بھارت متعدد قومیتوں کا ملک ہے۔ قومیتوں کی تشکیل کے لیے ذمہ دار مخلتف عناصر میں سے اہم عناصر جیسے نسل، زبان، مذہب، جغرافیہ، تاریخ، کلچر اور سب سے بڑھ کر ایک قومیت ہونے کا احساس، ملک میں موجود مختلف طبقات میں قابل لحاظ مقدار میں پاۓ جاتے ہیں، جو انہیں قومیت بنانے کے لیے کافی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ قومیتوں کو قومیت ہونے کا احساس ہے، تو کچھ کو نہیں یا کم؛ کچھ قومیتیں غالب ہیں، تو کچھ مغلوب؛ کچھ حاشیہ پر یا کم نمایاں ہیں، تو کچھ مین اسٹریم میں اور نمایاں۔ قومیتیں چاہے جس حیثیت میں ہوں، وہ قومیتیں بہرحال ہیں اور اس بنیاد پر مساوی حقوق کی حقدار بھی۔
بھارتی یا ہندوستانی قومیت اپنے آپ میں کوئی مستقل بالذات قومیت نہیں ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ مختلف قومیتوں کو جوڑنے والے اقدار اور مشترکہ سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے متفقہ اصولوں پر مبنی ایک تغیر پذیر سپراسٹرکچر ہے۔ اس سپراسٹرکچر قومیت کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام قومیتوں کو تحفظ دے اور ان کو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جوڑے رکھے۔ بھارتی آئین انہیں بنیادوں اور سمجھ داریوں پر قائم ہے۔ جب تک یہ سپراسٹرکچر قومیت تمام قومیتوں کی نمائندہ رہتی ہے، تب تک یہ ملک میں اتحاد و سالمیت کی ضامن ہے۔ لیکن جس لمحہ یہ سپر اسٹرکچر قومیت ملک میں موجود کسی بھی قومیت کے ہاتھوں ہائی جیک ہو جاتی ہے، اس قومیت کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے اور دیگر قومیتوں کا استحصال کرنے لگتی ہے، اسی لمحہ ملک میں موجود دیگر قومیتیں اپنا اصولِ تعامل بدلنے کے لیے نظریاتی طور پر آزاد ہو جاتی ہیں۔ یہ آزادی اپنے جلو میں متشدد یا غیر متشدد کشمکش اور ٹکراؤ لاتی ہے۔ آزاد بھارت کی اب تک کی تاریخ میں، زیادہ تر غیر حل شدہ تنازعات اور مسلح جد و جہد کا بنیادی سبب یہی ہے۔
آزاد بھارت میں موجود بہت سی قومیتوں میں سے دو قومیتیں نمایاں رہی ہیں۔ پہلی اور غالب قومیت آریائی برہمن قومیت ہے۔ دوسری نمایاں قومیت دراوڑیائی قومیت ہے۔ دونوں قومیتوں کے پاس اپنا اپنا جغرافیہ بھی ہے۔ ان دونوں قومیتوں کے درمیان ہمیشہ سے کشمکش رہی ہے۔ لیکن، ملک میں آریائی برہمن قومیت کی انتہائی مضبوط حیثیت ہونے کی وجہ سے، دراوڑیائی قومیت کی لڑائی غلبہ کی نہیں بلکہ وجود کے تحفظ پر آکر رک گئی۔ دراوڑیائی قومیت کے ذریعہ آریائی برہمن قومیت کی مذہبی بالادستی قبول کرلینے اور آریائی برہمن قومیت کے ذریعہ دراوڑیائی قومیت کی آزاد لسانی اور کچھ حد تک جغرافیائی شناخت تسلیم کر لینے کے بعد فی الحال یہ کشمکش نقطۂ توازن پر ہے۔
اس طرح سے، فی الحال بھارت میں آریائی برہمن قومیت کا غلبہ ہے اور اس قومیت نے بھارتی قومی منظر نامہ پر اس طرح سے قبضہ جما لیا ہے کہ آریائی برہمن قومیت اور بھارتی قومیت ایک دوسرے کے مترادف ہو چکے ہیں۔ اس نے بھارتی قومیت کے تکثیری فہم کو ہائی جیک کر کے اسے وحدتِ کلچر پر مبنی کلچرل نیشنلزم کے تصور میں ڈھال دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ملک کے تکثیری ڈھانچہ بلکہ خود ملک کے اتحاد و سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
ان دونوں قومیتوں کے علاوہ، حاشیہ پر موجود کئی قومیتیں اپنی نمایاں موجودگی درج کرانے لیے چھٹپٹا رہی ہیں۔ انہیں میں سے ایک دلت قومیت ہے۔ حالیہ کچھ برسوں کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ دلت قومیت بھی ایک طویل تاریخی مرحلہ سے گزر کر، اب ایک نمایاں قومیت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ پچھلے مہینہ جنگِ بھیما کوریگاؤں کے پس منظر میں رونما ہونے والا واقعہ دلت قومیت کی تاریخ میں پیش آنے والا اہم واقعہ ہے۔ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دلت قومیت نے اپنی تاریخ کی بازیافت کا عمل تقریبا مکمل کر لیا ہے، اس تاریخ کو غیر مدافعانہ انداز میں منانا شروع کر دیا ہے، تاریخ کی اپنی سمجھ کے تحفظ کے لیے لڑنے اور قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہو چکی ہے اور اس عمل کی قیادت کے لیے خاطر خواہ تعداد میں اپنے قائدین بھی پیدا کر چکی ہے۔ دلت قومیت کا یہ روپ ملکی منظرنامہ پر اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ دلت قومیت کی بڑھتی طاقت آریائی برہمن قومیت کے لیے بطور خاص پریشان کن ہے، کیونکہ ان دونوں قومیتوں کی طاقت کے درمیان تناسبِ معکوس کا رشتہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دلت قومیت کی طاقت میں جس تناسب سے اضافہ ہوگا، آریائی برہمن قومیت کی طاقت میں اسی تناسب سے سیندھ لگے گی۔ اس ضمن میں آریائی برہمن قومیت کی حالیہ کارروائیاں اس کی کھسکتی ہوئی نظریاتی زمین کے نتیجہ میں اس پر طاری ہونے والی بوکھلاہٹ کی غماز ہیں۔
دلت قومیت کے ظہور کے اس پس منظر میں، ہندوستانی مسلم قومیت کی زبوں حالی پریشان کن ہے۔ آزاد بھارت میں، مسلم قومیت نے اپنے اوپر ناکردہ گناہوں کا اتنا بڑا بوجھ ڈال لیا کہ اس کے بعد وہ کبھی اٹھ ہی نہیں سکی۔ چونکہ آریائی برہمن قومیت کی اجارہ داری کے لیے مسلم قومیت ہمیشہ سے سب سے بڑا خطرہ رہی ہے، اس لیے اس نے جدید تاریخ کے ایک واقعہ تقسیمِ ہند کی تشریح اس طرح سے کی کہ ہمیشہ کے لیے مسلم قومیت کٹگھرے میں کھڑی ہو گئی۔ نہ صرف تقسیمِ ہند بلکہ ہندوستان میں پوری مسلم تاریخ کو اس نے مسخ اور بدنام کر ڈالا۔ اس خارجی عمل کے علاوہ، مسلم دانشوروں کا مدافعانہ طرز فکر و عمل بھی اس افسوسناک صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے۔ حالت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ مسلمانانِ ہند اپنی تاریخ کے ہیروز کا ذکر کرتے ہوۓ یا تو احساسِ جرم کے شکار رہتے ہیں یا احساسِ خوف کے۔ یہ آریائی برہمن قومیت کے سامنے مسلم قومیت کی مکمل شکست کی علامت ہے۔ ایک مستقل قومیت کا اپنی قومی تاریخ و شناخت پر یوں سمجھوتہ کر لینا انتہائی شرمناک ہے۔
قومیت کے محاذ پر اتنی بری طرح شکست کھانے کے بعد، ہمیں اپنی اسٹریٹجی کو از سر نو وضع کرنا ہوگا۔ ہزارہا ہزار سال تک انتہائی مقہور و مجبور قوم کی طرح زندگی گزارنے کے بعد سے لے کر ایک نمایاں قومیت کے طور پر ظاہر ہونے تک کا دلت قومیت کا سفر ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں داخلی اور خارجی سطح پر خود کو ایک مستقل قومیت کے طور پر ماننا اور منوانا ہوگا۔ اس کے بعد، اپنی تاریخ، اپنے ہیروز، اپنی زبان، اپنے کلچر کو غیر مدافعانہ انداز میں اپنانا اور منانا ہوگا۔ ملک میں بسنے والی دیگر قومیتوں کو عام طور پر اور آریائی برہمن قومیت کو خاص طور پر ہماری طرف سے یہ واضح پیغام جانا چاہیے کہ ایک مستقل قومیت کے طور پر اپنی تاریخ اور زبان و تہذیب کو منانا اور ان کا تحفظ کرنا ہمارا بنیادی آئینی حق ہے، جس پر کسی بھی شکل میں سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر سمجھوتہ ہو سکتا ہے تو آئینِ ہند کے ذریعہ وضع کردہ ڈھانچہ کے تحت ان مشترکہ سیاسی و معاشی امور پر جن کا تعلق تمام قومیتوں کے فلاح و بہبود سے ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا ہوگا کہ تمام قومیتیں نظریاتی طور پر مساوی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اسی مساوی حیثیت تک پہونچنا اور وہاں پہونچ کر دیگر قومیتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعامل کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہونا چاہیے۔
اس تعلق سے ایک انتہائی غلط سوچ جو لوگوں کے اندر پھیلا دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قومیت بطور خاص مسلم قومیت ملک دشمنی کے مترادف اور اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر قومیت کا مطلب ملک دشمنی یا ملکی سالمیت کے خلاف ہونا ہے، تو پھر ملک میں دیگر قومیتوں کو برقرار رہنے اور پھولنے پھلنے کی اجازت کیوں ہے؟ اگر قومیت اتنی خطرناک ہے، تو پھر مسلم قومیت ہی کیوں قربانی دے؟ آریائی برہمن قومیت، دراوڑیائی قومیت، دلت قومیت اور دیگر قومیتیں کیوں نہیں؟ دوسری بات یہ کہ قومیت اور ملکی اتحاد و سالمیت دونوں متضاد نہیں بلکہ متکامل تصورات ہیں۔ انصاف، مساوات، جمہوریت، سیکولرزم اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ملک میں، مختلف قومیتیں پرامن بقاۓ باہم اور ترقی و خوشحالی کے مشترکہ اہداف پر کام کرتے ہوۓ نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکتی ہیں بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی نئی بلندیوں تک پہونچا سکتی ہیں۔ دراصل، کسی ملک میں مختلف قومیتوں کا برابری کی بنیاد پر رہنا ملک کی سالمیت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ان میں سے کسی ایک قومیت کا تمام قومیتوں پر غلبہ حاصل کر لینا، دیگر تمام قومیتوں کو ان کے مساوی قومی حقوق سے محروم کر دینا، اپنے تنگ قومی نظریات کو ملکی مصلحت کا جامہ پہنا دینا اور اپنے خاص قومی نظریات کی مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دینا یہ سب ملکی اتحاد و سالمیت کے لیے سنجیدہ خطرات ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی قومیت کے ہیروز کبھی بھی مکمل طور پر غیر متنازع شخصیتیں نہیں رہی ہیں۔ آپ آریائی برہمن قومیت کے قدیم و جدید تاریخی ہیروز کو ہی لے لیں، ان میں سے کوئی بھی غیر متنازع نہیں ہے۔ یہاں بات طویل ہو جاۓ گی ورنہ ان کے ان ہیروز کا تاریخی جائزہ بھی پیش کرتا۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور ایک مستقل کتاب کی حقدار بھی۔ بہرحال، اس نقطہ کو یہاں بیان کرنے کا میرا مقصد بس اتنا ہے کہ اگر دیگر قومیتیں اپنے ہیروز کو اس وجہ سے نہیں چھوڑ سکتیں کہ وہ متنازع ہیں، تو صرف مسلم قومیت ہی اپنے تاریخی ہیروز کو صرف اس وجہ سے کیوں چھوڑ دے کہ وہ متنازع ہیں۔ اس لیے، جس طرح دیگر قومیتیں اپنے تاریخی ہیروز کو ان کے متنازع شبیہ کے باوجود بھی انہیں اپنا ہیرو قرار دیتی ہیں، اسی طرح ہمارے تاریخی ہیروز بھی ہمارے تاریخی ہیروز رہیں گے ان کی شبیہ چاہے جتنی زیادہ متنازع کیوں نہ ہو۔ ہر قومیت کے پاس تاریخ کی اپنی سمجھ اور تشریح ہوتی ہے، مسلم قومیت کی بھی اپنی ایک تاریخی سمجھ و تشریح ہے، جس پر وہ عمل کرے گی۔ یہ مسلم قومیت کا اتنا ہی حق ہے جتنا دیگر قومیتوں کا۔ یہاں کسی کو یہ اصرار ہو سکتا ہے کہ مسلم تاریخی ہیروز کو موضوعی تاریخ کے پیمانہ پر پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ وہ تاریخی ہیروز بننے کے لائق ہیں یا نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تاریخ کے اتنے نالے پرنالے ہیں کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاۓ گا کہ کس کو معیار بنایا جاۓ کس کو نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر تاریخی ہیروز کے رد و قبول کا معیار تاریخ ہی کو بنانا ہے، تو اس کو صرف مسلم قومیت کے ہیروز پر لاگو نہ کر کے سبھی قومیتوں کے تاریخی ہیروز پر لاگو کیا جاۓ۔ اس قسم کے غیرمتعلق شوشہ چھوڑنے والے لوگ اس بات کو گرہ میں باندھتے جائیں کہ قومیت کے معاملہ میں موضوعی تاریخ کے اس ڈھکوسلہ میں نہ کسی قومیت کا یقین ہے اور نہ ہی کوئی قومیت اس کو معیار ماننے پر تیار ہوگی۔ ہاں، اکیڈمک عمل کے طور پر اس کی افادیت ضرور ہے، لیکن قومیت کے ڈسکورس میں یہ بالکل بیکار ہے۔
ہندوستان میں مسلم قومیت کا احیاء کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر مسلمانانِ ہند دوسرے درجہ کے شہری ہی بنے رہیں گے۔ آپ لاکھ اپنے حقوق کی دہائی دیں، لیکن جب تک آپ خود کو ملک میں موجود دیگر قومیتوں کا ہمسر نہیں سمجھیں گے، تب تک دیگر قومیں نہ آپ کو عزت دیں گی اور نہ ہی حقوق۔ اس لیے آریائی برہمن قومیت کے ذریعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے نظریہ کے خلاف پہلی لڑائی ہمارے اپنے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ ہمیں پہلے خود کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک مستقل اور مساوی قومیت ہیں اور ہمیں اس ملک میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ایک بار ہم اپنی نظریاتی تربیت اس نہج پر کر لے گۓ، اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیا، پھر دوسروں کا ہمیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
یہ درست ہے کہ اس سے سماج میں ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوگی اور خاص طور پر آریائی برہمن قومیت کے پرستار آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ لیکن میرے خیال سے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اندیشوں کو تیاگ کر اپنے جائز حقوق کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور اس کے نتیجہ میں پہونچنے والے تھوڑے بہت عارضی نقصانات کو برداشت کریں، کیونکہ ویسے بھی اپنی مستقل قومیت کو قربان کر کے بھی ہمیں ذلت و خواری کے سوا کچھ نہیں مل رہا ہے۔ عزتِ نفس کے ساتھ جینا ہمیشہ سے ہی زندہ قوموں کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کا کوئی بھی متبادل نہیں ہے۔ دراصل، مصلحتوں کے مکڑجال میں پھنس کر اپنی عزت تک سے سمجھوتہ کر لینے والی مستقل لیکن کمزور قومیت کے نقطۂ تقویت کا آغاز ہی اس آگہی سے ہوتا ہے کہ عزتِ نفس کو ہر حال میں مقدم کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، ملک میں موجود دیگر قومیتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہم آریائی برہمن قومیت کی طرف سے پہونچنے والے ممکنہ نقصانات کو بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔
ایک مستقل قومیت کی طرح سوچنا، عمل کرنا اور خود کو منوانا ہمارے سیاسی، معاشرتی و معاشی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ آزاد بھارت میں، مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ مسلمانوں کا اپنی مستقل قومی شناخت کو چھوڑ دینا یا نظر انداز کر دینا ان کے لیے بہتر نیز ان کے حقوق کا ضامن ہے۔ یہ ایک بھیانک غلط فہمی ہے۔ دراصل موجودہ دور میں، حقوق کی باز آوری اور شعورِ قومیت کی مضبوطی کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس قوم کا شعورِ قومیت جتنا مضبوط ہوگا، اس قومیت کا بارگیننگ پاور اتنا ہی مضبوط ہوگا اور اس کے حقوق اتنے ہی محفوظ رہیں گے۔ اس کے بر عکس، جس قوم کا شعورِ قوميت جتنا کمزور ہوگا، اس قومیت کا بارگیننگ پاور اتنا ہی کمزور ہوگا اور اس کے حقوق اتنے ہی غیرمحفوظ رہیں گے۔ ہم مسلمانانِ ہند کو مجموعی طور پر یہ بات سمجھنی ہوگی اور اپنی اسٹریٹجی کو قومیت کی بنیادوں پر از سر نو وضع کر کے اس پر بصیرت و استقامت کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ یہ ہمارے تابناک مستقبل اور اس ملک میں ایک باعزت و پر وقار زندگی گزارنے کے لیے اشد ضروری ہے۔
بھارتی یا ہندوستانی قومیت اپنے آپ میں کوئی مستقل بالذات قومیت نہیں ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ مختلف قومیتوں کو جوڑنے والے اقدار اور مشترکہ سیاسی و معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے متفقہ اصولوں پر مبنی ایک تغیر پذیر سپراسٹرکچر ہے۔ اس سپراسٹرکچر قومیت کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام قومیتوں کو تحفظ دے اور ان کو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جوڑے رکھے۔ بھارتی آئین انہیں بنیادوں اور سمجھ داریوں پر قائم ہے۔ جب تک یہ سپراسٹرکچر قومیت تمام قومیتوں کی نمائندہ رہتی ہے، تب تک یہ ملک میں اتحاد و سالمیت کی ضامن ہے۔ لیکن جس لمحہ یہ سپر اسٹرکچر قومیت ملک میں موجود کسی بھی قومیت کے ہاتھوں ہائی جیک ہو جاتی ہے، اس قومیت کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے اور دیگر قومیتوں کا استحصال کرنے لگتی ہے، اسی لمحہ ملک میں موجود دیگر قومیتیں اپنا اصولِ تعامل بدلنے کے لیے نظریاتی طور پر آزاد ہو جاتی ہیں۔ یہ آزادی اپنے جلو میں متشدد یا غیر متشدد کشمکش اور ٹکراؤ لاتی ہے۔ آزاد بھارت کی اب تک کی تاریخ میں، زیادہ تر غیر حل شدہ تنازعات اور مسلح جد و جہد کا بنیادی سبب یہی ہے۔
آزاد بھارت میں موجود بہت سی قومیتوں میں سے دو قومیتیں نمایاں رہی ہیں۔ پہلی اور غالب قومیت آریائی برہمن قومیت ہے۔ دوسری نمایاں قومیت دراوڑیائی قومیت ہے۔ دونوں قومیتوں کے پاس اپنا اپنا جغرافیہ بھی ہے۔ ان دونوں قومیتوں کے درمیان ہمیشہ سے کشمکش رہی ہے۔ لیکن، ملک میں آریائی برہمن قومیت کی انتہائی مضبوط حیثیت ہونے کی وجہ سے، دراوڑیائی قومیت کی لڑائی غلبہ کی نہیں بلکہ وجود کے تحفظ پر آکر رک گئی۔ دراوڑیائی قومیت کے ذریعہ آریائی برہمن قومیت کی مذہبی بالادستی قبول کرلینے اور آریائی برہمن قومیت کے ذریعہ دراوڑیائی قومیت کی آزاد لسانی اور کچھ حد تک جغرافیائی شناخت تسلیم کر لینے کے بعد فی الحال یہ کشمکش نقطۂ توازن پر ہے۔
اس طرح سے، فی الحال بھارت میں آریائی برہمن قومیت کا غلبہ ہے اور اس قومیت نے بھارتی قومی منظر نامہ پر اس طرح سے قبضہ جما لیا ہے کہ آریائی برہمن قومیت اور بھارتی قومیت ایک دوسرے کے مترادف ہو چکے ہیں۔ اس نے بھارتی قومیت کے تکثیری فہم کو ہائی جیک کر کے اسے وحدتِ کلچر پر مبنی کلچرل نیشنلزم کے تصور میں ڈھال دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف ملک کے تکثیری ڈھانچہ بلکہ خود ملک کے اتحاد و سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
ان دونوں قومیتوں کے علاوہ، حاشیہ پر موجود کئی قومیتیں اپنی نمایاں موجودگی درج کرانے لیے چھٹپٹا رہی ہیں۔ انہیں میں سے ایک دلت قومیت ہے۔ حالیہ کچھ برسوں کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ دلت قومیت بھی ایک طویل تاریخی مرحلہ سے گزر کر، اب ایک نمایاں قومیت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ پچھلے مہینہ جنگِ بھیما کوریگاؤں کے پس منظر میں رونما ہونے والا واقعہ دلت قومیت کی تاریخ میں پیش آنے والا اہم واقعہ ہے۔ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دلت قومیت نے اپنی تاریخ کی بازیافت کا عمل تقریبا مکمل کر لیا ہے، اس تاریخ کو غیر مدافعانہ انداز میں منانا شروع کر دیا ہے، تاریخ کی اپنی سمجھ کے تحفظ کے لیے لڑنے اور قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہو چکی ہے اور اس عمل کی قیادت کے لیے خاطر خواہ تعداد میں اپنے قائدین بھی پیدا کر چکی ہے۔ دلت قومیت کا یہ روپ ملکی منظرنامہ پر اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ دلت قومیت کی بڑھتی طاقت آریائی برہمن قومیت کے لیے بطور خاص پریشان کن ہے، کیونکہ ان دونوں قومیتوں کی طاقت کے درمیان تناسبِ معکوس کا رشتہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دلت قومیت کی طاقت میں جس تناسب سے اضافہ ہوگا، آریائی برہمن قومیت کی طاقت میں اسی تناسب سے سیندھ لگے گی۔ اس ضمن میں آریائی برہمن قومیت کی حالیہ کارروائیاں اس کی کھسکتی ہوئی نظریاتی زمین کے نتیجہ میں اس پر طاری ہونے والی بوکھلاہٹ کی غماز ہیں۔
دلت قومیت کے ظہور کے اس پس منظر میں، ہندوستانی مسلم قومیت کی زبوں حالی پریشان کن ہے۔ آزاد بھارت میں، مسلم قومیت نے اپنے اوپر ناکردہ گناہوں کا اتنا بڑا بوجھ ڈال لیا کہ اس کے بعد وہ کبھی اٹھ ہی نہیں سکی۔ چونکہ آریائی برہمن قومیت کی اجارہ داری کے لیے مسلم قومیت ہمیشہ سے سب سے بڑا خطرہ رہی ہے، اس لیے اس نے جدید تاریخ کے ایک واقعہ تقسیمِ ہند کی تشریح اس طرح سے کی کہ ہمیشہ کے لیے مسلم قومیت کٹگھرے میں کھڑی ہو گئی۔ نہ صرف تقسیمِ ہند بلکہ ہندوستان میں پوری مسلم تاریخ کو اس نے مسخ اور بدنام کر ڈالا۔ اس خارجی عمل کے علاوہ، مسلم دانشوروں کا مدافعانہ طرز فکر و عمل بھی اس افسوسناک صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے۔ حالت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ مسلمانانِ ہند اپنی تاریخ کے ہیروز کا ذکر کرتے ہوۓ یا تو احساسِ جرم کے شکار رہتے ہیں یا احساسِ خوف کے۔ یہ آریائی برہمن قومیت کے سامنے مسلم قومیت کی مکمل شکست کی علامت ہے۔ ایک مستقل قومیت کا اپنی قومی تاریخ و شناخت پر یوں سمجھوتہ کر لینا انتہائی شرمناک ہے۔
قومیت کے محاذ پر اتنی بری طرح شکست کھانے کے بعد، ہمیں اپنی اسٹریٹجی کو از سر نو وضع کرنا ہوگا۔ ہزارہا ہزار سال تک انتہائی مقہور و مجبور قوم کی طرح زندگی گزارنے کے بعد سے لے کر ایک نمایاں قومیت کے طور پر ظاہر ہونے تک کا دلت قومیت کا سفر ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں داخلی اور خارجی سطح پر خود کو ایک مستقل قومیت کے طور پر ماننا اور منوانا ہوگا۔ اس کے بعد، اپنی تاریخ، اپنے ہیروز، اپنی زبان، اپنے کلچر کو غیر مدافعانہ انداز میں اپنانا اور منانا ہوگا۔ ملک میں بسنے والی دیگر قومیتوں کو عام طور پر اور آریائی برہمن قومیت کو خاص طور پر ہماری طرف سے یہ واضح پیغام جانا چاہیے کہ ایک مستقل قومیت کے طور پر اپنی تاریخ اور زبان و تہذیب کو منانا اور ان کا تحفظ کرنا ہمارا بنیادی آئینی حق ہے، جس پر کسی بھی شکل میں سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر سمجھوتہ ہو سکتا ہے تو آئینِ ہند کے ذریعہ وضع کردہ ڈھانچہ کے تحت ان مشترکہ سیاسی و معاشی امور پر جن کا تعلق تمام قومیتوں کے فلاح و بہبود سے ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا ہوگا کہ تمام قومیتیں نظریاتی طور پر مساوی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اسی مساوی حیثیت تک پہونچنا اور وہاں پہونچ کر دیگر قومیتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعامل کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہونا چاہیے۔
اس تعلق سے ایک انتہائی غلط سوچ جو لوگوں کے اندر پھیلا دی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قومیت بطور خاص مسلم قومیت ملک دشمنی کے مترادف اور اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر قومیت کا مطلب ملک دشمنی یا ملکی سالمیت کے خلاف ہونا ہے، تو پھر ملک میں دیگر قومیتوں کو برقرار رہنے اور پھولنے پھلنے کی اجازت کیوں ہے؟ اگر قومیت اتنی خطرناک ہے، تو پھر مسلم قومیت ہی کیوں قربانی دے؟ آریائی برہمن قومیت، دراوڑیائی قومیت، دلت قومیت اور دیگر قومیتیں کیوں نہیں؟ دوسری بات یہ کہ قومیت اور ملکی اتحاد و سالمیت دونوں متضاد نہیں بلکہ متکامل تصورات ہیں۔ انصاف، مساوات، جمہوریت، سیکولرزم اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ملک میں، مختلف قومیتیں پرامن بقاۓ باہم اور ترقی و خوشحالی کے مشترکہ اہداف پر کام کرتے ہوۓ نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکتی ہیں بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی نئی بلندیوں تک پہونچا سکتی ہیں۔ دراصل، کسی ملک میں مختلف قومیتوں کا برابری کی بنیاد پر رہنا ملک کی سالمیت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ان میں سے کسی ایک قومیت کا تمام قومیتوں پر غلبہ حاصل کر لینا، دیگر تمام قومیتوں کو ان کے مساوی قومی حقوق سے محروم کر دینا، اپنے تنگ قومی نظریات کو ملکی مصلحت کا جامہ پہنا دینا اور اپنے خاص قومی نظریات کی مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دینا یہ سب ملکی اتحاد و سالمیت کے لیے سنجیدہ خطرات ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی قومیت کے ہیروز کبھی بھی مکمل طور پر غیر متنازع شخصیتیں نہیں رہی ہیں۔ آپ آریائی برہمن قومیت کے قدیم و جدید تاریخی ہیروز کو ہی لے لیں، ان میں سے کوئی بھی غیر متنازع نہیں ہے۔ یہاں بات طویل ہو جاۓ گی ورنہ ان کے ان ہیروز کا تاریخی جائزہ بھی پیش کرتا۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور ایک مستقل کتاب کی حقدار بھی۔ بہرحال، اس نقطہ کو یہاں بیان کرنے کا میرا مقصد بس اتنا ہے کہ اگر دیگر قومیتیں اپنے ہیروز کو اس وجہ سے نہیں چھوڑ سکتیں کہ وہ متنازع ہیں، تو صرف مسلم قومیت ہی اپنے تاریخی ہیروز کو صرف اس وجہ سے کیوں چھوڑ دے کہ وہ متنازع ہیں۔ اس لیے، جس طرح دیگر قومیتیں اپنے تاریخی ہیروز کو ان کے متنازع شبیہ کے باوجود بھی انہیں اپنا ہیرو قرار دیتی ہیں، اسی طرح ہمارے تاریخی ہیروز بھی ہمارے تاریخی ہیروز رہیں گے ان کی شبیہ چاہے جتنی زیادہ متنازع کیوں نہ ہو۔ ہر قومیت کے پاس تاریخ کی اپنی سمجھ اور تشریح ہوتی ہے، مسلم قومیت کی بھی اپنی ایک تاریخی سمجھ و تشریح ہے، جس پر وہ عمل کرے گی۔ یہ مسلم قومیت کا اتنا ہی حق ہے جتنا دیگر قومیتوں کا۔ یہاں کسی کو یہ اصرار ہو سکتا ہے کہ مسلم تاریخی ہیروز کو موضوعی تاریخ کے پیمانہ پر پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ وہ تاریخی ہیروز بننے کے لائق ہیں یا نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تاریخ کے اتنے نالے پرنالے ہیں کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاۓ گا کہ کس کو معیار بنایا جاۓ کس کو نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر تاریخی ہیروز کے رد و قبول کا معیار تاریخ ہی کو بنانا ہے، تو اس کو صرف مسلم قومیت کے ہیروز پر لاگو نہ کر کے سبھی قومیتوں کے تاریخی ہیروز پر لاگو کیا جاۓ۔ اس قسم کے غیرمتعلق شوشہ چھوڑنے والے لوگ اس بات کو گرہ میں باندھتے جائیں کہ قومیت کے معاملہ میں موضوعی تاریخ کے اس ڈھکوسلہ میں نہ کسی قومیت کا یقین ہے اور نہ ہی کوئی قومیت اس کو معیار ماننے پر تیار ہوگی۔ ہاں، اکیڈمک عمل کے طور پر اس کی افادیت ضرور ہے، لیکن قومیت کے ڈسکورس میں یہ بالکل بیکار ہے۔
ہندوستان میں مسلم قومیت کا احیاء کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر مسلمانانِ ہند دوسرے درجہ کے شہری ہی بنے رہیں گے۔ آپ لاکھ اپنے حقوق کی دہائی دیں، لیکن جب تک آپ خود کو ملک میں موجود دیگر قومیتوں کا ہمسر نہیں سمجھیں گے، تب تک دیگر قومیں نہ آپ کو عزت دیں گی اور نہ ہی حقوق۔ اس لیے آریائی برہمن قومیت کے ذریعہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے نظریہ کے خلاف پہلی لڑائی ہمارے اپنے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ ہمیں پہلے خود کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک مستقل اور مساوی قومیت ہیں اور ہمیں اس ملک میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ایک بار ہم اپنی نظریاتی تربیت اس نہج پر کر لے گۓ، اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیا، پھر دوسروں کا ہمیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
یہ درست ہے کہ اس سے سماج میں ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوگی اور خاص طور پر آریائی برہمن قومیت کے پرستار آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ لیکن میرے خیال سے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اندیشوں کو تیاگ کر اپنے جائز حقوق کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور اس کے نتیجہ میں پہونچنے والے تھوڑے بہت عارضی نقصانات کو برداشت کریں، کیونکہ ویسے بھی اپنی مستقل قومیت کو قربان کر کے بھی ہمیں ذلت و خواری کے سوا کچھ نہیں مل رہا ہے۔ عزتِ نفس کے ساتھ جینا ہمیشہ سے ہی زندہ قوموں کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کا کوئی بھی متبادل نہیں ہے۔ دراصل، مصلحتوں کے مکڑجال میں پھنس کر اپنی عزت تک سے سمجھوتہ کر لینے والی مستقل لیکن کمزور قومیت کے نقطۂ تقویت کا آغاز ہی اس آگہی سے ہوتا ہے کہ عزتِ نفس کو ہر حال میں مقدم کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، ملک میں موجود دیگر قومیتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہم آریائی برہمن قومیت کی طرف سے پہونچنے والے ممکنہ نقصانات کو بہت حد تک کم کر سکتے ہیں۔
ایک مستقل قومیت کی طرح سوچنا، عمل کرنا اور خود کو منوانا ہمارے سیاسی، معاشرتی و معاشی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ آزاد بھارت میں، مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا کہ مسلمانوں کا اپنی مستقل قومی شناخت کو چھوڑ دینا یا نظر انداز کر دینا ان کے لیے بہتر نیز ان کے حقوق کا ضامن ہے۔ یہ ایک بھیانک غلط فہمی ہے۔ دراصل موجودہ دور میں، حقوق کی باز آوری اور شعورِ قومیت کی مضبوطی کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس قوم کا شعورِ قومیت جتنا مضبوط ہوگا، اس قومیت کا بارگیننگ پاور اتنا ہی مضبوط ہوگا اور اس کے حقوق اتنے ہی محفوظ رہیں گے۔ اس کے بر عکس، جس قوم کا شعورِ قوميت جتنا کمزور ہوگا، اس قومیت کا بارگیننگ پاور اتنا ہی کمزور ہوگا اور اس کے حقوق اتنے ہی غیرمحفوظ رہیں گے۔ ہم مسلمانانِ ہند کو مجموعی طور پر یہ بات سمجھنی ہوگی اور اپنی اسٹریٹجی کو قومیت کی بنیادوں پر از سر نو وضع کر کے اس پر بصیرت و استقامت کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ یہ ہمارے تابناک مستقبل اور اس ملک میں ایک باعزت و پر وقار زندگی گزارنے کے لیے اشد ضروری ہے۔
نوٹ :
مضمون نگار مہارشٹرا کالج (ممبئی) کے شعبہ عربی و اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔
***
ای-میل: shamsurrab[@]gmail.com
فیس بک : ShamsurRab Khan
مضمون نگار مہارشٹرا کالج (ممبئی) کے شعبہ عربی و اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔
***
ای-میل: shamsurrab[@]gmail.com
فیس بک : ShamsurRab Khan
شمس الرب خان |
Dalits message to Muslims of India. Article: ShamsurRab Khan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں