بھکتی تحریک - کبیر اور تلسی داس کے حوالے سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-03-03

بھکتی تحریک - کبیر اور تلسی داس کے حوالے سے

india-bhakti-movement
بھکتی تحریک کا آغاز محبت ،عقیدت و خلوص کے مسلک کے طور پر ہوا۔جسے جنوبی ہند کے دو برہمنوں الوار اور ادیار نے بھگوت گیتا اور دوسری مذہبی کتب کی تعلیمات کی بنیاد پرتشکیل دیا۔ پرانے اور نئے ہندو اور مسلم تہذیب کے دو چشموں کے سنگم سے قرون وسطی کے ہندوستان میں بھکتی تحریک کا آغاز ہوا۔ویشناچاریوں اور سیوا سدھانت گروؤں نے اس کو شنکر اچاریہ کی آدرشی رسمی پابندی کے علی الرغم ما بعد الطبیعاتی اصول پر ترقی دی۔ویشنوچاریہ میں سب سے نمایاں ہستی رامانج کی تھی۔جنھوں نے وحدت مطلقہ کو باطل قرار دے کر ویدانتی فلسفہ کی حدود کے اندر بھکتی کا مسلک قائم کیا۔رامانج کے ہاں برہمن کو فوقیت حاصل ہے اور انسان اتم ہے۔انسان کامل ہے اور وہ سب سے افضل ہے۔ان کے نزدیک (پرکرتی) مادہ اور روح (جیو) وجود میں آئے۔"یہ دونوں حق ہیں"۔وہ ایشور کو پابند نہیں کرتے ہیں،بلکہ اس کی مرضی کے تابع ہیں اور اپنے وجود کے لئے اس کے دست نگر ہیں"۔
بھگتی تحریک جنوب سے شمال پہنچی جہاں اس نے ویشنواویت کو تقویت دی ۔ہم تاریخی اعتبار سے بھکتی تحریک کے ارتقاء کو دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔جنوبی ہند میں آغاز سے لے کر تیرہویں صدی تک رہا اور دوسرا تیرہویں صدی سے سترہویں صدی تک اور جب اسلام ہند میں داخل ہوا تو اس نے اپنی یعنی بھکتی تحریک نے اپنی حفاظت کے لئے اسلام کے توحید کے فلسفے کو مستعار لیا۔چودہویں صدی کے اوائل میں صوفیوں اور خانقاہوں کے ذریعہ اسلام تیزی سے سے پھیل رہا تھا۔رامانند جوبھکتی کی تحریک میں رام کی پوجا کا شمالی ہند میں خاص محرک تھا۔بنارس میں مسلم علماء سے اسکے روابط تھے۔ان کے شاگردوں کو دو دبستانوں میں با نٹا جا سکتاہے۔اوّل کٹّر شاگرد جن میں نابھہ داس اور تلسی داس تھے۔انھوں نے رام اور کرشن کے عشق مجازی مسلک کو محتاط انداز میں عروج دیا۔رامانند کے پیرؤں کا یہ اصول پرست دبستان دائرہ ہندومت میں مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہیں۔اور اسلام سے متحرک کرنے والے کچھ اثرات بھی قبول کئے ہیں۔دوسرا دبستان جسکی نمائندگی کبیر اور انکے شاگرد کرتے ہیں۔یہ دبستان ویدوں اور ہندومذہبی رسوم کے برتنے کے سلسلے میں شکوک وشبہات میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اور اسلام سے متعلق بھی اس کا نظریہ شکوک سے پر ہے۔وہ اسلامی رسوم اورمصحف آسمانی کا قائل نہیں بلکہ انکاری ہے ۔حالانکہ وہ اسلام کے ساتھ روحانی سطح پر اسکی تعلیمات کو قبول کرتا ہے۔لیکن اسکی بنا خدا ئے بزرگ و برتر کے ساتھ رام کی پوجا اور اس کے ساتھ غیر متزلزل عقیدت پر قائم تھی۔کبیر کہتے ہیں ۔ لوٹ سکے تو لوٹ لے،رام نام کی لوٹ پاچھے پھر پچھتاوگے ،پران جاہی جب چھوٹ
جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا گیا اور حالات بدلتے گئے ،ہندوستان میں صوفیوں کی آمد کا سلسلہ بھی تیز ہوتا گیا اور وہ اپنی تعلیمات کی مقامی زبان میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔تیرہویں صدی میں صوفی مبلغ پورے ہندوستان میں پھیل گئے تھے۔چونکہ یہاں اعلیٰ طبقہ کی بالا دستی تھی اور ورنہ نظام قائم تھا۔اعلیٰ اور ادنیٰ ،چھوت اچھوت کا تصور پایا جاتا تھا۔جسکے نتیجے میں نچلے طبقے کے لوگ اعلیٰ ذات کے لوگوں کی ظلم و زیادتی کے شکار تھے۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفیوں کی تعلیمات کو ان لوگوں نے قبول کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے لگے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس ظالمانہ نظام سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔اور برہمنی رسوم پرستی میں قبول اسلام کا چیلینج قبول کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔مختلف تحریکات کا جب بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ بیشتر دیگر مذاہب کی تحریکات نے اسلام کی تعلیمات کے اثرات کو قبول کیا ہے۔ بھکتی تحریک میں جو گرو کو مان (عزت) دی جاتی ہے یہ بھی انھوں نے صوفیوں سے ہی لی ہے۔اس طرح رام کے نام کا جپ بھکتی تحریک میں صوفیوں کے ذکر وسلوک سے ہی لیا گیا ہے۔
14 ویں صدی میں رامانند کا خاص کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے نچلے طبقے کے لوگوں کو مذہبی تجربات سے روشناس کرایا ۔جنھیں انکے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں تھی ۔اگر ہم مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے بھکتی تحریک کے چوٹی کے شعراء نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔رامانند کا ایک شاگرد جو ذات کے اعتبار سے چمار (موچی) شودر تھا۔اس نیاعلی ٰ طبقے کے نظام کے خلاف نظمیں لکھیں۔اس وقت کی رائج زبان کو استعمال کیا۔بھکتی تحریک کے ماننے والوں نے ذات پات کے نظام کو ٹھکرا دیا اور خود کو آزاد کر لیا۔رامانند کیشاگردوں میں صرف ہندو مت کے ماننے والے ہی نہیں تھے بلکہ اس میں مسلمان بھی شامل تھے۔اس وقت کرشن مسلک خاص طور پر مسلمانوں کے لئے پر کشش تھا۔رس خاں کے قصہ کا ،جو مرتد ہوگیا تھا اور جس نے کرشن سے عقیدت کے اظہار کے لئے “پریم پاٹیکا “بھی لکھی تھی اور اس نے اسکی طرح کے مرتد مسلمانوں کے گروہ کو اکٹھا کیا تھا۔
ہندؤں کا معاشرتی نظام ایک ہی وقت میں ضرورت سے زیادہ لچکدار اور سخت تھا۔خاندان اورذات برادری کے بندھنوں میں جکڑے فرد کو اپنی ذاتی جوہر بتانے کے مواقع ہی نہیں دیئے جاتے تھے ۔ذات پات اور برادری کے اس نظام نے انھیں تنگ اور آٹوٹ جماعتوں میں تقسیم کردیا تھا۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ ایک ذات کے افراد نہ دوسری ذات میں داخل ہوسکتے تھے اور نہ دوسری ذاتوں کے ساتھ انکی یگانگت کا احساس تھا ۔برہمن اعلیٰ طبقہ ہوا کرتا تھا اس کی ہر چیز پر اجارہ داری تھی۔
چونکہ ہندو تہذیب کی یہ عظیم الشان کوشش تھی جس کا مقصد اپنے معاشرتی نظام کو ایک عالمی نظریے پر قائم کرنا تھا۔مشہور مقنن منو کی تعلیم کے مطابق برہمن کی عظمت اس کے علم پر ہے۔ اور ورنا نظام قائم کیا۔اور پھر یہ نظام جسے وہ شاندار اور عظیم الشان نظام کہتے ہیں ، ترکوں اور تاتاریوں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کرنے کے باوجود ان کو روک نہ سکیں۔اور اسکی وجہ آپسی انتشار اور اتحاد کا نہ ہونا تھی۔اور سماجی انتشار بھی پایا جاتا تھا۔دوسری طرف صوفیا ء کرام کے عقیدوں نے ہندوستان کی تہذیب کی ثروت میں قابل قدر اضافہ کیا۔مذہبی اور سماجی زندگی کی ترقی میں قابل قدر کردار انجام دیا۔توحید باری پر واضح اور شدید ایمان رکھنے کی تعلیم دی اور عشق کی پر زور تاکید کی۔کیونکہ عبادت کی روح اور عمل صالح کی وہی اصل ہے ۔اور اس سے فائدہ تمام ہی مذہب کے ماننے والوں نے اٹھایا خاص طور سے اوسط طبقے کے ان لوگوں نے جو سنجیدگی کے ساتھ حق وصداقت کے علمبردار تھے بڑی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔
صوفیائے کرام کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں ہندوستان ایک دوسرے کی تہذیب ،رسم ورواج سے آشنا ہوئے۔اوربھکتی تحریک پر اسکے دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ اور پھر اس تحریک کی بہت ساری شاخیں پھوٹیں۔انھوں نے خدا کی وحدت کا پرچار کیا۔مورتیوں کی پرستش زیارت گاہوں کی یاترا اور ظاہری رسوم کی پیروی کو غلط قرار دیا۔اور دوسری طرف اسکے متبادل کے طور پر روحانی نظم و ضبظ ،انسان کی محبت اور خدمت ،اجتماعی دعا اور عبادت ،اعلیٰ اخلاق ،تقدس اور پاکیزگی پر زور دیا۔ذات پات کی تفریق اور اونچ نیچ کے بھید باؤ کی سختی سے مذمت کی ۔بھکتی کا نظریہ آسان اور سہل تھااور پھر یہ ان پڑھ ،غریب ،سیدھے سادے ،اچھوتوں کے لئے تمام کردیا گیا۔
مسلمانوں کے مرتد افراد کا گروہ اکٹھا ہوگیا۔اور اس نے اپنا کام شروع کیا۔ان میں کا ایک فرد جو سب سے زیادہ آزاد اور روشن خیال سمجھا جاتا تھااور روحانی طور پر رامانند کے خاص ماننے والوں میں جس کا شمار ہوتا تھا،جو کہ خود بھی ایک اچھا شاعر تھا جس کا نام کبیر ہے۔اس نے انتخابیت اور آزادہ روی کو پیش کیا۔اور اس تحریک کی جڑیں رام کے مسلک میں مضبوطی سے قائم تھیں۔کبیر کی پیدائش ،زندگی اور موت ایک رنگا رنگ افسانے کے دھند میں پوشیدہ ہے۔کبیر کی شاعری بھکتی مذہب کی محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اسکی توحید پرستی خالص نہیں ہے۔ وہ ثنویت کا قائل ہے،ست پرش میں یقین رکھتا ہے ،وہ خدا کے مقابل کال پرش یا نرنجن یعنی ایک خبیث ذات کے وجود کابھی قائل ہے جو بے پناہ قوت کا مالک ہے۔جس نے دنیا کو پیدا کیاہے اور جس سے (تری مورتی) تین دیوتا وجود میں آئے یعنی برہما ،وشنو اور مہیش جنھوں نے چار وید ،چھ شاستر اور اٹھارہ پران تصنیف کئے ہیں۔بنیادی طور پر کبیر ایک عوامی شاعرتھے اور مسلمانوں کے علاہ دیگر طبقات میں انھوں نے عام اور دیر پا ہر دل عزیزی حاصل کی۔
بھکتی کے دیگر آزاد منش شعراء میں داؤد دیال کا شمار ہوتا ہے ۔وہ اکثر صوفیا ئے کرام کی صحبت میں رہتے تھے۔دوسرے بھگتی شعرا ء کے مقابلے میں اسے اسلامی تعلیمات اور اسلام سے زیادہ واقفیت تھی ۔لیکن کبیر کی طرح وہ بھی مسلمانوں کی آسمانی کتاب اور ہندوؤں کی کتابوں کا منکر تھے۔اور وہ رام کے نام سے خدا کی عبادت اور پوجا میں شدت سے یقین رکھتے تھے۔بیر بھان داؤد کا ہم عصر تھا جس نے ستنامی فرقے کی بنیاد ڈالی ۔جو ذات پات کے نظام کا سخت مخالف تھا، وہ سخت محتاط قسم کے موحد تھے۔خصوصاً وہ سنسکرت کا عالم تھے ۔انکی تصنیف “سندر ولاس “ خالص سنسکرت کے ماخذات پر مبنی ہے۔
دوسری طرف کٹر رام پرست دبستان کا نمائندہ تلسی داس تھے۔ جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے عبد الرحیم خان خاناں کی سر پرستی حاصل تھی لیکن وہ صرف ہندؤں کے لئے لکھتے تھے۔اس کا عظیم کارنامہ “رام چرتر مانس “ ہے۔جو ایک مذہبی رزمیہ ہے،جس میں رام کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ اکبر کی روشن خیالی اور حکمت عملی کے باوجود تلسی داس اس دور کو تاریک حرص و لوبھ اور روحانی و اقتصادی افلاس کا دور سمجھتا تھا۔ اکبر و کبیر کے ہر قسم کے اتحاد مذہب کی مساعی کو منافقانہ سمجھتا تھا۔تلسی داس کہتے ہیں۔
رام نام منی دیپ دھرو جہی دہری دوار ۔ تلسی بھتر باہر ہوں جو چاہی سی اجیہار
نامو رام کو کلپ ترو کلی کلیان نیواسو ۔ جو سمرت بیھو بھانگ تے تلسی تلسی داس
بھکتی تحریک کے مہاراشٹرا میں کیا کچھ اثرات ہوئے اسکا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔مہاراشٹرمیں بھکتی تحریک کی مسلک رامانند پر نشو نما ہوئی۔اس کا سب سے پہلا نمائند ہ سنت نامدیو ہے جنکا تصور اتحاد مذہب نہایت دلچسپ انداز میں کبیر کے متوازی تھا۔وہ کبیر ہی کی طرح ہندومت اور اسلام کے رسوم و عبادات کی تنقیص کیا کرتے تھے۔کافی وسیع پیمانے پر اپنے مریدین کا حلقہ انھوں نے بنایا تھا،جن میں ہندؤں کے علاہ مرتد مسلمان بھی شامل تھے۔ مہاراشٹر میں اس تحریک کا مرکز پنڈھر پور میں وٹھوبا کا معبد تھا۔مرہٹی ادب کو انھوں نے کافی تقویت پہنچائی۔ساتھ ہی ذات پات کے نظام کی قید و بند کو بہت حد تک نرم کرنے کی کوشش کی۔ مرہٹہ سنتوں میں سب سے زیادہ ذی اثتر شخصیت سنت تکارام کی تھی جنکا تصور الہٰ بھی کبیر سے جاکر ملتا ہے۔اور انھوں نے تصوف کی بعض اصطلاحات کو اپنے بھجنوں میں خوب استعمال کیا ہے۔اس طرح بھکتی تحریک جس نے سر زمین ہند پر اسلام کے روحانی غلبہ کو بے اثر بنانے کی حتی المقدور کوشش کی وہ خود ہی اسی سر زمین پر بدیسی ہوگئی۔
۔۔۔۔
حوالہ جاتی کتب :
1) اسلامی کلچر ڈاکٹر جمیل جالبی
2) اسلام اور تصوف مولانا عبد الحق
3) کلیات نظام خطبات
4) https://dohawali.wordpress.com کبیر و تلسی داس کے دوہے۔

***
Head Urdu Dept. Shivaji College, Hingoli. Maharashtra.
ای-میل: profiqbaljaved[@]yahoo.com
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال

Bhakti movement in India with reference to Kabir and Tulsidas. Article: Prof Dr Mohammad Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں