ہوم اسکولنگ - ایک تجزیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-22

ہوم اسکولنگ - ایک تجزیہ

home-schooling
ہوم اسکولنگ کے بارے بہت سے دوستوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ میں ہوم اسکولنگ کے حق میں نہیں ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے اسکول کا بڑا مقصد تعلیم نہیں بلکہ بچے کو سوشل بنانا ہے کہ آپ کا بچہ سوسائٹی کے بچوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھیلنا کودنا اور معاملہ فہمی سیکھے۔ بچے کے ملنے جلنے والوں کا دائرہ جس قدر وسیع ہو گا، بچہ اسی قدر جلد اور زیادہ رویے سیکھے گا۔ اور رویوں کے سیکھںے کا نام ہی تربیت ہے۔ ہوم اسکولنگ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین کی اسکولز کے بارے توقعات آسمان پر ہیں۔ اپنی توقعات کچھ نیچے لائیں، آپ کے بچے کی تعلیم وتربیت کا ذمہ دار صرف اسکول نہیں بلکہ والدین اور معاشرہ بھی ہے کہ بچہ سب سے سیکھتا ہے، صرف اسکول سے نہیں۔

یہ اعتراض درست ہے کہ اسکولز ایک کاروبار بن چکے ہیں اور تربیت نام کو نہیں ہے۔ البتہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسکولز میں تعلیم نہیں ہے۔ ہمارے وقتوں میں جو انگریزی ہم ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے، آج ہمارے بچے پہلی کلاس میں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور نہیں تو ان کا بستہ بھاری ہو گیا ہے۔ جتنا ہوم ورک وہ ایک ہفتے میں کرتے ہیں، ہم سال بھر میں نہیں کرتے تھے۔ تو پڑھائی کا معیار بہتر ہوا ہے، اس میں شک نہیں ہے البتہ سلیبس پر بات ہو سکتی ہے کہ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ آپ کبھی بھی اسکول کی تعلیم اور تربیت سے مطمئن نہیں ہو سکتے لہذا بہتر ہے کہ اضافی طور تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری خود لے لیں کہ یہ تو آپ کو کرنا ہی ہے۔

رہی بات ٹیچرز کی تو ان کا حال پتلا ہے۔ جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیز نے ڈگریاں بانٹنی شروع کی ہیں تو ایک ایم۔ایس۔سی (M.Sc) کا لیول پرانے والے میٹرک سے زیادہ نہیں ہے اور یہ حقیقت ہے۔ یہاں بھی قصور اسکولز کا نہیں، یونیورسٹیز کا ہے کہ وہاں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے کہ اسٹوڈنٹ کا پڑھنے کو دل ہی نہیں ہے اور سختی نام کو نہیں ہے لہذا ہوم اسکولنگ کی بجائے ہوم یونیورسٹی کا تصور ہو تو میں اس کا قائل ہوں۔ اب یونیورسٹی ایک بزنس ہے، طالب علم کسٹمر ہے اور استاذ ایک سلیز مین ہے۔ رہی سہی کسر رومانس کلچر نے پوری کر دی ہے کہ کلاس میں توجہ ذرا نہیں اور کل توجہ اپنے پارٹنر میں ہے اور یہ 90 پرسینٹ کا حال ہے۔ اور اسٹوڈنٹ کی ساری بھاگ دوڑ ٹیچرز سے مارکس مانگنے اور نکلوانے میں لگی ہے نہ کہ پڑھنے اور سمجھنے میں۔

ہوم اسکولنگ تصوراتی طور بہت اپیل کرتا ہے لیکن لمبے عرصے تک چلنے والا نہیں ہے۔ دو چار ماہ آپ شوقا شوقی میں چلا لیں گے، اب باپ نے ملازمت کرنی ہے، ماں نے گھر کی ذمہ داری سنبھالنی ہے، تو بچوں کو وقت دینے پر جھگڑے ہوں گے اور نتیجتا بچے نکمے اور خراب ہوتے چلیں گے کہ اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزاریں گے۔ پھر اگر بچے ہوم اسکولنگ سے میٹرک یا او۔لیول کر بھی لیں تو اب کہاں جائیں گے؟ اسی معاشرے میں جائیں گے کہ جس سے بچ کر آپ ہوم اسکولنگ کی طرف گئے تھے کہ ہوم یونیورسٹی تو کوئی ہے نہیں۔ اور میری رائے میں ہوم اسکولنگ کرنے والے بچوں کے پاس تعلیم جتنی بھی ہو، ان کے رویوں میں ایبنارمیلیٹی رہ جائے گی لہذا حل ہوم اسکولنگ کی بجائے اسلامک اسکولنگ ہے، اس پر توجہ دی جائے کہ بچے کو ایلین (alien) بنانا بھی تو کوئی مقصد نہیں ہے۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

Home schooling, an analysis. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں