں وہ سیدھی حیدرآباد والی بوگیاں کہیں جھانسی پہنچ کر ملتی ہیں اور وہاں وہ گاڑی رات کو بہت ہی ناوقت ملتی ہے ۔ اس وقت گاڑی بدلنا ٹکٹ خواہ کسی درجہ کا ہو، بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس لئے لکھنو والے اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ بمبئی والی گاڑی پر لکھنؤ سے سیدھے اٹارسی چلے جائیں ۔ اور وہاں سے دن کے وقت حیدرآباد والی گاڑی پر بیٹھیں ۔ اپنے کو مناسب یہ معلوم ہوا کہ لکھنو سے صبح سویرے بمبئی والی گاڑی پر چل کر 8؍ بجے شب کے بعد بھوپال اترلیاجائے ۔ اور رات بھر وہاں رہ کر صبح سویرے حیدرآبادی بوگی میں بیٹھ کر روانہ ہواجائے ۔ بھوپال جنکشن کے ویٹنگ روم ، ریٹائرنگ روم ، خوب گنجائش اور جاذب نظر پھر اپنے دو ایک ذی اثر عزیز بھی وہاں موجود ، اور سب سے بڑھ کر مولانا عمران خان ندوی ، مہمانداری کے لئے موجود ہی نہیں ، میزبانی کے لئے ہر وقت مستعد و کمربستہ۔ رائے یہی طے پاگئی ، اور مکین کے مکان موسوم پر "غریب خانہ" کو اپنا کاشانہ شب یارین بسیرا تجویز کر لیا۔

27/ کو عشاء کا وقت ہوچکا تھا کہ بمبئی میل بھوپال اسٹیشن پر داخل ہوا۔ پلیٹ فارم پر خان صاحب مع اپنے خدم و حشم کے نظر پڑ گئے۔ہاتھوں ہاتھ سامان اتر واایک بڑی سی جیپ میں گاڑی پر بیٹھا، بات کی بات میں اپنے "غریب خانہ" پہنچادیا ۔ غریب خانہ کے نام سے تخیل کیا ذہن میں آتا ہے ؟ یہی نہ کہ تنگ سا ایک آدھ حجرہ ، پست سا بر آمدہ ، دروازے نیچے ، انگنائی چھوٹی ، زمین میں سیلن ، بشری ضرورتوں کی جگہیں تاریک اور غلیظ اور عجب نہیں کہ جائے وقوع ایسی گلی در گلی ہو ، کہ وہاں تک سواری کا پہنچنا دشوار۔ غرض یہ کہ وہاں کا قیام درویشوں اور زاہدوں کے لئے کیسی ہی ایک نعمت ہو، لیکن ہم تن پروروں کے لئے خود ایک مجاہدہ۔ تخیلات کچھ اسی قسم کے تھے، کہ جیپ کار کھٹ سے عین دروازے کے سامنے آر کی اور اب جو اتر کر دیکھا تو "غریب خانہ" کے درودیوار تک بجلی کی روشنی سے جھلا جھل، خاصہ صحن، خاصہ برآمدہ، خاصہ کمرہ، پر تکلف اجلا برف فرش ، بستر مکلف گدے دار، تخت وسیع جا نماز و سوزنی سے لیس، حمام اور فلش والے بیت الخلاء تک جگ مگ کرتے ہوئے۔ چپل چٹی، پانی، تولیا، صابن ضرورت کی چھوٹی بڑی ہر چیز سے آراستہ پورا مکان ، صفائی کے لحاظ سے آئینہ اور سلیقہ مندی کے لحاظ سے مکین کے حسن انتظام کا آئینہ دار!
گویا جہاں تک مہمان کی راحت رسانی کے جزئیات کا تعلق ہے ، یہ ندوی و مصری فاضل اگر سمت علوی کی طرف جائیے تو حکیم الامت تھانویؒ کے مدرسہ میں سبق پڑہے ہوئے اور اگر نظر سمت سفلی تک محدود رکھئے تو یوں کہئے کہ کسی اعلی ہوٹل والے کے یہاں تربیت پائے ہوئے۔ تخیل اور واقعہ میں یہ زمین و آسمان کی نسبت دیکھ، زبان سے اور کچھ تو نہ نکلا ،سوائے حیرت کے لہجہ میں دہرائے ہوئے اس فقرے کہ، کہ" یہی غریب خانہ" ہے۔ اور دل یہ کہہ کر رہ گیا کہ تواضع و انکسار کے سیاق میں کیسے کیسے ثقہ حضرات تک بھی شاعری سے نہیں چوکتے!

بھوپال کل تک ایک اسلامی ریاست تھی ۔ حیدرآباد کے بعد شمالی ہند کے مسلمانوں کا بہت بڑا سہارا ۔ خاص شہر کی اسلامیت، دینی علوم کی قدردانی، مسجدوں کی رونق اسلامی عدالت قضا، خیر خیرات بندہ نوازی ویتیم پروری سے قطع نظر ، باہر بھی چشمہ فیض کس زورشور سے جاری تھا۔ علی گڑھ ، ندوہ وغیرہ ملک کے طول و عرض میں بیسیوں دینی و دنیوی درسگاہوں پر ابر کرم کس طرح جھوم جھوم کر برس رہا تھا ۔ کتنے خ اندانوں کی پرورش ہورہی تھی ، کتنوں کی پنشین اور وظیفے جاری تھے اور آہ کہ آج اسلامیت کے وہ نقش و نگار کہاں سے ڈھونڈ کر لائے اور نکالے جائیں۔ دماغ میں ان خیالات کا گونجنا قدرتی تھا ، ابھی نماز فجر میں کچھ دیر تھی کہ میزبان چائے اور ناشتہ سمیت موجود ! اور دم بھر میں اسٹیشن!

راستے کے رنگ برنگ منظر بھوپال ہی سے شروع ہوجاتے ہیں۔ دل لبھانے والے بھی اور خوف و دہشت پیدا کرنے والے بھی، زمانے کے نشیب و فراز کی ہو بہو تصویر! اٹارسی آیا ، ناگپور گزرا ، اور سہ پہر کو واردھا سے گزرنا ہوا ۔ اور یہاں سے گاڑی کا رخ الٹا ہوگیا ۔ یعنی بجائے مغرب کے مشرق کی طرف چلی ۔ یا د پڑا کہ گاندھی جی کی راجدھانی مدتوں یہی شہر واردھا رہا ہے ۔ برسوں ہندوستان کی قسمت کے فیصلے یہیں سے صادر ہوتے رہے ہیں۔ اور سیاسیات آزادی کا رخ یہیں سے پھرا ہے ۔حق ہے کہ اسی شہر کو شمال سے جنوب کے سفر کرنے کا رخ متعین کرنے کا حق حاصل رہے! فجر کا وقت سکندر آباد میں آیا۔ اور مرحوم مملکت محروسہ سرکار نظام کے حدودرات ہی میں کسی وقت شروع ہوچکے تھے ۔ مرحوم و مغفور سلطنت ! ہندوستان میں مسلمانوں کے دور اقبال اور مسلمانوں کے جاہ و جلال کی آخری یادگار! مٹنا اگر مقدر ہوہی چکا تھا تو کاش تمام تر غیروں ہی کے ہاتھ سے مٹی ہوتی اور کوئی دخل اس میں اپنوں سے بعض کی نادانی ، بے راہ روی ، نا عاقبت اندیشی اور بعض کے جبن و بزدلی کو نہ ہوتا!

شہر ، سلطنت دونوں سے کیسی خوشگوار و کتنی قدیم یادیں وابستہ تھیں ، پہلی آمد 1917 ء میں اپنی عین جوانی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ کن کن ولولوں ، کن کن حوصلوں، کن کن آرزوؤں اور تمناؤں سے ! اور پھر کیسی کیسی صحبتیں یہاں نصیب ہوئی تھیں ۔ اب وہ سارے ارمان اور سارا سازوسامان ایک خواب و خیال! بابائے اردو عبدالحق ، مہاراجہ سرکش پرشاد، سر افسر الملک، سرامین جنگ، مسعود جنگ، عماد الملک، مسز نائیڈو، مفسر قرآن مولانا حمید الدین فراہی ، امین الحسن بسمل موہانی ، سید عبدالمجید دہلوی اور جلیل القدر جلیل فصاحت جنگ ، اختر یار جنگ، اکبر یار جنگ، صدر یار جنگ اور کتنے اور مخلص بزرگ و اعزہ و احباب سب پیوند خاک ہوچکے ! بلکہ ان میں سے اکثر کے تو نام و نشان تک مٹ چکے ہیں ۔ بقول شخصے ؎
اب نہ خود ہیں نہ ہیں مکاں باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
اب لے دے کے پرانے عزیزوں میں ایک نواب ناظر یار جنگ (پنشز جج ہائی کورٹ) باقی رہ گئے ہیں ۔ کہ انہیں کے خاندان کی کشش اس سفر پر لائی ، اور انہیں کی منزل عدل (حیدر گوڑہ) میں فروکش ہونا مقصود ہے ۔ اور ہاں بہت سے نئے مخلصین کی، جو اس درمیان میں آکر اس سر زمین میں دس بس گئے ہیں ۔ اور ان کے علاوہ شخصاً اجنبی صدق نوازوں کی ایک انبوہ در انبوہ تعداد جو محض اللہ کے واسطے، بلا کسی ذاتی غرض کے اپنے حسن ظن سے کام لئے ہوئے ، اس بے مایہ کے ساتھ رشتہ جوڑے ہوئے اور رابطہ اخلاص و موودت قائم کئے ہوئے ۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ کیسے ہی دھوکے میں پڑے ہوں اور کیسی ہی سادہ دلی سے پیتل کو سونا ، سمجھ لینے میں مبتلا ، بہ حال اجر تو اخلاص و خوش ظنی ہی کے تناسب سے ملتا ہے ۔ اور لیجئے جو گزر چکے(ومن قضی نحبہ) ان کے مزار اور تربتیں تو ابھی فنا نہیں ہوئی ہیں۔ ان خاک کے ڈھیروں پر حاضری تو زندوں کے ملنے جلنے سے بھی مقدم ہے ۔

حوالہ جات:
(1) بھارتی قبضہ کے بعد ریاست حیدرآباد دکن کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کے آٹھ اضلاع( تلنگانہ) کو مدراس کے تلنگی بولنے والے اضلاع سے ملا کر نہرو کے دور حکومت میں ایک نیا صوبہ بنام آندھرا پردیش بنایا گیا ۔ مولانا کا اشارہ اسی المناک واقعہ کی طرف ہے کہ حیدرآباد پر نہ صرف غاصبانہ قبضہ کیا گیا بلکہ اس کی تاریخی و ثقافتی وحدت کوبھی پارہ پارہ کردیا گیا۔ (مرتب)

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:02

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں