ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:23 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-24

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:23


aik-bot
گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
ونود کے وکیل نے کمار کو عدالت میں درخواستِ ضمانت کے متعلق آگاہ کیا اور امید ظاہر کی کہ ونود کی ضمانت ہو جائے گی۔ دوسری طرف شاتو نے کمار کے سامنے انسانی وجود کی شکل میں آکر اپنی کہانی بیان کی ۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

قسط : 1 --- قسط : 22

شاتو کچھ اور کہنے جا رہی تھی لیکن میں نے وفور مسرت سے بیتاب ہوکر اس کی بات کاٹ دی اور کہا:
"اور۔۔۔۔۔ اور پھر کیا ہوگا؟ ونود جیل سے رہا ہوتے ہی تمہارے سحر میں دوبار مبتلا ہو جائے گا۔"
"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" شاتو نے جواب دیا:
" میں کہہ چکی ہوں کہ اب میں اسے پریشان نہیں کروں گی ۔ میں اس سے ایک آخری ملاقات اور ایک آخری گفتگو کروں گی اور اس کے بعد حویلی سے چلی جاؤں گی اور تمہیں یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ تم میری اس آخری ملاقات کا بندوبست ضرور کر دو گے۔"
"میں وعدہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔" میں نے جلدی سے کہا:
" اگر ونود کل جیل سے ضمانت پر رہا ہو گیا تو میں تمہاری اس سے تنہائی میں ملاقات ضرور کرا دوں گا۔۔لیکن۔۔۔۔" میں نے مزید کہا:
" تمہیں مجھے شانتا کے بارے میں بھی بتانا ہوگا کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ کیوں کہ ونود آتے ہی سب سے پہلے شانتا کو دریافت کرے گا اور میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ شانتا کہاں ہے ؟ شانتا کیا ہوئی؟"
"تم اطمینان رکھو۔۔۔۔۔۔۔" شاتو نے مجھے تسلی دی۔
"مجھے معلوم ہے کہ شانتا اس وقت کہاں ہے اور کس حال میں ہے، چنانچہ میں ونود کی اس سے بھی ملاقات کرا دوں گی ۔"
"لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے کہا:
" آخر تم مجھے اس سے کیوں نہیں ملانا چاہتی ہو۔"
"یہ مت پوچھو۔۔۔۔۔" شاتو نے جواب دیا:
" کیوں کہ اگر میں نے اس وقت تمہیں شانتا کا پتہ بتا دیا یا تمہاری ملاقات شانتا سے کرا دی تو میری کہانی ادھوری رہ جائے گی۔ مجھ پر اعتبار کرو میں کل ہی ونود اور شانتا کا ملاپ بھی کرا دوں گی۔"
"اچھا اتنا تو بتاؤ کہ شانتا کو کون لے گیا ہے۔۔۔۔؟" میں نے بیتاب ہو کر پوچھا۔
" اس کا عاشق۔۔۔۔۔۔۔" شاتو نے جوا ب دیا:
" وہ ونود کے روپ میں آیا اور شانتا کو لے گیا۔"
" اور اس نے اپنی صدیوں پرانی تمنا پوری کر لی۔" میں بات کاٹتے ہوئے کہا۔
"یہ مجھے نہیں معلوم۔"
شاتو کے اس جملے نے مجھے ایک بڑی حد تک مایوس کر دیا تھا ، اس لئے میں نے گفتگو کا موضوع بدل دیا اور شاتو سے کہا:
"خیر۔۔۔۔۔مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے ، یہ بتاؤ کہ تم اور کیا کہنا چاہتی ہو۔"
"میں تم سے کنویں کے دروازے کے بارے میں بھی کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"کنویں کا دروازہ۔۔۔۔۔۔" میں نے حیر ت سے پوچھا:
"تم اس کے بارے میں کیا جانتی ہو؟"
"میں کنویں کے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں۔" شاتو نے جواب دیا:
" اس لئے کہ یہ کنواں صدیوں تک میرا مدفن رہا ہے۔" چند لمحات تک خاموش رہنے کے بعد شاتو نے مزید کہا:
"لیکن تم ابھی کنویں کا دروازہ نہ کھولو تو زیادہ بہتر ہے ۔"
"کیوں۔۔۔۔۔۔۔" میں نے بے چین ہو کر سوال کیا۔
"مجھے صدمہ ہوگا۔۔۔۔" شاتو نے جواب دیا:
"میں اس میں وجود کو ہی لے کر داخل ہونا چاہتی ہوں، میں اس سے آخری ملاقات اسی جگہ کرنا چاہتی ہوں۔"
" کیا تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کنویں میں کوئی باقاعدہ مکان موجود ہے ۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔" شاتو نے کہا:
" اور یہ مکان میرے لئے ہی بنا تھا۔۔۔۔۔"

میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے شاتو سے ہمدردی ہو گئی تھی ، شاتو کے بدلے ہوئے لہجے میں، اس کی مایوس آنکھوں نے اس کے کمہلائے ہوئے لبوں نے اور سب سے بڑھ کر اس کے ناکام حسن نے میرے دل میں اس کی طرف سے ہمدردی بھرے پیار کی ایک جوت جلا دی تھی۔
شاتو اب خاموش ہو چکی تھی شائد اس لئے کہ اب اس کے پاس کہنے کے لئے اور کچھ نہیں رہا تھا یا شاید اس لئے کہ غموں کے بڑھتے ہوئے احساس نے اب اس کی قوت گویائی بھی صلب کرلی تھی ، اس لئے میں نے اس سے پوچھا:
" پروفیسر تارک ناتھ کو کیا تم نے قتل کیا ہے۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔" شاتو نے جواب دیا۔
"کیوں قتل کیا تھا۔۔۔۔۔۔" میں نے پوچھا۔
" اس لئے کہ ماضی میں وہ میرا چچا تھا۔۔۔۔۔ وہ میرا قاتل تھا، اس نے میری زندگی برباد کر دی تھی اور اسی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میری روح کی شانتی چھین لی ۔" شاتو نے جواب دیا:
"پروفیسر تارک ناتھ نے دوبارہ جنم لیا تھا اور میں چونکہ اس سے انتقام لینے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لئے میں نے اس کو قتل کر کے اپنی صدیوں پرانی پیاس بجھا لی۔"
شاتو شائد اپنی کہانی سنانے پر آمادہ ہو گئی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ واقعی موجودہ کہانی کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اس نے خود ہی کہنا شروع کیا:
"وقت نے ہم سب کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔ شاید خود بھگوان بھی اب اس کہانی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔"
"ہم سب سے تمہاری کیا مراد ہے۔" میں نے سوال کیا:
"کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں بھی ماضی کی اس دردناک کہانی کا ایک کردار رہ چکا ہوں۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔" شاتو نے جواب دیا۔
" تم بھی ماضی میں اس حویلی سے وابستہ تھے اور ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شانتا تمہاری پچھلی زندگی میں بھی تمہاری محبوبہ تھی ، تاریخ نے خود کو دہرایا ہے کیونکہ ماضی میں بھی تم شانتا کو حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے اور اس زندگی میں بھی۔۔۔۔"
اب میں بے چین ہو گیا۔۔۔۔۔شاتو نے یقیناً ایک نئی بات بتائی تھی اس نے ایک نیا انکشاف کیا تھا ، میں نے سوچا کیا واقعی تقدیر نے ہم سب کو کسی خاص مصلحت کے پیش نظر ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیا واقعی اس صدیوں پرانی کہانی کا انجا م ہونے والا ہے؟؟

میں ابھی شاتو سے کچھ اور پوچھنے جارہا تھا کہ اس نے خود ہی کہنا شروع کیا:
"شانتا اسی حویلی میں بہو بن کر آئی تھی اور شادی سے قبل تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے لیکن چونکہ تم دونوں کی ذات ایک دوسرے سے الگ تھی اس لئے تم دونوں کی شادی نہ ہو سکی ۔ اور تم اپنا کلیجہ مسوس کر رہ گئے۔ یہ ماضی میں بھی ہوا تھا اور حال میں بھی یہی ہوا۔"
شاتو اتنا کہہ کر چند لمحات کے لئے خاموش ہو گئی۔
شاتو کی خاموشی نے میری بے چینی کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا ۔
میں نے گھبرا کر پوچھا:
"میری کہانی کو ادھورا نہ چھوڑو شاتو مجھے بتاؤ کہ میں کون تھا۔"
" یہ کچھ میں نہ بتا سکوں گی۔" شاتو نے بڑے پر سکون لہجے میں جواب دیا:
"ماضی سے ناواقف ہونا ہی بہت اچھا ہے ۔ مجھے دیکھو کہ چونکہ مجھے اپنا ماضی معلوم ہے اس لئے میں پریشان ہوں، بیتے دنوں کی یاد نے مجھے برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔"
شاتو نے مزید کہا:
"اب میں جا رہی ہوں۔۔۔۔۔تم کنویں کا دروازہ ابھی بند ہی رکھنا۔ تم اب شہر جاؤ اس وقت تک ونود کی ضمانت کی درخواست عدالت میں پیش ہو چکی ہوگی۔ تم اس کی ضمانت داخل کرنے کی کوشش کرو ۔ میں شام کو دوبارہ تم سے ملاقات کروں گی۔"
"میں کنویں کا دروازہ نہ کھلواؤں۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نے کہا:
"یہی تم چاہتی ہو۔"
"ہاں۔۔۔۔۔" شاتو نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
"لیکن جن مزدوروں نے یہ پراسرار دروازہ دیکھا ہے وہ گاؤں جاکر اس کی موجودگی کی خبر کردیں گے اور اس طرح دروازہ کا وہ راز جس کو تم چھپانا چاہتی ہو راز نہ رہے گا۔"
"تم اطمینان رکھو۔" شاتو نے جواب دیا:
" یہ مزدور شام تک اسی حویلی میں سوتے رہیں گے ۔" اس نے مزید کہا:
" میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ آج شام کو میں خود ہی یہ دروازہ کھول دوں گی ، اور تمہیں اپنا مکان دکھا دوں گی۔۔۔۔وہ مکان۔۔۔۔۔۔جو میرا مدفن رہ چکا ہے ۔"
شاتو اتنا کہہ کر میری نظروں سے پلک جھپکتے میں اوجھل ہو گئی۔

شاتو چلی تو گئی لیکن اس مرتبہ وہ اس کمرے میں ایک لطیف خوشبو بھی چھوڑ گئی۔ میں دیر تک اس خوشبو کو محسوس کرتا رہا۔ میں سچ کہتا ہوں یہ خوشبو پھولوں کی نہ تھی، یہ خوشبو ایک ایسی خوشبو تھی جو پھولوں تک کو میسر نہیں ہوتی ہے ۔
میں کمرے سے باہر نکلا تو کالکا شانتا کو تلاش کر کے واپس آ چکا تھا۔ وہ بے حد تھکا ہوا نظر آ رہا تھا ۔ اس نے مجھ کو دیکھتے ہی کہا:
"مالکن کا کوئی پتہ نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔میں نے حویلی میں ہر جگہ انہیں تلاش کرلیا ہے ۔" اتنا کہہ کر کالکا کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔
میں نے بوڑھے ملازم کو تسلی دی۔ جواب میں اس نے کہا:
"میرا دل کہتا ہے کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔"
"نہیں کالکا۔۔۔۔۔۔۔۔" میں نے کہا:
" مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور اس وقت وہ جہاں ہیں وہاں سے وہ کل دن میں واپس آ جائیں گی۔ میں نے کالکا سے مزید کہا:
"میں تمہیں ایک خوشخبری بھی سنانا چاہتا ہوں ۔ تمہارے ونود بابو بھی کل شام تک جیل سے ضمانت پر رہا ہو کر آ جائیں گے۔"
"سچ۔۔۔۔۔۔۔۔" کالکا خوشی میں چیخ پڑا۔
"ہاں بالکل سچ۔۔۔۔۔" میں نے اتنا کہہ کر بت کے چبوترے پر نگاہ ڈالی ، شاتو کا بت اپنی جگہ واپس آ چکا تھا۔
میں نے کالکا سے مزید کہا:
"میں شہر جا رہا ہوں، آج عدالت میں ونود کی ضمانت کی درخواست پیش ہوگی اور امید ہے یہ درخواست منظور بھی ہو جائے گی ۔ اس لئے مجھے ضمانتوں کا بھی انتظام کرنا ہے ۔ تم حویلی میں ہی موجود رہنا اور میری عدم موجودگی میں کسی اجنبی کو حویلی میں داخل نہ ہونے دینا۔"
"اور مزدوروں کے لئے آپ کا کیا حکم ہے۔" کالکا نے خوش ہو کر پوچھا۔
"جب کنویں کا سارا پانی نکل جائے تو ان سے کام بند کروا دینا لیکن ان کو بھی حویلی سے نہ جانے دینا۔ میں شام کو آ کر ان کو اجرت دوں گا۔"
"کوئی اور حکم۔۔۔۔۔" کالکا نے پوچھا۔
"کنویں کا دروازہ کسی حال میں نہ کھلنے پائے۔" میں نے تاکید سے کہا۔
"بہت بہتر۔" کالکا نے سر جھکا کر جواب دیا۔

پندرہ منٹ کے بعد ہی میں اسکوٹر پر شہر کے لئے روانہ ہو گیا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں تمام راستے صرف شاتو اور اس کے بیان کردہ انکشافات کی گہرائیوں میں غرق رہا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ونود کی دوستی مجھے یہاں لائی تھی اور یہ بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ونود اور صرف ونود کی خاطر میں نے حویلی میں ناقابل بیان مصائب کا سامنا کیا تھا لیکن یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اس دوران شانتا بھی ہر وقت میرے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں موجود ضرور رہی ہے ۔ میں بھلانے کی کوشش کے باوجود اب تک شانتا کو، اس کی محبت کو اور اس کی پیار بھری مسکراہٹ کو نہیں بھلا پایا تھا۔
میں وکیل کے دفتر جانے کی بجائے سیدھا کچہری پہنچا۔ ونود کے وکیل عدالت کے کمرے سے باہر نکل رہے تھے ۔ وہ چونکہ بے حد خوش نظر آ رہے تھے اس لئے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ونود کی ضمانت منظور ہو گئی ہے۔ وکیل نے مجھے دیکھتے ہی کہا:
"مبارک ہو ڈاکٹر صاحب۔ جج صاحب نے سرکاری وکیل کی کوئی دلیل نہیں مانی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر ونود کی ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کر دیا۔"
وکیل خوش تھے کہ ان کی زبردست بحث اور قانونی دلائل نے ونود کو ضمانت پر رہا کرایا ہے ۔ لیکن میں خوب جانتا تھا کہ ونود کی یہ مشکل کیسے آسان ہوئی ہے ۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہاں بھی شاتو کی روحانی طاقت نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے ۔
میں نے وکیل کو جواباً مبارک باد دی اور پوچھا:
" اب ضمانت کس کی داخل کی جائے۔"
" اس کا بھی میں نے انتظام کر لیا ہے ۔" وکیل نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
"وہ کیسے۔۔۔۔۔۔؟" میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
اور وکیل نے جواب میں جو کچھ کہا اس نے شاتو کے بارے میں میرے یقین کو اور بھی زیادہ پختہ کر دیا ۔ وکیل نے کہا:
"ابھی دو گھنٹے قبل ونود کی ایک رشتہ دار عورت یہاں آئی تھی اور اس نے مجھ سے دو آدمیوں کا تعارف کراتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ دونوں آدمی ونود کی ضمانت کرلیں گے ، عدالت سے چونکہ ضمانت کا حکم جاری ہو چکا ہے اس لئے میں نے اسی وقت ان دونوں آدمیوں کے ضمانت نامے داخل کرا دئے۔ میں اسی کام سے فارغ ہو کر اس وقت عدالت کے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔"
وکیل نے مزید کہا:
" اور اس عورت نے میری فیس بھی دے دی ہے ۔"
میری حیرت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی، میں نے پوچھا:
" کیا اس عورت نے اپنا نام بتایا تھا۔"
" جی ہاں۔۔۔۔۔"وکیل نے جواب دیا۔
"اس کا نام شاتو ہے ۔ کچھ دیہاتی قسم کی معلوم ہو رہی تھی۔"
"اوہ۔۔۔۔۔۔۔" شاتو کا نام سن کر خود بخود میرے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چھلک آئیں ۔ میں نے پوچھا:
" آپ کو اس عورت نے کتنا روپیہ دیا۔"
"روپیہ نہیں ڈاکٹر صاحب، اس نے مجھے پانچ تولے سونے کا ایک ٹکڑا دیا ہے، بالکل کھرا سونا۔" وکیل نے کہا۔
"ونود کی ضمانت کنندہ کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔؟" میری حیرت اور بڑھی۔
"وہ بھی اب جا چکے ہیں۔" وکیل نے جواب دیا:
"لیکن ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔ایک بات پر خود میں بہت حیران ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جج صاحب نے جو بڑے ہی سخت مزاج آدمی ہیں، تحصیل سے تصدیق کروائے بغیر ضمانت ناموں کو منظور کیسے کر لیا میں آپ سے سچ کہتا ہوں مجھے تو ایسا معلوم ہوا جیسے جج صاحب پر کسی نے سحر کر دیا تھا۔"
"کیا وہ عورت بھی عدالت میں موجود رہی تھی۔" میں نے پوچھا۔
" جی ہاں صاحب۔۔۔۔" وکیل نے کہا۔
" جب تک ضمانتیں منظور نہیں ہو گئیں وہ عدالت میں موجود رہی تھی اور جناب میں کیا بتاؤں جج صاحب سمیت عدالت میں موجود ہر شخص بس اسی کی طرف دیکھے جارہا تھا اور کیسے نہ دیکھتا، وہ تھی ہی اتنی خوبصورت حالانکہ لباس کے اعتبار سے بالکل گنوار معلوم ہو رہی تھی۔"
شاتو نے واقعی اپنا ایک وعدہ پورا کر دیا تھا۔
میں نے پوچھا:" اب ونود کب تک جیل سے رہا ہو جائے گا۔"
"اب شام تک اس کی رہائی کا پروانہ جیل پہنچے گا، اس لئے کل صبح یقیناً اس کی رہائی ہو جائے گی۔" وکیل نے جواب دیا۔
"بہر حال۔۔۔۔۔۔" میں ونود کو جیل میں اطلاع بھجوا دوں گا کہ اس کی رہائی کے احکامات پر دستخط ہو چکے ہیں۔"
"گویا۔۔۔۔۔۔" میں نے کہا:
" اب میرے یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔"
"جی ہاں۔۔۔۔۔۔" وکیل نے جواب دیا:
" البتہ آپ کل صبح جیل ضرور آ جائیں۔ میرا خیال ہے کہ صبح نو بجے تک ونود کی رہائی عمل میں آ جائے گی۔"
یقیناً میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ شاتو کے سحر کی بدولت میرا دوست رہا ہو گیا تھا اور اب شاتو کے اس وعدے کی تکمیل میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ شانتا کو بھی ونود سے ملا دے گی۔ میں اسی وقت شہر سے دوبارہ آسیب زدہ حویلی کی طرف روانہ ہو گیا۔

کہانی واقعی ختم ہوتی جارہی تھی۔
میں جب آسیب زدہ حویلی پہنچا تو دن کے چار بج رہے تھے ۔ حویلی میں سناٹا تھا۔ صرف کالکا پھاٹک کے قریب ایک اسٹول پر بیٹھا خالی خالی نظروں سے سنسان سڑک کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا:
"مزدور کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔"
"دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ ایسی گہری نیند سو گئے تھے کہ اب تک سو رہے ہیں۔" کالکا نے جواب دیا:
" لیکن آپ یہ بتائیے کہ ونود بابو کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا۔"
" وہ ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں۔" میں نے کہا:
" اور کل صبح دس بجے تک یہاں آ جائیں گے۔"
کالکا یہ خبر سن کر خوش ہو گیا ۔ لیکن اس نے پوچھا:
"لیکن مالکن کو نہ دیکھ کر ان کی کیا حالت ہوگی یہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا ہوں۔"
"لیکن کالکا۔۔۔۔۔۔" میں نے اسے تسلی دی:
"تم اطمینان رکھو شانتا بھی صبح تک آ جائے گی۔"
"مالکن ہیں کہاں؟" کالکا نے حیرت سے پوچھا۔

***
اس کے بعد کیا ہوا؟ کیا ونود جیل سے رہا ہو کر حویلی واپس پہنچ گیا؟ کیا شاتو نے اپنے باقی وعدے پورے کیے؟ کنویں کے پراسرار دروازہ سے کیا کمار داخل ہو سکا؟ یہ سب جاننے کے لیے اس ناول کی آخری قسط ملاحظہ فرمائیں، جو اسی ماہ کے آخر میں پیش ہوگی اور مکمل ناول کی پی۔ڈی۔ایف فائل بھی شائقین کے مطالعے کے لیے فراہم کر دی جائے گی۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:23

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں