احمد ندیم قاسمی کا بچپن بقلم خود - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-17

احمد ندیم قاسمی کا بچپن بقلم خود

ahmad-nadeem-qasmi
افلاس و تمول کا ایک دردناک مرکب ہونے کے باوجود مجھے میرا بچپن عزیز ہے، کبھی کبھی سوچنے لگتا ہوں کہ اگر میرا بچپن مسلسل امارت میں گزرتا تو میں وہ شدت احساس کہاں سے لاتا، جو اچھے ادب کی تخلیق کانہایت اہم عنصر ہے ، پھر خیال آتا ہے کہ اگر مفلسی کے ماحول میں مجھے امارت کی جھلکیاں دکھائی نہ دیتیں تو تقابل کی وہ تڑپ کہاں سے آتی جس کے بغیر زندگی صرف روتے بسورتے یا صرف ہنستے عشق کرتے گزر جاتی ہے ۔
ساڑھے چار برس کی عمر میں اپنے گاؤں کی مسجد میں عربی قاعدہ پڑھنے بیٹھا تو میرے ہم سبق میرا نیا نیا اور اچھا اچھا لباس دیکھ کر میری عزت کرتے اور اس لئے دور رہنے لگے، جب میں نے ایک روز بے خیالی میں باجرے کی روٹی میں ملی ہوئی سرخ مرچوں کی گیند سی نکالی اور مزے سے کھانے لگا، تو میرے ہم سبق حیران ہوکر میرے قریب کھسک آئے، اور مجھے اپنا سمجھنے لگے۔
موٹا سا تھن تھنا بچہ دیکھ کرمولوی جی نے پہلے روز ہی اعلان کردیا، کہ یہ لڑکا غبی ثابت ہوگا ،"موٹے لڑکے ذہین نہیں ہوتے میرا ساٹھ برس کا تجربہ ہے۔" لیکن یہاں تو امی کی طرف سے ہدایت ملی تھی کہ اچھا نہ پڑھو گے تو ہر روز بعد از دوپہر بھنے ہوئے چنوں اور گڑ کا "راشن" بندکردیاجائے گا۔ اور۔۔۔۔۔"بیٹا جو بچے نالائق ثابت ہوتے ہیں، انہیں مرنے کے بعد دوزخ میں جلایاجاتا ہے ۔" ایسے حالات میں جی لگاکر نہ پڑھنا حیات اور حیات بعد الممات دونوں سے دشمنی تھی ۔ اور اس لئے خوب پڑھا ،ذہین بھی تھا ، اس لئے میرے ہم سبق قاعدے ہی میں ٹامک ٹوئیے مارتے رہے اور میں لپک کر پہلے سیپارے کے نصف تک جا پہنچا۔
پانچ برس کی عمر میں پرائمری اسکول میں داخل ہوا ، اور پہلی جماعت کے ادنی و اعلیٰ درجوں سے جو"مانیٹری" شروع کی ہے تو دسویں جماعت تک یہ"ٹر" میرے ہمرکاب رہی۔ اس کے بعد آب کاری سب انسپکٹر بنا ، اور اب ایڈیٹر ہوں ۔ ان دنوں میں نے توے کی کالک اتار کر اور اس میں درختوں کی ٹہنیوں کے جوڑوں میں چمٹا ہوا گوند ملا کر روشنائی تیار کی باہر لنڈ منڈ پہاڑیوں پر سے مویشیوں کا خشک گوبر اور پھر بکریوں کی منگنیاں اور جھاڑیوں کی خشک ٹہنیاں گھر کا چولھا گرم رکھنے کے لئے جمع کرتا رہا ۔ زندگی کی وہ روز آسائش اور عیاشیاں" جو بچپن سے منسوب کی جاتی ہیں اور انسانی جسم کے نشوونما اور انسانی ذہن کے ارتقا کے لئے اہم سمجھی جاتی ہیں، میری دسترس سے دور رہیں ۔ لیکن عموماًخاندانک ی بزرگی اور دوسرے رشتہ داروں کی امارت کے پاس کی خاطر مجھے ریاکاری پر بھی مجبور کیا گیا ۔ ان دنوں بھی میں یوں محسوس کرتا تھا، جیسے بڑے بڑے مجمعوں میں حصہ لینے کے لئے میرے جسم پر جو ریشمی لباس منڈھ دیا گیا ہے وہ بالکل گھٹیا قسم کے ملمع کی حیثیت رکھتا ہے ، اس قبل از وقت احساس نے مجھے قبل از وقت حساس بنادیا ۔ اور آنسوؤں کی سیلن میں کچھ ایسی تیزابیت بس گئی کہ بچپن ہی میں میرے سامنے سے مجلس زندگی کے موٹے موٹے پردے جل کر گر گئے ۔
باوجود اس ظلمت و نور کی گرادب سامانی کے میری صحت قابل رشک رہی ۔ اور میری شرارتوں میں کوئی رکاوٹ نہ ہوسکی ، مجھے یاد ہے کہ بہت دیر تک رونے کے بعد جب مجھے ریوڑیاںخریدنے کے لئے ایک پیسہ ملا تھا، اور میں پھیلے ہوئے آنسوؤں کو ملے بغیر ریوڑیا چبارہا تھا تو اچانک مجھے ایک شرارت سوجھی ریوڑیوں سے تل اتار کر ایک ننھی سی کنکری اٹھائی اس پر ریوڑی کی شیرینی کو محنت سے رگڑا اور پھر اس پر تل چپکا کر یہ "ریوڑی" میں نے ایک ہم عمر دوست کے پیش کردی تھی اور اس سنگین ریوڑی کو چباتے ہی وہ جو چلا چلا کر رویا ہے تو آن کی آن میں سارا محلہ میری شرارت کی نوعیت معلوم کر کے قہقہوں سے چھلک اٹھا۔
زندگی بہت آگے نکل آئی ہے ، بچپن دھندلا ہوچکا ہے ، نظریات بدل چکے ہیں ۔ ماحول منقلب ہوچکا ہے ، بچپن کے کئی ساتھی ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکے ہیں ، جو زندہ ہیں وہ ہَل چلانے یا رائفل اٹھانے یا جیل کاٹنے میں مصروف ہیں، اس لئے بچپن کبھی زیر بحث نہیں آیا۔ سات برس کا تھا تو ابا جو آخر عمر میں مجذوب سے ہوگئے تھے چل بسے، بھائی جان کے بارے میں اتنا یاد ہے کہ ان کا تھپڑ میرے سامنے نیلے پہلے ستاروں کا ایک فوارہ چھوڑ دیتا تھا ، اور ان کی تھپکی مجھے ان سے لپٹ لپٹ کر رونے پر مجبور کر دیتی تھی۔ اور میری امی تو خیر میرے احساسات کی تشکیل کی سب سے بڑی معاون ہیں، انہوں نے مجھے خود داری، صداقت، غیرتمندی اور اولوالعزمی کے نہایت خاموش مگر بے حد موثر سبق دئیے اور اب میں اپنے بچپن کا تصور کرتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مجھ پر میری امی نے اپنے بازوؤں سے چھاؤں کر رکھی ہے ۔ میری آپا میری دائیں جانب کھڑی مجھے بہلا رہی ہیں۔ میرے بھیا میری بائیں جانب کھڑے مجھے پچکار رہے ہیں۔ اور میرے سامنے زندگی کا بحر ذخار ٹھاٹھیں مار رہا ہے ، اور میں لمحہ بہ لمحہ ان کوہسار موجوں سے الجھنے کے لئے بے تاب ہوں، ان سے مانوس ہو رہا ہوں ۔ ان میں جذب ہو رہا ہوں۔

ماخوذ از کتاب: مشاہیر کا بچپن
مرتب: حمایت علی

The childhood of Ahmed Nadim Qasmi by himself.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں