اردو کی ہم رشتہ زبانیں اور ادب اطفال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-12

اردو کی ہم رشتہ زبانیں اور ادب اطفال

children-literature
نارسائی، معلومات کی کمی، اطلاعاتی وسائل کے فقدان کی وجہ سے جو چند سوالات ذہنوں میں جنم لیتے ہیں، ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا بچوں کے ادب پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے؟
ادب اطفال سے جڑے ہوئے اکثر قلم کار یہ سوال اٹھاتے ہیں اور گزشتہ ایک دہائی سے اس کی گونج کچھ زیادہ ہی سنائی دے رہی ہے۔
بنیادی طور پر یہ سوال ہی مہمل ہے۔ ادب اطفال سے متعلق ڈاکٹر مشیر فاطمہ، خوشحال زیدی، مناظر عاشق ہرگانوی، بانو سرتاج اور ضیاء الرحمن غوثی کی تحقیقات اور رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مضامین اس سوال کی لایعنیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بچوں کے ادب کی روایت پر نگاہ ڈالنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نظم و نثر کی مختلف اصناف میں بچوں کے لیے خاطر خواہ مواد موجود ہے۔ امیر خسرو کی خالق باری، غالب کے قادر نامہ سے لے کر آج تک قلم کاروں کی ایک کہکشاں ہے۔ اردو کے بڑے شاعروں میر تقی میر، نظیر اکبر آبادی، انشا، غالب، چکبست، خواجہ الطاف حسین حالی، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اکبر الہ آبادی، محمد حسین آزاد اور اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے شاعری کی، نظمیں لکھیں۔
پریم چند، انشا، آزاد، حامداللہ افسر، صالحہ عابد حسین، امتیاز علی تاج ، عبدالغفار مدھولی، ایم یوسف انصاری، محمد حسین حسان، تسکین زیدی اور رام لعل نے کہا نیاں لکھیں۔ آغاحشر کاشمیری، عظیم بیگ چغتائی، محمد مجیب، مرزا ادیب نے ڈرامے لکھے۔ کرشن چندر نے ستاروں کی سیر اور الٹا درخت، عصمت چغتائی نے تین اناڑی، سراج انور نے کالی دنیا، نیلی دنیا، ظفر پیامی نے ستاروں کے قیدی جیسے ناول لکھے۔
قدسیہ زیدی، قرۃالعین حیدر اور اطہر پرویز نے بچوں کے لیے ترجمے کیے۔ عادل اسیر دہلوی نے اپنی پوری زندگی ادب اطفال کے لئے وقف کر دی۔ بچوں کے لیے پھول، کھلونا، ٹافی، غنچہ، ہلال، نور،جنت کا پھول، چاند ستارے اور سینکڑوں رسالے شائع ہوئے۔ اخبارات کے گوشۂ اطفال شائع ہوتے رہے۔
ایسی صورت میں یہ سوال کہ بچوں کے ادب پر کم لکھا جا رہا ہے، خاصا مضحکہ خیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ جتنا کچھ لکھا گیا ہے وہ بچوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ محمد حسین آزاد، مولوی اسماعیل میرٹھی، شفیع الدین نیر نے جو سرمایہ چھوڑا ہے وہی بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے کافی ہے۔ ان بزرگوں نے سدا بہار، دائمی افکار کی حامل تحریریں دی ہیں۔

ویسے بھی بچہ کتابوں سے زیادہ کلچرل بیانیہ سے سیکھتا ہے۔ پاپولر کلچر بیانیہ ہی بچوں کی آگہی کا پہلا زینہ ہے۔ ہر قوم اور کلچر میں کچھ narratives ہیں اور یہی بیانیے بچوں کے تحت الشعور کاحصہ بنتے ہیں۔ انہیں نیکی، بدی، خیر و شر کی تمیز سکھاتے ہیں۔ بچپن میں نانی، دادی کی لوریاں، کہانیاں، بچوں کو بہت کچھ سکھا جاتی ہیں۔
اب جب کہ صارفی معاشرت نے ہماری ترجیحات بدل دی ہیں، ٹکنالوجی نے بچوں کے رویے تبدیل کر دیے ہیں۔ اب بچوں کی narrative fantasies بدل گئی ہیں۔ اب ان کے تحت الشعور میں جن اور پریوں کی جگہ ڈزنی، باربی پاور رہنجرز نے لے لی ہے۔ بچوں نے اپنی ذہنی ترجیحات خود مرتب کر لی ہیں۔ تکنیکی وائرس اتنا وائرل ہو چکا ہے کہ اب مسئلہ بچوں کی معصومیت کو بچانے کا آ چکا ہے۔ اب صارفیت نے جو حالات پیدا کر دیے ہیں، ان حالات کی مزاحمت بچوں کے ادیب کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ اب چونکہ ہم سائنٹفک ایج میں سانس لے رہے ہیں اس لیے اب ادب اطفال پر ایک سائنٹفک نقطۂ نظر سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سائنسی آلات سے زیادہ سائنسی انداز فکر کی ضرورت ہے تبھی ہمارے لیے کنزیومر کلچر سے پیداشدہ چیلنجز کو کاؤنٹر کرنا آسان ہوگا۔

آج تفریحی ذرائع نے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کر دیا ہے۔ پروین شاکر نے کہا تھا کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے، تو یہ بات بالکل صحیح ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اب بچوں کو تفریحی کلچر سے تخلیقی کلچر کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ بچوں کے ادب پر اپنا زاویہ بدلنا ہوگا کیوں کہ اب بچوں کے ادب میں پالیٹیکل ایجنڈا بھی شامل ہو گیا ہے اور Cultural invatism بھی بڑا مسئلہ ہے۔
معاصر کلچرل Tabula سے بچوں کو بچانا ضروری ہے ورنہ ادب اطفال کی کوئی معنویت اور افادیت نہیں رہ جائے گی۔ کمپیوٹر کلچر کی جگہ کتاب کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔

ادب اطفال کا پورا ارتکاز اخلاقیات پر ہونا چاہیے۔ پرانے زمانے میں گلستاں بوستاں اس لیے نصاب میں شامل تھی کہ اس سے بچوں کا اخلاقی شعور بیدار کیا جائے۔ الف لیلہ آج بھی بچوں کے لیے کلاسکس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے کردار سند باد، الہ دین، علی بابا سے آج بھی پوری دنیا واقف ہے۔ ایسوپ کی کہانیاں، ہتوپدیش، پنج تنتر بنیادی طور پر بچوں کے لیے ہی لکھی گئی ہیں۔
راجہ رانی سے بچوں کا رشتہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے، جانوروں سے محبت کم نہیں ہوئی ہے۔ گلہری اور گائے سے دلچسپی ختم نہیں ہوئی ہے۔ کوّا اور کتے سے بچے اب بھی مانوس ہیں۔ پہاڑ، پانی، درخت اور ریت۔۔۔ یہ سب بچوں کے لیے Inspirational forces ہیں۔ شیر و بکری آج بھی بچوں کی محبت کا مرکز ہیں۔ بچوں کی بنیادی جبلت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کیوں کہ سائنس، ٹکنالوجی ہمارے معاشی، سیاسی اقدار تو بدل سکتے ہیں مگر انسانی جذبات و احساسات کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اسی لیے بچہ آج بھی معصوم ہے اور اس کی اسی معصومیت کو مسخ ہونے سے بچانا ادب اطفال کے قلم کاروں کی ذمہ داری ہے۔
اردو میں بچوں کا ادب مولوی اسماعیل میرٹھی سے محبوب راہی تک معصومیت کے اسی محور پر مرکوز ہے اسی لیے شروع سے لے کر آج تک اردو میں بچوں کا ادب زیادہ تر ترمیم و تنسیخ کا محتاج نہیں رہا۔ وہی موضوعات لیے گئے جو بچوں کے بنیادی احساسات اور جذبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ آج بھی بچہ یہی گنگناتا ہے
چندا ماما دور کے
پوئے پکائیں بور کے
یا
چل میرے مٹکے ٹمبکٹو
جہاں کی بڑھیا وہیں کی تو

ہماری ہم رشتہ زبانوں میں بھی زیادہ تر ارتکاز نصائح اور اخلاقیات سیریز پر ہی ہے۔ عربی کی عزیزہ منا اور مارون یوسف نے بھی سوانح سیریز کو ہی بچوں کے لیے زیادہ بہتر سمجھا اور وہاں بچوں کے ادب کے تعلق سے ایک سنسرشپ بھی ہے کیوں کہ بچوں کے ادب میں کچھ ملکوں نے اپنے نسلی، قومی اور مذہی تعصب کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ فارسی میں تاریخ ادبیات کودکاں بھی ایک الگ زمرہ میں ہے۔
اردو میں بچوں کا ادب سارے ذہنی، مذہبی تعصبات سے پاک ہے۔ یہ اس زبان کے ادب کی بہت بڑی خوبی ہے جب کہ ہندی میں جو امر کتھا سیریز 1967 میں شروع کی گئی، اس میں فرقہ وارانہ قومی تعصب بھی ہے اور اس کے تصویری خاکے [illustrations] بھی ایسے ہیں جو بچوں کی ذہنی سطح سے میل نہیں کھاتے۔

یہ سچ ہے کہ اردو اپنی ہم رشتہ یا معاصر زبانوں کے بچوں کے ادب کے مقابلے میں قدرے کم تر ہے۔ ملیالم، تلگو، بنگلہ، مراٹھی، کنڑ وغیرہ میں بچوں کا ادب بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔ ملیالم میں باضابطہ کیرالہ انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن لٹریچر قائم ہے جس نے بچوں کے لیے کتابوں کے علاوہ ایک ایسی انسائیکلوپیڈیا تیار کی ہے جس میں آرٹس، کلچر، جانوروں کی دنیا، انسانی تاریخ، زبان و ادب جیسے موضوعات ہیں۔ سوانحی سیریز ہے۔ ٹکنالوجی اور اقوام عالم جیسے موضوعات پر معیاری کتابیں ہیں۔ Thaliru نام سے ایک میگزین نکلتا ہے۔ اسی طرح بنگلہ میں بچوں کا ادب برٹش مشنری کی وجہ سے بہت مستحکم تھا۔ وہاں ودیا ساگر، سرت چندر، ٹیگور جیسے بڑے تخلیق کاروں نے بچوں کے ادب پر خاص توجہ دی۔ وہاں کے بچوں کا پہلا ماہنامہ 1818ء میں 'دگ درشن' کے نام سے شائع ہوا۔ 1822ء میں پیشوابلی، گیانودے، دریا درپن، ستیہ پردیپ، ابرالا، بندھو جیسے ماہنامے بچوں کے لیے شائع ہوئے۔
تلگو کاحال بھی بہتر ہے، کنڑ نے پہلی کتاب بچوں کے لیے لکھی جس کانام 'ہندی کتھا' تھا اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ تلگو کا ہی رسالہ چندا ماما بچوں کا واحد ایسا رسالہ ہے جو ہندی، مراٹھی، ملیالم، گجراتی، اڑیہ، سندھی، بنگالی، پنجابی، آسامی، سنسکرت، سہنالی، زبانوں میں شائع ہوا۔
انگریزی اور ہندی میں بھی صورت حال بہتر ہے۔ منورما پبلی کیشنز کے تحت Twinkle magic pot نکلتے ہیں۔ چمپک ایک ایسا رسالہ ہے جس میں سائنس، تاریخ، اسپورٹس، کلچر، ماحولیات اور معمہ پر مضامین شائع ہوتے ہیں۔
ہندی میں ننھے سمراٹ، اندر دھنش، چمپک، چندا ماما، بال بھاسکر، نندن جیسے رسالے ہیں۔

ان زبانوں کی حالت بہتر ضرور ہے مگر اردو بھی اپنے وسائل کی کمی کے باوجود خراب پوزیشن میں کبھی نہیں رہی ہے۔ ہاں بچوں کے لیے کوالٹی لٹریچر کی کمی ضرور ہے۔ مگر ادب موجود ہے۔ اب 'پرتھم بکس' نے بہت ساری شکایتیں دور کر دی ہیں۔ یہاں بھی اردو اکادمی کا امنگ، قومی کونسل کا بچوں کی دنیا، مکتبہ جامعہ کا پیام تعلیم، فارو ق سید کا گل بوٹے، نوشاد مومن کا نیا کھلونا، مالیگاؤں کا پہلا بچوں کا اخبار خیال انصاری کی ادارت میں شائع ہوتا ہے اور بھی رسالے ہوں گے۔
پاکستان سے ہمدرد کا نونہال ایسا رسالہ ہے جس کا مقابلہ ہماری معاصر زبانیں نہیں کر سکتیں۔ علی حسن ساجد وہاں سے جنگل منگل نام کا رسالہ نکالتے ہیں جس کا فیض احمد فیض نمبر شائع ہوا ہے جس میں بچوں سے متعلق فیض احمد فیض کی ساری تحریریں ہیں۔
اسی طرح مشہور ناول نگار مشرف علی فاروقی نے بچوں کا اشاعتی ادارہ کتاب کے نام سے قائم کیا تھا جس کے تحت آٹھ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ صوفی تبسم، غلام عباس اور مہدی کی کتابیں، مالیگاؤں کے رحمانی پبلی کیشنز کے تحت بچوں کی بہت سی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ مکتبہ پیام تعلیم کی ادب اطفال سیریز اور حکیم محمد سعید کی کتابوں کا ذکر بطور خاص کیا جا سکتا ہے جو ادب اطفال میں بیش بہا اضافہ ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ بچوں کی ایک ویب سائٹ بھی ہے جس کا نام ہے ابتدا۔ جس کے مختلف زمرے ہیں فہم القرآن، قصے کہانیاں، مسکرایئے، نظمیں، فلمی نغمے، انسائیکلوپیڈیا، پکوان، شہر کی سیر، چڑیاگھر کی سیر، عجائب گھر کی سیر، تاریخی مقام کی سیر، کھیل کود، آج کا سبق، مضامین، آپ کی تصاویر۔ مشہور ویب سائٹ اردو پوائنٹ پر بھی ادب اطفال کا خاص گوشہ ہے۔

اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں بچوں کا ادب ارتقائی سفر طے کر رہا ہے۔ آج کے سب سے ممتاز ادیب و فن کار اس ادب کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ رتن سنگھ، ذکیہ مشہدی، نصرت ظہیر، وکیل نجیب، بانو سرتاج، غلام حیدر، محبوب راہی، نذیر فتح پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، مظفر حنفی، اسد رضا، اقبال احمد برکی، فراغ روہوی، عادل حیات، حافظ کرناٹکی۔۔۔ اور بھی بہت سے معتبر نام ہیں جو بچوں کا ادب فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
میرا خیال ہے کہ بچوں کا ادب فروغ دینے کی بنیادی ذمہ داری خواتین کی ہونی چاہیے کیوں کہ وہ بچوں کی نفسیات، مزاج، سائیکی سے زیادہ واقف ہوتی ہیں۔ خواتین اس میدان میں آئیں تو بچوں کا ادب بہت مالامال ہوگا۔

***
haqqanialqasmi[@]gmail.com
موبائل : 09891726444
حقانی القاسمی

Children literature in Urdu and its related languages. Article: Haqqani Al-Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں