ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:22 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-19

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:22


aik-bot
گذشتہ اقساط کا خلاصہ :
شانتا کا شوہر ونود اپنے دوست کمار سے لڑ پڑا تھا کہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ کیا کر رہا تھا؟ بعد میں وکیل کے ذریعے کمار کو پتا چلا کہ ونود تو جیل میں موجود ہے اور اس نے وکیل ہی کے توسط سے عدالت میں اپنی ضمانت کی درخواست داخل کر دی ہے۔ جبکہ ونود اور شانتا دونوں حویلی سے غائب ہو چکے تھے۔ ۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔

قسط : 1 --- قسط : 21
میں حیرت سے وکیل کو دیکھ رہا تھا۔
وکیل نے مزید کہا
"ونود جیل میں کافی پریشان ہے اس کو سب سے زیادہ فکر اپنی بیوی کی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں ذاتی طور پر اس کی بیوی سے بھی ملاقات کر کے اس کو اطمینان دلا دوں ، کہ جلد ہی اس کی ضمانت ہوجائے گی۔"
میں وکیل کی شکل دیکھتا رہا۔ وکیل نے مجھ سے مزید کہا
"آپ شانتا کو بلا دیں۔"
میں نے سوچا کہ میں کیوں نہ وکیل کو ساری بات بتادوں تاکہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے یہ خیال اپنے دل سے نکال دیا۔ اب میں بری طرح خوف و دہشت کے تانے بانے میں ا لجھ چکا تھا ۔ وکیل نے کہا تھا کہ ونود جیل میں ہے جب کہ یہ ایک زندہ حقیقت تھی کہ ونود گزری ہوئی رات میں حویلی میں تھا۔ اس نے مجھ سے مار پیٹ کی تھی اور پھر وہ شانتا کو لے کر غائب ہوگیا تھا۔
حالات کی نزاکت کے پیش نظر میں نے وکیل سے کہا
"شانتا قصبہ کے ڈاکٹر کے یہاں گئی ہے اور کم از کم دو گھنٹے میں واپس آئے گی اس لئے میں شام کو اسے لے کر آپ کے دفتر آجاؤں گا۔"
"بہتر بہتر۔۔۔" وکیل نے مسکرا کر کہا
" میں بہرحال آج ونود کی ضمانت کی درخواست عدالت کے سامنے پیش کردوں گا۔"
اب میں نے وکیل سے پوچھا : "ونود نے اور کیا کہا؟"
"جی کچھ نہیں"۔ وکیل نے جواب دیا
"لیکن وہ کچھ کھویا کھویا سا نظر آرہا تھا ۔ میرا اپنا خیال ہے کہ وہ کسی حادثے سے بہت زیادہ متاثر تھا۔"
"کیا مجھے بھی آج عدالت آنا پرے گا۔" میں نے سوال کیا۔
"نہیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔"وکیل نے جواب دیا
"لیکن اگر عدالت نے ضمانت کی درخواست منظور کرلی تو کل آپ کی ضرورت پڑے گی۔"
"خیر۔۔۔۔" میں نے ایک لمبی سانس لے کر کہا
"میں آج شام کو آپ سے ملنے آؤں گا اور شانتا میرے ساتھ ہوگی۔"
میں اتنا بدحواس تھا کہ میں نے وکیل سے چائے کے لیے بھی نہیں کہا تھا، وہ موٹرپر بیٹھا رہا تھا اور میں اسی عالم میں اس سے باتیں کررہا تھا۔ وکیل کے جانے کے بعد میں نے کالکا کو بھی ساری بات بتادی اور پھر جیسے اسپر سکتہ طاری ہوگیا۔
چند لمحات کے بعد اس نے کہا
" اس کا مطلب یہ ہوا کہ مالکن کا اغوا کسی بھوت نے کیا ہے ۔"
"ہاں۔۔۔۔۔۔" میں نے حلق میں اٹکا ہوا تھوک نگلتے ہوئے کہا
" اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یا شانتا مرچکی ہے اور یا اسی حولی کے کسی پوشیدہ حصے میں موجود ہے ۔"
"میں پاگل ہوجاؤں گا ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔" کالکا نے جواب دیا۔
"بالکل یہی حالت میری بھی ہے ۔" میں نے بڑے سرد لہجے میں اپنا جملہ پورا کیا اور پھر مزید کہا
" بہر حال کالکا۔۔۔ہمیں حالات کا مقابلہ کرنا ہے ، اس لئے میری طرح تم بھی اپنی ہمت نہ ہارو۔ بھگوان ہماری مدد ضرور کرے گا۔"
ایک لمحہ توقف کے بعد میں نے مزید کہا"میں یہاں کنویں کے قریب موجود ہوں ، تم ایک مرتبہ پھر حویلی میں شانتا کو دیکھ لو۔۔۔۔۔۔"
"بہت اچھا۔۔" کالکا نے بے دلی سے کہا اور میں کنویں کی منڈیر پر چڑھ گیا۔
موٹر پمپ کے ذریعہ کنویں کا پانی بڑی تیزی سے باہر نکل رہا تھا۔
میں نے ایک مزدور سے پوچھا
"کیا کنویں کا تمام پانی نکالنا ضروری ہے۔"
"جی ہاں۔۔۔۔"مزدور نے جوا ب دیا
"ہم اپنا کام جب ہی شروع کرسکتے ہیں ، جب کنواں بالکل ہی صاف ہو جائے۔"
" اس کام میں کتنی دیر اور لگے گی۔"میں نے سوال کیا۔
"کم از کم دو گھنٹے۔۔۔۔۔۔" مزدور اتنا کہہ کر کنویں میں جھانکنے لگا۔

میرا دماغ اب بالکل شل ہوچکا تھا ، گزری ہوئی بھیانک رات کے واقعات اور وکیل کے انکشاف نے ذہنی طور پر مجھے اتنا ماؤف کردیا تھا کہ اب مجھ میں سوچنے اور سمجھنے کی تمام صلاحیت ختم ہوچکی تھی ۔ چنانچہ میں آرام کرنے کے ارادے سے اس کمرے کی طرف بڑھا جو میری رہائش کے لئے مخصوص کیا گیاتھا اور جس میں ایک رات بھی مجھے آرام سے سونا نصیب نہیں ہوا تھا۔
تھکے تھکے قدموں کے ساتھ میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ غیر ارادی طورپر میری نگاہ شاتو کے بت کی طرف گئی اور پھر جیسے میرے قدم زمین پر جم کے رہ گئے۔
کیوں کہ شاتو کا بت چبوترے سے غائب تھا۔
مجھے شاتو کا بت غائب دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی، حیرت اس بات پر ہوئی تھی کہ شاتو کا بت آج تک کبھی دن کی روشنی میں اپنی جگہ سے نہیں ہٹا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بت دن کی روشنی میں غائب ہوا تھا ۔ میں سمجھ گیاکہ یا تو شاتو کوئی نئی شرارت کے لئے غائب ہوئی ہے اور یا اس وقت وہ کسی نئی سازش میں مصروف ہے، میں ابھی اسی جگہ کھڑا خیالات میں گم تھا کہ میرے قریب شاتو کی جانی پہنچانی آواز گونجی۔
"ڈاکٹر۔۔۔۔۔" شاتو کی آواز اس وقت ضرورت سے زیادہ نرم اور میٹھی تھی ۔"اپنے کمرے میں چلو۔ میں تم سے ایک فیصلہ کن گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔"
"میں اسی طرف جار ہا تھا۔" میں نے ڈرے بغیر جواب دیا۔
"لیکن یہ بتاؤ کہ تم بات کیا کرنا چاہتی ہو۔"
"ایک بہت اہم بات۔" شاتو نے بدستور نرم لہجے میں کہا
"ایک ایسی بات جس کا تعلق تمہاری شانتا کی ذات سے ہے۔"
"میں تیار ہوں۔۔۔۔۔" میں نے دلیری سے کہا
"لیکن میں یہ پہلے سے واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں تم سے کوئی سودے بازی نہیں کروں گا۔"
شاتو نے میرے اس تلخ جملے کا کوئی جواب نہیں دیا۔
چند منٹ بعد جب میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو شاتو وہاں پہلے سے موجود تھی ، کیوں کہ اب مجھے اس کا وجود بالکل صاف نظر آرہا تھا۔
میں شاتو کو اس سے قبل بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا تھا، لیکن اس وقت کی شاتو میں اور گزرے ہوئے دنوں کی شاتو میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
اس وقت شاتو کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس نے بہار کی تمام لطافتوں اور رعنائیوں کو اپنے وجود میں سمیٹ لیا ہو اس کی ہلکی نیل آنکھیں کسی پہاڑی جھیل سے زیادہ خوبصورت نظر آرہی تھیں، یاقوتی لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور بکھری ہوئی لٹوں کے پیچھے اس کی پیشانی پر پہلی رات کے چاند کا گمان ہورہا تھا۔
میں سچ کہتا ہوں میں شاتو کے اس حسن کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔
میں نے شاتو سے بڑے ملائم لہجے میں کہا
"تم مجھ سے شانتا کے بارے میں کیا بات کرنا چاہتی ہو"
دراصل میں اب اس ڈرامہ کو ختم کرنا چاہتی ہوں۔" شاتو نے بڑے اداس لہجے میں جواب دیا ۔
"کیا واقعی۔۔۔۔۔" میں نے حیرت سے کہا۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔" شاتو نے جواب دیا۔" کیوں کہ میں تھک چکی ہوں۔"
" اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحیں بھی کبھی کبھی تھک جاتی ہیں۔" میں نے شاتو کے حسن کا ایک گہرا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔"شاتو نے بڑے اداس لہجے میں جواب دیا۔
"لیکن مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ۔۔۔۔مجھے شکایت ہے تو صرف اپنی بد نصیبی سے ۔ میں یہ بھول گئی تھی کہ اس دنیا میں کڑوے پھل بھی ہوتے ہیں اور میٹھے بھی، میں واقعی بہت زیادہ تھک گئی ہوں، اس لئے کہ میں بہ حال ایک عورت ہوں اور عورت کو اپنا بوجھ تنہا اٹھانا پڑتا ہے ، عورت کا بوجھ جب کہ وہ بالکل تنہا ہو خود عورت کے ہی کندھوں کو اٹھانا پڑتا ہے ۔"
شاتو ایک بڑے متاثر کن لہجے میں اپنے دل کا درد بیان کررہی تھی ، اور میں اس طرح خاموش کھڑا ہوا تھا جیسے مجھے کسی کے جنازے کا انتظار ہو ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت شاتو مسکرارہی تھی بالکل اپنے بت کی غیر قانونی مسکراہٹ کی طرح۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت اس کی نازک چھاتی میں چھپا ہوا دل ایک یاس انگیز دھڑکن سنا رہا تھا۔
اچانک میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے اور پھر تو جیسے ان آنسوؤں کا تانتا سا بندھ گیا ۔ آنسوؤں کے صاف قطرے اس کی سیاہ پلکوں پر موتیوں کی طرح ابھرنے اور غائب ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔یقینا اسے اپنی گزری ہوئی زندگی یاد آنے لگی ہوگی وہ زندگی جس میں اسے اپنے محبوب کا بھرپور پیار ملا تھا ، اور جس کا ہر لمحہ آسودگی اور مسکراہٹوں سے لبریز تھا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ شاید اس وقت شاتو کو اپنی زندگی کا پہلا پیار یاد آگیا ہو ۔ وہ پیار جس نے ماضی میں اس کو خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیا تھا ۔
شاتو اس وقت شاید یہ بالکل بھول گئی تھی کہ وقت کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور وقت کسی کو بھی اپنا ہم سفر نہیں بناتا ہے ۔
شاتو اب مسکرارہی تھی ، اور میں پوری شدت کے ساتھ محسوس کررہا تھا کہ اس کی مسکراہٹ کے نیچے حسد اور کرب کا مہیب طوفان کروٹیں لے رہا ہے ۔ اس کی اس مسکراہٹ میں واقعی تلخیاں اور مایوسیاں بھری پڑی تھیں۔
میں آج سے قبل بارہا مسکراتی ہوئی عورتوں کو دیکھ چکا تھا ۔ اور آج سے قبل میں نے یہ سوچابھی نہ تھا کہ کبھی کبھی ایک مسکراتی ہوئی عورت کی چھاتیوں میں چنگاریاں بھی بھری ہوتی ہیں ، میں شاتو کی اس مسکراہٹ کی جلن میں جیسے جھلس کر رہ گیا۔ میں نے سوچا شاتو واقعی ایک مکمل عورت ہے کیونکہ عورت اپنی وفاؤں کے مرکز سے بہت کم ہٹا کرتی ہے ۔
شاتو مسکرارہی تھی اور میں اس کی صدیوں پرانی محبت کو ایک شکست میں تبدیل ہوتے دیکھ رہا تھا کیوں کہ یہ مسکراہٹ، مسکراہٹ نہ تھی، یہ مسکراہ آنسوؤںکا ایک سیل رواں تھی اور عورت کی فطرت یہ ہے کہ جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوجاتی ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک آتے ہیں۔
شاتو نے ابھی ایک ہی جملہ کہا تھا لیکن اسی ایک جملے نے مجھے پلک جھپکتے میں اس کا ہمدرد بنادیا تھا ، مجھے شاتو سے ہمدردی ہونے لگی تھی ، ہمدردی کے اسی نئے جذبے سے متاثر ہوکر میں نے شاتو سے کہا
"شاتو۔۔۔۔۔۔۔مجھے بتاؤ تم کیا چاہتی ہو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس وقت سے تم مجھے اپنا ہمدرد سمجھو لی کن بھگوان کے لئے اپنی آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ۔"
لیکن شاتو بدستور روتی رہی، البتہ اس کی مسکراہٹ اور زیادہ گہری ہوگئی۔
چند لمحات کے بعد میں نے شاتو سے مزید کہا" میری بے چینی بڑھتی جارہی ہے شاتو۔مجھے اپنے دل کا حال بھی بتاؤ اور یہ بھی بتاؤ کہ شانتا کہاں ہے، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس وقت سے میں تمہارا ساتھ دوں گا اور اس کی پوری کوشش کروں گا کہ تمہارے دل کا درد مٹ جائے۔"
"میرے دل کا درد ونود کے بغیر نہیں مٹ سکتا ۔۔۔۔۔۔"شاتو نے جواب دیا
" میں ونود کے ہی انتظار میں اب تک اس دنیا میں بھٹک رہی تھی، ونود نہ ملا تو میں ہمیشہ ا س دنیا میں موجود رہوں گی ، جب کہ اصولاً اب اس دنیا میں مجھے رہنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ "
شاتو نے مزید کہا
"میں تم سے کہہ چکی ہوں کہ اب میں اپنی کہانی ختم کرنا چاہتی ہوں ، میں اب کسی واقعے اور کسی حادثے کو جنم دینا نہیں چاہتی۔ میری وجہ سے ونود کو بڑی تکلیف پہنچی ہے ۔ میں اب اس کو مزید تکلیف پہنچانا نہیں چاہتی۔"
" اور تم یہ اب کہہ رہی ہو جب کہ ونود قتل کے الزام میں جیل میں بند ہے ۔" میں نے شاتو سے ہمدردی کے باوجود طنزاً کہا۔
"ونود کو میں نے ہی جیل بھجوایا تھا اور میں ہی اس کو وہاں سے نکلوا بھی لوں گی۔" شاتو نے کہا
"آج عدالت میں ونود کی ضمانت کی درخواست پیش ہوگی، یہ میرا وعدہ ہے کہ اس کی ضمانت منظور ہوجائے گی ۔ اس لئے تم کل دن میں شہر جاکر اس کی ضمانت داخل کرکے اس کو رہا کرا لینا۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔"

***
شاتو نے کیا کہانی سنائی اور کمار سے کیا سودے بازی کی؟ کیا ونود رہا ہو گیا؟ یہ سب جاننے کے لیے اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:22

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں