سرکاری اردو مدارس کے زوال کے اسباب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-12-16

سرکاری اردو مدارس کے زوال کے اسباب

Govt Urdu Schools
موجودہ دور میں اردو اپنی شناخت کھوتی نظر آرہی ہے ۔ ہماری حکومت اردو کے لیے کوشش تو کر رہی ہے مگر سرکاری اردو مدارس پر خاص توجہ نہیں دیتی ہے۔ آج انگریزی کا چلن عام ہو گیا ہے ۔ہم یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اردو سے تعلیم ملے تو بچے کا مستقبل خطرے میں آ جائے گا مگر یہ کیوں نہی سوچتے کہ اردو ذریعہ تعلیم سے بچے کو ہندی، مراٹھی اور انگریزی کی بھی تعلیم ملتی ہے اور بچہ مستقبل میں ڈاکٹر ، انجنیر، وکیل، کلکٹر وغیرہ بھی بن سکتا ہے۔
بچہ کو اردو میں تعلیم کا موقع فراہم کیا جائے تو وہ تین سے چار زبانوں پر عبور حاصل کرے گا اور یوں زندگی کے کسی بھی میدان میں اپنی کامیابی کا لوہا منوانے کے قابل ہو سکے گا۔ اردو تعلیم سے بچہ کے اخلاق و کردار کی تربیت بھی صحیح طور کی جا سکتی ہے کیوں کہ ہماری زبان ہماری تہذیب بھی ہوتی ہے۔

سب کے لیے تعلیم کے حوالے سے آج حکومت مختلف اقدامات اٹھا رہی ہے مگر پھر بھی اردو اسکول بند ہو رہے ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔

1)
مہارشٹرا کے دیہاتی علاقوں میں مسلم آبادی کم ہوتی ہے لہذا ایسے علاقوں میں حکومت مراٹھی اسکول ہی فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے ایسے علاقوں میں اردو کے خواہش مند لوگوں کو اپنے نونہالوں کو مراٹھی اسکول میں ہی داخل کرنا پڑتا ہے ۔ دیہات کے کچھ مسلم لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اردو جانتے ہی نہیں اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے انہیں مراٹھی میڈیم میں داخل کر دیتے ہیں ۔

2)
معلمین کی عدم دستیابی:
حکومت معلمین کا تقرر کر کے انہیں مختلف علاقوں میں بھیجتی ہے مگر کچھ معلمین ایسے علاقوں میں جانا نہیں چاہتے وہ اپنے شہر اور اطراف کے علاقہ کے اسکول ہی پسند کرتے ہیں۔ دوردراز کے علاقوں میں معلم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے حکومت ایسے علاقوں کے اسکول بند کر دیتی ہے۔

3)
معلمین کی غیرحاضری و عدم دلچسپی کا تسلسل:
بیشتر معلمین کے اسکول ان کے اپنے رہائشی مقام سے کافی دور ہوتے ہیں جس کے لیے انہیں ٹرین، بس یا دیگر سواری سے آمد و رفت رکھنا پڑتی ہے۔ جس کے باعث وقت پر اسکول پہنچنے میں تاخیر بھی ہوتی ہے اور سفر کی تکان کے سبب طلبہ پر وہ مکمل دھیان نہیں دے پاتے۔ جس سے طلبہ کا جہاں تعلیمی نقصان ہوتا ہے وہیں امتحانات کا نتیجہ بھی خراب نکلتا ہے۔

4)
سہولیات کی عدم دستیابی:
حکومت تعلیم کے نفاذ کے لیے بھرپور کوششیں تو کر رہی ہے مگر اسکولوں میں جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرنے کے لیے درکار سہولیت دستیاب نہیں ہیں۔ طلبہ وہ طالبات کو اسکول میں بنیادی سہولت تک نہیں ملتی۔ کچھ اسکولوں میں طلبہ کو بیٹھنے کے لیے بنچ نہیں تو کہیں حمام موجود نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے اکثر لڑکیاں تعلیم درمیان میں ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ کچھ جگہ ایک ہی جماعت میں دو تین کلاس کے طلبہ کو بٹھایا جاتا ہے اور کسی جماعت میں معلم ہی دستیاب نہیں ہوتا۔

5)
حکومت کے دیگر کام:
موجودہ حالات میں معلمین کو تدریس کے علاوہ بھی دیگر کام انجام دینے پڑ رہے ہے۔ جس کی وجہ سے تدریس میں کم اور دیگر کام میں معلم کا زیادہ دھیان اور وقت برباد ہوتا ہے۔ اور یوں طلبا کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے ونیز طلبا کو معیاری تعلیم نہیں ملتی۔ کبھی معلم کو اسکول کے کام سے اسکول کے باہر جانا ہوتا ہے جس کے سبب وہ تدریس وقت پر انجام نہیں دے سکتا۔

6)
معلمین کی کمی:
مہارشٹرا حکومت نے سن 2010 کے بعد سے معلمین کی تقرری پر روک لگا رکھی ہے۔ بہت سے اسکولوں میں معلمین کی آسامی خالی ہونے کی وجہ سے ایک یا دو معلمین ہی پورے اسکول کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ کئی اردو اسکول میں تو دیگر میڈیم کے معلم درس و تدریس کا کام انجام دیتے ہے جس کی وجہ سے اردو میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو صحیح اور معیاری تعلیم نہیں مل پاتی، ان کی کشمکش دور نہیں ہوتی اور یوں طلبہ مسلسل پریشانی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔

7)
معلمین کے ذاتی کام:
بیشتر معلمین اپنے تدریسی فرائض انجام تو دیتے ہیں مگر کچھ معلمین ایسے ہوتے ہیں جو اپنی معیشت کو بڑھانے کے فراق میں سرگرداں رہتے ہیں جس کے لیے وہ اسکول میں کم اور معیشت بڑھانے والے مقامات پر زیادہ نظر آتے ہیں۔

8)
اردو سے عدم دلچسپی:
موجودہ دورمیں انگریزی زبان کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے ۔ مسلم والدین اپنے بچوں کو انگریزی میں تعلم دلوانا فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کچھ والدین بھی اردو سے واقف نہیں ہوتے اسلیے وہ اپنے بچوں کو مراٹھی یا انگریزی میڈیم میں داخلہ دلواتے ہیں۔ مگر کچھ اردو مدارس میں تدریس کا پیشہ انجام دینے والے معلم اپنے بچوں کو انگریزی میں تعلم دلوانا فخر محسوس کرتے ہیں۔

9)
ماحول:
ہمارے ملک میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں اردو بولی ہی نہیں جاتی ہے۔ طلبہ کے اطراف کا ماحول دیگر زبانوں سے گھرا ہوتا ہے۔ اس کا اثر طلبہ پر ہوتا ہے کیونکہ بچہ اطراف کے ماحول سے زیادہ سیکھتا ہے اور ماحول کا اثر اس پر یقینی ہوتا ہے۔

10)
خانگی ادارے:
حکومت خانگی اداروں کو منظوری دے رہی ہے اور خانگی ادارے بھی طلبہ کو معیاری تعلیم فراہم کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ ادارے طلبہ کو تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال بھی اپنی تدریس میں کرتے ہیں۔ خانگی اداروں میں تمام بنیادی سہولت ملنے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کا داخلہ زیادہ تر خانگی مدارس میں ہی کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

معلمین سے لیے جانے والے ایسے کام جو غیر تدریسی ہوں، حکومت کو چاہیے کہ انھیں کسی دوسرے محکمہ کے ملازمین سے کروائے یا جو نوجوان بےروزگار پریشان پھر رہے ہیں ان سے ایسے کام کروائے تاکہ معلم اپنی تدریس کو موثر بنا سکے۔ والدین جو دیگر زبان کے اسکول کی طرف راغب ہو رہے ہیں انھیں اردو مدارس اور زبان سے یہی معلمین بہتر طور واقف کروا سکیں گے۔ جو معلم سرکاری اردو اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں وہ اپنی تدریس میں جدید تکنالوجی کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لائیں اور طلبہ کے بہتر مستقبل کی فکر کرے۔
اس طرح اپنی محنت اور لیاقت سے سرکاری مدارس کے معلمین اردو اسکولوں کو بند ہونے سے روک سکتے ہیں اور ان مدارس کے تعلیمی معیار کو بلندیوں کی سمت بھی لے جا سکتے ہیں۔

محمد معروف خان
جالنہ، مہارشٹرا
موبائل: 9960265862
Mohammad Maroof Khan

The reasons behind the fall of Govt Urdu Schools

1 تبصرہ: