رسول اکرم ﷺ کا انداز تکلم - آپ کی فصاحت و بلاغت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-04

رسول اکرم ﷺ کا انداز تکلم - آپ کی فصاحت و بلاغت

prophet-muhammad
حضور اکرم ﷺ کو رب العالمین نے خاتم الانبیاء کے خطاب سے نوازا ہے ۔ آپ ﷺ کے اندر بے شمار اوصاف حمیدہ کو ودیعت فرمادیا۔ چونکہ آپ ﷺ انبیائے کرام کے سردار بناکر مبعوث فرمائے گئے اس لئے آپ ﷺ کے اندر تمام انبیائے کرام کے اوصاف و کمالات یکجا کردئیے گئے ۔
انداز گفتگو انسانی شخصیت کے اندر بڑا اہم گردانا جاتا ہے اس لئے رب العالمین نے آپ ﷺ کو ایسی فصاحت و بلاغت اور قوت گویائی عطا فرمائی تھی کہ روئے زمین پر کسی کو اس صفت سے نوازا نہیں گیا ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے ، جوامع الکلم کا مفہوم یہ بیان کیاجاتا ہے کہ ایسے الفاظ جو بہت کم ہوں لیکن ان کا مفہوم بہت ہی وسیع ہو اور وہ الفاظ اپنے اندر سمندر کا سا مفہوم سموئے ہوئے ہوں ۔ آ پ ﷺ کے تکلم و اسلوب خطابت کی ایک بہترین خصوصیت یہ تھی کہ الفاظ بہت کم ہوتے اور معانی بہت زیادہ۔ آپ ﷺ کے کلام میں تکبرانہ انداز قطعا نہ تھا اور تصنع و بناوٹ کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا ۔ قریش میں آپ ﷺ کی پیدائش اور بنی سعد میں پرورش سے آپ ﷺ کی فصاحت و بلاغت صھرا نشینی کی قوت، بیان و مقابلہ اور عمدہ لفظی اسلوب کے ساتھ شہری ماحول کے محاوروں اور خوبصورت لب و لہجہ کی چمک دمک تھی ۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ کو وہ تائید الہٰی بھی حاصل تھی جس کا ذریعہ وحی ربانی تھا۔ آپ ﷺ کے کلمات و ارشادات ، حکمت و موعظہ حسنہ کے انمول موتی، حقیقت و صداقت کا خزینہ، بے بہا معرفت کا گنجینہ ہیں۔
خطبات نبوی ﷺ تاثیر اور رقت انگیزی میں در حقیقت معجزۂ الٰہی تھے ۔ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا’’اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے ساتھ بہت محبت ہے ، وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اس کے بندے دوزخ کی آگ میں جائیں اور جلیں ۔‘‘ یہ ارشاد ایک ایسے ماحول میں ہوا کہ ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی رحمت کے احساس اور یقین سے لبریز ہوگیا ۔ آپ ﷺ کبھی بھی اپنے خطبہ میں اجنبی اور غیر فصیح الفاظ استعمال نہیں فرماتے تھے ۔ جب بھی وعظ فرماتے حکمت و دانش کے موتی بکھر جاتے ۔ نبی کریم ﷺ نے خو د اپنے متعلق فرمایا کہ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے اور میں عرب کا فصیح و بلیغ گفتگو کرنے والا شخص ہوں ‘‘ اگر گزشتہ انبیائے کرام کی بعثت پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کو مخصوص اور حالات کے مطابق معجزات و کمالات عطا کئے گئے تھے مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب مبعوث فرمایاگ یا تو اس وقت طب و حکمت کا چرچا عام تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اعزاز مسیحائی عطا فرمایا جس کے ذریعے سے انہوں نے لوگوں کو متاثر کیا ۔ اسی طرح اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف دیکھ جائے تو اس دور میں جادو کا چرچا عام تھا اور اس سے لوگ بڑے متاثر تھے چنانچہ اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوعصا اور ید بیضا کا معجزہ عطا فرمایا اورآپ نے جادوگروں کو حیران و پریشان کردیا۔ اسی طرح جب ہم رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو آپ ﷺ کی بعثت بھی عین اس موقع پر ہوئی کہ جب عربوں کے اندر فصاحت و بلاغت کا چرچا عام تھا اور اہل عرب زبان دانی کے درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے اس لئے اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو قرآن مجید جیسی کتاب عطا فرمائی اور آپ ﷺ کے قلب اطہر اور زبان مبارک کو جملہ محاسن و کمالات سے نوازا۔ گوایا فصاحت و بلاغت آپ ﷺ کے مزاج مبارک میں رچ بس گئی تھی ۔ اس زمانے میں ایک شخص جھاڑ پھونک جانتا تھا لیکن جب اس نے محمد عربی ﷺ کی مختصر تقریر سنی تو وہ کہنے لگا میں نے بڑے بڑے شاعروں اور کاہنوں کا کلام سنا ہے لیکن اس کلام کے مقابلے میں تو وہ کچھ نہیں ۔
ایک بار حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں سارے عرب میں پھرا ہوں اور میں نے بڑے بڑے خطیبوں کا کلام سنا ہے اور شعراء کے اشعار سنے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ سے بڑا فصیح و بلیغ میں نے کہیں نہیں دی کھا ۔ ایک بار مسجد نبوی میں تمام مسلمین جمع ہوئے تو آپ ﷺ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام مسلم ایک ہی نسل سے ہیں۔ اے لوگو! اس رب سے ڈرو جس نے ایک ذات سے تم سب کو پیدا کیا، اس کے بعد فرمایا کہ درہم، غلہ، کھجور کا ایک ٹکڑا جو بھی ہو راہ رب میں دے دو۔ آپ ﷺ کی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ ہر صحابی کے پاس جوکچھ تھا انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے رکھ دیا حتی کہ بعض صحابہؓ نے تو اپنے کپڑے بھی آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردئیے ۔ قبیلہ اوس و خزرج جو کہ دشمنی و عداوت میں بہت آگے نکل گئے تھے ، آپ ﷺ کی فصاحت و بلاغت نے محبت و اخوات کے دریا بہادئیے اور یوں وہ قومیں آپس میں شیرو شکر بن گئیں۔
یہ اللہ کاعطیہ تھا کہ زبان نبوت کو پاکیزگی و شائستگی کے ساتھ فصاحت و بلاغت کے تمام اعلیٰ اوصاف سے نوازا ۔ صرف ماحول کی کوئی بات نہیں ہوتی بلکہ مشیت ایزدی ہی سب کچھ ہوتی ہے ۔ جس طرح ایک بہترین ماحول میں ایک ذکی و فطین پرورش پاتا ہے اسی طرح اس ماحول میں ایک کند ذہن اور غبی بھی پرورش پاتا ہے ۔ اگر بیان و خطبہ میں جس قدر اعلیٰ فصاحت و بلاغت کا اظہار ہوگا اسی قدر اس بیان کی تاثیر بھی زیادہ ہوگی ۔ اسی کے متعلق حضورﷺ کی حدیث ہے کہ ان من البیان لسحرا ، یعنی بعض بیانات و خطبوں میں جادو کی سی تاثیر ہوتی ہے حضورﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ اور ایمان باللہ ایمان کی افضل ترین صورتیں ہیں ۔ یہ سن کر ایک صحابی نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کردیاجاوؑں تو کیا میرے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، اس شرط پر کہ توراہ خدا میں ا س حال میں قتل کردیاجائے کہ تو صبر کرنے والا ، ثواب کی نیت رکھنے والا اور آگے بڑھنے والا ہو، ناکہ پیچھے ہٹنے والا، پھر صحابیؓ نے دوبارہ سوال کیاتو آپ ﷺ نے یہی جواب دیامگر آخر میں تھوڑا سا اضافہ فرمایا کہ گناہ معاف ہوجائیں گے سوائے قرض کے کہ وہ معاف نہ ہوگا کیونکہ جبریل نے یہ بات ابھی ابھی مجھے بتائی ہے ۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن آپ نے تقریر فرمائی اور اس تقریر و بیان میں اس قدر تاثیر تھی کہ ایسا بیان آج تک نہیں سنا۔ دوران تقریر آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہ سب کچھ آپ جانتے تو آپ ہنستے کم اور روتے زیاد، جب آپ ﷺ نے یہ فقرہ ادا فرمایا تو پھر حاضرین جلسہ دھاڑیں مار مارکر رونے لگے اور انہوں نے اپنے چہروں پر کپڑے ڈال لئے ۔ حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے تقریر فرمائی جس میں قبر اور عالم برزخ کے حالات وواقعات بیان فرمائے۔ آپ ﷺ کے بیان میں اس قدر تاثیر تھی کہ حاضرین محفل پر رقت طاری ہوگئی اور لوگ رونے لگے۔ آپ ﷺ کا کلام و خطبہ اس قدر واضح اور آسان ہوتا تھا کہ ہر شخص کے ذہن میں بات بآسانی اتر جاتی ۔ آپ ﷺ کا کلام و خطبہ بڑا فصیح و بلیغ، مدلل اور جامع وبا معنی ہوا کرتا تھا، یہ آپ ﷺ کے انداز تکلم اور فصاحت و بلاغت کا ہی نتیجہ تھا کہ دین اسلام ترقی کے زینے چڑھتا گیا اور لوگ آپ ﷺ کے اخلاق کریمانہ اور قول لین کو دیکھ کر دین اسلام کو جو ق در جوق قبول کرنے لگے اور اگر بڑے سے بڑا کافرومشرک بھی آپ ﷺ کے سامنے آتا تو اس پر آپ ﷺ کا کلام حاوی ہوجاتا۔ دراصل رسول اکرم ﷺ کی داستان کسی خیالی کردار کا افسانہ نہیں بلکہ خدا نے خود زمین پر اس عظیم شخصیت کو اخلاق کریمانہ اور فصاحت و بلاغت جیسی قوت گویائی عطا فرماکر مبعوث فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی فصیح و بلیغ کتاب آپ ﷺ پر نازل فرمائی اسی طرح آپ ﷺ کو قوت گویائی عطا فرمائی ۔ قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے حضور ﷺ جو بات کرتے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وہ تو میری وحی ہوتی ہے، تو اس بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کلام جو آپ ﷺ کی طرف وحی کیاجارہا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے تو کیا خداوندتعالیٰ کے کلام میں فصاحت و بلاغت نہ ہوگی تو پھر دنیا میں کس کے کلام میں فصاحت و بلاغت ہوسکتی ہے ۔
حضورﷺ سے پہلے تمام انبیائے کرام خوش آواز و خوبرو تھے مگر آنحضورﷺ ان سے بھی زیادہ خوش آواز اور وخوبرو تھے ۔ آپ ﷺ بلند آواز بھی اتنے تھے کہ جہاں تک آپ ﷺ کی آواز پہنچتی کسی اور کی نہ پہنچتی تھی ۔ ایک ایک لفظ کو الگ الگ ادا فرماتے ۔ بعض اوقات الفاظ کا تکرار فرماتے تاکہ سننے والا اچھی طرح سمجھ لے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن حضور ﷺ منبر پر تشریف لائے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ میری بات سننے کے لئے بیٹھ جاوؑ ، حضور ﷺ کی اس آواز کو مدینہ شہر میں دور فاصلے پر حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے سن لیا اور تعمیل میں وہیں بیٹھ گئے۔ حضرت عبدالرحمن بن معاذؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے منیٰ میں خطبہ پڑھا جس سے ہمارے کان کھل گئے یہاں تک کہ ہم اپنی اپنی جگہ آپ ﷺ کا کلام سنتے تھے ۔ یہ معجزہ کیا کم ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے ایک لاکھ سے زائد افراد کو خطبہ دیا۔ ہر شخص نے ایسے ہی سنا جیسے وہ حضور ﷺ کے قریب ترین بیٹھ کر سن سکتا تھا۔ یہ آپ ﷺ کی بلند اور گرجدار آواز کا ہی اعجاز تھا ۔ ام معبد جو کہ ایک بدو خاتون تھیں، حضور ﷺ نے سفر ہجرت میں ان کے خیمے میں تھوڑی دیر آرام فرمایا تھا، انہوں نے جہاں حضورﷺ کی اور تعریفیں بیان کیں وہاں یہ بھی فرمایا کہ آپ ﷺ کی گفتگو ایسی تھی جیسے ہار میں موتی پروئے ہوئے ہوں۔ اب ہم مسلمانوں کی فلاح و کامیابی اسی میں مضمر ہے کہ آپ ﷺ کا انداز تکلم اختیار کرتے ہوئے دین اسلام کو غیر مسلموں تک پہنچائیں۔

ماخوذ از:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ)۔ دینی سپلیمنٹ "روشنی" (21/نومبر 2008)

The Prophet's Style of conversation. Article: Qari Shabbir Ahmed Malik

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں