فتح قسطنطنیہ کے یورپی اور اسلامی دنیا پر اثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-21

فتح قسطنطنیہ کے یورپی اور اسلامی دنیا پر اثرات

ماخوذ : سلطنت عثمانیہ (ترکوں کی مفصل سیاسی تمدنی اور تہذیبی تاریخ)۔
تصنیف: ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی۔ اردو ترجمہ: علامہ محمد ظفر اقبال کلیار۔ ناشر: ضیا القرآن پبلیکیشنز، لاہور (پاکستان)۔

قسطنطنیہ یورپ میں اسلام کی اشاعت کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا ۔ اسی لئے اس کے سقوط کا مطلب تھا یورپ میں مسلمانوں کے پہلے سے کہیں زیادہ طاقت اور سلامتی کے ساتھ اسلام متعارف کرانے میں کامیابی ۔ قسطنطنیہ کی فتح کو تاریخ عالم کے اہم ترین واقعات میں شمار کیاجاتا ہے ۔ بالخصوص یورپ کی تاریخ اور اسلام کے ساتھ اس کے تعلق کے حوالے سے یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حتی کہ یورپی مورخین اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نگاروں نے اسے از منہ وسطی کا اختتام اور عہد ہائے جدید کی ابتداء شمار کیا ہے ۔ (بحوالہ: تاریخ الدولۃ العثمانیہ: یلماز اوزنتونا، ص:384)

فتح کے بعد سلطان نے شہر کی تعمیر نو کے سلسلہ میں بہت سے کام کئے ۔ اس کی فصیلوں او قلعہ بندیوں کو مضبوط کیا۔ اسے دولت عثمانیہ کا دارالحکومت بنایا اور اسکا نیا نام"اسلا م بول" یعنی اسلام کا شہر تجویز کیا۔ جوبعد میں استنبول مشہور ہوگیا اور عرصہ تک ترکی کا دارالحکومت رہا۔
مغرب کی نصرانی دنیا اس فتح کی خبر سے بہت متاثر ہوئی ، نصرانیت پر خوف وہراس اور ناکامی کا احساس چھا گیا ۔ اور استنبول سے آنے والی فوجوں کا انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہنے لگا ۔ نصرانی شعراء اور ادباء نے حتی المقدور کوشش کی کہ نصرانیوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف کینہ کی آگ اور غیض و غضب کا لاوا پھوٹ پڑے ۔ امرا اور ملوک نے مسلسل کئی کئی روز تک میٹنگز(meetings)) کیں۔ نصرانیوں کو تمام اختلافات اور رنجشیں بھلا دینے کی صدائیں دی گئیں ۔ پوپ نیقولا پنجم سقوط قسطنطنیہ کی خبر سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ۔ اس نے اپنا سارا وقت اور تمام کوششیں ایطالوی ملکوں کو متحد کرنے کے لئے صرف کردیں ۔ اور انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی ۔ روما میں پوپ کی سربراہی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شریک تمام ملکوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ اس سلسلہ میں پورا پورا تعاون کریں گے اور اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اپنی تمام کوششیں اور وسائل صرف کریں گے ۔ قریب تھا کہ یہ معاہدہ اپنی تکمیل کو پہنچتا کہ اسی دوران پوپ کو موت نے آلیا۔ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سقوط قسطنطنیہ کے روح فرسا صدمہ برداشت نہ کرسکا۔ یہ واقعہ اس پر غم و اندوہ کا پہاڑ بن کر ٹوٹا اور وہ اندر ہی اندر گھٹ کر25مارچ1455ء کو فوت ہوگیا۔ (بحوالہ: السلطان محمد الفاتح، ص: 136-137)

امیر فلپ طیب ڈیوآف برگنڈی کے جذبات کو بھی بڑی ٹھیس پہنچی ، وہ غیظ و غضب اور غیرت و حمیت سے جل بھن کر رہ گیا۔ نصرانی بادشاہوں کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ کئی دوسرے جنگجو ، گھوڑ سوار ، انتہا پسند اور نصرانیت سے قلبی لگاؤ رکھنے والے بھی اس کے قدم بقدم چلے۔ مسلمانوں کے خلاف یہ جنگ ایک مقدس عقیدے کا رنگ اختیار کر گئی ۔ پورا یورپ اپنے اپنے ملکوں کو بچانے کے لئے آمادہ قتال ہوگیا ۔ مسلمانوں کے خلاف نصرانیوں کی ان جنگوں کی سربراہی روم کے پوپ کررہے تھے ۔ سلطان محمد فاتح نصرانیوں کی ان حرکتوں سے قطعاً غافل نہیں تھا۔ وہ ان کے بارے میں پوری اطلاعات رکھتا تھا ۔ اس نے بھی اپنی دولت کی تقویت اور دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے بڑی احتیاط سے منصوبہ بندی کی اور وہ تمام اقدامات کئے جو ضروری تھے ۔ جو نصرانی علاقے سلطان محمد کے پڑوس میں تھے یا آماسیاہ بلاد مورہ اور اطرابزون جیسے علاقے جن کی حدود سلطنت عثمانیہ سے آکر ملتی تھیں، نے اپنے حقیقی جذبات کو چھپانے خوشی و مسرت کی ایکٹنگ(acting) کرتے ہوئے اپنے وفود سلطان کی خدمت میں بھیجے اور اس عظیم کامیابی پر انہیں مبارکباد دی۔
پوپ بیوس ثانی اپنی چرب زبانی اور سیاسی مہا
رت کو کام میں لاتے ہوئے نصرانی قو م ، بادشاہ ، قائدین اور سپاہ کے دل میں اپنے روایتی صلیبی کینہ کی آگ کو تیز تر کرنے کی پوری کوشش کرنے لگا اور بعض ملک عثمانیوں کے خاتمے کی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار ہوگئے ۔ لیکن جب لشکر کشی کا وقت آیا تو ان میں سے بعض نے معذرت کی کہ ان کے ملک کو داخلی مسائل کا سامنا ہے ۔ انگلستان اور فرانس کی سو سالہ جنگ نے انہیں تھکا دیا تھا ۔ اور اب یہ کسی نئے میدان جنگ میں اترنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔ برطانیہ اپنی گھریلو جنگوں اور دستوری بکھیڑوں میں الجھا ہوا تھا ۔ ہسپانیہ اندلس کے مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف تھا ۔ جب کہ اٹلی کی جمہوری سلطنتیں مجبوراً جلب زرہ کے لئے دولت عثمانیہ سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے میں مصروف تھیں۔

اس صلیبی حملے کا پروگرام پوپ کی موت کے ساتھ ختم ہوگیا جو اس حملے کی سربراہی کررہ اتھا ۔ ہنبگری اور بلگیریا نے اکیلے دولت عثمانیہ کا سامنا کیا پھر بلگیریا نے توفوراً دوستی کا معاہدہ کرلیا اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر عثمانیوں کے ساتھ بہترین پڑوسی کی حیثیت سے رہنے کے عزم کا اظہار کیا جب کہ ہنگری کو عثمانیوں کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہوا اور عثمانی فوجوں نے سربیا، یونان ، افلاق، قرم اور ارخبیل کے بڑے بڑے جزیروں کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا اوریہ سب کچھ بہت تھوڑے عرصہ میں ہوگیا ۔ سلطان محمد اچانک ان پر حملہ آور ہوا اور ان کی جمعیت کو بکھیر دیا اور انہیں خوب سزا دی۔

پوپ بیوس ثانی نے اپنی پوری مہارت اور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی توجہ دو پہلوؤں پر مرکوز رکھی ۔ ایک تو اس نے کوشش کہ عثمانی نصرانی مذہب کو قبول کرلیں ۔ اس نے اس مقصد کے لئے بشارتی وفد بھیجنے کی بجائے سلطان کی خدمت میں ایک خط بھیجا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ نصرایت کو مدد باہم پہنچائیں ۔ جس طرح اس سے پہلے قسطنطین اور کلوفیس نے اس کی سرپرستی کی ۔ پوپ نے سلطان سے وعدہ کیاکہ اگر وہ اخلاص کے ساتھ نصرانیت کو قبول کرے گا تو پوپ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا اور اس کو اپنی برکتوں اور سرپرستی سے نوازے گا ۔ پوپ نے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر سلطان اخلاص کے ساتھ نصرانی مذہب کو قبول کرے گا تو پوپ اسے جنت میں جانے کا سرٹیفکیٹ دے گا۔ جب پوپ اپنے اس منصوبے میں ناکام ہوا تو اپنے دوسرے منصوبے کو کامیاب کرنے کی کوشش کی ۔ اس نے سلطان کو دھمکی دی ،، انہیں ڈرایا اور طاقت استعمال کرنے کی بات کی ۔ اس دوسرے منصوبے کے نتائج بھی بہت جلد سامنے آگئے ۔ صلیبی لشکر کو شکست ہوئی اور وہ جملہ جس کی قیادت ہونیا دہنگری کررہا تھا بری طرح ناکام ہوگیا۔
رہے قسطنطنیہ کی فتح کے اثرات مشرق کی اسلامی سلطنتوں پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایشیاء اور افریقہ کے علاقوں میں مسلمانوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ یہ فتح ان کے آبا و اجداد کا خواب تھی اور کئی نسلوں سے وہ اس خواب کی تعبیر کے لئے بے قرار چلے آتے تھے ۔ اب ایک عرصہ بعد وہ اپنی آنکھوں سے اس خواب کی تعبیر کو دیکھ رہے تھے ۔ سلطان محمد فاتح علیہ الرحمۃ نے مصر، حجاز، بلاد فارس اور ہندوستان کی اسلامی حکومتوں کو خطوط ارسال کئے اور انہیں اس عظیم اسلامی فتح کی خوشخبری سنائی۔ اسلامی ممالک میں اس عظیم کامیابی کی بر سر منبر تشہیر کی گئی۔ شکرانی کی نماز ادا کی گئی ۔ گھروں اور دکانوں کو سجایا گیا۔ اور دیواروں ، فصیلوں اور کپڑے کے بینروں پر مختلف رنگوں میں لکھ کر اس خبر کی خوب تشہیر کی گئی۔

کتاب "بدائع الزھور" کے مصنف ابن ایاس اس واقعہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
" جب یہ خبر مصر پہنچی اور سلطان محمد فاتح کا وفد آیا تو قلعہ پر خوشی سے دمدمے بجائے گئے اور قاہرہ کے گلی کوچوں کو سجا کر اس کی خبر کی تشہیر کی گئی ۔ پھر سلطان نے برسبای امیر آخور ثانی کو ابن عثمان کی طرف بھیج کر اس فتح کی مبارک باد دی۔"

مورخ ابو المحاسن بن تغری بردی کا ذکرکرنا ہم ضروری خیال کرتے ہیں جنہوں نے لوگوں کے جذبات اور ان کی قلبی کیفیات کو بہت خوبصورت طریقہ سے بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ جب فاتح کا وفد تحائف سے لدا بھندا روم کے زعماء میں سے کچھ اسیروں کو لئے مصر پہنچا تو میں نے کہا: الحمدللہ یہ عظیم کامیابی محض اللہ کا احسان ہے ۔ قاصد مذکور تشریف لائے ۔ استنبول کے رئیس اسیروں کی صورت ان کے ساتھ تھے ۔ قاصد انہیں نے لے کر سلطان( سلطان مصر اینال) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یہ دونوں قیدی قسطنطنیہ سے تھے ۔قسطنطنیہ استنبول میں ایک بہت بڑا کلیسا ہے۔ سلطان بہت خوش ہوا اور تمام لوگ بھی اس فتح کا سن کر مسرور ہوئے ۔ اس واقعہ پر جشن منایا گیا ، دمدمے بجائے گئے، شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ۔ پھر قاصد مذکور ان دونوں قیدیوں کو ساتھ لئے ہوئے ۲۵ شوال کو قاہرہ کی مختلف سڑکوں سے گزرتا قلعہ کی جانب بڑھا۔ لوگوں نے دکانوں اور گھروں کو خوب سجایا تھا ۔ سلطان نے پہاڑی قلعہ کے سلطانی احاطے میں ایک بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا۔

ابن تغری بردی نے قاہرہ میں لوگوں کے جس طرح کے اجتماعات اور فتح قسطنطنیہ پر ان کی خوشی و شادمانی کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح کی محافل اور جشن کا پوری اسلامی دنیا میں اہتمام کیا گیا۔ سلطان نے فتح کی خوشخبری کے خطوط مختلف اسلامی فرمانرواؤں کو بھیجے جیسے سلطان مصر، شاہ ایران، شریف مکہ، امیر کرمان وغیرہ اس طرح بعض خطوط پڑوسی مسیحی ممالک کو بھی بھیجے گئے ۔ جیسے مورہ افلاق، ہنگری، بوسنیا، سربیا، البانیا اور ارد گرد کی کئی دوسری سلطنتیں۔

conquest of Constantinople and its Impact on the European and Islamic world

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں