توکل کی عملی زندگی میں ضرورت و اہمیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-29

توکل کی عملی زندگی میں ضرورت و اہمیت

tawakkul
لفظ توکل دراصل "وکالت" سے مشتق ہے ، یعنی کسی ایسے وکیل کا انتخاب کیا جائے جس پر بھروسہ کیا جا سکے۔ اسلام کی اصطلاح میں توکل کا مفہوم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا وکیل یا اپنا کارساز بنایا جائے ، اس پر مکمل بھروسہ کیا جائے اور ہر معاملے میں نتیجے کی امید اسی سے رکھی جائے۔
ممتاز دانشور پروفیسر عقیل مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس توکل کا مطلب اسباب و علل سے ماورا کوئی کام کرنا، مادی وسائل کی نفی کرنا اور تدبیر سے گریز کرنا ہرگز نہیں۔ اسی طرح اس توکل کا مطلب اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھنا،محض اسباب پر تکیہ کرلینا بھی نہیں۔ پہلا طریقہ بے عملی ،سستی ، کاہلی کے طرف لے جاتا ہے تو دوسرا تکبر، انکار خدا ، ٹنشن اور مادہ پرستی کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کا تصورِ توکل ان دونوں کے درمیان ہے۔ یعنی پہلے اونٹ کو باندھو اور پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔

سوشل میڈیا کے عروج کے اس دور میں یہ عوامی رجحان بن گیا ہے کہ اچھی باتوں کو آگے بڑھایا جائے۔ وہاٹس اپ ، فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹاگرام وغیرہ جیسی جدید ترین سہولیات کے ذریعے انگلی کی ایک معمولی سی جنبش کے سہارے سینکڑوں ہزاروں افراد تک بات پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ توکل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شیخ سعدی سے منسوب ایک قول یوں گردش میں ہے کہ :
"توکل سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو کہ وہ جب شام کو گھر جاتے ہیں تو ان کی چونچ میں کل کے لیے کوئی دانا نہیں ہوتا۔"
بظاہر تو اچھا اور قناعت پسندی کی ترغیب دلانے والا قول محسوس ہوتا ہے۔ مگر ہر وہ بات جو اچھی لگے ضروری نہیں کہ موافق شریعت بھی ہو اس لیے اہل علم نے ایسی باتوں کو پرکھنے کے لیے قرآن و سنت کے علم سے استفادہ کرنے کی کسوٹی قائم کر رکھی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ قرآن کریم میں چرند پرند کیڑے مکوڑوں کی مثال نہ دی گئی ہو۔
البقرہ(2) کی آیت 259 میں گدھے کی مثال ، الانعام(6) کی آیت 144 میں اونٹ اور گائے ، النمل(27) کی آیت 18 میں چیونٹی ، العنکبوت (29) کی آیت 41 میں مکڑی اور البقرہ(2) کی آیت 26 میں مچھر کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو ان سے حکمت و دانائی کا سبق لینے کی ترغیب نہیں دلائی گئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کردہ عقل سے کام لینے پر بار بار توجہ دلائی ہے۔

بے شک قرآن کریم میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک پرندہ (کوا) کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو میت دفنانے کا طریقہ بتلایا۔ مگر یہ بات تو شریعت اسلامی خود ہمیں بتاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم کے سورہ المائدہ (5) کی آیت ۔31 کا ترجمہ ہے (ترجمہ: ڈاکٹر طاہر القادری)
پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے، (یہ دیکھ کر) اس نے کہا: ہائے افسوس! کیا میں اس کوّے کی مانند بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، سو وہ پشیمان ہونے والوں میں سے ہوگیا۔

متذکرہ قول میں پرندوں کے افعال کے ذریعے "توکل" کے فلسفے کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے جو بادی النظر میں اچھا تو لگتا ہے مگر درحقیقت اس میں ظاہری قباحت یہی نظر آتی ہے کہ انسان کو حکمت الٰہی کی جانب متوجہ کرنے کے بجائے پرندوں کے افعال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جبکہ انسان اور حیوان کے درمیان بین فرق "عقل" کا ہوتا ہے اور دوسرا بڑا فرق انسان کو تمام مخلوقات میں "اشرف المخلوقات" کے درجہ کا عطا کیا جانا ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ اشرف کے درجے پر فائز انسان کسی بے عقل حیوان یا پرندوں سے مذہب/تہذیب/سماجیات کے فلسفہ "توکل" کا وہ مفہوم سیکھے جسے اللہ کی نازل کردہ کتاب کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت کھول کر واضح کیا ہو۔

اگر پرندوں والا یہ فلسفہ لاگو کر دیا جائے تو ۔۔۔۔ پھر ہر مسلمان کو صرف وہ تجارت کرنی چاہیے جہاں سے روز آمدنی ہوتی ہو اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس ہی دن کا رزق فراہم ہو سکے نہ کہ دوسرے تیسرے دن کا۔ دوسری جانب اگر اس قول کے مطابق توکل صرف رزق کے معاملے کے ساتھ قید ہے تو یہ بھی کوئی درست بات نہیں کہلائی جا سکتی۔ کیونکہ قرآن و سنت میں تو توکل کے بے اندازہ معانی و مطالب بیان کیے گئے ہیں۔
سورہ آل عمران کی آیت 17 کے مفہوم کے مطابق ۔۔۔۔ کسی اہم معاملہ میں مسلمانوں کی جماعت سے مشورہ کرنے ، اس کے بعد ارادہ پختہ ہونے پر اللہ پر بھروسہ کرنے کو "توکل" باور کرایا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جماعت سے مشورہ کرنا اور بے عقل حیوانوں کے افعال سے سبق سیکھنا مترادف اعمال نہیں ہو سکتے۔

اسی طرح صحیحین کی حدیث ہے ۔۔۔۔۔
اللہ نے وعدہ کیاہے کہ میری امت کے ستر ہزار اشخاص حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ اشخاص وہ ہوں گے جو تعویذ گنڈا نہیں کرتے، جو بدشگونی کے قائل نہیں، جو داغا نہیں کرتے، بلکہ اپنے پروردگار پر توکل اور اعتماد رکھتے ہیں۔
یعنی توکل کرنے والا تعویذ ، گنڈا اور بدشگونی نہیں کرتا۔

قرآنی اصطلاح "توکل" کے معنی کوئی بھی ذی ہوش مسلمان یہ نہیں لیتا کہ : اللہ کو جو کچھ کرنا ہے وہ خود کر دے گا بہ الفاظ دیگر مقدر میں جو کچھ ہے وہ ہو کر رہے گا۔ اسباب و تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ حکمت ، اسباب و تدابیر اختیار نہ کرنا ، توکل کی اصطلاح کے منافی امر ہے ۔۔۔ ہم کئی معاملات میں اسباب پر عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔
مثلاً ۔۔۔
* اپنے ذاتی گھر کی تعمیر کے لیے پیسہ پیسہ جوڑتے ہیں۔
* بچوں کی تعلیم کے لیے رقم علیحدہ محفوظ کرتے جاتے ہیں۔
* رمضان کی آمد سے قبل غذائی ذخیرہ کرتے ہیں کہ کیا پتا ہر چیز کے دام بڑھ جائیں۔
* بعض اوقات اجناس (چاول دالیں وغیرہ) کا سال بھر کا ذخیرہ کر لیتے ہیں کہ سستا پڑتا ہے۔
* گاڑی میں اضافی ٹائر رکھ کر چلتے ہیں۔
تو کیا یہ سب تقدیر اور توکل کے منافی ہیں؟ یقیناً نہیں ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ صالح منجد لکھتے ہیں :
"اسباب پر عمل کرنا تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں بلکہ یہ تو اسے مکمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کافروں کو دعوت دین دیں اگرچہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے اور ہم سے اس نے یہ چاہا کہ ہم کفار کے ساتھ لڑائی کریں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم ان کے سامنے شکست سے دو چار ہوں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم ایک امت بن کر رہیں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم جدا جدا ہو جائیں گے اور اختلاف کریں گے اور اس نے ہم سے یہ چاہا کہ ہم کفار پر سخت اور آپس میں نرم دل ہوں اگرچہ وہ یہ جانتا ہے کہ ہم آپس میں بہت سخت ہوں گے اور اسی طرح اور بھی۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی کافروں کے مقابلہ میں مومنوں کی مدد پر قادر ہے ، اس کے یہ معنی نہیں کہ مسلمان گھروں میں بیٹھے رہیں اور اسباب پر عمل نہ کریں تب بھی اللہ تعالی مومنوں کی مدد کرے گا۔ یہ سوچ درست اسلیے نہیں کہ اسباب کے بغیر مدد ملنا محال ہے اور یہ اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق حکمت کے ساتھ ہے ۔ "

اور یہ "حکمت" ہی وہ عظیم شئے ہے جس سے انسان کو نوازا گیا ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمت کے ہوتے ہوئے انسان پرندوں کے افعال سے سبق لے؟ دراصل جس حدیث سے پرندوں والے توکل کا مفہوم اخذ کیا گیا ہے ، اس میں اسباب کے ساتھ توکل علی اللہ کی زیادہ تاکید بیان کی گئی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ : اگر تم لوگ اللہ پر ایسا توکل اور اعتماد کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے ، تو تم کو وہ اس طرح روزی دے جس طرح کہ پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح کو بھوکے اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس آتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

اس صحیح حدیث میں "آج اور کل" کا فلسفہ نہیں ہے بلکہ توکل علی اللہ کے ساتھ جدوجہد کرنے (دور دراز کے علاقوں میں روزی تلاش کرنے) کا ذکر ہے۔ جیسا کہ مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ "معارف الحدیث" میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
"مطلب یہ ہے کہ اگر بنی آدم روزی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ پر ایسا اعتماد اور بھروسہ کریں، جیسا کہ انہیں کرنا چاہئے تو اللہ کا معاملہ ان کے ساتھ یہ ہوگا کہ جس طرح وہ چڑیوں کو سہولت سے رزق دیتا ہے کہ انہیں آدمیوں کی سی محنت و مشقت کے بغیر معمولی نقل و حرکت سے روزی مل جاتی ہے، صبح کو وہ خالی پیٹ نکلتی ہیں اور شام کو پیٹ بھری اپنے آشیانوں میں واپس آتی ہیں، اسی طرح پھر اللہ تعالیٰ آدمیوں کو بھی سہولت سے رزق پہنچائے گا اور انہیں زیادہ کد و کاوش اٹھانی نہیں پڑے گی ، جیسا کہ اب اٹھانی پڑتی ہے۔"

توکل اختیار کرنے کے لئے پروفیسر عقیل نے جو بہترین اصول بیان کیے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ پہلے یہ جائزہ لیا جائے کہ کام جائز ہے یا ناجائز، ناجائز ہونے کی صورت میں کام کا ارادہ ترک کردیں۔اسی طرح یہ بھی دیکھیں کہ کام ممکن ہے کہ ناممکن۔
2۔ جائز کام کے لئے دیکھیں کہ کام کا کتنا حصہ آپ کے اختیا ر میں ہے۔جتنا حصہ اختیار میں ہے اس کے متعلق تدبیر، مشاروت، وسائل اور اسباب کو استعمال کریں۔
3۔ جتنا حصہ اختیا ر میں نہیں ہے پر بہت زیادہ تشویش میں مبتلا نہ ہوں۔
4۔ اختیاری اور غیر اختیاری ہر معاملے میں اسباب، تدبیر اور وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو ہر حکم یعنی فیصلہ کرنے والا اور قادر سمجھیں۔
5۔ کامیابی کی صورت میں تمام کریڈٹ اللہ کو سونپ دیں کیونکہ تدبیر، وسائل اور اسباب سب اسی کے ہیں۔
6۔ ناکامی کی صور ت میں صبر، استقامت سے کام لیں، ناکامی کے اسباب کا جائزہ لیں اور اگر ممکن ہو تو از سر نو ہمت کریں۔
***
  • شائع شدہ: ماہنامہ 'اعتدال' ، اگست 2014
***
سید مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
taemeernews[@]gmail.com

syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

The importance and need of tawakkul in practical life. Article: Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں