اردو شعر و ادب کو وقت کی چلچلاتی دھوپ میں چھوڑ کر احمد فراز کے بعد ایک اور تناور درخت رخصت ہوا۔
انا لله وانا اليه راجعون
كل من عليها فان
کل یہ دنیا جہاں ہے فانی
اب فقط رب کی ذات لافانی
کیوں نہ ٹپکے پلک سے اب شبنم
چھوڑ کر چل دئے ہیں رومانی
(محسن علوی)
شبنم رومانی نے بھرپور اور فعال ادبی زندگی گزاری اور زیست کرنے کا انداز بھی مثالی صاف اور شفاف رکھا۔ وہ اپنی ملازمتوں اور مصروفیات کے باوجود شعر و ادب کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ وہ کئی ادبی اور اشاعتی اداروں کے بانی اور مشیر رہنے کے علاوہ "ارباب قلم فاؤنڈیشن" اور "مجنوں اکیڈمی" کے اعزازی سیکریٹری اور "افکار فاؤنڈیشن" کے ٹرسٹی بھی رہے۔ ان کی ادارت میں سہ ماہی "اقدار" بڑے شاندار طریقہ سے شائع ہوتا رہا۔
1959ء میں ان کی پہلی کتاب "مثنوی سیر کراچی" اشاعت پذیر ہوئی۔ کراچی آ کر آباد ہونے والے مہاجرین کے لیے یہ مثنوی ایک آئینہ کی حیثیت رکھتی تھی جسے اُس زمانے کے "گوگل سرچ" کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب کے بعد شبنم رومانی کی تین شعری کتب بعنوان "جزیرہ" ، "تہمت" اور "دوسرا ہمالیہ" منظر عام پر آئیں۔ پہلی کتاب کی طرح یہ تینوں کتب بھی مقبولیت کی انتہا کو پہنچیں۔
انتقال کے وقت شبنم رومانی کی کئی کتابیں زیر طبع تھیں ، مثلاً :
نظموں کا مجموعہ ، "نفی برابر اثبات"
تنقیدی مضامین کا مجموعہ ، "حریف و ظریف"
مزاحیہ و طنزیہ مضامین کا مجموعہ ، "کہتے ہیں جس کو عشق" اور
مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ، "فن ہمارا"۔
احمد ندیم قاسمی نے برسوں پہلے شبنم رومانی کی شاعری کے متعلق کچھ یوں کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔
سخنوری اور ہنروری جس حسن توازن کے ساتھ شبنم رومانی کی نظموں اور غزلوں میں پائی جاتی ہے وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ غزل ہو یا نظم ، شبنم موضوع کی مناسبت سے الفاظ کو اتنے سلیقے سے سلکِ سخن میں پروتا ہے کہ بیشتر مقامات پر زبان اور بیان پر اس کا عبور "اعجاز" کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
آزاد نظموں کو مقبول بنانے میں بھی شبنم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ شبنم ، رومانی الفاظ کی خارجی اور داخلی موسیقی ہر کماحقہ حاوی ہے۔
دوسری تمام چیزوں پر مستزاد شبنم کی فکری توانائی بھی بےحد جاندار ہے جو زندگی کا اثبات کرتی ہے ، جبکہ شبنم کے یہاں موضوعات کا اتنا تنوع ہے کہ ان کی پوری زندگی متنوع ہوتی ہے۔ شبنم کی شاعری سچی اور اچھی شاعری تو ہے ہی دیانتدارانہ شاعری بھی ہے !
ممتاز محقق اور نقاد محمد علی صدیقی لکھتے ہیں:
شبنم رومانی کی شاعری ، روایت اور بغاوت کے دو متحارب دھاروں کے درمیان جہد التقاء کا چراغ جلائے ایک طوفان کے بعد دوسرے طوفان کے تھپڑ کھاتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔
ان کی شاعری اظہارِ ذات اور حصولِ خودی کا ایک ایسا وظیفہ ہے جو وقتی ابال اور فیشنوں کی چمک دمک قبول نہیں کرتی ، اسی وجہ سے شبنم رومانی کے یہاں روایات کے ساتھ بہت لطیف لیکن واقعیت پسندانہ سلوک ملتا ہے۔ شبنم رومانی نے اپنی شاعری سے جذبۂ عشق کی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔
ممتاز نقاد ، ادیب و شاعر اور اردو شعر و ادب میں ایک خاص مکتبِ فکر کے بانی ڈاکٹر وزیر آغا فرماتے ہیں :
شبنم رومانی کی شاعری اور شاعرانہ خصوصیات کا احاطہ کرتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ ۔۔۔۔
شبنم رومانی کی شاعری میں امکانات کا جہاں اس قدر وسیع بےکنار اور اَن چھوا ہے کہ میں شائد اس جہاں کی ہلکی سی تصویر بھی پیش نہ کر سکوں۔ شبنم کی شاعری اور بالخصوص ان کی نظموں میں "ایک پردہ در پردہ" جہانِ معنی سے آشنا ہوا۔ اور شبنم کے یہاں یہ پردے جن بےشمار شکلوں میں لٹکے ہوئے ہیں ان میں سے چند کو "موجِ ہوا کی رد" ، "ہوس کا پردہ" ، "غم کی چادر" اور "میرا تیرا پیرہن" کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کے ممتاز ادیب اور مصنف رشید حسن خان نے شبنم کی پہلی کتاب "جزیرہ" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا :
"جزیرہ" میں جو کلام ہے ، اس کا ہر شعر اپنے طور پر عمر گذشتہ کی ایک کہانی ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر کہتے ہیں :
شبنم رومانی نے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ کی تخلیقی عمر بسر کی۔ اتنے طویل عرصہ تک تخلیقی طور پر فعال اور پرکار رہنے والے اہل قلم کی تحریر ، تخلیق اور شعر خود بولتے ہیں۔
مشک کے مانند شبنم رومانی اور ان کی شاعری کا عالم بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ شبنم کی غزل ، لفظ کی زبان میں اس نفسی واردات کا ماجرا سناتی ہے جو شاعر کے تخلیقی عمل کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تخلیق کی وقعت حاصل کر لیتی ہے۔
آج شبنم ہم میں نہیں مگر ہم ان کی پھیلائی ہوئی تروتازگی سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔
٭٭٭
شبنم رومانی : فکاہیہ ادب کے شہسوار بھی ۔۔۔
از قلم: سمن بازید
شبنم رومانی جتنے اچھے اور معیاری سنجیدہ شاعر اور ادیب تھے ، اتنے ہی کمال کے مزاحیہ اور طنزیہ مضمون نگار اور شاعر بھی تھے۔
وہ غضب کے فکاہیہ نویس بھی تھے اور اپنے قریبی حلقوں میں غضبناک لیکن محفل کو زعفران زار بنانے والے تیکھے فقرے کسنے میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔
پاکستان میں فکاہیہ نگاروں کا انتہائی مستند حوالہ اور سرخیل سمجھے جانے والے "نصر اللہ خان" ، شبنم رومانی کے نفیس و لطیف فنِ مزاح پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :
شبنم کا مزاح میکنیکل نہیں بلکہ ان کے کالموں سے فکر میں گہرائی اور دل و دماغ میں شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو ان کی تحریروں کو یقیناً زندہ رکھیں گی۔
احمد ندیم قاسمی نے شبنم کی مزاح نگاری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا :
شبنم رومانی جس سلیقے کا شاعر ہے اسی سلیقے کا مزاح نگار بھی ہے۔ طنز و مزاح میں ہمیشہ کسی نہ کسی کی دل شکنی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ کسی کا نام نہ بھی لیا جائے تو جو کچھ فرضی کردار پیش کئے جاتے ہیں اسے کوئی نہ کوئی اپنی شخصیت کا عکس سمجھنے لگتا ہے اور طنز و مزاح نگار سے خفا ہو جاتا ہے۔ میں فکاہی کالم نویسی کے دوران درجنوں بار اس تجربے سے گزرا ہوں کہ اگر کالم مکھی یا مچھر پر بھی لکھا جائے تو وہ جن کے دل میں چور ہوتا ہے وہ شور مچا دیتے ہیں کہ مکھی یا مچھر کے پردے میں دراصل ان کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ مگر مجال ہے جو شبنم رومانی کے مزاح میں اس نوع کا کوئی دور دراز کا بھی امکان موجود ہو۔ شبنم کا مزاح اتنا تہذیب یافتہ مزاح ہے کہ اردو کے کم ہی مزاح پارے اس کے مقابل رکھے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭
ممتاز شاعر سلیم کوثر :
شبنم رومانی کی رحلت ادبی دنیا کا افسوسناک واقعہ ہے۔ مرحوم ایک عرصہ سے بیمار تھے اور پیرانہ سالی نے انہیں مزید کمزور کر دیا تھا۔ وہ بےحد خلیق اور شائستہ انسان تھے۔ حالات جیسے بھی ہوں ، روایتی تہذیب و تمدن اور اخلاقیات و بردباری کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
ایک ایک کر کے تمام بڑے ادیب و شاعر شہرِ ادب سے اٹھتے جا رہے ہیں ، شبنم ایسے ہی قابل ذکر شعراء میں سے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی ادب اور شعر کی خدمت گزار دی۔ یہ بہت مشکل کام تھا جسے انہوں نے بصد حسن و خوبی انجام دیا۔ "جزیرہ" ادبی دنیا میں ان کی شناخت اور علامت بنا۔
نئی نسل کے نمائیندہ شاعر خالد معین :
شبنم رومانی کی رحلت اردو شعر و ادب کے لیے ایک سانحہ ہے۔
شبنم رومانی اس عہد کے بڑے ادیب ، شاعر اور ادبی صحافی تھے۔ وہ ایسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے شعر و ادب کو اوڑھنا اور بچھونا بنا لیا تھا۔ انہوں نے نئی نسل کی فکر و نشو ونما میں بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ ہمارے سروں سے ان جیسی چھتنار شخصیت کا سایہ اٹھ جانا ہمارے لیے کسی بڑے المیے اور سانحے سے کم نہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے ، آمین۔
ممتاز افسانہ نگار ، شاعر ، براڈکاسٹر اور ٹی وی پروڈیوسر رضوان صدیقی :
شبنم رومانی عہد حاضر کے بہت اہم اور مقبول شاعر تھے۔ پچھلی صدی کی پانچ دہائیوں میں انہوں نے اپنی شاعری سے نہ صرف اردو شعر و ادب کی روایات کو شاندار طور پر فروغ دیا بلکہ اپنی شاعری ، نفاست ، شائستگی اور دل پسند انداز سے نئی نسل کی آبیاری بھی کی۔
شبنم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بےحد مہذب ، شائستہ ، پرانی اقدار کے امین اور نئی نسل کے مثالی رہنما بھی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ دیانتدارانہ زندگی گزاری۔ اکل حلال کے سوا کسی بھی چیز کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور ادبی آلائشوں سے ہر طرح اور ہر مقام پر خود کو نہ صرف بالکل محفوظ رکھا بلکہ دوسروں کو بھی یہ طریقہ سکھا دیا کہ زندگی سچائی ، خلوص اور نیک نیتی کے طفیل آج بھی بہت اچھے ڈھنگ سے گزاری جا سکتی ہے۔
شبنم رومانی کے تقریباً ہم عمر شاعر سرشار صدیقی :
شبنم رومانی کی رحلت گہرے رنج و غم کا مقام ہے۔ مرحوم بےحد نفیس اور خلیق آدمی تھے۔ ایک درجن سے زیادہ شعری اور نثری کتابوں اور ایک شاندار جریدے کے مدیر ہونے کے علاوہ ادبی اور ثقافتی اداروں کے روح رواں بھی رہے۔ ان جیسے صاف اور شفاف لوگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
کولکتہ سے ممتاز شاعر منور رانا :
مجھے شبنم رومانی کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھنے کا اتفاق رہا اور ہر مشاعرے میں ان کی شائستگی ، روایتی تہذیب اور دل موہ لینے والے پرخلوص انداز نے مجھے شبنم صاحب کا گرویدہ بنا دیا تھا۔
ممبئی سے راحت اندوری ،
بھوپال سے منظر بھوپالی ،
الہ آباد سے اظہر عنایتی اور
لکھنؤ سے رئیس انصاری
نے شبنم رومانی کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور ان کی عملی اور ادبی و شعری خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
سعودی عرب سے
تنظیم عالمی اردو کانفرنس کے سربراہ اطہر عباسی ،
خواتین کی تنظیم "ماوراء" کی صدر تبسم علوی ،
سہ ماہی "سحاب" کے مدیر مشہور شاعر نسیم سحر اور
شاعران کرام محسن علوی ، حبیب صدیقی ، قمر حیدر قمر
نے بھی شبنم رومانی کی رحلت کو گلشنِ سخن کے پھولوں کے لیے زبردست نقصان قرار دیا اور ان کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دیا کی ہے۔
٭٭٭
~~ شبنم رومانی کے منتخب اشعار ~~
ہنس رہا ہوں آج کل بیٹھا ہوا
دولتِ شبنم غریب ، اہلِ بہار کے قریب
کاغذوں کے اک بڑے انبار پر
درد کے کچھ محاورے ، حسن کی کچھ علامتیں
درد پیراہن بدلتا ہے یہ ہم پر اب کھلا
صرف لفظوں کی دھنک کو شاعری سمجھتے تھے ہم
میری باتیں مہکی مہکی جیسے میر کے نازک شعر
ان کی باتیں سوچی سمجھی جیسے غالب کا دیوان
چاہو ، پر حد سے زیادہ نہ کسی کو چاہو !
بدل گئے مرے چہرے کے خوشگوار نقوش
غلطی کی تھی سو دشمن مرے احباب ہوئے
سمجھ رہا تھا تری آرزو کو میں آسان
اب کے بارش ایک ساتھی دے گی
ایک چہرہ بن گیا دیوار پر
ہم تری راہ میں خونِ رگِ جاں سے اکثر
سرخ قالین بچھاتے ہیں پذیرائی کا
کیوں نہ میں تہمت اٹھاؤں ، کیوں نہ میں طعنے سنوں
"ایک تو شبنم تخلص ، وہ بھی رومانی کے ساتھ"
ماخوذ: روزنامہ 'اردو نیوز' (سعودی عرب)
Shabnam Roomani, an eminent poet and writer of Urdu.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں