ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:21 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-07

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:21


خلاصہ فصل - 19
صاحب کلکٹر اورابن الوقت کا بگاڑ

رپورٹ خوانی میں سررشتہ دار،ابن الوقت کی طرف سے صاحب کلکٹر کے کان بھر ہی چکا تھا۔اتفاق سے اسی شام ابن الوقت کا صاحب کلکٹر سے آمنا سامنا ہو گیا۔ہوا خوری کے لئے وہ کچہری سے نکلااور سڑک پر ہو لیا۔چاندنی رات کے خیال سے وہ ابھی لوٹنا نہیں چاہتا تھا۔لیکن اس ڈر سے کہ اندھیرے میں کہیں گھوڑے کا پاؤں گڑھے میں نہ اترے،ناچار لوٹا۔
دریا گنج کے نکڑ پر دور سے اس کو ایسا دکھائی دیا کہ بیچ سڑک پر کوئی انگریز چلا جا رہا ہے۔برابر سے نکلا تو ابن الوقت نے پہچان لیا کہ صاحب کلکٹر ہیں۔
لگام روک کر اس نے خود کہا’’ہیلو مسٹر شارپ! گڈایونینگ، آپ میری گستاخی کو معاف فرمائیں کہ آپ پیدل ہیں اور میں سوار ہوں۔یہ گھوڑا اتنا تیز ہے کہ اگر میں اتروں تو یہ ضرور قابو سے باہر ہو جائے گا۔یہ گھوڑا وہی ہیرو ہے جس نے میرٹھ کی دوڑ میں بڑا نام کمایا۔میں نے اس کو سوگنی دے کر خرید لیا ہے۔میں اس وقت دریا کنارے ہوا خوری کے لئے نکل آیا تھا‘‘۔
صاحب کلکٹرنے طنزیہ انداز میں جواب دیا کہ ’’مجھے چلنے پھرنے کے لئے بہت تھوڑا وقت ملتا ہے جس کو میں اپنے ضلع میں ہی صرف کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے علاقے میں میری معلومات بڑھتی رہیں‘‘۔
ابن الوقت نے کہا کہ تمام دائر کردہ مقدمات تکمیل کے قریب ہیں۔میں سب کاروائی کرچکا ہوں۔صاحب کلکٹرنے جواب دیا کہ آپ کیوں سوکھے پتوں اور کانٹوں کو یاد کرتے ہیں جب کہ باغ کی ساری بہار آپ ہی کے حصّے میں تھی۔
ابن الوقت نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی لیکن صاحب کلکٹرکسی طرح نہ کُھلے۔بدگمانی ان کی باتوں سے ظاہر تھی۔موقع آیا تھا کہ صاحب کلکٹر پیدل اور یہ سوار اتر نہیں سکتا تھا۔آگے بڑھ سکتا نہ پیچھے ہٹ سکتا،بے ادبی یا بدتمیزی ہوتی۔
آخر وہ یہ کہہ کر الگ ہوگیا کہ میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں قلعے میں ایک دوست میرے منتظر ہوں گے۔رات میں اور دوسرے دن ابن الوقت کو کئی دفعہ صاحب کلکٹرکی باتوں کا خیال آیا۔
اتنے میں کچہری جو پہنچا تو صاحب کلکٹرکا تحریری حکم میز پر رکھا ہواتھا:
’’(1)کل شام صاحب کلکٹر دریا گنج کی سڑک پر پیدل چلے آئے تھے ڈپٹی ابن الوقت اس وقت گھوڑے پر سوار پیچھے سے صاحب کلکٹر کے برابر آکر باتیں کرنے لگے۔ڈپٹی صاحب سے اس گستاخی کا جواب طلب ہو۔
(2)ڈپٹی صاحب بلا اجازت و اطلاع دریا پار ضلع میرٹھ میں گئے اور انہی کی بیان سے معلوم ہوا کہ اکثر جاتے رہتے ہیں۔اس کی وجہ ان سے پوچھی جائے۔
(3)جتنی بار ڈپٹی صاحب نے دریا کا پل پار کیا ہے حساب کرکے محصول بھیج دیں کیونکہ انھیں یقین نہیں کہ ڈپٹی صاحب نے کبھی محصول دیا ہو۔‘‘
ابن الوقت پر کھل گیا کہ صاحب کمشنر مجھ سے کیوں ناراض ہیں۔اس نے فوراًایک چٹھی صاحب کلکٹرکو لکھی کہ قبل اس کے کہ میں آپ کے تحریری حکم کا جواب دوں،مجھ کو اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع دیں تاکہ میں بالمشافہ(personally)آپ کے تمام شبہات دور کردوں۔میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں۔اگر آپ کی مہربانی کا مستحق نہ ثابت ہوں تو اس بے عزتی سے بہتر ہوگا کہ میں خود کام سے علحٰدگی اختیار کروں۔
صاحب کلکٹرابن الوقت کی طرف سے اس قدر برہم تھے کہ کراہیت سے اس کی چٹھی کے لفافے پر پنسل سے لکھ دیا کہ میں کسی مقامی(native) کو اپنی کوٹھی پر انگریزی وضع میں دیکھنا نہیں چاہتا۔اس پر بھی ابن الوقت نے دو دن تک بلا جواب ٹال رکھا۔
تیسرے دن تقاضے کا خط آپہنچا۔اس شدت کے ساتھ کہ کچہری برخاست کرنے سے پہلے جواب نہیں دیں گے تو ضابطے کی کاروائی کی جائے گی۔چار و ناچار جواب دینا ہی پڑا اور ایسا سخت جواب دیا کہ صاحب کلکٹراور سررشتہ دار اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
اس نے لکھا:
(1)مجھ کو صاحب بہادر سورج غروب ہونے کے بعد دریا گنج کے نکڑ پر ملے۔میں نزدیک آکر انھیں پہچانا۔پہچاننے کے بعد خلاف اخلاق سمجھا کہ بغیر سلام چلا جاؤں۔اس کے بعد ایک دو بات کا کرنا بھی ضروری تھا۔اس قصور پر شرمندہ ہوں اور اس کی معافی کا طلب گار ہوں۔
(2)میرٹھ کا شہر دہلی کی فصیل سے ملا ہوا ہے۔میں ہوا خوری کے لئے اکثر دریا پار گیا ہوں۔کوئی حکم ممانعت کا میری نظر سے نہیں گذرا اور نہ سرکار کا اس میں کوئی فائدہ ہے کہ عہدے داروں کو نظر بند رکھے۔اگر واقعی کسی حکم میں ایسی قید ہے تو عمل ممکن نہیں اس لئے منسوخ کرنے کے قابل ہے۔
(3)صاحب کلکٹربہادر کو خیال نہیں رہا کہ فری فنڈ فوجداری سے متعلق ہے ورنہ اجلاسِ کلکٹری سے کاروائی نہ فرماتے۔چونکہ گھاٹ کاشت کاری ہے اس لئے محصول کا حق کاشت کار کا ہے۔
غصّے میں انسان کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔اس جواب کو سن کر صاحب کلکٹربہادر رپورٹ کرنے کو تیار ہوئے۔سررشتہ دار نے سمجھایا کہ حضور کی اتنی نا رضامندی کافی ہے۔اب ڈپٹی صاحب کا حال کیا ہے کہ کچہری کا کوئی آدمی ان کو سلام نہیں کرتا۔
سررشتہ دار نے یہ بھی کہا کہ اگر رپورٹ ہی کرنی ہے تو ایسی زبردست رپورٹ ہو کہ وار خالی نہ جائے۔کیونکہ ڈپٹی صاحب کی جڑ بہت مضبوط ہے کہ نوبل صاحب نے ان کی لیاقت اور دیانت داری یہاں کے حاکموں کے ذہن نشین کردی ہے۔سررشتہ دار اپنی طرف سے ڈپٹی صاحب پر مقدمات دائر کرانے کی بہت کوشش کرتا تھا۔
ابن الوقت بدستور اسی شان سے کچہری آتا۔کام تو اس سے بالکل چھین لیا گیا تھا۔ بس وہ اخبارات بیٹھا پڑھتا۔عملہ بھی وقت کی ہوا دیکھ کر خود سر ہو گیا تھا۔حکم کی تعمیل تو کجا وقت کی پابندی کا لحاظ اٹھ گیا تھا۔
کوئی دن خالی جاتا ہوگا کہ صاحب کلکٹرکے یہاں سے تاکیدی مراسلہ نہ آتا ہو۔ابن الوقت کا دباؤ عملہ پر باقی نہ رہا تھا۔وہ جرمانے عائد کرتا تو یہ لوگ صاحب کلکٹرکے اجلاس پر جاتے اور جرمانہ منسوخ کرا کے لاتے۔
چونکہ ہر طرح تنگ کرنا مقصود تھا اس لئے یہاں تک نوبت پہنچی کہ اجلاس کا کمرہ تک خالی کرالیا گیا۔وہ جگہ شاندار اور آسائش کی تھی۔اس کے عوض جو کمرہ دیا گیا اس میں دھوپ کی آڑ نہ بارش کا بچاؤ۔
پھر گم نام عرضیاں آنے لگیں جس میں سخت گیری اور رشوت کی شکایتیں ہوتیں۔ان عرضیوں کی وجہ سے کلکٹر کو موقع مل گیا۔جگہ جگہ اشتہار چسپاں ہوئے کہ جس کو ڈپٹی ابن الوقت کے خلاف فریاد کرنی ہو ، بلا خوف صاحب کلکٹرکے اجلاس پر حاضر ہو۔
غرض ابن الوقت کی سوا دو مہینے ہر روز اس کے تبادلے،معطلی اور فوجداری کی خبر اڑتی اور ٹھنڈی پڑ جاتی۔
جب زیادہ دن گذر گئے تو خود لوگوں کے خیالات بدلنے لگے۔وہ سمجھ گئے کہ بس کلکٹر سے اتنا ہی ہوسکتا تھا۔مگر واہ رے ڈپٹی صاحب۔ذرا جو آنکھ پر میل آیا ہو۔پہلے تو ایک گھوڑے کی بگھی میں آتے تھے اب جوڑی کے معمول کو ناغہ نہ ہونے دیا۔لوگوں نے یہی خیال کیا کہ غدر کی خیر خواہیاں اور نوبل صاحب کا زبردست اثر تھا کہ ڈپٹی صاحب کا کچھ نہ بگاڑ سکا یعنی صاحب کلکٹر ،ڈپٹی صاحب سے بہت بے جا الجھے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-21

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں