قاری کی کتاب سے دوری کیوں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-12-12

قاری کی کتاب سے دوری کیوں؟

book-reading-habit
منیر سیفی کا ایک شعر ہے
میں صاحب نظر بھی، خبر بھی، اثر بھی تھا
جب تک رہا تھا میرا تعلق ، کتاب سے

انسان نے جب سے پڑھنا لکھنا سیکھا، کبھی تختیوں کی صورت میں، کبھی دیواروں پر تحریر ، کتبوں کی شکل میں اور اور کبھی شکار شدہ جانور وں کی کھالوں پر اپنی کہانیاں تحریر کرتا رہا ہے اور اس طرح نہ صرف اس کی تاریخ لمحہ بہ لمحہ محفوظ ہوتی گئی بلکہ اس کی ثقافت، اس کا مذہب اور اس کے اعتقادات بھی نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔
یہ سلسلہ بہت قدیم ہے، جو مختلف تہذیبوں سے گزرتا ہوا اسلامی تہذیب تک آ پہنچا۔ اسلامی تہذیب و تمدن، جس کی ابتدا ہی لفظ اقراء سے ہوئی ، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ انسان جب تک اس دنیا میں موجود ہے اسے رہنمائی علم سے ہی ملے گی اور علم کتاب سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس وقت دنیا دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے، گویا تہذیبوں کا تعین اقوام سے نہیں سمتوں سے ہوتا ہے ۔ آج کل تو لگتا ہے کہ دنیا میں صرف دو ہی سمتیں یعنی مغرب اور مشرق دو ہی دنیائیں ہیں ۔ مغربی دنیا اور مشرقی دنیا، یا یوں کہنا چاہئے کہ فی الحال شمال اور جنوب کے الفاظ اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ مغربی تہذیب کا تحکمانہ رویہ ان کی مادی ترقی کے سبب سے ہے اور مشرقی تہذیب کا معذرت خواہانہ رویہ مغرب سے مرعوبیت کے سبب ہے ۔

تہذیبوں کے اس رویے میں اجتماعی طور پر سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے ۔ مشرقی اقوام وسائل رکھنے کے باوجود ا نہیں صحیح طور پر عوام الناس کے لئے استعمال نہیں کر پاتیں۔ اسی سبب اکثر آسائشیں ایجادات کی شکل میں مغرب میں دریافت ہوتی ہیں اور آج کل کے ابلاغ زدہ دور میں ہم مشرق میں بیٹھنے والے لوگ اس ایجاد کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر کے اس کی افادیت جان لینے کے باوجود مالی مجبوریوں کے تحت اسے حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور جب وہ ایجادات اپنی افادیت کھو کر مغرب سے پھینکی جا رہی ہوتی ہیں تو اس کی قیمت ہماری قوتِ خرید کی حد میں داخل ہوتی ہے اور جب ہم خاصے طویل عرصے کے انتظار کے بعد اس کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس پر بھوکے کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں ٹیلی ویژن اور کیبل ہمیں تقریبا چالیس سال کی تاخیر سے میسر آئے تو ہم نے اپنے تمام سابقہ معاشی اور معاشرتی رویوں کو توڑ پھوڑ کر انہیں ابلاغ زندگی کے سانچے میں ڈھال لیا، یوں ہمارا وہ بہت قیمتی وقت جو کئی تعمیری سرگرمیوں میں بشمول کتابوں کے پڑھنے کے عمل کے لئے وقف ہوتا تھا، سب اس ابلاغی جادوگری کی نذر ہونے لگا ۔
اس کے بعد 'مرے پر سو درے' کے مصداق رہی سہی کسر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے ۔ بچے گلیوں اور کھیل کے میدانوں کا رخ کرنا بھول گئے ۔ نوجوان، جو اپنی ناپختہ سوچوں کی تسکین کے لئے کیبل کا سہارا لے رہے تھے ، آگے بڑھ کر انٹرنیٹ یعنی دام رسائی کی عریانی میں داخل ہو گئے۔
مگر دنیا نے جن ایجادات کو اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے استعمال کیا، مشرق کی روایتی جہالت نے اس کی برائیوں سے پوری طرح فیضیاب ہونے کی راہیں نکالیں ۔ حصول معاش کی دوڑ میں ہم نے اپنی ضروریات کا دائرہ بہت وسیع کرلیا اور سامانِ تعیش بھی اب ہماری ضرورت میں شامل ہے اور اس خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہم وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں ہمارے پاس اپنے لئے بھی وقت باقی نہیں رہا ۔
ایسے عالم میں ہم کتابوں کے لئے وقت کہاں سے نکالیں؟ ذہنی اور مالی مسائل نے ہم سے یکسوئی کی دولت چھین لی اور یوں ہم عملی طور پر کتاب سے کوئی تسکین ، خوشی یا علم کے حصول سے بہت دور نکل آئے ۔ اب شاذونادر ہی کوئی شخص سنجیدگی سے کتاب پڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ جو لوگ اب بھی کتابوں کے مطالعے کو ضروری سمجھتے ہیں انہیں دیکھ کر اکثر لوگ متعجب ہوتے ہیں جیسے کتاب پڑھنے والے کوئی گناہ کر رہے ہوں!

مغربی ممالک میں آج بھی تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص کسی نہ کسی شکل میں کتاب سے دوستی نبھا رہا ہے ۔ فکشن سے تحقیق تک، ہر کتاب لاکھوں کی تعداد میں چھپتی ہے اور فروخت ہوتی ہے ۔ وہ فروخت ہوکر کسی نیم تاریک لائبریری کی زینت نہیں بنتی بلکہ ٹرینوں، بسوں، راہداریوں سے لے کر مطالعے کے کمروں تک میں پڑھی جاتی ہیں ، ہمارا معاملہ اس کے متضاد ہے ۔

ہمارے ہاں اگر غلطی سے کوئی کتاب ایک ہزار یا اس سے زیادہ تعداد میں چھپ جائے تو اسکا پڑھے لکھے افراد کے ہاتھوں تک پہنچنا اور پھر اس کا پڑھا جانا دونوں کوہ کنی سے زیادہ مشکل کام ہیں۔ کتابیں چھاپنا ایک عجیب طرح کا مذاق بن چکا ہے ۔ ہماری اکثریت مطالعے سے کنارہ کش ہو چکی ہے ۔ مجھ سمیت بیشتر افراد کسی نئی کتاب یا رسالے کو اگر اٹھاتے بھی ہیں تو یہ دیکھنے کے لئے اس میں ہماری کوئی چیز چھپی ہے یا نہیں اور اگر چھپی ہے تو کیسی چھپی ہے اور کس جگہ چھپی ہے ، پھر ہم اپنی اس تخلیق کا مطالعہ کر کے اپنے قیمتی وقت کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور اگر اسے صحیح طور پر یا صحیح مقام پر چھپا ہوا نہیں پاتے تو اس کتاب کے مولف یا رسالے کے مدیر سے گلہ کرنے کے لئے کچھ وقت بچا لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ کتابوں سے دوری کا ایک بڑا سبب ہمارا ناقص نظام تعلیم بھی ہے۔ جس عمر میں ہمارے بچوں کی تعلیمی تشکیل ہو رہی ہوتی ہے اس وقت ہم انہیں کتابوں کے تفصیلی مطالعے کے بجائے مختصر راستے یعنی شارٹ کٹ دکھانے لگتے ہیں۔ کہیں خلاصہ جات، کہیں گائیڈ اور آخری حربے کے طور پر گیس پیپر [Guess paper]۔ یوں ہم شارٹ کٹ کو بچوں کی فطرت کا حصہ بنا دیتے ہیں اور وہ باقی تمام زندگی شارٹ کٹس ڈھونڈنے اور ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سامانِ تعیش حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں ۔

انگریزوں کے نظام تعلیم کو ہم نے کئی بار تبدیلیوں سے آشنا کیا مگر یہ تبدیلیاں نمائشی اور سیاسی رنگ میں ڈوبی رہیں۔ اس کے علاوہ سائنسی اور تکنیکی تعلیم بلکہ انفارمیشن ٹکنالوجی کی ضرورت کا اس قدر شور مچایا گیا کہ دوسرے بشری علوم اور مختلف زبانوں کی تعلیم سے نئی نسل کی توجہ مکمل طور پر ہٹ گئی ۔

پھر ایک اہم بات یہ کہ ہماری زبان کی جڑیں جن دو زبانوں میں موجود تھیں یعنی عربی اور فارسی، ان دونوں زبانوں کو ہماری ابتدائی تعلیم سے دیس نکالا دے کر ہمارے تہذیبی رشتوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ بھلا عربی اور فارسی کے بغیر بھی کوئی اردو کو بہتر طور پر جاننے کا دعویٰ کر سکتا ہے ؟
یوں رسمی تعلیم کے شکار نوجوان اپنے تہذیبی سرمائے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی طرح تہذیبی اداروں کے ذریعے اچھی ادبی مجالس ، معمر اور نوجوان ادیبوں کے درمیان مکالمہ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ادبی ترویج کے موثر حصے کو بھی عملی طور پر رواج نہ دے کر ادب، کتاب اور قاری کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔ یہ سب ہمارے سامنے ہو رہا ہے اس کے باوجود کسی کو اس کا احساس نہیں ہے ۔ جنہیں ہے وہ بھی خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔

The rising distance between reader and book. Article: Arif Mansoor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں