ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:20 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-26

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:20


خلاصہ فصل - 18
سررشتہ دار کے بہکانے سے صاحب کلکٹر ابن الوقت سے بدگمان ہوئے

ابن الوقت کو حقیقت میں محسوس نہیں ہوا تھا کہ اس کو نوبل صاحب سے کسی قدر تائید پہنچ رہی ہے۔ان کا پیٹھ موڑنا تھا کہ ہر طرف سے مصیبتوں نے آگھیرا۔یوں بھی نوبل صاحب تنخواہ میں، عزت میں کلکٹر سے کم نہ تھے۔پھر سب کو یقین تھا کہ بغاوت کا محکمہ عارضی ہے۔یہ کام ختم ہوا تو نوبل صاحب یا تو دہلی کے کمشنر ہونگے ورنہ کمشنر کے سکریٹری ہو جائیں گے۔لہذا لوگوں کے دلوں میں نوبل صاحب کی بڑی قدر تھی۔اب جو میدان خالی پایا تو سارا عملہ جو ابن الوقت کے نام سے تھراتا تھا،منہ پھیرنے لگا۔
نوبل صاحب کے جائزے کے شاید چوتھے یا پانچویں دن جو انھوں نے صاحب کلکٹر کو دیا تھا سررشتہ دار(Sub-ordinate)رپورٹ پڑھنے کو گیا تو صاحب کلکٹر نے فرمایا کہ چیف کمشنر صاحب محکمۂ بغاوت کی تحقیقات کے لئے بہت بے چین ہیں۔ جواب ملا کہ ابھی دیڑھ دو برس کا کام باقی ہے۔اس پر کلکٹر نے تعجب سے کہا کہ نوبل صاحب کے کہنے کے مطابق اس سال کے آخر تک کام ختم ہو جائے گا اور ابن الوقت ان میں کاروائی کررہے ہیں۔بڑا کام مثلوں(files)کو ترتیب دے کر داخل دفتر کرنا ہے۔تب سررشتہ دار نے عملہ(staff)کو قصوروار نہیں ٹہرایا بلکہ یہ کہا کہ اچھا اور ہوشیار عملہ ہے چن چن کر رکھا گیا ہے۔پھر سارا قصور ڈپٹی صاحب(ابن الوقت)کا بتلایا کہ ان کے آنے کا ٹھکانا نہ بیٹھنے کا ٹھکانا۔نہ کچہری(دفتر) برخاست کرنے کا ٹھکانہ۔اس کے بعد کلکٹر نے تفصیل سے ابن الوقت کے بارے میں پوچھا۔سررشتہ دار نے لگائی ، بجھائی اور شکایت شروع کردی۔کہنے لگا کہ وہ(ابن الوقت)پہلے تو اپنی وضع کے لوگوں کے سوائے کسی ہندوستانی سے نہیں ملتے۔اگر ملتے بھی ہیں تو گھنٹوں انتظار کرواتے ہیں۔ان کے شاہانہ خرچ میں ہندوستانیوں کا کیا مقابلہ،صاحب لوگ(یعنی انگریز لوگ)بھی اتنا نہیں خرچ کرسکتے۔
کلکٹر صاحب نے پوچھا کہ کیا ابن الوقت گھر کے بڑے امیر ہیں؟جواب دیا کہ ان کا خاندان مسلمانوں کے پادریوں کا خاندان ہے۔وہ ایک بیگم کے پاس مختار کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔بیگم صاحب قلعے کے باہر کشمیری دروازے میں رہتی تھیں۔غدر ہوا تو حکم دیا کہ تمام مال و اسباب قلعے پہنچوا دو۔سنا ہے کچھ سامان قلعے پہنچا دیا۔باقی سامان اپنے ہاں رکھوا لیا۔اتنے میں بیگم صاحبہ مر گئیں۔سارا اثاثہ(مال و اسباب)انہی کا ہو گیا۔کلکٹر صاحب نے یہ سن کر کہا کہ یہ تو بڑی نمک حرامی کی بات ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسے شخص نے سچے دل سے نوبل صاحب کی جان نہیں بچائی۔
سررشتہ دار نے جو ایک ہندو تھا،ابن الوقت کے بارے میں جو ایک مسلمان تھا کہہ دیا کہ ہم ہندؤں کو مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے سینکڑوں برس ہو گئے مگر ان کابس چلے تو ایک ہندو کو زندہ نہ چھوڑیں۔تب صاحب کلکٹر نے کہا کہ اگر واقعی ابن الوقت نے نیک ارادے سے نوبل صاحب کی جان بچائی تو اس کا صلہ کچھ کم نہیں تھا کہ سرکار نے ان کی اور ان کے خاندان کی جان بخشی کی اور زمینداری عطا کی لیکن ایسے شخص کوحکومت کا عہدہ دینا مصلحت کے خلاف ہے۔
جب صاحب کلکٹر اس بارے میں سررشتہ دار کی رائے پوچھی تو اس نے جھٹ کہہ دیا کہ ہاں ڈپٹی کلکٹری تو ان سے ایک دن نہ چلتی۔مگر نوبل صاحب کی مہربانی سے سب کام چلتے گئے۔لیکن اب ذرا مشکل پڑے گی۔ان کا عملہ اس لئے ناراض ہے کہ وہ سخت گیر اور بدزباں ہیں۔کام بھی وقت پر مکمل نہیں کراتے اور کھیل تماشے میں لگے رہتے ہیں۔انھوں نے اتنا کچھ کمالیا ہے کہ شاہانہ خرچ کے باوجود ان کو کسی طرح کی کمی نہیں ۔نوبل صاحب کے ڈر سے کسی نے ان کے خلاف زبان نہیں کھولی۔پھر اس کے بعد سررشتہ دار نے تجویز رکھی کہ ڈپٹی صاحب کو صرف مثلوں(files)کی تکمیل پر چھوڑ دیا جائے۔کیوں کہ یہ بھی بڑا بھاری کام ہے۔باقی مقدمات کو حضور اپنے اجلاس پر منتقل فرما لیں یا کسی ماتحت حاکم کو دے دیں۔منشی سیوک رام کے اجلاس میں کام کی کمی ہے اور مشہور ہے کہ منشی صاحب کیسے زبردست کام کرنے والے ہیں۔ صاحب کلکٹر کے کہنے پر سررشتہ دار نے وہیں کھڑے کھڑے دو سطری تحریری حکم لکھا اور صاحب کلکٹر نے اس پر دستخط کر دئیے اور سررشتہ دار کو محکمۂ بغاوت کی نگرانی کا حکم دیا۔
ابن الوقت کی ہوا تو تحریری حکم سے ہی نکل گئی۔آج مقدمات کے چھن جانے سے لوگوں کی نظر میں اس کی حیثیت اوربھی دو کوڑی کی ہوگئی۔تحریری حکم میں لکھا تھا کہ جو مقدمات دائر کئے گئے ہین وہ کاروائی کے بغیر صاحب کلکٹر کے سررشتہ دار کے حوالے کئے جائیں۔ابن الوقت نے اتنا لکھوانے کے بعدکہ صاحب کلکٹر کے حکم کی تعمیل کی جائے اس سے اجلاس پر بیٹھا نہ گیا۔ نوبل صاحب کے وقت گھر کی حکومت تھی۔اس نے جانا ہی نہیں کہ نوکری کیا چیز ہے؟
اب جو خلاف مزاج باتیں پیش آئیں تو اس کو حیرت تھی کہ کلکٹر صاحب نے کیا محکمۂ بغاوت میں اپنی کارگذاری ثابت کرنے مقدمات کو اپنے اجلاس پر منتقل کرلیا ہے۔جہاں تک خیال کرتا تھاصاحب کلکٹر کی دشمنی کی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آتی ۔اصل میں اس نے کلکٹر یا جنٹ یا اسسٹنٹ کسی سے راہ و رسم بڑھانے کا اہتمام نہیں کیا اور نہ کبھی اس کے ذہن میں آیا کہ ان عہدہ داروں سے ربط رکھنااس کے فرائض میں داخل ہے۔حالانکہ ایک ہندوستانی کے لئے کلکٹر، پادری، ڈاکٹر،سپرنٹینڈنٹ پولیس،انسپکٹر مدارس یا پوسٹ ماسٹر غرض کوئی انگریز ہو بڑا یا چھوٹا، مہینے میں دو چار بار اس کے بنگلے پر حاضری دے آنا ضروری ہے۔
ابن الوقت کو صاحب و کلکٹر کی خصومت(دشمنی) کی بڑی وجہ یہ بیگانگی ہی تھی بلکہ ضلع کے عہدہ داروں میں کوئی اس کا اتنا دوست بھی نہ تھا کہ اس کے حق میں کلکٹر صاحب سے اچھی بات ہی کہہ دے۔ابن الوقت نے ان کی خوشامد کی ذرا بھی پروا نہ کی تھی۔ساری کلکٹری ایک طرف تھی اکیلا وہ ایک طرف۔
ابن الوقت کی خودداری نے اس کے حق میں ایک خرابی یہ کی تھی کہ ہندوستانیوں کے ساتھ ملنے میں لاپروائی تو برتتا ہی تھا مگر ان دنوں جو کاروائیاں درپردہ اس کے خلاف ہو رہی تھیں وہ اس سے بالکل بے خبر تھا۔
نوبل صاحب کے جانے کے بعد جوکم کم لوگ ہی اس سے ملتے جلتے تھے ان لوگوں نے ملنا جلنا اور بھی کم کردیا تھا۔اور اس کی کچہری(دفتر)میں آنا بھی ترک کر دیا تھا۔ابن الوقت کے جی میں آیا بھی کہ چلوں کلکٹر صاحب سے زبانی کہوں یا چٹھی لکھوں پھر سوچا اور ٹھیک سوچا کہ ابھی تک مجھ کو شکایت کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔مقدمات منگوالئے چلو دردِ سر کم ہوا۔میری تنخواہ تو نہیں گھٹا دی یا جاگیر تو ضبط نہیں کی۔لوگوں نے تو ہمیشہ مجھ کو کیا کچھ نہیں کہا اور اب بھی کہتے ہیں،میری ذاتی عزت جو ہے سو باقی ہے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-20

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں