آج نجانے کیوں ماحول پر ایک قسم کی اداسی طاری تھی، مطلع ابر آلود تھا ۔ ہوا میں خنکی تھی جس کی وجہ سے ہوا کے سرسراتے ہوئے جھونکے سُر معلوم ہو رہے تھے۔ حاجی میاں کادل نہیں چاہ رہا تھا کہ آج آٹو لے کر نکلیں لیکن پیٹ کی آگ اس بات کے لیے مجبور کر رہی تھی کہ وہ کمانے کے لیے نکلیں، اپنے لیے نہیں تو کم از کم معصوم بچوں کے لیے جن کے آزردہ چہرے انہیں آٹو لے کر نکلنے پر مجبور کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ سوچ کر باہر نکلنے کی ٹھانی کہ محنت بیوی بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہی تو کی جاتی ہے۔
وہ آٹو لے کر باہر نکل پڑے ، چارمینار سے ہوکر گزر رہے تھے کہ وہاں انہیں سواری مل گئی ، انہوں نے نامپلی چلنے کے لیے کہا۔ حاجی میاں نے میٹر ڈالا اور نام پلی کی سمت روانہ ہوئے۔ ان کا آٹو نیا پل سے ہوتا ہوا گزر رہا تھا۔ آٹو میں سوار مسافر آپس میں گفتگو کر رہے تھے، ایک نے کہا:
"یار گھر سے نکلتے وقت میں نے ٹی وی پر نیوز دیکھا تھا، گجرات میں آج صبح سے بدترین قسم کے فرقہ ورانہ فسادات شروع ہو چکے ہیں۔"
دوسرے نے کہا: "ہاں، میں نے بھی سنا ہے کہ کل کے گودھرا والے ریل حادثہ کے بعد ساری ریاست گجرات فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جل اٹھی ہے۔"
حاجی میاں نے اپنے کا ن تیز کر لیے تھے، اس خبر کو سن کر ایسا لگا جیسے ان کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو، وہ بےچین و بے قرار ہو اٹھے تھے ، انہوں نے بے چینی کے عالم میں مسافرین سے دریافت کیا:
"کیا ہوا صاحب گجرات میں؟"
ایک شخص نے جواب دیتے ہوئے کہا: "وہاں پر فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں"
"کب سے صاحب؟" حاجی میاں نے مزید کریدتے ہوئے پوچھا۔
"آج صبح سے ہی شروع ہوئے"
"احمدآباد کا کیا حال ہے صاحب؟" حاجی میاں نے اضطراب کے عالم میں پوچھا۔ مسافر نے قدرے لاپرواہی سے جواب دیا:
"احمدآباد کیا ساری کی ساری ریاست گجرات کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے وہاں قتل و خون اور آگ زنی کا بازار گرم ہے، حالات انتہائی ابتر ہو چکے ہیں۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جا رہا ہے ۔"
یہ سن کر حاجی میاں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پر سکتہ طاری ہوگیا ہو، انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ نہ صرف اپنی قوت گویائی سے محروم ہو گئے ہیں بلکہ ان کی قوت سماعت بھی جواب دے گئی ہے۔ نامپلی کب آگیا، انہیں پتہ بھی نہ چل سکا، ایک مسافر نے چلاکر کہا:
"بس یہاں پر آٹو روک دیں۔"
حاجی میاں نے چونک کر آٹو روکا مسافروں سے پیسے لیے اور جوں توں کرکے گھر پہنچے ، ان کے اس طرح بے وقت گھر پہنچنے پر بیوی بچے حیران رہ گئے ۔ لیکن جب انہوں نے گجرات میں شروع ہونے والے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کی خبر سنائی تو بیوی بچے دنگ رہ گئے ۔
حاجی میاں نے فوراً اپنا بلیک اینڈ وائٹ پورٹیبل ٹی وی آن کیا، احمد آباد کے دلخراش مناظر دیکھ کر حاجی میاں کا کلیجہ منہ کو آ گیا، وہ خود بھی بےحد غمگین ہو گئے اور ان کی بیوی بچوں کی بھی جان میں جان نہ رہی۔ ٹی وی پر ہر طرف آگ ہی آگ نظر آ رہی تھی۔ سارے گجرات میں کشت و خون کا بازار گرم تھا ، نہ صرف گجرات بلکہ ساری دنیا انہیں جہنم نظر آرہی تھی۔
حاجی میاں کی بوڑھی نابینا ماں دو جوان بہنیں اور دو بھائی شہر احمدآباد کے ایک گنجان آبادی والے محلے کالو پور میں رہا کرتے تھے ، جو دریاپور کے قرب و جوار میں واقع تھا۔
جبکہ وہ خود دراصل معاشی پریشانیوں سے تنگ آ کر احمدآباد سے حیدرآباد چلے آئے تھے کیونکہ انہوں نے حیدرآباد کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا کہ شہر حیدرآباد انتہائی خوشحال ترقی یافتہ شہر ہے ۔ یہاں روزگار کا ملنا اتنا مشکل نہیں۔ اگر انسان خوب دل لگا کر محنت کرے تو دو وقت کی روٹی آرام سے کھا سکتا ہے ، اور ہر ماہ چار پیسے پیچھے بھی ڈال سکتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے، اور پرانے شہر کے ایک محلے نواب صاحب کنٹہ میں کرائے کے ایک چھوٹے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ اپنی بوڑھی ماں، بھائیوں اور بہنوں کی خیر خیریت خطوط کے ذریعہ معلوم کیا کرتے تھے۔ جب کمائی کچھ زیادہ ہو جاتی تو اپنی ماں کے نام کچھ روپے ضرور منی آرڈر کر دیتے۔ ویسے بھی وہاں پر دو نوجوان بھائی مل کر خوب محنت مزدوری کرتے اور کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیتے، اس طرح بوڑھی نابینا ماں، بھائی اور دونوں بہنیں زندہ رہنے کے لیے سانس لے سکتے تھے۔
حاجی میاں حیدرآباد منتقل تو ہوگئے تھے لیکن ان کا دل ابھی تک احمدآباد ہی میں اٹکا ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے بھائیوں کو احتیاطاً حیدرآباد کا ایک فون نمبر دے رکھا تھا جو ان کے نعیم سیٹھ کا تھا، حاجی میاں ان ہی کا آٹو کرائے پر چلایا کرتے تھے۔ وہ اپنے خطوط میں بھائیوں کو بار بار یہ تاکید کیا کرتے تھے کہ ایسی کوئی پریشانی یا مصیبت آ جائے تو نعیم سیٹھ کے ہاں فون ضرور کر لینا۔ حاجی میاں کو بہنوں کی شادی کی فکر کھائے جاتی تھی، وہ جلد سے جلد اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتے تھے ، جس کے لیے وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم ضرور بچاتے۔
پچھلے چوبیس گھنٹوں سے حاجی میاں اور ان کے بیوی بچوں نے کچھ نہیں کھایا تھا، فساد کے بھیانک مناظر دیکھ دیکھ کر ان کا کلیجہ کانپ رہا تھا، گھر کے سبھی افراد ٹکٹکی باندھ کر ٹی وی کو گھور رہے تھے ، حاجی میاں کا جی چاہ رہا تھا کہ پر لگا کر اڑ جائیں اور پل بھر میں سیدھے احمد آباد پہنچ جائیں۔ بوڑھی ماں دو جوان بہنوں اور دو بھائیوں کے خوفزدہ چہرے ان کے آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔ ٹی وی کی خبریں دیکھ کر اخبارات کی خبریں پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ فسادات کو روکنے میں ریاستی حکومت پوری طرح ناکام ہو گئی ہے ۔ پولیس خاموش تماشائی بنی نظر آ رہی تھی ، اور فسادی کھلے عام قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کو نہ صرف قتل کیا جا رہا تھا بلکہ شاہراہوں پر ان کے جسموں پر پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا جارہا تھا۔ عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کا دامن عصمت سر بازار تار تار کر دیا جا رہا تھا۔
حاجی میاں حیران اور ششدر تھے، اسی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں دو دن گزر گئے ان کے گھر چولہا تک نہیں جلا۔ وہ بے قراری کے عالم میں نعیم سیٹھ کے مکان کے چکر کاٹنے اور ان سے دریافت کرتے کہ احمد آباد سے ان کے لیے کوئی فون تو نہیں آیا، تاکہ ماں بہنوں بھائیوں کی کوئی خیریت کی اطلاع مل جائے ، تو ایک گونا گوں سکون نصیب ہو سکے۔ لیکن نعیم سیٹھ ہمیشہ نفی میں سر ہلاتے ، حاجی میاں پر جیسے بجلی گر پڑتی اور وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنے گھر لوٹ آتے ۔
دو دن سے گھر پر بیکار بیٹھے رہنے سے گھر کا رہا سہا دانا پانی بھی ختم ہو رہا تھا، فاقہ کشی کی نوبت آ گئی تھی، ویسے بھی ان کا دل کھانے پینے کی طرف بالکل راغب نہیں ہو رہا تھا ، بھوک پیاس جیسے بالکل غائب ہوچکی تھی۔ انہیں صرف ایک ہی خیال رہتا گجرات کی تازہ خبریں معلوم کرنے کا۔ فساد تھا کہ زور پکڑتا جا رہا تھا، امن کے آثار بالکل نظر نہیں آرہے تھے۔ آخر کار دو دنوں کی مسلسل تباہی و بربادی کے بعد ٹی وی کی خبر قدرے اطمینان بخش ثابت ہوئی کہ شہر احمد آباد میں فوج طلب کرلی گئی ہے، اس خبر کو سن کر حاجی میاں نے سکون کی سانس لی۔
ٹی وی کی خبروں میں مسلح فوج کو گاڑیوں کے ذریعہ طلایہ گری کرتے ہوئے صاف دکھلایا جا رہا تھا۔ فوجی جنگی لباس میں رائیفلیں اور مشین گن تانے گاڑیوں میں ٹھرے ہوئے تھے اور فوجی گاڑیاں آہستہ آہستہ احمد آباد کی سڑکوں پر رینگ رہی تھیں۔ پس منظر میں نیوز ریڈر کی بھاری بھرکم آواز صاف طور پر سنائی دے رہی تھی جو بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ فصیل بند شہر احمدآباد کی سڑکوں پر فوج کا فلیگ مارچ جاری ہے اب سرکار دنگے فساد کو سختی سے کچل رہی ہے اور تشدد پر قریب قریب قابو پا لیا گیا ہے۔
دریں اثناء ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کو بھی قوم سے خطاب کرتا ہوا دیکھا گیا ، جو بڑی ہی شان سے بلکہ فخر انداز میں کہہ رہے تھے کہ شائد یہ پہلا موقع ہے کہ گجرات کے اندر فساد پر صرف 72 گھنٹوں میں قابو پا لیا گیا ہے ورنہ ماضی میں گجرات مہینوں بلکہ سال سال بھر فرقہ وارانہ فسادات کی بھیانک آگ میں جلتا رہا تھا ، اس لحاظ سے ہماری کار کردگی بہت حد تک بہتر ہے کیونکہ ہم نے فوراً حالات پر قابو پا لیا ہے ۔
یہ سن کر حاجی میاں کو ایک حد اطمینان ہوا کہ اب گجرات کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے ، خاص کر شہر احمد آباد اس وقت فوج کے قبضے میں ہے، اور وہاں کی سڑکوں پر مسلح فوج کے دستے فلیگ مارچ کر رہے ہیں، چنانچہ اس رات حاجی میاں اور ان کی بیوی بچوں نے چین سے سو جانے کی ٹھانی کیوں کہ دو راتوں سے وہ لوگ ایک پل کے لیے بھی نہ سو سکے تھے۔ چنانچہ گھر میں جو کچھ کھانے کے لیے تھا سب نے مل کر تھوڑا تھوڑا سا کھا لیا اور مزید اطمینان کے لیے رات گیارہ بجے کی خبریں سب نے مل کر دیکھیں۔ فوج کا فلیگ مارچ جاری تھا، چنانچہ اطمینان بخش انداز میں سب کے سب بستر پر دراز ہوگئے۔ ابھی حاجی میاں کی آنکھ ٹھیک طرح سے لگنے بھی نہ پائی تھی کہ دروازے پر زور کی دستک ہوئی ِ حاجی میاں چونک کر اٹھ بیٹھے اور دروازے کی طر ف دوڑے ، دروازہ کھولا تو سامنے نعیم سیٹھ پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے، انہوں نے فوراً کہنا شروع کیا:
"حاجی میاں! جلدی چلیے، احمد آباد سے آپ کے بھائی کا فون آیا ہے ۔"
یہ سنتے ہی حاجی میاں کا جیسے کلیجہ نکل پڑا ، وہ تقریباً بھاگتے ہوئے نعیم سیٹھ کے دیوان خانے میں داخل ہوئے ، ریسیور بازو رکھا ہوا تھا اس کا مطلب تھا کہ ان کا بھائی لائن پر انتظار کر رہا تھا۔
انہوں نے لپک کر ریسیور اٹھایا اور اپنے کان سے لگایا اور بے اختیار بلند آواز میں کہنے لگے:
"ہیلو!!! ہاں ہیلو کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غفور میاں۔۔۔۔۔۔۔ہیلو میرے بھائی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں۔۔۔۔۔۔حاجی بول رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ہیلو"
مخالف سمت سے چند لمحوں تک کوئی آواز نہیں آئی، حاجی میاں نے مزید چلاکر کہا:
"ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
پہلے تو صرف سسکیاں سنائی دینی لگیں پھر آہستہ سے "ہیلو " کی ایک رندھی ہوئی آواز ابھری۔
"بھیا۔۔۔۔۔۔۔ہم لٹ گئے برباد ہوگئے، بھیا اب ہمیں اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا، ہچکیوں کے درمیان بڑی مشکل سے وہ کہہ رہا تھا:
"بھیا کچھ ہی دیر پہلے ان لوگوں نے ہمارے مکان پر منظم طریقے سے اچانک حملہ کردیا ، سبھی کو چن چن کر قتل کیا گیا بلکہ کئی لوگوں کے جسموں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی اور وہ سب کے سب زندہ جل کر کباب بن گئے ، صرف میں اکیلا پچھواڑے کی دیوار پھاند کر بھاگ نکلا اور یہ میری بد قسمتی ہے کہ میں زندہ بچ گیا، بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں بھی سب کے ساتھ مر جاتا۔۔۔۔۔۔"
یہ سن کر حاجی میاں پر سکتہ طاری ہوگیا ، انہیں ایسا لگا جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد انہوں نے آخر اپنے سارے جسم کی قوت یکجا کر کے پوچھا:
"ماں دو بہنوں اور بھائی کا کیا حال ہے؟"
مخالف سمت سے رونے اور بلکنے کی آواز حاجی میاں کو صاف سنائی دے رہی تھی:
"نہیں بھیا نہیں۔۔۔ میں کیسے کہوں سب کے سب قتل کر دیے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوہے کے سلاخ سے ماں کے سر پر ضرب پہنچائی گئی جس کی وجہ سے وہ چیخ بھی نہ سکیں اور دم توڑ دیا ، اس کے بعد تلواروں سے بھائی کا قتل کیا گیا اس کے بعد ان درندوں نے بہنوں کی عزت لوٹی اور دونوں کو قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حاجی میاں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، حاجی میاں نے ہمت کرکے پھر پوچھا:
"ہمیں تو ٹی وی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا تھا کہ وہاں فوج طلب کرلی گئی ہے۔"
"ہاں بھیا میں خود بھی اب سنٹرل ٹیلی گراف آفیس سے فون کر رہا تھا جو فوج کے سخت پہرے میں ہے لیکن بھیا مسلم بستیوں میں درندگی کا ننگا ناچ ہو رہا ہے اور صرف شاہراہوں اور سرکاری عمارتوں کے آگے فوج کا فلیگ مارچ ہو رہا ہے"
یہ سن کر حاجی میاں کو ایسا لگا جیسے ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی ہے، انہیں ساری دنیا اور سارا سنسار تاریکی میں ڈوبا نظر آنے لگا۔ انہیں کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے بوڑھی نابینا ماں، بھائی اور جوان بہنوں کے ساتھ ان کو بھی قتل کر دیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں ٹی وی پر دکھلایا گیا فوج کا فلیگ مارچ "خونی مارچ" دکھائی دینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہ آٹو لے کر باہر نکل پڑے ، چارمینار سے ہوکر گزر رہے تھے کہ وہاں انہیں سواری مل گئی ، انہوں نے نامپلی چلنے کے لیے کہا۔ حاجی میاں نے میٹر ڈالا اور نام پلی کی سمت روانہ ہوئے۔ ان کا آٹو نیا پل سے ہوتا ہوا گزر رہا تھا۔ آٹو میں سوار مسافر آپس میں گفتگو کر رہے تھے، ایک نے کہا:
"یار گھر سے نکلتے وقت میں نے ٹی وی پر نیوز دیکھا تھا، گجرات میں آج صبح سے بدترین قسم کے فرقہ ورانہ فسادات شروع ہو چکے ہیں۔"
دوسرے نے کہا: "ہاں، میں نے بھی سنا ہے کہ کل کے گودھرا والے ریل حادثہ کے بعد ساری ریاست گجرات فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جل اٹھی ہے۔"
حاجی میاں نے اپنے کا ن تیز کر لیے تھے، اس خبر کو سن کر ایسا لگا جیسے ان کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو، وہ بےچین و بے قرار ہو اٹھے تھے ، انہوں نے بے چینی کے عالم میں مسافرین سے دریافت کیا:
"کیا ہوا صاحب گجرات میں؟"
ایک شخص نے جواب دیتے ہوئے کہا: "وہاں پر فرقہ وارانہ فسادات ہورہے ہیں"
"کب سے صاحب؟" حاجی میاں نے مزید کریدتے ہوئے پوچھا۔
"آج صبح سے ہی شروع ہوئے"
"احمدآباد کا کیا حال ہے صاحب؟" حاجی میاں نے اضطراب کے عالم میں پوچھا۔ مسافر نے قدرے لاپرواہی سے جواب دیا:
"احمدآباد کیا ساری کی ساری ریاست گجرات کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے وہاں قتل و خون اور آگ زنی کا بازار گرم ہے، حالات انتہائی ابتر ہو چکے ہیں۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جا رہا ہے ۔"
یہ سن کر حاجی میاں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان پر سکتہ طاری ہوگیا ہو، انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ نہ صرف اپنی قوت گویائی سے محروم ہو گئے ہیں بلکہ ان کی قوت سماعت بھی جواب دے گئی ہے۔ نامپلی کب آگیا، انہیں پتہ بھی نہ چل سکا، ایک مسافر نے چلاکر کہا:
"بس یہاں پر آٹو روک دیں۔"
حاجی میاں نے چونک کر آٹو روکا مسافروں سے پیسے لیے اور جوں توں کرکے گھر پہنچے ، ان کے اس طرح بے وقت گھر پہنچنے پر بیوی بچے حیران رہ گئے ۔ لیکن جب انہوں نے گجرات میں شروع ہونے والے ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کی خبر سنائی تو بیوی بچے دنگ رہ گئے ۔
حاجی میاں نے فوراً اپنا بلیک اینڈ وائٹ پورٹیبل ٹی وی آن کیا، احمد آباد کے دلخراش مناظر دیکھ کر حاجی میاں کا کلیجہ منہ کو آ گیا، وہ خود بھی بےحد غمگین ہو گئے اور ان کی بیوی بچوں کی بھی جان میں جان نہ رہی۔ ٹی وی پر ہر طرف آگ ہی آگ نظر آ رہی تھی۔ سارے گجرات میں کشت و خون کا بازار گرم تھا ، نہ صرف گجرات بلکہ ساری دنیا انہیں جہنم نظر آرہی تھی۔
حاجی میاں کی بوڑھی نابینا ماں دو جوان بہنیں اور دو بھائی شہر احمدآباد کے ایک گنجان آبادی والے محلے کالو پور میں رہا کرتے تھے ، جو دریاپور کے قرب و جوار میں واقع تھا۔
جبکہ وہ خود دراصل معاشی پریشانیوں سے تنگ آ کر احمدآباد سے حیدرآباد چلے آئے تھے کیونکہ انہوں نے حیدرآباد کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا کہ شہر حیدرآباد انتہائی خوشحال ترقی یافتہ شہر ہے ۔ یہاں روزگار کا ملنا اتنا مشکل نہیں۔ اگر انسان خوب دل لگا کر محنت کرے تو دو وقت کی روٹی آرام سے کھا سکتا ہے ، اور ہر ماہ چار پیسے پیچھے بھی ڈال سکتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے بیوی بچوں سمیت حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے، اور پرانے شہر کے ایک محلے نواب صاحب کنٹہ میں کرائے کے ایک چھوٹے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ اپنی بوڑھی ماں، بھائیوں اور بہنوں کی خیر خیریت خطوط کے ذریعہ معلوم کیا کرتے تھے۔ جب کمائی کچھ زیادہ ہو جاتی تو اپنی ماں کے نام کچھ روپے ضرور منی آرڈر کر دیتے۔ ویسے بھی وہاں پر دو نوجوان بھائی مل کر خوب محنت مزدوری کرتے اور کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیتے، اس طرح بوڑھی نابینا ماں، بھائی اور دونوں بہنیں زندہ رہنے کے لیے سانس لے سکتے تھے۔
حاجی میاں حیدرآباد منتقل تو ہوگئے تھے لیکن ان کا دل ابھی تک احمدآباد ہی میں اٹکا ہوا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے بھائیوں کو احتیاطاً حیدرآباد کا ایک فون نمبر دے رکھا تھا جو ان کے نعیم سیٹھ کا تھا، حاجی میاں ان ہی کا آٹو کرائے پر چلایا کرتے تھے۔ وہ اپنے خطوط میں بھائیوں کو بار بار یہ تاکید کیا کرتے تھے کہ ایسی کوئی پریشانی یا مصیبت آ جائے تو نعیم سیٹھ کے ہاں فون ضرور کر لینا۔ حاجی میاں کو بہنوں کی شادی کی فکر کھائے جاتی تھی، وہ جلد سے جلد اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتے تھے ، جس کے لیے وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم ضرور بچاتے۔
پچھلے چوبیس گھنٹوں سے حاجی میاں اور ان کے بیوی بچوں نے کچھ نہیں کھایا تھا، فساد کے بھیانک مناظر دیکھ دیکھ کر ان کا کلیجہ کانپ رہا تھا، گھر کے سبھی افراد ٹکٹکی باندھ کر ٹی وی کو گھور رہے تھے ، حاجی میاں کا جی چاہ رہا تھا کہ پر لگا کر اڑ جائیں اور پل بھر میں سیدھے احمد آباد پہنچ جائیں۔ بوڑھی ماں دو جوان بہنوں اور دو بھائیوں کے خوفزدہ چہرے ان کے آنکھوں میں گھوم رہے تھے۔ ٹی وی کی خبریں دیکھ کر اخبارات کی خبریں پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ فسادات کو روکنے میں ریاستی حکومت پوری طرح ناکام ہو گئی ہے ۔ پولیس خاموش تماشائی بنی نظر آ رہی تھی ، اور فسادی کھلے عام قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کو نہ صرف قتل کیا جا رہا تھا بلکہ شاہراہوں پر ان کے جسموں پر پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا جارہا تھا۔ عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کا دامن عصمت سر بازار تار تار کر دیا جا رہا تھا۔
حاجی میاں حیران اور ششدر تھے، اسی بے چینی اور اضطراب کے عالم میں دو دن گزر گئے ان کے گھر چولہا تک نہیں جلا۔ وہ بے قراری کے عالم میں نعیم سیٹھ کے مکان کے چکر کاٹنے اور ان سے دریافت کرتے کہ احمد آباد سے ان کے لیے کوئی فون تو نہیں آیا، تاکہ ماں بہنوں بھائیوں کی کوئی خیریت کی اطلاع مل جائے ، تو ایک گونا گوں سکون نصیب ہو سکے۔ لیکن نعیم سیٹھ ہمیشہ نفی میں سر ہلاتے ، حاجی میاں پر جیسے بجلی گر پڑتی اور وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنے گھر لوٹ آتے ۔
دو دن سے گھر پر بیکار بیٹھے رہنے سے گھر کا رہا سہا دانا پانی بھی ختم ہو رہا تھا، فاقہ کشی کی نوبت آ گئی تھی، ویسے بھی ان کا دل کھانے پینے کی طرف بالکل راغب نہیں ہو رہا تھا ، بھوک پیاس جیسے بالکل غائب ہوچکی تھی۔ انہیں صرف ایک ہی خیال رہتا گجرات کی تازہ خبریں معلوم کرنے کا۔ فساد تھا کہ زور پکڑتا جا رہا تھا، امن کے آثار بالکل نظر نہیں آرہے تھے۔ آخر کار دو دنوں کی مسلسل تباہی و بربادی کے بعد ٹی وی کی خبر قدرے اطمینان بخش ثابت ہوئی کہ شہر احمد آباد میں فوج طلب کرلی گئی ہے، اس خبر کو سن کر حاجی میاں نے سکون کی سانس لی۔
ٹی وی کی خبروں میں مسلح فوج کو گاڑیوں کے ذریعہ طلایہ گری کرتے ہوئے صاف دکھلایا جا رہا تھا۔ فوجی جنگی لباس میں رائیفلیں اور مشین گن تانے گاڑیوں میں ٹھرے ہوئے تھے اور فوجی گاڑیاں آہستہ آہستہ احمد آباد کی سڑکوں پر رینگ رہی تھیں۔ پس منظر میں نیوز ریڈر کی بھاری بھرکم آواز صاف طور پر سنائی دے رہی تھی جو بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ فصیل بند شہر احمدآباد کی سڑکوں پر فوج کا فلیگ مارچ جاری ہے اب سرکار دنگے فساد کو سختی سے کچل رہی ہے اور تشدد پر قریب قریب قابو پا لیا گیا ہے۔
دریں اثناء ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ کو بھی قوم سے خطاب کرتا ہوا دیکھا گیا ، جو بڑی ہی شان سے بلکہ فخر انداز میں کہہ رہے تھے کہ شائد یہ پہلا موقع ہے کہ گجرات کے اندر فساد پر صرف 72 گھنٹوں میں قابو پا لیا گیا ہے ورنہ ماضی میں گجرات مہینوں بلکہ سال سال بھر فرقہ وارانہ فسادات کی بھیانک آگ میں جلتا رہا تھا ، اس لحاظ سے ہماری کار کردگی بہت حد تک بہتر ہے کیونکہ ہم نے فوراً حالات پر قابو پا لیا ہے ۔
یہ سن کر حاجی میاں کو ایک حد اطمینان ہوا کہ اب گجرات کو فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے ، خاص کر شہر احمد آباد اس وقت فوج کے قبضے میں ہے، اور وہاں کی سڑکوں پر مسلح فوج کے دستے فلیگ مارچ کر رہے ہیں، چنانچہ اس رات حاجی میاں اور ان کی بیوی بچوں نے چین سے سو جانے کی ٹھانی کیوں کہ دو راتوں سے وہ لوگ ایک پل کے لیے بھی نہ سو سکے تھے۔ چنانچہ گھر میں جو کچھ کھانے کے لیے تھا سب نے مل کر تھوڑا تھوڑا سا کھا لیا اور مزید اطمینان کے لیے رات گیارہ بجے کی خبریں سب نے مل کر دیکھیں۔ فوج کا فلیگ مارچ جاری تھا، چنانچہ اطمینان بخش انداز میں سب کے سب بستر پر دراز ہوگئے۔ ابھی حاجی میاں کی آنکھ ٹھیک طرح سے لگنے بھی نہ پائی تھی کہ دروازے پر زور کی دستک ہوئی ِ حاجی میاں چونک کر اٹھ بیٹھے اور دروازے کی طر ف دوڑے ، دروازہ کھولا تو سامنے نعیم سیٹھ پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے، انہوں نے فوراً کہنا شروع کیا:
"حاجی میاں! جلدی چلیے، احمد آباد سے آپ کے بھائی کا فون آیا ہے ۔"
یہ سنتے ہی حاجی میاں کا جیسے کلیجہ نکل پڑا ، وہ تقریباً بھاگتے ہوئے نعیم سیٹھ کے دیوان خانے میں داخل ہوئے ، ریسیور بازو رکھا ہوا تھا اس کا مطلب تھا کہ ان کا بھائی لائن پر انتظار کر رہا تھا۔
انہوں نے لپک کر ریسیور اٹھایا اور اپنے کان سے لگایا اور بے اختیار بلند آواز میں کہنے لگے:
"ہیلو!!! ہاں ہیلو کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غفور میاں۔۔۔۔۔۔۔ہیلو میرے بھائی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں۔۔۔۔۔۔حاجی بول رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ہیلو"
مخالف سمت سے چند لمحوں تک کوئی آواز نہیں آئی، حاجی میاں نے مزید چلاکر کہا:
"ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
پہلے تو صرف سسکیاں سنائی دینی لگیں پھر آہستہ سے "ہیلو " کی ایک رندھی ہوئی آواز ابھری۔
"بھیا۔۔۔۔۔۔۔ہم لٹ گئے برباد ہوگئے، بھیا اب ہمیں اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا، ہچکیوں کے درمیان بڑی مشکل سے وہ کہہ رہا تھا:
"بھیا کچھ ہی دیر پہلے ان لوگوں نے ہمارے مکان پر منظم طریقے سے اچانک حملہ کردیا ، سبھی کو چن چن کر قتل کیا گیا بلکہ کئی لوگوں کے جسموں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی اور وہ سب کے سب زندہ جل کر کباب بن گئے ، صرف میں اکیلا پچھواڑے کی دیوار پھاند کر بھاگ نکلا اور یہ میری بد قسمتی ہے کہ میں زندہ بچ گیا، بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں بھی سب کے ساتھ مر جاتا۔۔۔۔۔۔"
یہ سن کر حاجی میاں پر سکتہ طاری ہوگیا ، انہیں ایسا لگا جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چند لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد انہوں نے آخر اپنے سارے جسم کی قوت یکجا کر کے پوچھا:
"ماں دو بہنوں اور بھائی کا کیا حال ہے؟"
مخالف سمت سے رونے اور بلکنے کی آواز حاجی میاں کو صاف سنائی دے رہی تھی:
"نہیں بھیا نہیں۔۔۔ میں کیسے کہوں سب کے سب قتل کر دیے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوہے کے سلاخ سے ماں کے سر پر ضرب پہنچائی گئی جس کی وجہ سے وہ چیخ بھی نہ سکیں اور دم توڑ دیا ، اس کے بعد تلواروں سے بھائی کا قتل کیا گیا اس کے بعد ان درندوں نے بہنوں کی عزت لوٹی اور دونوں کو قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حاجی میاں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، حاجی میاں نے ہمت کرکے پھر پوچھا:
"ہمیں تو ٹی وی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا تھا کہ وہاں فوج طلب کرلی گئی ہے۔"
"ہاں بھیا میں خود بھی اب سنٹرل ٹیلی گراف آفیس سے فون کر رہا تھا جو فوج کے سخت پہرے میں ہے لیکن بھیا مسلم بستیوں میں درندگی کا ننگا ناچ ہو رہا ہے اور صرف شاہراہوں اور سرکاری عمارتوں کے آگے فوج کا فلیگ مارچ ہو رہا ہے"
یہ سن کر حاجی میاں کو ایسا لگا جیسے ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی ہے، انہیں ساری دنیا اور سارا سنسار تاریکی میں ڈوبا نظر آنے لگا۔ انہیں کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے بوڑھی نابینا ماں، بھائی اور جوان بہنوں کے ساتھ ان کو بھی قتل کر دیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں ٹی وی پر دکھلایا گیا فوج کا فلیگ مارچ "خونی مارچ" دکھائی دینے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
***
شائع شدہ: رسالہ 'گونج' نظام آباد، افسانہ نمبر، اگست 2002
سلطان سبحانی
H.No. 19-2-18/B/76/A
امجدالدولہ باغ، مصری گنج، حیدرآباد
شائع شدہ: رسالہ 'گونج' نظام آباد، افسانہ نمبر، اگست 2002
سلطان سبحانی
H.No. 19-2-18/B/76/A
امجدالدولہ باغ، مصری گنج، حیدرآباد
Urdu short story 'Flag March'. By: Sultan Subhani
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں